اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ سے مراد
دوسری بات جو اس میں غور کرنے سے معلوم ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ یہاں صراط مستقیم کی وضاحت کے لیے کچھ ایسے لوگوں کا حوالہ دیا گیا ہے جن پر اس صراط مستقیم کا حق ادا کرنے کے باعث انعام واکرام ہوا۔ حالانکہ اس کی وضاحت کے لیے یہ بات کہی جاسکتی تھی، کہ وہ اللہ اور اس کے رسول کا راستہ ہے تم اسے اختیار کرو۔ تو بجائے صراط اللہ یا صراط الرسول کہنے کے آخر اس تعبیر میں کیا حکمت ہے۔ حقیقت تو اللہ جانتا ہے لیکن معلوم ایسا ہوتا ہے کہ اس میں انسانی فطرت کا لحاظ کیا گیا ہے۔ انسانی فطرت یہ ہے کہ وہ کتابوں سے اس قدر نہیں سیکھتی جس قدر انسانی شخصیات سے متأثر ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ نے انسانوں کی ہدایت کے لیے صرف کتابیں نہیں اتاریں بلکہ نبی اور رسول بھی بھیجے۔ کیونکہ کتاب کے الفاظ انسانی تربیت کے لیے کافی نہیں ہوتے۔ بلکہ انسان تربیت کے لیے انسانی شخصیات کی ضرورت پڑتی ہے۔ ماں کی گود بچے کا پہلا مدرسہ ثابت ہوتی ہے۔ اس مدرسے کے کھینچے ہوئے نقوش دیر پا ثابت ہوتے ہیں۔ اس سے صرف معلومات نہیں ملتیں بلکہ کردار اور صالح احساس ملتا ہے۔ کیونکہ
کورس تو لفظ ہی سکھاتے ہیں
آدمی آدمی بناتے ہیں
اگر صرف صراط اللہ کہا جاتا تو اللہ کے راستے کی تلاش اور اس پر چلنے میں ہزاروں الجھنیں پیدا ہوتیں اسی طرح اگر صراط رسول کہہ دیا جاتا تو وہ بھی وضاحت کے لیے کافی نہ ہوتا۔ کیونکہ رسول کریم ﷺ کی حیات ظاہری ہمیشہ کے لیے نہیں تھی۔ آپ ﷺ کے دنیا سے تشریف لے جانے کے بعد یقینا اس راستے کے تعین میں دشواری ہوتی شاید یہی وجہ ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ سے پوچھا گیا کہ جب یہ امت پچھلی امتوں کی طرح مختلف فرقوں میں بٹ جائے گی تو ان میں سے کون سی جماعت حق پر ہوگی۔ تو آپ ﷺ نے یہاں بھی محسوس انسانوں کا حوالہ دیا تاکہ راستے کے تعین میں دشواری پیش نہ آئے آپ ﷺ نے فرمایا ما انا علیہ و اصحابی ” جس پر میں ہوں اور میرے صحابہ ہیں۔ “ یعنی میرے بعد تمہیں اس راستے پر چلنے میں رہنمائی میرے صحابہ سے ملے گی۔ اب سوال یہ ہے کہ یہاں اللہ تعالیٰ نے جن مخصوص لوگوں کی طرف یہ کہہ کر اشارہ کیا ہے کہ جن پر اللہ نے انعام کیا ہے یعنی وہ اللہ کا انعام یافتہ گروہ ہے وہ کون ہیں ؟ اس کا جواب ایک دوسری آیت کریمہ میں دیا گیا ہے۔ ارشاد فرمایا :
الَّذِیْنَ اَنْعَمَ اللّٰہُ عَلَیْھِمْ مِّنَ النَّبِیّٖنَ وَالصِّدِیْقِیْنَ وَالشُّھَدَآئِ وَالصّٰلِحِیْنَ ج
(النساء : 4۔ 69)
( وہ لوگ جن پر اللہ تعالیٰ کا انعام ہوا وہ انبیاء، صدیقین، شہداء اور صالحین ہیں)
-1 نبی
