بقیہ تفسیر پچھلی آیت کی۔
نفخ ثانیہ کے بعد کی تفصیلات
گزشتہ معروضات میں آپ نے قیامت کے احوال کی تفصیل اور اس کے واقع ہونے کے دلائل ملاحظہ فرمائے۔ اب میں چاہتا ہوں کہ قیامت کے دوسرے مرحلے کے وقوع پذیر ہونے کے بعد جب از سر نو زندگی کی ہماہمی شروع ہوگی اس وقت کی کیفیت اور اس کی تفصیلات کا ذکر کروں۔ آپ نے یہ سنا ہوگا کہ انسان اپنی قبروں سے جسموں سمیت اٹھائے جائیں گے۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا ان کے یہ جسم جن کے ساتھ وہ میدان حشر میں پہنچیں گے وہی ہوں گے، جو انھیں دنیا میں دیئے گئے تھے یا یہ اجسام اور ہوں گے ؟ حقیقت یہ ہے کہ اجسام وہ نہیں ہوں گے، جو دنیا میں انھیں دیئے گئے تھے۔ بلکہ یہ اجسام ان کے اعمال کا ظل اور عکس ہوں گے۔ یعنی جیسے اعمال ہوں گے، ویسے ہی ان کو جسم عنایت ہوں گے۔ چناچہ اس دنیا کے جسمانی رنگ کے لحاظ سے خواہ کوئی کالا ہو یا گورا مگر اس دنیا میں اس کا یہ کالا پن اور گورا پن اعمال کی سیاہی اور سفیدی کی صورت میں بدل جائے گا۔ قرآن کریم سورة عبس میں کہتا ہے : وُجُوْہٌ یَّوْمَئِذٍمُّسْفِرَۃٌ۔ لا ضَاحِکَۃٌ مُّسْتَبْشِرَۃٌ۔ ج وَوُجُوْہٌ یَّوْمَئِذٍعَلَیْھَا غَبَرَۃٌ۔ لا تَرْھَقُھَا قَتَرَۃٌ۔ ط (عبس 80: 38۔ 41) ” کتنے چہرے اس دن روشن ‘ ہنستے اور شاد ہوں گے اور کتنے چہروں پر کدورت ہوگی اور ان پر سیاہی چھائی ہوگی۔ “
سورة آل عمران آیت 11 میں فرمایا گیا : یَّوْمَ تَبْیَضُّ وُجُوْہٌ وَّتَسْودُّ وُجُوْہٌ فَاَمَّا الَّذِیْنَ اسْوَدَّتْ وُجُوْھُمْ قف اَکْفَرْتُمْ بَعْدَ اِیْمَانِکُمْ فَذُوْقُوا الْعَذَابِ بِمَا کُنْتُمْ تَکْفُرُوْنَ ۔ لا وَاَمَّا الَّذِیْنَ ابْیَضَّتْ وُجُوْھُھُمْ فَفِیْ رَحْمَۃِ اللہِ ھُمْ فِیْھَا خٰلِدُوْنَ ۔ (3: 106۔ 107) ” اس دن کتنے چہرے سفید ہوں گے اور کتنے کالے۔ لیکن جن کے چہرے کالے ہوئے (ان سے پوچھا جائے گا کیا تم وہ ہو جو ایمان کے بعد کافرہو گئے تھے تو اپنے کفر کے بدلے عذاب کا مزا چکھو۔ ) جن کے چہرے سفید ہوئے وہ اللہ کی رحمت میں ہوں گے وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔ “
صحیح احادیث میں ہے کہ جنت میں سب لوگ جوان بن کر داخل ہوں گے ان کے جسم پر کبھی بڑھاپا نھیں آئے گا ان کا قد حضرت آدم (علیہ السلام) کے اولین بہشتی قد کے مطابق ہوگا۔ دوزخیوں میں سے کسی کا سر پہاڑ کے برابر ہوگا اور کسی کا ایک پہلو مفلوج ہوگا۔ کسی کے ہونٹ لٹکے ہوں گے ‘ دل کے اندھے ‘ آنکھوں کے اندھے بن کر اٹھیں گے۔ سزائوں کے بعد جب ان کے جسم چور چور ہوجائیں گے تو پھر صحیح اور سالم نئے جسم نمودار ہوں گے اور پھر ان کی وہی کیفیت ہوگی یہ بھی حدیث میں آیا ہے کہ جو اپنے آپ کو بڑے سمجھتے ہیں وہ چیونٹی بن کر قیامت میں اٹھیں گے۔
