اِھْدِنَا یہ اس اعانت اور مدد کا بیان ہے جو اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ میں طلب کی گئی تھی (مطلب
یہ ہے کہ خداوندا ہمیں سیدھی راہ دکھا) یا چونکہ سیدھے رستہ کی ہدایت تمام باتوں میں اہم اور مقصود اعظم تھی اس لیے اس کو علیحدہ ذکر کردیا گیا۔ ھِدَایَتْ کے اصلی معنی لطف و مہربانی کے ساتھ رہنمائی کرنے اور رستہ بتانے کے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس کا استعمال ہمیشہ خیرو نیکی میں ہوا کرتا ہے یہ لفظ اور اس کے مشتقات اصل میں تو لام اور الی ہی کے ساتھ متعدی ہوا کرتے ہیں مگر کبھی کبھی بغیر کسی واسطہ کے خود ہی متعدی ہوجاتے ہیں۔ خلاصہ یہ کہ اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ دعا ہے نبی کریم ﷺ : کی اور نیز تمام مسلمانوں کی اور اگرچہ وہ پہلے ہی سے آسمانی ہدایت پر تھے مگر پھر بھی خدا تعالیٰ نے استقامت و ثابت قدمی اور مزید ہدایت طلب کرنے کے لیے یہ دعا تعلیم فرمائی کیونکہ اہلسنّت کے مذہب کے مطابق خدا تعالیٰ کے الطاف و ہدایات کی کوئی انتہاء اور حد نہیں ہے۔ ابن کثیر نے قنبل 1 کی روایت کے مطابق لفظ۔
الصِّرَاط خواہ معرف باللام اور مضاف ہو یا نکرہ نہ صرف سورة فاتحہ بلکہ تمام قرآن مجید میں جہاں کہیں بھی آیا ہے۔ السِّرَاط سین کے ساتھ پڑھا ہے اور سِرَاط کے لغوی معنی نگل لینے کے ہیں۔ اہل زبان بولا کرتے ہیں : سَرَطَ الطَّعَامَ اَیْ اِبْتَلَعَہٗ (یعنی جب کوئی کھانے کا لقمہ نگل جاتا ہے تو سَرَطَ الطَّعَام بولا جاتا ہے) اسی طرح جس راہ میں کثرت سے مسافرچلتے ہیں اس کی نسبت کہا جاتا ہے الطَّرِیْقُ یَسْرُطُ السَّابِلَۃَ اور باقی قراء نے صاد سے پڑھا ہے اور یہ قریش کا لغت ہے۔ خلف نے صاد اور زاء کے درمیان اس لفظ کو قرآن میں ہر جگہ پڑھا ہے اور خلاد نے صرف اس جگہ المُسْتَقِیْمَ کے معنی مستوی اور سیدھے کے کئے ہیں مگر مراد طریق حق ہے اور بعض کہتے ہیں ملت اسلام۔ ان دونوں قولوں کی نسبت ابن جریر نے ابن عباس ؓ کی طرف کی ہے۔ ابو العالیہ اور امام حسن نے اِھْدِنَاالصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ کی تفسیر میں کہا ہے کہ رسول اللہ : کا اور ان کے دو اصحاب ابوبکر و عمر ؓ کا راستہ۔ رسول اللہ نے فرمایا میرے بعد میری سنت اور خلفاء راشدین کی سنت کو خوب مضبوط پکڑو اور فرمایا میرے بعد دو شخصوں ابوبکر و عمر کی اقتدا کرو۔