تو یہ چار طرح کے لوگ ہیں جن پر اللہ تعالیٰ کا انعام ہوتا رہا۔ دنیا میں بھی جن کی حفاظت فرمائی اور عزت اور سرفرازی سے نوازا اور آخرت میں بھی یہی لوگ سربلند ہوں گے۔ تاریخ شاہد ہے کہ طوفان نوح آیا تو کشتی نجات نے ان کو اپنی آغوش میں جگہ دی جو نوح (علیہ السلام) پر ایمان لانے والے اور اس راستے کے مسافر تھے۔ اور جتنے لوگوں نے اس راستے پر چلنے سے انکار کیا وہ سب اس طوفان کی نذر ہوگئے۔ قوم عاد قوم ثمود قوم لوط قوم صالح اور بھی چند قوموں کے انجام تاریخ کے اوراق میں محفوظ ہیں ہر جگہ ایک ہی حقیقت کارفرما نظر آتی ہے۔ کہ انبیا اور ان کے ساتھی بچ گئے اور ان کے مخالفین کو تباہ کردیا گیا۔ اب قیامت تک کے لیے یہی اصول بتادیا گیا کہ وہ لوگ جو راہ راست اختیار کریں گے اور نبی آخر الزمان کے طریقے پر چلیں گے وہ دنیا اور آخرت میں کامیاب ہوں گے اور جو ان کے راستے پر چلنے سے انکار کر دین گے وہ خائب و خاسر ہوں گے اسی لیے قرآن کریم نے آنحضرت ﷺ کی طرف سے یہ اعلان کیا گیا وَاَنَّ ھٰذَا صِرَاطِیْ مُسْتَقِیْمًا فَاتَّبِعُوْہُ ج (الانعام : 6۔ 153) یہ ہے میرا سیدھا راستہ اسی کی پیروی کرو۔ یعنی میں جس راستے کی دعوت دے رہا ہوں جس پر میں خود چل رہا ہوں مجھ پر جو شریعت نازل ہوئی ہے اور جو مجھ پر کتاب اتری ہے اور جسے میں نے اپنے عمل سے سنت بنادیا ہے۔ اور جسے میں نے اپنے جذبے ایثار اور استقامت سے تحریک کی شکل دے دی ہے اور پھر جس طرح مخالفتوں کے ہجوم میں میں نے یقین کی قوت اور اعتماد علی اللہ سے اس تحریک کو آگے بڑھایا اور اپنے اصحاب کو حوصلے کا سامان بخشا ہے اور پھر جس طرح دعوت الی اللہ کو زندگی کا سب سے بڑا سرمایہ اور سب سے بڑی متاع کے طور پر پیش کیا ہے اور جس طرح قدم قدم پر دین کو دنیا پر ترجیح دی اور عبادات کے سوز سے حُبِّ دنیا کے بحران کو سرد کیا ہے اور جس طرح مادی دنیا میں فنا ہونے والوں کو اور دنیوی نعمتوں کے رسیا لوگوں کو آخرت کا مسافر بنایا ہے یہ وہ صراط مستقیم ہے۔ جو شخص اس کی پیروی کرے گا۔ وہی میرا پیروکار ہوگا اور وہی صراط مستقیم پر ہوگا۔ البتہ اس راستے پر چلنے والے سارے یکساں نہیں ہوں گے۔ اور نہ اس راستے پر چلنے والوں کی ضرورتیں اور صفات یکساں ہیں۔ اس لیے تم اپنی ہمت طلب اور ضرورت کے مطابق اس راستے کے رہنما ئوں کو چننا۔ لیکن یہ دیکھنا کہ ان میں سے کسی کا عمل اور طرز عمل میری سنت کے خلاف نہ ہو۔ یعنی تمہیں اپنی رہنمائی اور زندگی بنانے کے لیے ہر دور میں ایسے رہنمائوں کی ضرورت ہوگی جو محسوس شکل میں تمہارے لیے رہنمائی فراہم کرسکیں اور تمہارے لیے نمونہ بن سکیں لیکن انھیں اختیار کرنے سے پہلے یہ ضرور دیکھ لینا کہ ان کا عمل کتاب وسنت کے مطابق ہے یا نہیں وہ تین طرح کے لوگ ہوں گے صدیق، شہید اور صالح۔ اب ہم ہر ایک کی اختصار سے وضاحت کرتے ہیں۔
-2 صدیق :
