Urwatul-Wusqaa - Al-Faatiha : 7
صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْهِمْ١ۙ۬ۦ غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْهِمْ وَ لَا الضَّآلِّیْنَ۠   ۧ
صِرَاطَ : راستہ الَّذِينَ : ان لوگوں کا أَنْعَمْتَ : تونے انعام کیا عَلَيْهِمْ : ان پر غَيْرِ : نہ الْمَغْضُوبِ : غضب کیا گیا عَلَيْهِمْ : ان پر وَلَا : اور نہ الضَّالِّينَ : جو گمراہ ہوئے
وہ راہ جو ان لوگوں کی راہ ہوئی جن پر تو نے انعام کیا ، ان کی نہیں جو پھٹکارے گئے اور نہ ان کی جو راہ سے بھٹک گئے
انعام الٰہی کے اصل مستحق انبیاء شہداء اور صدیقین ہی ہیں : 27: تو نے انعام کیا۔ ” انعمت ‘ ‘ تو نے فضل کیا۔ تو نے احسان کیا۔ اس کی ” اصل ‘ ‘ ن ع م ہے اور انعمت انعام سے ماضی کا صیغہ واحد مذکر حاضر ہے اور قرآن مجید میں انعمت کا لفظ آٹھ بار استعمال ہوا ہے۔ غصب الٰہی سے پناہ طلب کرتے رہنا چاہیے : 28: ” المغضوب “ کی ” اصل “ غ ض ب۔ غضب ، سخت غصہ ، بہت غصہ ہونا ، انتقام کے لئے دل کے خون میں جوش آکر گردن کی رگیں پھول جانا اور آنکھیں سرخ ہوجانا۔ گویا بدن کے اندر ایک آگ بھڑک جانا۔ لیکن اللہ تعالیٰ کی طرف نسبت ہو تو اس سے مراد ہے ۔ سخت عذاب دینا ، المغضوب جن پر اللہ تعالیٰ کا عذاب نازل ہوا۔ غیر المغضوب یعنی جن لوگوں پر اللہ تعالیٰ کے غصہ یعنی عذاب نازل نہ ہوا۔ اور المغضوب صرف ایک بار استعمال ہوا ہے جو یہاں سورة فاتحہ کی ساتویں آیت میں ہے اور اس کے علاوہ یہ لفظ قرآن مجید میں کہیں نہیں آیا۔ ” صِرَاطَ الَّذِیْنَ “ سے آخر تک فاتحہ کی ساتویں آیت ہے۔ ” ضال “ کے ایک معنی بھول جانے کے بھی اور ایک تلاش کرنے کے بھی : 29: ” الضالین “ کی ” اصل “ ض ل ل ہے۔ اور ” ضال “ کے معنی سیدھی راہ سے ہٹ جانے کے ہیں۔ اگرچہ یہ لفظ بہت سے معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ بھول جانے ، سہو ہوجانے اور نسیان ہونے یعنی ناواقف حیران اور بیخبر کے معنوں میں جو انسان کی اختیاری حالت نہیں ہوتی۔ اگر اختیار کے ساتھ ہو تو برا ہے اور بھول چوک ہو تو معاف ہے۔ بعض اوقات ہدایۃ کی ضد میں اس کا استعمال ہوتا ہے جو ایک برا وصف ہے۔ ارشاد الٰہی ہے : ” مَنِ اہْتَدٰى فَاِنَّمَا یَهْتَدِیْ لِنَفْسِهٖ 1ۚ وَ مَنْ ضَلَّ فَاِنَّمَا یَضِلُّ عَلَیْهَا 1ؕ“۔ بہر حال مختصر یہ ہے کہ راہ سے ہٹنا مراد ہے قصداً ہو یا سہوا ، اگر اس کی نسبت شیطان ، کافر اور فاسق کی طرف ہوگی تو یقیناً رشد و ہدایت کی ضد ہی میں استعمال ہوگا لیکن اگر اس کی نسبت کسی نیک انسان اور نبی کی طرف ہوگی تو اس سے مراد نسیان و سہو اور بھول چوک ہوگا جو ایک وقتی چیز ہوتی ہے دائمی گمراہی نہیں ، اور ” الضالین “ کا لفظ قرآن مجید میں صرف چھ بار استعمال ہوا ہے سورة فاتحہ کی ساتویں آیت میں۔ البقرہ کی آیت 198 میں ، الانعام کی آیت 77 میں ، شعراء کی آیت نمبر 20 ، 86 میں اور واقعہ کی آیت 92 میں ۔ ان سب جگہوں میں اس کا استعمال غیر المہتدین پر ہی ہوا ہے۔ جیسا کہ گزشتہ صفحات میں آپ پڑھ چکے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ عقل کی ہدایت نہ تو ہر حال میں کافی ہے ، نہ ہر حال میں مؤثر ، ذرا مزید غور کرو کہ نفس انسانی طرح طرح کی خواہشوں اور جذبوں سے کچھ اس طرح مقہور واقعہ ہوا ہے کہ جب کبھی عقل اور جذبات میں کشمکش ہوتی ہے تو اکثر حالتوں میں فتح جذبات ہی کی ہوتی ہے۔ بسا اوقات عقل ہمیں یقین دلاتی ہے کہ فلاں فعل مضر اور مہلک ہے لیکن جذبات ہمیں ترغیب دیتے ہیں اور ہم اس مضر فعل کے ارتکاب سے اپنے آپ کو روک نہیں سکتے ۔ عقل کی بڑی سے بڑی دلیل بھی ہمیں ایسا نہیں بنا سکتی کہ غصے کی حالت میں بےقابو نہ ہوجائیں اور بھوک کی حالت میں مضر غذا کی طرف ہاتھ نہ بڑھائیں ۔ ان اشارات کو جتنی وسعت دیتے جائو گے بات صاف ہوتی جائے گی۔ جیسا کہ اوپر معلوم ہوچکا کہ حواس کی ہدایت ذرا ماند ہوئی تو عقل کی ہدایت نے اس کو درماندگی سے بچالیا اور جب یہ بات واضح ہوگئی کہ عقل کی ہدایت بھی ایک خاص حد سے آگے نہیں بڑھ سکتی تو کیا ضروری نہ تھا کہ عقل کی ہدایت کے ساتھ کوئی اور ہدایت بھی ہو تاکہ عقل کی درماند گیوں میں وہ راہنما ہو سکے ؟ قرآن کریم کہتا ہے کہ ضروری تھا اس لئے اللہ تعالیٰ نے عقل کی ہدایت کئ درماندگیوں سے بچانے کے لئے ایک اور ہدایت کا بندوبست فرمایا جس کو ” وحی و نبوت کی ہدایت “ سے تعبیر کیا جاتا ہے اور کتاب ہدایت کا ورق الٹتے ہی اور نیاز مندانہ ہاتھ باندھ کر کھڑے ہوتے ہی ” اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَۙ005 “ کی طلب کا حکم دے کر اس طرف اشارہ کردیا کہ انسان کے لئے لازم ہے کہ وہ اپنی دعا میں اس ہدایت کی طلب ہمیشہ کرتا رہے ، تاکہ عقل کی ہدایت جب ماند پڑجائے تو وحی ہدایت اس کی راہنمائی کے لئے تیار ہو۔ انعام یافتہ لوگوں کی راہ اللہ سے طلب کرتے رہناچاہئے : 30: یہ اس سیدھے راستہ کی تعریف ہے جس کے لئے ہم ہاتھ باندھے نیاز مندانہ کھڑے ہو کر طلب کر رہے ہیں۔ یعنی وہ راستہ جس پر ہمیشہ سے تیرے منظور نظر لوگ چلتے رہے۔ وہ بےخطا راستہ کے قدیم ترین زمانہ سے آج تک جو شخص اور جو گروہ بھی اس پر چلا وہ تیرے انعامات کا مستحق ہوا اور تیری نعمتوں سے مالا مال ہوگیا۔ رہی یہ بات کہ انعام یافتہ کون لوگ ہیں جن کی راہ سیدھی ہوئی ؟ قرآن مجید نے جابجا واضح کیا ہے کہ خدا کے تمام رسول اور راست باز انسان جو دنیا کے مختلف عہدوں اور گوشوں میں گزر چکے ہیں سب انعام یافتہ انسان ہیں اور انہی کی راہ ” صراط مستقیم “ ہے ۔ چناچہ ارشاد ہے : وَ مَنْ یُّطِعِ اللّٰهَ وَ الرَّسُوْلَ فَاُولٰٓىِٕكَ مَعَ الَّذِیْنَ اَنْعَمَ اللّٰهُ عَلَیْهِمْ مِّنَ النَّبِیّٖنَ وَ الصِّدِّیْقِیْنَ۠ وَ الشُّهَدَآءِ وَ الصّٰلِحِیْنَ 1ۚ وَ حَسُنَ اُولٰٓىِٕكَ رَفِیْقًاؕ0069 (النساء 4 : 69) ” اور جس کسی نے اللہ اور رسول کی اطاعت کی تو بلاشبہ وہ ان لوگوں کا ساتھی ہوا جن پر اللہ نے انعام کیا ہے یہ انعام یافتہ جماعت نبیوں کی ہے صدیقوں کی ہے۔ شہداء کی ہے۔ نیک عمل انسانوں کی ہے اور جس کے ساتھی ایسے لوگ ہوں تو کیا ہی اچھی اس کی رفاقت ہے “۔ اس آیت میں بالترتیب چار جماعتوں کا ذکر کیا گیا ہے اور انہیں انعام یافتہ قرار دیا گیا ہے ۔ انبیاء ، صدیقین شہداء اور صالحین۔ ” انبیاء “ سے مقصود خدا کی سچائی کے تمام پیغمبر ہیں جو نوع انسانی کی ہدایت کے لئے پیدا ہوئے ۔ ” صدیقین “ سے مقصود ایسے انعام یافتہ ہیں جو کامل معنوں میں سچے ہوں یعنی سچائی کے سانچے میں کچھ ایسے ڈھلے ہوئے ہوں کہ سچائی کے خلاف کوئی بات ان کے دماغ میں اتر ہی نہ سکے۔ ” شہید “ کے معنی گواہ کے ہیں یعنی ایسے انسان جو اپنے قول و فعل سے حق و صداقت کی شہادت بلند کرنے والے ہوں۔ ” صالحین “ سے مقصود وہ تمام انسان ہیں جو نیک عملی کی راہ میں استقامت رکھیں اور برائی کی راہوں سے کنارہ کش ہوں۔ پس معلوم ہوا کہ انعام یافتہ انسانوں سے مقصود دنیا کے تمام رسول اور داعیان حق ہیں جو قرآن مجید کے نزول سے پہلے دنیا میں پیدا ہوچکے تھے اور تمام راست باز انسان وہ ہیں جو نوع انسانی میں گزر چکے تھے۔ اس میں نہ تو کوئی خاص نسل وقوم کی خصوصیت رکھی گئی ہے نہ کسی خاص مذہب اور اس کے پیرو وں کی۔ دنیا کے تمام نبی ، تمام صدیق ، تمام شہداء ، تمام صالح انسان خواہ وہ کسی ملک و قوم میں ہوئے ہوں قرآن کریم کے نزدیک ” انعام یافتہ “ انسان ہیں اور انہی کی راہ ” صراط مستقیم “ ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ خدا کے ان رسولوں اور نوع انسان کے راستباز افراد کی راہ کونسی راہ تھی ؟ وہ راہ جسے قرآن دین حقیقی کی راہ قرار دیتا ہے وہ کہتا ہے دنیا میں جس قدر بھی سچائی کے داعی آئے ، سب نے یہی تعلیم دی کہ : ” اَقِیْمُوا الدِّیْنَ وَ لَا تَتَفَرَّقُوْا ؟ “ یعنی خدا کا ایک ہی دین قائم رکھو اور اس راہ میں جدا جدا نہ ہو جائو۔ پس ” صراط مستقیم “ پر چلنے کی طلب زندگی کی تمام راہوں میں درستگی و صحت کی راہ چلنے کی طلب ہوئی اور اس لئے سعی و عمل کے ہر گوشے میں انعام یافتہ گروہ وہی ہو سکتا ہے جس کی راہ ” صراط مستقیم “ ہو۔ صراط مستقیم کی پہچان کے دونوں پہلو واضح کر دیئے پھر صراط مستقیم کی پہچان صرف اس کے مثبت پہلو ہی سے واضح نہیں کی گئی بلکہ اس کا ضدو مخالف پہلو بھی واضح کردیا گیا ہے ” غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْهِمْ وَ لَا الضَّآلِّیْنَ (رح) 007 ” ان کی راہ نہیں جو مغضوب ہوئے نہ ان کی جو گمراہ ہو کر بھٹک گئے “۔ ” مغضوب علیہ “ گروہ ” منعم علیہ “ کی بالکل ضد ہے کیونکہ انعام کی ضد غضب ہے اور فطرت کائنات کا قانون یہ ہے کہ راست باز انسانوں کے حصہ میں انعام آتا ہے۔ نافرمانوں کے حصے میں غضب ” گمراہ “ وہ ہیں جو راہ حق نہ پا سکے اور اس کی جستجو میں بھٹک گئے۔ پس مغضوب وہ ہوئے جنہوں نے راہ پائی اور اس کی نعمتیں بھی پائیں لیکن پھر اس سے منحرف ہوگئے اور نعمت کی راہ چھوڑ کر محرومی و شقاوت کی راہ اختیار کرلی ، گمراہ وہ ہوئے جو راہ ہی نہ پا سکے اس لئے ادھر ادھر بھٹک کر رہ گئے اور صراط مستقیم کی سعادتوں سے محروم رہے۔ یعنی ” مغضوب علیہ “ کی محرومی حصول معرفت کے بعد انکار کا نتیجہ ہے اور گمراہ کی محرومی جہل کا نتیجہ ہے۔ ظاہر ہے کہ محروم دونوں ہی ہوئے مگر یہ ظاہر ہے کہ پہلے کی محرومی زیادہ مجرمانہ ہے۔ احادیث و اثار میں اس کی حقیقت واضح کردی گئی احادیث و آثار میں اس کی جو تفسیر بیان کی گئی ہے۔ اس سے یہ حقیقت اور زیادہ واضح ہوجاتی ہے۔ ترمذی ، احمد ، ابن حبان وغیرہم کی مشہور حدیث ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا : ” المغضوب “ یہودی اور ” الضالین “ نصاریٰ ہیں۔ یقیناً اس تفسیر کا یہ مطلب نہیں ہو سکتا کہ مغضوب سے مقصود صرف یہودی اور گمراہ سے مقصود صرف نصاریٰ ہیں۔ بلکہ مقصود یہ ہے کہ مغضوبیت اور گمراہی کی حالت واضح کرنے کے لئے دو جماعتوں کا ذکر بطور مثال کردیا جائے۔ چناچہ ان دونوں جماعتوں کی تاریخ میں ہم محرومی کی دونوں حالتوں کا کامل نمونہ آج بھی دیکھ سکتے ہیں۔ یہودیوں کی قو می تاریخ مغضوبیت کے لئے عیسائیوں کی تاریخ گمراہی کے لئے عبرت و تذکرہ کا بہترین سرمایہ ہے۔ ذرا تاریخ کی ورق گردانی کر کے دیکھیں کہ وہ کیا تھے ؟ اور کیا ہوگئے۔ ہم دیکھتے ہیں ، قرآن مجید نے ہدایت و تذکیر امم کے لئے جن جن اصولوں پر زور دیا ہے ان میں سب سے زیادہ نمایاں اصل پچھلی قوموں کے ایام و وقائع اور ان کے نتائج ہیں۔ وہ کہتا ہے کائنات ہستی کے گوشے کی طرح قوموں اور جماعتوں کے لئے بھی خدا کا قانون سعادت و شقاوت ایک ہی ہے اور ہر عہد اور ہر ملک میں ایک ہی طرح کے احکام و نتائج رکھتا ہے اس کے احکام میں کبھی تبدیلی نہیں ہو سکتی اور اس کے نتائج ہمیشہ اور ہر حال میں اٹل ہیں جس طرح سنکھیا کی تاثیر اس لئے بدل نہیں سکتی کہ وہ کس عہد اور کس سنہ میں استعمال کی گئی اس طرح قوموں اور جماعتوں کے اعمال کے نتائج بھی اس لئے متغیر نہیں ہو سکتے کہ کس ملک میں پیش آئے ۔ اگر ماضی میں ہمیشہ شہد ، شہد ہی کا خاصہ رکھتا آیا ہے اور سنکھیا کی تاثیر سنکھیا ہی کی رہی ہے تو مستقبل میں بھی ہمیشہ شہد ، شہد ہی رہے گا اور سنکھیا کی تاثیر سنکھیا ہی کی ہوگی۔ پس جو کچھ ماضی میں پیش آچکا ہے ضروری ہے کہ مستقبل میں بھی پیش آئے۔ چناچہ قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے : سُنَّةَ اللّٰهِ فِی الَّذِیْنَ خَلَوْا مِنْ قَبْلُ 1ۚ وَ لَنْ تَجِدَ لِسُنَّةِ اللّٰهِ تَبْدِیْلًا 0062 (33 : 62) ” جو لوگ تم سے پہلے گزر چکے ہیں ان کے لئے اللہ کی سنت یہی رہی یعنی اللہ کے قوانین و احکام کا دستور یہی رہا ہے اور اللہ کی سنت میں تم کبھی رد و بدل نہیں پائو گے۔ “ ایک جگہ ارشاد ہوا : فَهَلْ یَنْظُرُوْنَ اِلَّا سُنَّتَ الْاَوَّلِیْنَ 1ۚ فَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّتِ اللّٰهِ تَبْدِیْلًا 1ۚ۬ وَ لَنْ تَجِدَ لِسُنَّتِ اللّٰهِ تَحْوِیْلًا 0043 (فاطر 35 : 43) ” پھر یہ لوگ کس بات کی راہ تک رہے ہیں ؟ کیا اس سنت کی جو اگلے لوگوں کے لئے رہ چکی ہے ؟ تو یاد رکھو ، تم اللہ کی سنت کو کبھی بدلتا ہوا نہیں پائو گے اور نہ کبھی ایسا ہو سکتا ہے کہ اس کی سنت کے احکام پھیر دیئے جائیں۔ “ ایک جگہ ارشاد ہے : سُنَّةَ مَنْ قَدْ اَرْسَلْنَا قَبْلَكَ مِنْ رُّسُلِنَا وَ لَا تَجِدُ لِسُنَّتِنَا تَحْوِیْلًا (رح) 0077 (بنی اسرائیل 17 : 77) ” اے پیغمبر ﷺ ! تم سے پہلے جن رسولوں کو ہم نے بھیجا ہے ، ان کیلئے ہماری سنت یہی رہی ہے اور ہماری سنت کبھی ٹلنے والی نہیں ہے۔ “ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ وہ ایک طرف تو انعام یافتہ جماعتوں کی کامرانیوں کا ذکر بار بار کرتا ہے اور دوسری طرف مغضوب اور گمراہ جماعتوں کی محرومیوں کی سرگز شتیں بھی بار بار سناتا ہے پھر جابجا ان سے عبرت و بصیرت کے نتائج اخذ کرتا ہے جن پر اقوام و جماعات کا عروج وزوال موقوف ہے۔ وہ کھول کھول کر بتاتا ہے کہ انعام یافتہ جماعتوں کی سعادت و کامرانی ان کے اعمال کا انعام تھی اور مغضوب و گمراہ جماعتوں کی شقاوت و محرومی ان کی بد عملیوں کی پاداش تھی۔ وہ اچھے نتائج کو ” انعام “ کہتا ہے کیونکہ وہ فطرت الٰہی کی قبولیت ہے۔ برے نتائج کو ” غضب “ کہتا ہے کیونکہ یہ قانون الٰہی کی پاداش ہے۔ وہ کہتا ہے جن اسباب و عمل سے دس مرتبہ ایک خاص طرح کا معلول پیدا ہوچکا ہے تم کیونکر انکار کرسکتے ہو ، کہ گیارہویں مرتبہ بھی ویسا ہی معلول پیدا نہ ہوگا ؟ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِكُمْ سُنَنٌ 1ۙ فَسِیْرُوْا فِی الْاَرْضِ فَانْظُرُوْا کَیْفَ کَانَ عَاقِبَةُ الْمُكَذِّبِیْنَ۠00137 (آل عمران 3 : 137) ” تم سے پہلے بھی دنیا میں خدا کے احکام و قوانین کے نتائج گزر چکے ہیں پس ملکوں کی سیر کرو اور دیکھو ان لوگوں کا انجام کیا ہوا جنہوں نے اللہ کے احکام و قوانین کو جھٹلایا تھا “ قرآن مجید کی سورتوں میں ایک بڑی تعداد انہی سورتوں کی ہے جو تمام تر اس مطلب پر مشتمل ہیں کہا جاسکتا ہے کہ قرآن مجید میں جس قدر بیان بھی پچھلے عہدوں کے وقائع و قصص کا ہے وہ تمام تر سورة فاتحہ کی اس آیت کی تفصیل ہے سورئہ فاتحہ کی تعلیمی روح کا خلاصہ اچھا ! اب چند لمحوں کے لئے سورة فاتحہ کے مطالب پر بحیثیت مجموعی نظر ڈالو اور دیکھو اسی کی سات آیتوں کے اندر مذہبی عقائد و تصور کی جو روح مضمر ہے وہ کس طرح کی ذہنیت پیدا کرتی ہے۔ سورة فاتحہ ایک دعا ہے۔ فرض کرو ایک انسان کے دل زبان سے شب و روز یہی دعا نکلتی رہتی ہے۔ اس صورت میں اس کے فکر و اعتقاد کا کیا حال ہوگا ؟ وہ خدا کی حمد و ثنا میں زمزمہ سنج ہے ، لیکن اس خدا کی حمد میں نہیں جو نسلوں ، قوموں اور مذہبی گروہ بندیوں کا خدا ہے بلکہ ” رب العٰلمین “ کی حمد میں جو تمام کائنات خلقت کا پروردگار ہے اور اس لئے تمام نوع انسانی کے لئے یکساں طور پر پروردگاری و رحمت رکھتا ہے۔ پھر وہ اسے اس کی صفتوں کے ساتھ پکارنا چاہتا ہے لیکن اس کی تمام صفتوں میں سے صرف رحمت اور عدالت ہی کی صفتیں اسے یاد آتی ہیں۔ گویا خدا کی ہستی کی نمود اس کے لئے سر تا سر رحمت و عدالت کی نمود ہے اور جو کچھ بھی اس کی نسبت جانتا ہے وہ رحمت و عدالت کے سوا کچھ نہیں ہے۔ پھر وہ اپنا سرنیاز جھکاتا اور اس کی عبودیت کا اقرار کرتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ صرف تیری ہی ایک ذات ہے جس کے آگے بندگی و نیاز کا سر جھک سکتا ہے اور صرف تو ہی ہے جو ہماری ساری درماندگیوں اور احتیاجوں میں مددگاری کا سہارا ہے۔ وہ اپنی عبادت اور استعانت دونوں کو صرف ایک ہی ذات کے لئے وابستہ کردیتا ہے اور اس طرح دنیا کی ساری قوتوں اور ہر طرح کی انسانی فرمانروائیوں سے بےپروا ہوجاتا ہے۔ اب کسی چوکھٹ پر اس کا سر جھک نہیں سکتا۔ اب کسی قوت سے وہ ہراساں نہیں ہوسکتا۔ اب کسی کے آگے اس کا دست طلب دراز نہیں ہوسکتا۔ پھر وہ خدا سے سیدھی راہ چلنے کی توفیق طلب کرتا ہے۔ یہی ایک دعا ہے جس سے زبان احتیاج آشنا ہوتی ہے ، لیکن کون سی سیدھی راہ ؟ نہیں ، وہ راہ جو دنیا کے تمام مذہبی راہنماؤں اور تمام راستباز انسانوں کی متفقہ راہ ہے ، خواہ کسی عہد اور کسی قوم میں ہوئے ہوں۔ کسی خاص نسل کی سیدھی راہ ؟ کسی خاص قوم کی سیدھی راہ ؟ کسی خاص حلقے کی سیدھی راہ ؟ اس طرح وہ محرومی اور گمراہی کی راہوں سے پناہ مانگتا ہے لیکن یہاں بھی کسی خاص نسل و قوم یا کسی خاص مذہبی گروہ کا ذکر نہیں کرتا بلکہ ان راہوں سے بچنا چاہتا ہے جو دنیا کے تمام محروم اور گمراہ انسانوں کی راہیں رہ چکی ہیں۔ گویا جس بات کا طلب گار ہے وہ بھی نوع انسانی کی عالمگیر اچھائی ہے اور جس بات سے پناہ مانگتا ہے وہ بھی نوع انسانی کی عالمگیر برائی ہے۔ نسل ، قوم ، ملک یا مذہبی گروہ بندی کے تفرقہ و امتیاز کی کوئی پرچھائیں اس کے دل و دماغ پر نظر نہیں آتی۔ غور کرو ! مذہبی تصور کی یہ نوعیت انسان کے ذہن و عواطف کے لئے کس طرح کا سانچہ مہیا کرتی ہے ؟ جس انسان کا دل و دماغ ایسے سانچے میں ڈھل کر نکلے گا وہ کس قسم کا انسان ہوگا ؟ کم از کم دو باتوں سے تم انکار نہیں کرسکتے ایک یہ کہ اس کی خدا پرستی خدا کی عالمگیر رحمت و جمال کے تصور کی خدا پرستی ہوگی۔ دوسری یہ کہ کسی معنی میں بھی نسل و قوم یا گروہ بندیوں کا انسان نہیں ہوگا۔ عالمگیر انساینت کا انسان ہوگا اور دعوت قرآنی کی اصل روح یہی ہے۔ وَ مَا تَوْفِیْقِیْۤ اِلَّا بِاللّٰهِ 1ؕ عَلَیْهِ تَوَكَّلْتُ وَ اِلَیْهِ اُنِیْبُ 0088 اختصار ِفاتحہ پر ایک نظر مزید غور کریں کہ اسلام جو تہذیب انسان کو سکھاتا ہے اس کے قواعد میں سے ایک قاعدہ یہ بھی ہے کہ وہ اپنے ہر کام کی ابتدا اللہ کے نام سے کرے۔ اس قاعدے کی پابندی اگر شعور اور خلوص کے ساتھ کی جائے تو اس سے لازماً تین فائدے حاصل ہوں گے۔ ایک یہ کہ آدمی بہت سے برے کاموں سے بچ جائے گا ، کیونکہ اللہ کا نام لینے کی عادت اسے ہر کام شروع کرتے وقت یہ سوچنے پر مجبور کردے گی کہ کیا واقعی میں اس کام پر اللہ کا نام لینے میں حق بجانب ہوں ؟ دوسرے یہ کہ جائز اور صحیح اور نیک کاموں کی ابتداء کرتے ہوئے اللہ کا نام لینے سے آدمی کی ذہنیت بالکل ٹھیک سمت اختیار کرلے گی اور وہ ہمیشہ صحیح ترین نقطہ سے اپنی حرکت کا آغاز کرے گا۔ تیسرا اور سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ جب وہ اللہ کے نام سے اپنا کام شروع کرے گا تو اللہ کی تائید اور توفیق اس کو شامل حال ہوگی ، اس کی سعی میں برکت ڈالی جائے گی اور شیطان کی فساد انگیزیوں سے اس کو بچایا جائے گا۔ اللہ کا طریقہ یہ ہے کہ جب بندہ اس کی طرف توجہ کرتا ہے تو وہ بھی بندے کی طرف توجہ فرماتا ہے۔ معلوم ہوگا جیسا کہ ہم پہلے بیان کرچکے ہیں سورة فاتحہ اصل میں تو ایک دعا ہے ، لیکن دعا کی ابتدا اس ہستی کی تعریف سے کی جارہی ہے جس سے ہم دعا مانگنا چاہتے ہیں۔ یہ گویا اس امر کی تعلیم ہے کہ دعا جب مانگو تو مہذب طریقہ سے مانگو۔ یہ کوئی تہذیب نہیں ہے کہ منہ کھولتے ہی جھٹ اپنا مطلب پیش کردیا۔ تہذیب کا تقاضا یہ ہے کہ جس سے دعا کر رہے ہو ، پہلے اس کی خوبی کا ، اس کے احسانات اور اس کے مرتبے کا اعتراف کرو۔ تعریف ہم جس کی بھی کرتے ہیں ، دو وجوہ سے کیا کرتے ہیں۔ ایک یہ کہ وہ بجائے خود حسن و خوبی اور کمال رکھتا ہو ، قطع نظر اس سے کہ ہم پر اس کے ان فضائل کا کیا اثر ہے۔ دوسرے یہ کہ وہ ہمارا محسن ہو اور ہم اعتراف نعمت کے جذبہ سے سرشار ہو کر اس کی خوبیاں بیان کریں۔ اللہ تعالیٰ کی تعریف ان دونوں حیثیتوں سے ہے۔ یہ ہماری قدر شناسی کا تقاضا بھی ہے اور احسان شناسی کا تقاضا بھی کہ ہم اس کی تعریف میں رطب اللسان ہوں۔ اور بات صرف اتنی ہی نہیں ہے کہ تعریف اللہ کے لئے ہے ، بلکہ صحیح یہ ہے کہ ” تعریف اللہ ہی “ کے لئے ہے۔ یہ بات کہہ کر ایک بڑی حقیقت پر سے پردہ اٹھایا گیا ہے اور وہ حقیقت ایسی ہے جس کی پہلی ہی ضرب سے مخلوق پرستی کی جڑ کٹ جاتی ہے۔ دنیا میں جہاں جس چیز اور جس شکل میں بھی کوئی حسن کوئی خوبی ، کوئی کمال ہے ، اس کا سرچشمہ اللہ ہی کی ذات ہے۔ کسی انسان ، کسی فرشتے ، کسی دیوتا ، کسی سیارے ، غرض کسی مخلوق کا کمال بھی ذاتی نہیں ہے بلکہ اللہ کا عطیہ ہے۔ پس اگر کوئی اس کا مستحق ہے کہ ہم اس کے گرویدہ اور پرستار ، احسان مند اور شکر گزار ، نیاز مند اور خدمت گار بنیں تو وہ خالق کا کمال ہے نہ کہ صاحب کمال۔ یاد رہے کہ رب کا لفظ عربی زبان میں تین معنوں میں بولا جاتا ہے : (1) مالک اور آقا (2) مربی ، پرورش کرنے والا ، خبرگیری اور نگہبانی کرنے والا (3) فرمانروا ، حاکم ، مدبر اور منتظم۔ اللہ تعالیٰ ان سب معنوں میں کائنات کا رب ہے۔ دیکھئے انسان کا خاصہ ہے کہ جب کوئی چیز اس کی نگاہ میں بہت زیادہ ہوتی ہے تو وہ مبالغہ کے صیغوں میں اس کو بیان کرتا ہے ، اور اگر ایک مبالغہ کا لفظ بول کر وہ محسوس کرتا ہے کہ اس شے کی فراوانی کا حق ادا نہیں ہوا ، تو پھر وہ اس معنی کا ایک اور لفظ بولتا ہے تاکہ وہ کمی پوری ہوجائے جو اس کے نزدیک مبالغہ میں رہ گئی ہے۔ اللہ کی تعریف میں رحمٰن کا لفظ استعمال کرنے کے بعد پھر رحیم کا اضافہ کرنے میں بھی یہی نکتہ پوشیدہ ہے۔ رحمان عربی زبان میں بڑے مبالغے کا صیغہ ہے۔ لیکن اللہ کی رحمت اور مہربانی اپنی مخلوق پر اتنی زیادہ ہے ، اس قدد وسیع ہے ، ایسی بیحد و بےحساب ہے کہ اس کے بیان میں بڑے سے بڑے مبالغہ کا لفظ بول کر بھی جی نہیں بھرتا ۔ اس لئے اس کی فراوانی کا حق ادا کرنے کے لئے پھر رحیم کا لفظ مزید استعمال کیا گیا۔ اس کی مثال ایسی ہے جیسے ہم کسی شخص کی فیاضی کے بیان میں ” سخی “ کا لفظ بول کر جب تشنگی محسوس کرتے ہیں تو اس پر ” داتا “ کا اضافہ کرتے ہیں۔ رنگ کی تعریف میں جب ” گورے “ کو کافی نہیں پاتے تو اس پر ” چٹے “ کا لفظ اور بڑھا دیتے ہیں۔ درازی قد کے ذکر میں جب ” لمبا “ کہنے سے تسلی نہیں ہوتی تو اس کے بعد ” تڑنگا “ بھی کہتے ہیں۔ روز جزا یعنی اس دن کا مالک جب کہ تمام اگلی پچھلی نسلوں کو جمع کر کے ان کے کارنامہ زندگی کا حساب لیا جائے گا اور ہر انسان کو اس کے عمل کا پورا صلہ یا بدلہ مل جائے گا۔ اللہ کی تعریف میں رحمان اور رحیم کہنے کے بعد مالک روز جزا کہنے سے یہ بات نکلتی ہے کہ وہ نرا مہربان ہی نہیں ہے بلکہ منصف بھی ہے ، اور منصف بھی ایسا بااختیار منصف کہ آخری فیصلے کے روز وہی پورے اقتدار کا مالک ہوگا۔ نہ اس کی سزا میں کوئی مزاحم ہوسکے گا اور نہ جزا میں مانع۔ لہٰذا ہم اس کی ربوبیت اور رحمت کی بنا پر اس سے محبت ہی نہیں کرتے بلکہ اس کے انصاف کی بنا پر اس سے ڈرتے بھی ہیں اور یہ احساس بھی رکھتے ہیں کہ ہمارے انجام کی بھلائی اور برائی بالکلیہ اس کے اختیار میں ہے۔ اسی طرح عبادت کا لفظ بھی عربی زبان میں تین معنوں میں استعمال ہوتا ہے : (1) پوجا اور پرستش ، (2) اطاعت اور فرمانبرداری ، (3) بندگی اور غلامی۔ اس مقام پر تینوں معنی بیک وقت مراد ہیں۔ یعنی ہم تیرے پرستار بھی ہیں ، مطیع فرمان بھی اور بندہ و غلام بھی اور بات صرف اتنی ہی نہیں ہے کہ ہم تیرے ساتھ یہ تعلق رکھتے ہیں۔ بلکہ واقعی حقیقت یہ ہے کہ ہمارا یہ تعلق صرف تیرے ہی ساتھ ہے۔ ان تینوں معنوں میں سے کسی معنی میں بھی کوئی دوسرا ہمارا معبود نہیں ہے۔ اے ہمارے اللہ تیرے ساتھ ہمارا تعلق محض عبادت ہی کا نہیں ہے بلک استعانت کا تعلق بھی ہم تیرے ہی ساتھ رکھتے ہیں۔ ہمیں معلوم ہے کہ ساری کائنات کا رب تو ہی ہے اور ساری طاقتیں تیرے ہی ہاتھ میں ہیں ، اور ساری نعمتوں کا تو ہی اکیلا مالک ہے ، اس لئے ہم اپنی حاجتوں کی طلب میں تیری طرف ہی رجوع کرتے ہیں ، تیرے ہی آگے ہمارا ہاتھ پھیلتا ہے اور تیری مدد ہی پر ہمارا اعتماد ہے۔ اسی بنا پر ہم اپنی یہ درخواست لے کر تیری خدمت میں حاضر ہو رہے ہیں۔ اے رب کریم ! زندگی کے ہر شعبہ میں خیال اور عمل اور برتائو کا وہ طریقہ ہمیں بتا جو بالکل صحیح ہو ، جس میں غلط بینی اور غلط کاری اور بد انجامی کا خطرہ نہ ہو ، جس پر چل کر ہم سچی فلاح وسعادت حاصل کرسکیں۔ یہ ہے وہ درخواست جو قرآن کے مطالعہ شروع کرتے ہوئے بندہ اپنے اللہ کے حضور پیش کرتا ہے۔ اس کی گزارش یہ ہے کہ آپ ہماری راہنمائی فرمائیں اور ہمیں بتائیں کہ قیاسی فلسفوں کی ان بھول بھلیوں میں حقیقت نفس الامری کیا ہے ، اخلاق کے ان مختلف نظریات میں صحیح نظام اخلاق کونسا ہے ، زندگی کی ان سے بیشمار بگڈنڈیوں کے درمیان فکر و عمل کی سیدھی اور صاف شاہراہ کونسی ہے ؟ ” انعام یافتہ “ اس سیدھے راستہ کی تعریف ہے جس کا علم ہم اللہ تعالیٰ سے مانگ رہے ہیں۔ یعنی وہ راستہ جس پر ہمیشہ سے تیرے منظور نظر لوگ چلتے رہے ہیں۔ وہ بےخطا راستہ کہ قدیم ترین زمانہ سے آج تک جو شخص اور جو گروہ بھی اس پر چلا وہ تیرے انعامات کا مستحق ہوا اور تیری نعمتوں سے مالا مال ہو کر رہا۔ نہ وہ بھولا اور نہ بھٹکا ، اس لیے ہم بھول جانے اور بھٹک جانے سے بھی تیری پناہ میں آنا چاہتے ہیں تاکہ ان بھولنے والوں اور بھٹکنے والوں میں شمار نہ ہوں۔ اللھم یسر ولا تعسر وتم بالخیر۔ اے منعم حقیقی ” انعام “ پانے والوں سے ہماری مراد وہ لوگ نہیں ہے جو بظاہر عارضی طور پر تیری دنیوی نعمتوں سے سرفراز تو ہوتے ہیں مگر دراصل وہ تیرے غضب کے مستحق ہوا کرتے ہیں اور اپنی فلاح وسعادت کی راہ گم کئے ہوئے ہوتے ہیں۔ اس سلبی تشریح سے یہ بات خود کھل جاتی ہے کہ ” انعام “ سے ہماری مراد حقیقی اور پائیدارانعامات ہیں جو راست روی اور اللہ کی خوشنودی کے نتیجہ میں ملا کرتے ہیں ، نہ کہ وہ عارضی اور نمائشی انعامات جو پہلے بھی فرعونوں ، نمرودوں اور قارونوں کو ملتے رہے ہیں اور آج بھی ہماری آنکھوں کے سامنے بڑے بڑے ظالموں اور بدکاروں اور گمراہوں کو ملے ہوئے ہیں۔ سورئہ فاتحہ اور آمین سورۃ فاتحہ کے خاتمہ پر آمین کہنا سنت ہے۔ آمین خود ایک دعا ہے جس کے معنی ہیں استجب یعنی اے اللہ ! قبول فرمایا : امین عند اکثر اھل العلم اللھم استجب لنا ۔ (قرطبی) چنانچہ حدیث میں ہے کہ : اذا قال الامام غیر المغضوب علیھم ولا الضالین فقولوا امین ، صحیح بخاری ص 427 ، پارہ نمبر 3 عن ابی ہریرہ ؓ : ” جب امام غیر المغضوب علیہم ولا الضالین پڑھ چکے تو تم بھی آمین کہا کرو۔ “ صحیح مسلم ج اول ص : 77 میں ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ : ” اذا قال ولا الضالین فقولوا امین “ جب امام ” ولا الضالین “ کہے تو تم آمین کہا کرو۔ صحیح مسلم ج اول ص 147 ، سنن دارمی 146 ، مسند احمد ج اول ص 204 پر ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ : ” ان الا مام یقول امین “ امام بھی آمین کہے۔ سنن نسائی ج اول ص 147 ، سنن دارمی 146 ، مسند احمد ج اول ص 204 پر ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ : ” ان الا مام یقول امین “ امام بھی آمین کہے۔ مصنف ابن ابی شیبہ ص 28 میں وائل اپنے والد ماجد سے روایت کرتے ہیں کہ : ” صلیت مع النبی صلوسلم عل فلما قال غیر المغضوب علیہم ولا الضالین قال امین “ ۔ ” میں نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نماز پڑھی جب آپ ﷺ نے ولا الضالین کہا تو آپ ﷺ نے آمین بھی کہی “۔ ان رسول اللہ صلوسلم عل قال اذا امن الامام فامنوا فانہ من وافق تامینہ تامین الملائکۃ غفرلہ ماتقدم من ذنبہ . ” رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب امام آمین کہے تو تم بھی آمین کہو اس لئے کہ جب تمہاریآمین ملائکہ کی آمین کے ساتھ مل جاتی ہے تو آمین کہنے والوں کے پہلے گناہ معاف ہوجاتے ہیں “ (اور یہ انعام ہے آمین کہنے کا) ۔ (صحیح بخاری پارہ 3 425 ، صحیح مسلم ج اول ص 176 ، سنن ابی داؤد ج اول ص 353 ، جامع ترمذی ج اول ص 212 ، سنن نسائی ج اول ص 47 ، سنن ابن ماجہ ج اول ص 61 ، سنن دارمی ص 147 ، مسند امام شافعی ص 56 ، ام امام شافعی ج اول ص 94 ، مسند امام احمد ج اول ص 204 ، منتقی ابن الجارودص 100 ، سنن کبریٰ بیہقی ج 2 ص 57) کتب احادیث میں اتنی احادیث بیان ہوئی ہیں کہ ان کا شمار کیا جائے تو باقائدہ کتاب تیار ہوجائے اس پر پوری امت مسلمہ متفق ہے کہ فاتحہ کے خاتمہ پر آمین کہنا چاہیے کیونکہ یہ سنت ہے لیکن اس میں اختلاف ہے کہ کیا امام اور مقتدی دونوں کو آمین کہنا چاہیے یا صرف مقتدیوں کو ؟ آمین جہراً کہنا چاہیے یا سری طور پر ؟ بات اگرچہ صاف تھی کہ جو شخص سورة فاتحہ کی تلاوت کرے نماز میں یا نماز کے علاوہ سورة فاتحہ کے خاتمہ پر آمین کہے۔ اگر وہ سورة فاتحہ کو جہراً پڑھے تو آمین بھی جہراً کہے اور اگر سری طور پر پڑھے تو آمین بھی سری طور پر کہے اور امام ہونے کی صورت میں جب نماز جہری ہو تو اس کی جہری رکعتوں میں فاتحہ جہراً پڑھے گا۔ تو مقتدی بھی امام کے وقفوں میں فاتحہ کو پڑھیں اور امام آخری وقفہ کے بعد ذرا ٹھہر کر آمین کہے اور مقتدی بھی امام کے ساتھ آمین میں شریک ہوجائیں تاکہ آمین سب کی بیک زبان ہوجائے اور یہ اجتماعی صورت اپنے اندر بہت حکمتیں اور برکتیں رکھتی ہے۔ افسوس کہ اتنی صاف بات کو بھی اختلاف کی بھینٹ چڑھا دیا گیا اور اختلاف یہاں تک بڑھا کہ ایک دوسرے پر کفر کے فتوے صادر ہوئے۔ مناظرے قائم ہوئے شرطیں لگیں اور دونوں طرف سے فتح حاصل کرنے کے لئے بڑے بڑے اشتہار طبع کرائے گئے جن پر ایک دوسرے کو چیلنج کئے گئے اور کئے جا رہے ہیں۔ الامان والحفیظ۔ یہاں صرف یہ عرض کرنا مقصود ہے کہ امت مسلمہ میں آج بھی کثیر تعداد جہری نمازوں میں امام و مقتدی سب پکار کر آمین کہنے والوں کی ہے اگرچہ ہمارے ملک پاکستان میں یہ لوگ اقلیت میں ہوں اس کا مشاہدہ حج کے موقع پر بیت اللہ اور مسجد نبوی میں کیا جاسکتا ہے جہاں پوری ملت اسلامیہ کے لوگ موجود ہوتے ہیں۔ تاہم اس ملک میں ہمارے جو بھائی آمین پکار کر نہیں کہتے بلکہ دل ہی دل میں کہہ لیتے ہیں خواہ وہ امام ہوں یا مقتدی یا دل میں بھی نہیں کہتے ان کو یہ بات باور کرلینی چاہیے کہ جو لوگ آمین پکار کر کہتے ہیں وہ کوئی ایسی بات نہیں کرتے جو خلاف سنت ہے لہٰذا ان کو آمین سے چڑ نہیں ہونی چاہیے اور نہ ہی پکار کر کہنے والوں کو دل میں کہہ لینے والوں سے جھگڑا کرنا مناسب ہے بلکہ اپنے عمل میں پختگی اور بلند ہمتی اصل چیز ہے اور اسی پر قائم رہنا ضروری ہے۔ وَ مَا تَوْفِیْقِیْۤ اِلَّا بِاللّٰهِ 1ؕ ۔
Top