Tadabbur-e-Quran - Al-Faatiha : 5
اِیَّاكَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاكَ نَسْتَعِیْنُؕ
اِيَّاكَ : صرف تیری نَعْبُدُ : ہم عبادت کرتے ہیں وَ : اور اِيَّاكَ : صرف تجھ سے نَسْتَعِيْنُ : ہم مدد چاہتے ہیں
ہم تیری ہی بندگی کرتے ہیں اور تجھی سے مدد مانگتے ہیں
’عبادت‘ کا مفہوم: عبادت کے اصلی معنی عربی لغت میں انتہائی خضوع اور انتہائی عاجزی و فروتنی کے اظہار کے ہیں۔ لیکن قرآن میں یہ لفظ اس خضوع و خشوع کی تعبیر کے لیے خاص ہو گیا ہے جو بندہ اپنے خالق و مالک کے لیے ظاہر کرتا ہے۔ پھر اطاعت کا مفہوم بھی اس لفظ کے لوازم میں داخل ہو گیاہے کیونکہ یہ بات بالبداہت غلط معلوم ہوتی ہے کہ انسان جس ذات کو اپنے انتہائی خضوع و خشوع کا واحد مستحق سمجھے زندگی کے معاملات میں اس کی اطاعت کو لازم نہ جانے۔ چنانچہ عبادت کی اس حقیقت کو قرآن مجید نے بعض جگہ کھول بھی دیا ہے۔ مثلاً: اِنَّآ اَنْزَلْنَآ اِلَیْکَ الْکِتٰبَ بِالْحَقِّ فَاعْبُدِ اللّٰہَ مُخْلِصًا لَّہُ الدِّیْنَ. (2زمر) ہم نے تمہاری طرف کتاب اتاری ہے حق کے ساتھ تو اللہ ہی کی بندگی کرو اسی کے لیے اطاعت کو خاص کرتے ہوئے۔ عبادت کے ساتھ اطاعت کا یہ تعلق اس قدر گہرا ہے کہ بعض جگہ یہ لفظ صاف صاف اطاعت کے مفہوم ہی کے لیے استعمال ہو گیا ہے مثلاً: اَنْ لَّا تَعْبُدُوا الشَّیْطٰنَ اِنَّہ لَکُمْ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌ. (60یٰس) کہ شیطان کی عبادت نہ کرو کیونکہ وہ تمہارا کھلا ہوا دشمن ہے۔ اللہ تعالیٰ کا جو حق بندوں پر ہے اس آیت میں وہ بھی بیان ہو گیا ہے اور بندے کا جو حق خود اللہ تعالیٰ نے اپنے اوپر واجب کیا ہے وہ بھی اس میں بیان ہو گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا حق بندے پر یہ ہے کہ بندہ تنہا اسی کی بندگی کرے اور اسی سے التجا کرے۔ بندے کا حق اس نے اپنے اوپر یہ بتایا ہے کہ وہ اس پر رحمت نازل کرتا ہے اور اس کی مدد فرماتا ہے۔ آیت کے پہلے ٹکڑے میں بندہ اس حق کا اقرار کرتا ہے جو اللہ تعالیٰ کا اس کے اوپر ہے اور اس کے دوسرے ٹکڑے میں اس حق کے لیے درخواست پیش کرتا ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے اوپر بندے کا بتایا ہے۔ لیکن پیش کرنے کا انداز نہایت مؤدبانہ ہے۔ بندہ اپنے کسی حق کی طرف کوئی اشارہ کرنے کے بجائے صرف اپنی احتیاج اپنے اعتماد اور اپنی تمنا کا اظہار کر دیتا ہے کیونکہ بندے کے شایان شان یہی ہے کہ وہ اپنے رب سے التجا اور درخواست کرے نہ کہ اس پر اپنا کوئی حق جتائے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم ہے کہ وہ بغیر کسی استحقاق کے بندے کو سب کچھ بخشتا ہے اور پھر اس فضل و کرم کو بندہ کا حق قرار دیتا ہے۔ چنانچہ اس سورہ سے متعلق جو مشہور حدیث قدسی ہے اس میں خاص اس ٹکڑے سے متعلق حضور نبی کریم ﷺ نے اللہ تعالیٰ کے یہ الفاظ نقل فرمائے ہیں کہ جب بندہ ’اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْنَُ‘ کے الفاظ پڑھتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ ٹکڑا میرے اور میرے بندے کے درمیان مشترک ہے اور میں نے اپنے بندے کو وہ دیا جو اس نے مانگا۔ ’’ہم تجھی سے مدد مانگتے ہیں‘‘ کے الفاظ عام ہیں۔ اس وجہ سے یہ طلب مدد خاص عبادت کے معاملہ میں بھی ہو سکتی ہے اور زندگی کے دوسرے معاملات میں بھی۔ عبادت میں بندہ خدا کی مدد کا محتاج توفیق و رہنمائی اور ثبات و استقامت کے لیے ہوتا ہے کیونکہ عبادت بالخصوص جب کہ وہ زندگی کے ہر پہلو میں خدا کی اطاعت پر بھی مشتمل ہو ایک بڑی ہی آزمائش کی چیز ہے۔ اس میں ایسے سخت مقامات بھی آتے ہیں جہاں بڑے بڑوں کے پائے ثبات بھی ڈگمگا جاتے ہیں۔ اس جملہ میں مفعول کی تقدیم نے حصر کا مضمون بھی پیدا کر دیا ہے۔ یعنی عبادت بھی صرف خدا ہی کی اور استعانت بھی تنہا اسی سے۔ اس حصر نے شرک کے تمام علائق کا یک قلم خاتمہ کر دیا کیونکہ اس اعتراف کے بعد بندہ کے پاس کسی غیر اللہ کو نہ کچھ دینے کو رہا اور نہ اس سے کچھ مانگنے کی گنجائش باقی رہی۔ اس کے بعد دوسروں سے بندے کے تعلق کی صرف وہی نوعیت جائز رہ گئی ہے جو خود اللہ تعالیٰ نے ہی قائم کر دی ہو۔
Top