صدیق صراط مستقیم پر چلنے والے قافلے میں سب سے مخلص سب سے متقی، سب سے زیادہ وفا شعار اور سب سے زیادہ ایثار پیشہ فرد کا نام ہے۔ جو بھی اسلامی تعلیمات پر عمل کرتے ہوئے اس کی معراج کو پہنچنے کی کوشش میں زندگی گزار دے گا وہ صدیق کے مرتبے پر فائز ہوسکتا ہے اس لیے عام طور پر اللہ کے ہر ولی کو صدیق کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ لیکن اسلام کی تاریخ میں حضرت ابو بکرصدیق کا نام چونکہ ایک استعارہ بن گیا ہے اور قرآن کریم کی آیت نے اس لفظ کو ایک اصطلاح کے طور پر استعمال کیا ہے۔ اس لیے اہل علم کا خیال ہے کہ صدیق اصل میں اس عظیم شخصیت کو کہتے ہیں جو کمالات ظاہری کے ساتھ کمالات باطنی میں بھی سب سے بڑھا ہوا ہو اس کا باطن اس قدر مصفا اور مجلا ہو کہ ایمانیات اور احکام شریعت کا عکس اس طرح اس کے باطن پر آسانی سے ثبت ہوجائے جس طرح آئینے کے سامنے اگر شمع جلائی جائے تو شمع جلتے ہی آئینے میں اس کا عکس بھی جل اٹھتا ہے۔ حضرت صدیق اکبر کے بارے میں آنحضرت ﷺ کا ارشاد بھی اس بات کو واضح کرتا ہے آپ ﷺ نے فرمایا کہ میں نے جس کسی کے سامنے بھی اسلام پیش کیا اسے ماننے میں تھوڑا یا زیادہ تردد ضرور پیش آیا لیکن جب میں نے ابوبکر کے سامنے اسلام پیش کیا تو ایسا معلوم ہوا جیسے وہ اس کے لیے پہلے سے تیار تھے۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضور ﷺ کا ہر ارشاد اور حضور ﷺ کا ہر عمل حضور ﷺ کی ہر پسند آپ کے آئینہ ٔ دل کے سامنے شمع کی طرح جل اٹھتی تھی۔ معاہدہ حدیبیہ میں آپ کا حضرت عمر فاروق کو جواب معراج کے واقعہ میں آپ کا قریش مکہ کو جواب اور بعض آیات کے نزول کے وقت فوراً اس کی مراد کو پاجانا ایسی بہت ساری مثالیں آپ کے مقام صدیقیت کو نمایاں کرتی ہیں۔ مشکل اور پرخطر حالات میں استقامت کا ثبوت دینا یوں تو ہر مرد مومن کی صفت ہے لیکن اس لحاظ سے بھی صدیق دوسرے اصحاب ایمان کے لیے نمونہ ہوتا ہے۔ آنحضرت ﷺ کے انتقال پر ملال کے بعد حضرت صدیق اکبر کا طرز عمل اس کی نمایاں شہادت ہے۔ مزید ہم یہ دیکھتے ہیں کہ صفات صدیق میں سب سے بڑی صفت یہ ہوتی ہے کہ وہ ہمیشہ عزیمت پر عمل کرتا ہے اور اللہ اور اس کا رسول اس کے لیے ایسی متاع عزیز بن جاتے ہیں کہ وہ ان کے مقابلے میں جائز سہولتوں سے فائدہ اٹھانا بھی گناہ سمجھتا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ تمام صحابہ نے اللہ کی راہ میں بڑھ چڑھ کر انفاق اور ایثار کیا لیکن اپنے اور اپنے اہل خانہ کے لیے کچھ نہ کچھ بچاکر بھی رکھا لیکن حضرت صدیق اکبر سے جب بھی انفاق کا مطالبہ ہوا تو آپ نے سب کچھ اٹھاکر بارگاہ رسالت میں پیش کردیا۔ یہی وہ مقام صدیقیت ہے جس کے لیے بطور اصطلاح یا استعارہ یہاں قرآن کریم نے اس لفظ کو استعمال کیا ہے۔ اور یہ ایک جامہ ہے جو حضرت صدیق اکبر پر راست آتا ہے۔ ٹھیک کہا اقبال نے :
پروانے کو چراغ ہے بلبل کو پھول بس
صدیق کے لیے ہے خدا کا رسول بس
-3 شہید :
