’اِھْدِنَا‘ کا مطلب صرف اسی قدر نہیں ہے کہ ہمیں سیدھا رستہ دکھا دے بلکہ اس کا مفہوم اس سے بہت زیادہ ہے۔ اس میں یہ مفہوم بھی ہے کہ اس راستہ کی صحت پر ہمارے دل مطمئن کر دے، اس پر چلنے کا ہمارے اندر ذوق و شوق پیدا کر دے، اس کی مشکلیں ہمارے لیے آسان کر دے اور اس پر چلا دینے کے بعد دوسری پگڈنڈیوں پر بھٹکنے سے ہمیں محفوظ رکھ۔ یہ سارا مضمون یہاں صلہ کو حذف کر دینے سے پیدا ہوتا ہے۔
’الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ‘ پر الف لام عہد کا ہے۔ اس سے مراد وہ سیدھا رستہ ہے جو بندوں کے لیے خود اللہ تعالیٰ نے کھولا ہے، جو دین اور دنیا دونوں کی فلاح و کامیابی کا ضامن ہے، جس پر چلنے کی دعوت نبیوں اور رسولوں نے دی ہے، جس پر ہمیشہ خدا کے نیک بندے چلے ہیں، جو قریب تر اور سہل تر ہے، جس کے بعد ادھر ادھر سے گمراہوں اور گمراہ کرنے والوں نے بہت سی کج پیچ کی راہیں نکال لی ہیں، لیکن وہ بجائے خود قائم ہے اور خدا تک پہنچنے والے ہمیشہ اسی پر چل کر خدا تک پہنچ سکتے ہیں۔ اسی سیدھے راستے کو حضورؐ نے ایک مرتبہ اس طرح سمجھایا کہ زمین پر ایک سیدھا خط کھینچا، پھر اس کے داہنے بائیں آڑے ترچھے خطوط کھینچ دیے، پھر فرمایا کہ یہ اللہ تعالیٰ کا رستہ ہے اور یہ آڑے ترچھے خطوط پگڈنڈیاں ہیں اور ان میں سے ہر پگڈنڈی کی طرف کوئی نہ کوئی شیطان بلا رہا ہے۔