Urwatul-Wusqaa - Al-Faatiha : 6
اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَۙ
اِهْدِنَا : ہمیں ہدایت دے الصِّرَاطَ : راستہ الْمُسْتَقِيمَ : سیدھا
ہم پر سیدھی راہ کھول دے
ہدایت وہی ہدایت ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہو : 24: اے اللہ ! اھدنا تو ہم کو ہدایت دے۔ ” اھدنا “ کی اصل ھ د ی ہے۔ تو ہم کو راہ دکھا۔ تو ہم کو راہ بتلا۔ اھد ہدایتہ سے امر کا صیغہ واحد مذکر حاضر ” نا “ ضمیر جمع متکلم۔ اھدنا کا لفظ صرف دو بار قرآن مجید میں استعمال ہوا ہے۔ ایک یہاں سورة فاتحہ میں اور ایک بار سورة ص کی آیت نمبر 22 میں وَ اہْدِنَاۤ اِلٰى سَوَآءِ الصِّرَاطِ 0022 اور کہیں یہ لفظ استعمال نہیں ہوا۔ ” اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَۙ005 “ فاتحہ کی چھٹی آیت ہے۔ راہ ہدایت ہی راہ ” المستقیم “ ہے : 25: المستقیم کیا ہے ؟ ” المستقیم “ کی اصل ق و م ہے۔ المستقیم۔ اسم فاعل واحد مذکر منصوب معرف باللام ” سیدھا ، “ ” سیدھی ‘ ۔ ” المستقیم “ کا لفظ قرآن مجید میں 29 بار استعمال ہوا ہے۔ ” پیغام نبوت “ کیا ہے ؟ ہدایت ہی ہدایت ہے : 26: سعادت یعنی ” ہدایت “ کے معنی راہنمائی کرنے ، راہ دکھانے اور راہ پر لگادینے کے ہیں۔ ہدایت کے مختلف مراتب و اقسام ہیں جن کا ذکر قرآن کریم نے کیا ہے اور ان اقسام ہدایت میں سے ایک خاص قسم کی ہدایت ” وحی و نبوت “ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جس طرح مخلوقات کو ان کے مناسب حال جسم و قویٰ دیئے ہیں اسی طرح ان کی ہدایت کا فطری سامان بھی مہیا کردیا ہے اور جس طرح مخلوقات کے مختلف مدارج ہدایت کے بھی مختلف مراتب حسب حال موجود ہیں۔ جس مخلوق کے لئے وجدان کی ہدایت کافی ہے وہ یقیناً اس میں موجود ہے وجدان کی ہدایت کیا ہے ؟ وجدان طبیعت حیوانی کا فطری اور اندرونی الہام ہے ہم دیکھتے ہیں کہ ایک بچہ پیدا ہوتے ہی غذا کی تلاش کرتا ہے اور اس کی جستجو کے لئے اس کے پاس جب رونے کے سوا ابھی کوئی چیز نہیں ہے تو وہ رو رو کر ثابت کرتا ہے کہ اس کو احتیاج ہے لیکن ماں جب اس کو چھاتی سے لگاتی ہے تو وہ بغیر اس کے کہ خارج کی کوئی راہنمائی ملی ہو ماں کی چھاتی منہ میں لیتے ہی اسے چوستا ہے۔ اور اپنی غذا حاصل کرلیتا ہے۔ وجدان کے بعد حواس کی ہدایت کا مرتبہ ہے اور وہ وجدان سے بلند تر ہے یہ ہمیں دیکھنے ، سننے ، چکھنے ، چھونے اور سونگنے کی قوتیں بخشتی ہیں اور انہیں کے ذریعے ہم نفع حاصل کرتے اور نقصان سے بچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہدایت فطرت کے یہ دونوں مرتبے انسان اور حیوان سب میں موجود ہیں لیکن جہاں تک انسان کا تعلق ہے ہم دیکھتے ہیں کہ اس میں ایک تیسرا مرتبہ ہدایت بھی موجود ہے اور وہ عقل کی ہدایت ہے۔ فطرت کی یہی وہ ہدایت ہے جس نے ایک انسان اور حیوان میں امتیاز پیدا کردیا اور صرف یہی نہیں کہ امتیاز پیدا کیا بلکہ انسان کے سامنے غیر محدود ترقیات کا دروازہ کھول دیا ہے اور اس کو کائنات ارضی کی تمام مخلوقات کا حاصل و خلاصہ بنادیا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ جو ہر پہلی قسموں یعنی وجدان اور احساس سے قوی ہے۔ پھر جو ہر عقل کیا ہے ؟ عقل دراصل اس قوت کی ایک ترقی یافتہ حالت ہے جس نے حیوانات میں وجدان اور حواس کی روشنی پیدا کردی تھی۔ جس طرح انسان کا جسم اجسام ارضی کی سب سے اعلیٰ کڑی ہے اسی طرح اس کی یہ معنوی قوت بھی تمام معنوی قوتوں کا برترین جوہر ہے۔ روح حیوانی کا وہ جوہر ادراک جو نباتات میں مخفی اور حیوانات کے وجدان میں نمایاں تھا۔ انسان کے مرتبے میں پہنچ کر درجہ کمال تک پہنچ گیا اور جوہر عقل کے نام سے موسوم ہوا۔ ہم دیکھتے ہیں کہ ہدایت فطرت کے ان تینوں مرتبوں یعنی وجدان ، حواس اور عقل میں سے ہر مرتبہ اپنی قوت و عمل کا ایک خاص دائرہ رکھتا ہے اس سے آگے نہیں بڑھ سکتا۔ اگر ایک مرتبے سے دوسرا مرتبہ بلند تر نہ ہوتا تو ہماری معنوی قوتیں اس حد تک ترقی نہ کرسکتیں جس حد تک فطرت کی راہنمائی سے ترقی کررہی ہیں۔ وجدان کی ہدایت ہم میں طلب وسعی کا جوش پیدا کرتی ہے اور مطلوبات زندگی کی راہ پر لگادیتی ہے لیکن ہمارے وجود سے باہر جو کچھ موجود ہے اس کا ادراک نہیں کرسکتی یہ کام مرتبہ حواس کی ہدایت کا ہے۔ وجدان کی راہنمائی جب درماندہ ہوجاتی ہے حواس کی دستگیری نمایاں ہوتی ہے ، آنکھ دیکھتی ہے ، کان سنتا ہے ، زبان چھکتی ہے ، ہاتھ چھوتا ہے اور ٹٹولتا ہے ، ناک سونگھتی ہے اور اس طرح ہم اپنے وجود سے باہر کی تمام محسوس اشیاء کا ادراک حاصل کرلیتے ہیں۔ حواس کی ہدایت بھی ایک خاص حد تک ہی کام دے سکتی ہے اس سے آگے نہیں بڑھ سکتی آنکھ دیکھتی ہے ، مگر صرف اسی حالت میں جب کہ دیکھنے کی تمام شرطیں موجود ہوں۔ اگر کوئی ایک شرط بھی نہ پائی جائے۔ مثلاً روشنی نہ ہو ، فاصلہ زیادہ ہو تو ہم آنکھ رکھتے ہوئے بھی ایک موجود چیز کو براہ راست نہیں دیکھ سکتے۔ علاوہ ازیں حواس کی ہدایت صرف اتنا ہی کرسکتی ہے کہ اشیاء کا احساس پیدا کر دے ظاہر ہے کہ یہ مجرد احساس کافی نہیں ہے۔ ہمیں استنباط اور نتائج کی ضرورت ہے۔ احکام کی ضرورت ہے۔ کلیات کی ضرورت ہے اور یہ کام حواس کی ہدایت کا نہیں بلکہ یہ کام عقل کی ہدایت کا ہے۔ پھر جس طرح وجدان کی نگرانی کے لئے حواس کی ضرورت تھی اسی طرح حواس کی نگرانی کے لئے عقل کی ضرورت ہوئی۔ حواس کا ذریعہ ادراک نہ صرف محدود ہے بلکہ بسا اوقات غلطی و گمراہی سے بھی محفوظ نہیں۔ اگر مرتبہ حواس سے ایک بلند تر مرتبہ ہدایت کا موجود نہ ہوتا تو ممکن نہ تھا کہ ہم حواس کی ان درماندگیوں میں حقیقت کا سراغ پاسکتے۔ ایسی تمام حالتوں میں عقل کی ہدایت نمودار ہوتی ہے وہ حواس کی درماندگیوں میں ہماری راہنمائی کرتی ہے لیکن یہ بات بھی اپنی جگہ حق ہے اور ثابت ہے کہ عقل کی ہدایت بھی ایک خاص حد سے آگے نہیں بڑھ سکتی اور اس کے دائرہ عمل کے بعد بھی ایک دائرہ باقی رہ جاتا ہے۔ عقل کی کارفرمائی اگرچہ کتنی ہی وسیع کیوں نہ ہو محسوسات کے دائرے میں محدود ہے یعنی وہ صرف اس حد تک کام دے سکتی ہے جس حد تک ہمارے حواس خمسہ معلومات بہم پہنچاتے ہیں لیکن محسوسات کی حد سے آگے کیا ہے ؟ اس پردے کے پیچھے کیا ہے جس سے آگے ہماری چشم حواس نہیں بڑھ سکتی ؟ جہاں پہنچ کر عقل درماندہ ہوجاتی ہے اس کی ہدایت ہمیں کوئی روشنی نہیں دے سکتی۔ سورة فاتحہ کی زیر نظر آیت اور اس جیسی قرآن کریم کی دوسری تمام آیات پکار پکار کر کہتی ہیں کہ اللہ نے تم کو وجدان کے ساتھ حواس بھی دیئے تاکہ وجدان کی لغزشوں میں نگرانی کریں اور حواس کے ساتھ عقل بھی دی تاکہ حواس کی غلطیوں میں قاضی و حاکم ہو تو عقل کے ساتھ وحی و نبوت کی ہدایت بھی دی تاکہ عقل کی درماندگیوں میں وہ راہنما اور فیصلہ کن ہو۔ اور اس کو قرآنی اصطلاح میں ” الہدی “ کے نام سے پکارتا ہے۔ یہ ” الہدی “ یعنی ہدایت ہدایت کی حقیقی راہ کون سی ہے ؟ قرآن کہتا ہے وحی الٰہی کی عالمگیر ہدایت ہے جو اول دن سے دنیا میں موجود ہے اور بلا تفریق و امتیاز تمام نوع انسانی کے لئے ہے۔ وہ کہتا ہے جس طرح اللہ نے وجدان ، حواس اور عقل کی ہدایت میں نہ تو نسل و قوم کا امتیازرکھا نہ زمان و مکان کا۔ اسی طرح اس کی ہدایت وحی بھی ہر طرح کے تفرقے اور امتیاز سے پاک ہے۔ وہ سب کے لئے ہے اور سب کو دی گئی ہے اور اسی ایک ہدایت ” الھدی “ کے سوا اور جتنی ہدایتیں بھی انسانوں نے سمجھ رکھی ہیں ، سب انسانی بناوٹ کی راہیں ہیں۔ اللہ کی ٹھہرائی ہوئی راہ صرف یہی ایک راہ ہے۔ اسلئے وہ ہدایت کی ان تمام صورتوں سے یک قلم انکار کرتا ہے جو اس اصل سے منحرف ہو کر طرح طرح کی مذہبی گروہ بندیوں اور مختالف ٹولیوں میں بٹ گئی ہیں اور سعادت و نجات کی عالمگیر حقیقت خاص خاص گروہوں اور حلقوں کی میراث بنالی گئی ہے۔ وہ کہتا ہے انسانی بناوٹ کی یہ الگ الگ راہیں ہدایت کی راہ نہیں ہوسکتیں۔ ہدایت کی راہ تو وہی راہ ہے جو وحی و نبوت کے رنگ میں دی گئی جو کسی خاص گروہ قوم اور نسل کیلئے نہیں ہے بلکہ سب کے لئے یکساں ہے اور سب ہی کو اس کی طلب کرتے رہنا چاہیے۔ اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَۙ005
Top