شہید کا معنی تو گواہ ہوتا ہے لیکن یہ لفظ بھی قرآن کریم میں بطور اصطلاح استعمال ہوا ہے۔ اس کا مفہوم یہ ہے کہ وہ شخص جو صرف اللہ کی خوشنودی کی خاطر اللہ کے کلمے کو بلند کرنے یا اسلامی ملک کے تحفظ کی خاطر یا مسلمانوں کے دفاع میں جان دے دیتا ہے، اس کو شہید کہتے ہیں۔ لیکن ایک دوسرے پہلو سے اس کے لفظی معنی اور اس کے اصطلاحی معنی میں یکسانیت بھی پیدا ہوجاتی ہے۔ وہ اس طرح کہ جو آدمی اللہ کی دین کی سربلندی کے لیے سر کٹواتا ہے۔ وہ درحقیقت اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ اللہ کے اس دین کی سچائی اور حقانیت میں کوئی شبہ نہیں کیونکہ اگر اس دین کی سچائی میں کوئی شبہ ہوتا تو میں اپنی زندگی جیسی انمول متاع کو کبھی اس پر قربان نہ کرتا۔ آدمی کسی چیز کی صداقت کے لیے تین طریقوں سے گواہی دیتا ہے۔ کبھی اپنی زبان سے اس کے حق میں کلمہ تائید کہہ کر اور کبھی اپنے عمل سے اسے اپنی زندگی کا طرزعمل بناکر اور کبھی اس کے لیے مال ومتاع اور بدرجہ آخر جان دے کر، زبان سے دی ہوئی گواہی میں شبہ کیا جاسکتا ہے۔ عمل پر بھی الزام دھرا جاسکتا ہے۔ لیکن جو آدمی اپنا سب کچھ حتیٰ کے زندگی بھی کسی صداقت پر قربان کردیتا ہے اس پر شبہ کرنا سنگدلی یا کو رذوقی کے سوا کچھ نہیں۔ یہاں ایسے ہی لوگوں کا تذکرہ کیا جارہا ہے کہ وہ لوگ جو اپنا سب کچھ اللہ کے راستوں میں قربان کردیتے ہیں وہ اللہ کے ایسے گواہ ہیں جن سے دین کو قوت ملتی ہے۔ انسانیت کو جلا ملتی ہے اور تاریخ آئندہ نسلوں کے لیے اسے ایک نمونے کے طور پر پیش کرتی ہے۔ کیونکہ انھوں نے اپنا خون دیکر ایک ایسی روشنی مہیا کی ہے جو تادیر تاریکیوں کو کافور کرتی رہے گی۔
بنا کردند خوش رسمے بخاک وخون غلطیدن
خدا رحمت کند ایں عاشقانِ پاک طینت را
-4 صالحین :
یہ صالح کی جمع ہے، اس کا معنی ہے نیکوکار۔ یعنی ایسا آدمی جو اپنے طرز عمل سے نیکی کی علامت بن جاتا ہے۔ یہ بھی شریعت کی اصطلاح ہے۔ اسے قرآن کریم نے مختلف جہتوں سے استعمال کیا ہے۔ لیکن ہم اس کا صرف عام معنی عرض کررہے ہیں۔ ایک ایسا شخص جو فرائض، واجبات، اور مستحبات کا پابند، آداب شریعت کا لحاظ رکھنے والا، حقوق العباد کا ادا کرنے والا اور دین کے تقاضوں کو بجالانے والاہو، اسے صالح کہتے ہیں۔
ان تینوں اصطلاحات کے ذکر کرنے سے مقصود یہ معلوم ہوتا ہے کہ صراط مستقیم، اللہ اور اس کے رسول ﷺ کا راستہ ہے۔ لیکن اس پر چلتے ہوئے تمہارے سامنے یہ تین طرح کے معیارات رہنے چاہیئں۔ تمہیں عام زندگی میں ایک صالح آدمی کی طرح زندگی گزارنا چاہیے۔ لیکن اگر کبھی اسلامی حمیت یا اسلامی ضرورت قربانی و ایثار کا تقاضا کرے تو سر کٹوانے سے بھی دریغ نہیں کرنا چاہیے۔ لیکن تمہارا اصل ہدف اس زندگی کا حصول ہے جس میں شہادت کی تڑپ اور حسن عمل کے نور کے ساتھ ساتھ آئینہ دل ایسی آب وتاب رکھتا ہو جس میں قرآن وسنت کے احکام اور اس راستے پر چلنے والوں کے اتباع کے سوا کوئی اور جذبہ اپنی جگہ نہ بناسکے۔ یہی وہ دل ہے جس پر بالآخر اللہ کے انوار اور رحمتوں کی بارش ہوتی ہے۔
صراطِ مستقیم کی اس مثبت وضاحت کے بعد جس میں اس راستے پر چلنے والے ان نمائندہ لوگوں کا بھی ذکر کیا گیا ہے جن کی حیثیت اس راستے کے رہنمائوں کی بھی ہے اور سنگ ہائے میل کی بھی۔ جن سے تایخ کے ہر دور میں اس راستے پر چلنے والے فائدہ اٹھاتے رہے ہیں اور اٹھاتے رہیں گے۔ کیونکہ مسلمانوں کی تاریخ کا کوئی دور ایسا نہیں گزرا جب یہ تینوں نمونے مسلمانوں میں موجود نہ رہے ہوں۔ البتہ اس راستے کے ہر مسافر کے لیے انھیں تلاش کرنا ضروری ہے کیونکہ کوئی بھی قابل قدر نعمت کبھی تلاش کیے بغیر نہیں ملا کرتی۔
ہر مسافر کے لیے جس طرح راستے کی پہچان اور راہنمائوں کی شناخت ضروری ہے اسی طرح یہ بھی ضروری ہے کہ راستے کی مشکلات اور منفی قوتوں کا بھی اسے علم ہو جو راستے میں اس کے لیے مشکلات کا باعث بن سکتی ہیں یا اس کے بہکانے کی کوشش کرسکتی ہیں۔ اسی طرح ان منفی قوتوں کے نمائندوں کی شناخت بھی ہونی چاہیے اور یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ جو لوگ صراط مستقیم چھوڑ کر دوسرے راستوں پر چلتے رہے ان کا انجام کیا ہوا۔ چناچہ اس ضرورت کو پورا کرنے کے لیے ارشاد فرمایا : غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلاَالضَّآلِیْنَ ۔ ع (الفاتحہ : 7) ” جو نہ مغضوب ہوئے نہ گمراہ “۔
آیت نمبر 7 مَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ
مَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ سے مراد دو قسم کے لوگ ہیں۔ ایک وہ جن پرا للہ تعالیٰ نے اپنی شریعت کی نعمت نازل فرمائی لیکن انھوں نے سرکشی کے سبب نہ صرف یہ کہ اس کو قبول نہیں کیا بلکہ اس کی مخالفت کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے اور جن لوگوں نے اس کو ان کے سامنے پیش کیا ان کی بیخ کنی کی اور قتل کے درپے ہوئے جن کی پاداش میں ان پر اللہ کا غضب نازل ہوا اور وہ ہلاک کردیئے گئے۔
دوسرے وہ لوگ جنھوں نے قبول تو کیا لیکن دل کی آمادگی کے ساتھ نہیں بلکہ مارے باندھے قبول کیا، پھر بہت جلد شہوات نفس میں پڑ کر انھوں نے اس کے کچھ حصہ کو ضائع کردیا، کچھ حصہ میں کتر بیونت کرکے اس کو اپنی خواہشات کے مطابق بنالیا اور جن لوگوں نے ان کا ہاتھ پکڑنے کی کوشش کی یا ان کو صحیح راستہ پر لانا چاہا انھوں نے ان میں سے بعض کو جھٹلادیا اور بعض کو قتل کردیا۔ پچھلی امتوں میں اس کی سب سے واضح مثال یہود ہیں۔ چناچہ ان کے معتوب ومغضوب ہونے کا ذکر قرآن میں تصریح کے ساتھ ہوا بھی ہے۔ مثلاً :
مَنْ لَّعَنَہُ اللّٰہُ وَغَضِبَ عَلَیْہِ وَجَعَلَ مِنْھُمُ الْقِرَدَۃَ وَالْخَنَازِیْرَ (مائدہ : 5۔ 60)
(جن پر اللہ نے لعنت کی اور جن پر اس کا غضب ہوا اور جن کے اندر سے اس نے بندر اور خنزیر بنائے )
وَضُرِبَتْ عَلَیْھِمُ الذِّلَّۃُ وَالْمَسْکَنَۃُ ق وَبَآئُ وْبِغَضَبٍ مِنَ اللّٰہِ (البقرۃ : 2۔ 61۔ بقرۃ)
(اور ان پر ذلت اور مسکنت تھوپ دی گئی اور وہ اللہ کا غضب لے کرپلٹے)
ضَّآلِیْنَ سے مراد
ضَآلِیْنَ سے مراد وہ لوگ ہیں جنھوں نے اپنے دین میں غلو کیا، جنھوں نے اپنے پیغمبر کا رتبہ اتنا بڑھایا کہ اس کو خدا بنا کر رکھ دیا، جو صرف انہی عبادتوں اور طاعتوں پر قانع نہیں ہوئے۔ جو اللہ اور اللہ کے رسول نے مقرر کی تھیں۔ بلکہ اپنے جی سے رہبانیت کا ایک پورا نظام کھڑا کردیا۔ جنھوں نے اپنے اگلوں کی ایجاد کی ہوئی بدعتوں اور گمراہیوں کی آنکھ بند کرکے پیروی کی اور اس طرح صراط مستقیم سے ہٹ کر گمراہی کی پگڈنڈیوں پر نکل گئے۔ پچھلی امتوں میں سے اس کی نہایت واضح مثال نصاریٰ ہیں۔ چناچہ قرآن مجید نے انہی وجوہ کی بنا پر جن کا ہم نے اوپر ذکر کیا ہے ان کو گمراہ اور گمراہ کرنے والے قرار دیا ہے۔ مثلاً :
یٰٓاَھْلَ الْکِتٰبِ لاَ تَغْلُوْا فِیْ دِیْنِکُمْ غَیْرَالْحَقِّ وَلاَ تَتَّبِعُوْ ٓااَھْوَآئَ قَوْمٍ قَدْضَلُّوْامِنْ قَبْلُ وَاَضَلُّوْاکَثِیْرًا وَّضَلُّوْا عَنْ سَوَآئِ السَّبِیْلِ ۔ ع (المائدہ : 5۔ 77)
(کہہ دو اے اہل کتاب ! تم اپنے دین میں ناحق غلو نہ کرو اور ان لوگوں کی خواہشوں وبدعتوں کی پیروی نہ کروجو پہلے سے گمراہ چلے آرہے ہیں اور جنھوں نے بہتوں کو اللہ کے راستہ سے بھٹکایا اور جو خود بھی اس کے رستہ سے بھٹکے)
مَغْضُوْبِ اور ضَّآلِیْنَ کی مثال دینے سے مقصود کیا ہے ؟
یہ دو طرح کے لوگ جن کی نشاندہی ہماری دعا کے جواب میں بطور خاص اس لیے فرمائی گئی ہے کہ اے امت مسلمہ کے لوگوجس طرح تم ایک حامل دعوت امت ہو اور جس طرح تم پر آخری کتاب اتری ہے اسی طرح ان لوگوں پر بھی اللہ کی کتابیں اتری تھیں۔ انھیں حامل دعوت امتیں بنایا گیا تھا۔ انھیں رہنمائی دینے کے لیے اللہ کے نبی اور رسول آتے رہے اور بالکل انہی ذمہ داریوں سے انھیں گراں بار کیا گیا تھا جو ذمہ داریاں تمہارے حوالے کی گئی ہیں ان لوگوں نے جب اپنی ذمہ داریاں ادا نہ کیں وہ یا تو انبیا و رسل کی دشمنی اور اللہ کی شریعت کی نافرمانی کے باعث اللہ کے غضب کے مستحق ہوئے اور یا اللہ کے نبیوں کی محبت میں غلو کے باعث شرک اور بدعات و خرافات کے ارتکاب کے مجرم ٹھہرے۔ یعنی یا تو انھیں شریعت کی دشمنی لے بیٹھی اور یا اللہ کے نیک بندوں کی محبت میں حد سے بڑھ جانا ان کی تباہی کا باعث بنا۔ دیکھنا تم یہ رویہ اختیار نہ کرنا تم آخری امت ہو آخری کتاب تم پہ نازل ہوچکی آخری رسول ﷺ تمہاری طرف مبعوث ہوچکے۔ تمہاری ہدایت کے لیے اب کوئی اور آنے والا نہیں آئے گا۔ اگر تم نے اپنی ذمہ داریوں میں کوتاہی برتی اور اللہ کی زمین پر اللہ کے دین کو غالب کرنے میں کمزوری دکھائی اور تم انہی راہوں میں چلے جن راہوں میں پہلی قومیں چل کر تباہ ہوئیں تو یاد رکھنا تم اس انجام سے نہیں بچ سکو گے جس انجام سے وہ دوچار ہوچکے ہیں۔ تمہاری عافیت، سرفرازی اور بقاء کا ایک ہی راستہ ہے کہ تم ان لوگوں کے راستوں پر چلو جن پر اللہ کا انعام ہوا، تاکہ تم بھی ان انعامات کے مستحق ٹھہرو۔
خلاصہ سورة
اس دعا پر یہ سورة تمام ہوجاتی ہے۔ اس کی تفصیلات اپنی ناچیز صلاحیت کے مطابق میں نے پیش کی ہیں۔ اب آپ پلٹ کر ان تفصیلات کو ذہن میں رکھتے ہوئے اس مختصر لیکن مقتدر سورة کو دیکھئے کہ سات چھوٹے چھوٹے بول ہیں اور ہر بول پانچ لفظوں سے زیادہ نہیں اور ہر لفظ صاف اور دلنشین معنی کا نگینہ ہے جو اس انگوٹھی میں جڑ دیا گیا ہے۔ پروردگار عالم کو مخاطب کرکے ان صفتوں سے پکارا گیا ہے جن کا جلوہ شب وروز انسان کے مشاہدے میں آتارہتا ہے۔ اگرچہ اپنی جہالت اور غفلت سے انسان اس میں غور وفکر نہیں کرتا۔ اس کے بعد اس کی بندگی کا اقرار ہے، اس کی مدد اور نصرت کا اعتراف ہے اور زندگی کی لغزشوں سے بچ کر سیدھی راہ پر چلنے کی طلب گاری ہے۔ کوئی مشکل خیال نہیں، کوئی انوکھی بات نہیں، کوئی عجیب و غریب راز نہیں۔ اب کے ہم بار بار یہ سورة پڑھتے رہتے ہیں اور صدیوں سے اس کے مطالب نوع انسانی کے سامنے ہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ گویا ہمارے دینی تصورات کی ایک بہت ہی معمولی سی بات ہے لیکن یہی معمولی بات جس وقت تک دنیا کے سامنے نہیں آئی تھی اس سے زیادہ کوئی غیر معلوم اور ناقابل حل بات بھی نہ تھی۔ بظاہر یہ نہایت سلیس، سادہ اور دلنشین اندازِ بیان ہے۔ لیکن حقیقت میں اس کا ایک ایک لفظ دین حق کے کسی نہ کسی اہم مقصد کو واضح کررہا ہے۔ جس کا اندازہ آپ کو کسی نہ کسی حد تک گزشتہ تفصیلات سے ہوچکا ہوگا۔ اس کے ساتھ ساتھ جب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ اس سورة کا پیرایہ دعائیہ ہے تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہر راست باز انسان جو خدا پرستی کی راہ میں قدم اٹھاتا ہے اس کے دل سے اٹھنے والی آواز اور اس کے انگ انگ سے اٹھنے والی امنگ اگر الفاظ کا قالب اختیار کرلے تو اس کا انداز یقینا اس سے مختلف نہیں ہوگا۔ یہ سورة بظاہر فصاحت و بلاغت کا نادر روزگار مرقع ہے۔ لیکن بباطن خدا پرستی کے فکر و وجدان کا ایک ایسا سرجوش ہے جو ایک طالب صادق کی زبان پر بےاختیار ابل پڑا ہے۔ اور اس سے بھی زیادہ سرخوشی سے جھوم اٹھنے والی بات یہ ہے کہ جیسے ہی ایک بندہ سوز و گداز میں ڈوب کر ان کلمات کے ذریعے اپنے رب سے صراط مستقیم کی دعا کرتا ہے تو اس کا رب اس کے جواب میں پورا قرآن اس کے سامنے رکھ دیتا ہے کہ یہ ہے وہ ہدایت و رہنمائی جس کی دعا تو نے مجھ سے کی ہے۔
حدیث میں آتا ہے کہ جب بھی آدمی سورة فاتحہ کی صورت میں اپنے اللہ سے دعا کرے نماز کے اندر کرے یا نماز کے باہر تو آخر میں ” آمین “ ضرور کہے۔ یہ سورة فاتحہ کا حصہ تو نہیں لیکن اس کا کہنا سنت ہے۔ اس کے کہنے سے آنحضرت ﷺ کے ارشاد کے مطابق دعا کی قبولیت کا امکان بڑھ جاتا ہے۔ وَمَا عَلَیْنَآ اِلاَّالْبَلٰغُ الْمُبِیْنُ