ان تمام شواہد سے ظاہر ہوتاے کہ اس دنیا کے جسمانی قالب ہمارے اس دنیاوی جسم کے مطابق نہیں بلکہ ہمارے دنیاوی اعمال کے مطابق ہوں گے۔ اب انسانوں کو اس میدان میں لے جایا جائے گا جہاں اللہ کی عدالت ہوگی اور ان کے سامنے وہ مرحلہ درپیش ہوگا جس کے لیے قیامت برپا کی گئی یعنی ان کا حساب کتاب شروع ہوگا۔ نیک لوگ اپنے اچھے اعمال کی جزا پائیں گے اور برے لوگوں کو اپنے برے اعمال کی سزا ملے گی۔ اس حساب و کتاب کے سلسلہ میں جو باتیں قرآن و سنت سے واضح ہوتی ہیں ان میں سے پہلی بات یہ ہے کہ ہر آدمی کو اس کا نامہ عمل دیا جائے گا اور وہ نامہ عمل ایسا ہوگا جس میں کوئی چھوٹی بڑی بات چھوٹنے نہیں پائے گی بلکہ وہ اس کی زندگی کا روزنامچہ ہوگا جس میں ایک ایک لمحے کی تفصیل موجود ہوگی۔
قرآن کریم سورة کہف آیت چھ میں کہتا ہے : وَوُضِعَ الْکِتٰبُ فَتَرَی الْمُجْرِمِیْنَ مُشْفِقِیْنَ مِمَّا فِیْہِ وَ یَقُوْلُوْنَ یٰـوَیْلَتَنَا مَالِ ھٰذَا الْکِتٰبِ لاَ یُغَادِرُ صَغِیْرَۃً وَّلاَ کَبِیْرَۃً اِلاَّ ٓاَحْصٰھَا وَوَجََدُوْا مَاعَمِلُوْا حَاضِرًا ط وَلاَ یَظْلِمُ رَبُّکَ اَحَدًا۔ ع (18۔ 49) ” اور نامہ اعمال رکھ دیا جائے گا پس تو گنہگاروں کو دیکھے گا کہ اس میں جو کچھ لکھا ہوگا اس سے وہ ڈر رہے ہوں گے اور کہیں گے کہ ہائے افسوس اس نامہ اعمال کو کیا ہے کہ چھوٹی بڑی بات تک نہیں چھوڑتا۔ بلکہ اس کو شمار کرتا ہے اور جو کچھ انھوں نے زندگی میں کیا اس کو وہ سامنے پائیں گے اور تیرا پروردگار کسی پر ظلم نہیں کرے گا۔ “
نامہ اعمال کی نوعیت
اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ نامہ عمل کیا ہے اور یہ کیسے ممکن ہے کہ زندگی میں گزارا ہوا ایک ایک لمحہ اپنی تفصیل سمیت زندہ رہے اور قیامت کے دن ہر آدمی کے حق میں یا اس کے خلاف پیش کیا جائے۔ اس کے بارے میں چند باتیں بالکل واضح ہیں۔
1 ہمیں قرآن کریم یہ بتاتا ہے کہ انسان کی زبان سے جب کوئی لفظ نکلتا ہے یا جب وہ کوئی عمل کرتا ہے خواہ یہ قول یا عمل کتنا ہی تنہائی میں وقوع پذیر کیوں نہ ہوا ہو اللہ کے مقرر کردہ فرشتے ہر وقت موجود ہوتے ہیں جو اسے سن کر یا دیکھ کر محفوظ کرلیتے ہیں۔ سورة ق میں ارشاد ہوتا ہے : اِذْ یَتَلَقَّی الْمُتَلَقِّیٰنِ عَنِ الْیَمِیْنِ وَعَنِ الشِّمَالِ قَعْیِدٌ۔ مَایَلْفِظُ مِنْ قَوْلٍ اِلاَّ لَدَیْۃِ رَقِیْبٌ عَتِیْدٌ۔ (50: 17۔ 18) ” اس وقت کو یاد کرو کہ جب دو لینے والے دائیں اور بائیں بیٹھے محفوظ کر رہے ہوتے ہیں “۔ اور بولنے والا کوئی بات نہیں بولتا مگر نگران اس کے پاس حاضر رہتا ہے۔ یعنی اس طرح دو عینی گواہ جوہر وقت ہمارے ساتھ موجود رہتے ہیں وہ قیامت کے دن اپنا نوشتہ اللہ کے سامنے اور اللہ کے حکم سے ہر ایک کو پیش کریں گے۔ یہ بھی قرآن کریم ہمیں بتاتا ہے کہ جن کو نامہ عمل دائیں ہاتھ میں دیا جائے گا وہ ان کی سعادت کی علامت ہوگا۔ اس لیے وہ اسے پا کر خوش و خرم ہوں گے۔ لیکن جن لوگوں کو یہ نامہ عمل بائیں ہاتھ میں دیا جائے گا وہ ان کی بدبختی اور شقاوت کی علامت ہوگا وہ اسے لے کر سر پیٹ لیں گے۔
سورة بنی اسرائیل میں کہا گیا : وَکُلَّ اِنْسَانٍ اَلْزَمْنٰـہُ طَآئِرَہٗ فِیْ عُنُقِہٖ وَنُخْرِجُ لَہٗ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ کِتٰبـًا یَّلْقٰـہُ مَنْشُوْرًا۔ اِقْرَاْ کِتٰبـَکَ ط کَفٰی بِنَفْسِکَ الْیَوْمَ عَلَیْکَ حَسِیْبًا۔ (17: 13۔ 14) ” ہم نے ہر انسان کا نتیجہ یعنی (اس کا نامہ عمل) اس کی گردن میں چپکا دیا ہے اور قیامت کے دن ہم اس کا رجسٹر نکالیں گے جس کو وہ کھلا ہوا پائے گا۔ (اسے یہ کہا جائے گا) کہ اپنا یہ نامہ عمل پڑھ لے آج تو خود ہی اپنے حساب کے لیے کافی ہے۔ “
قرآن کریم کے اس بیان سے یہ بات تو واضح ہوگئی کہ ہمیں محفوظ حالت میں اللہ کی قدرت سے ایک نوشتہ اور نامہ عمل دیا جائے گا اور ہم اسے خود پڑھ سکیں گے۔
لیکن ہم اگر آج کی جدید دنیا میں نئی ایجادات کے حوالے سے دیکھیں جن میں سب سے نمایاں ٹیلی ویژن کی ایجاد ہے تو کیا ہم اس میں گزرے ہوئے لوگوں کو اپنی آنکھوں سے چلتا پھرتا ‘ بولتا چالتا نہیں دیکھتے ؟ جو لوگ عرصہ دراز سے دنیا سے رخصت ہوچکے ہیں اور ان کی فلمیں محفوظ ہیں ہم جب چاہیں ٹیلی ویژن کی مدد سے ان کی آواز سن سکتے ہیں انھیں اپنی آنکھوں سے دیکھ سکتے ہیں۔ اگر انسانی ایجاد یہ کارنامہ انجام دے سکتی ہے تو قدرت کے لیے اس میں کیا مشکل ہے کہ وہ پوری فضا کو پردہ سکرین میں تبدیل کر دے اور ہماری کہی ہوئی باتیں اور کیے ہوئے اعمال کی اس محفوظ فلم کو جو اس کے پاس محفوظ ہے، پردہ سکرین پر جاری کر دے اور وہاں ہر دیکھنے والا اس پردہ سکرین پر اپنے اعمال کو دیکھے اور اپنے اقوال کو سنے۔ بلکہ اگر ہم مزید غور کریں تو سائنس ہمیں یہ بتاتی ہے کہ یہ فضا اس قدر حساس واقع ہوئی ہے کہ اس میں ہر کہا ہوا بول محفوظ ہے اور ہر کیا ہوا کام دیکھا جاسکتا ہے۔ ضرورت صرف اس بات کی ہے کہ کوئی موجد اپنی نئی ایجاد سے یہ کارنامہ انجام دے دے۔ ممکن ہے یہ بات انسان کی بساط سے باہرہو اور دنیا میں کبھی ایسا نہ ہو سکے لیکن میں محض تسہیل و توضیح مدعا کے لیے ایک مثال عرض کرتا ہوں۔
اگر ایک پرسکون جھیل میں آپ ایک کنکر پھینکیں تو آپ دیکھیں گے کہ سطح آب پر ایک دائرہ سا بن جائے گا جو جھیل کے کنارے تک پھیلتا چلا جائے گا۔ یہ کائنات اس جھیل سے بھی زیادہ حساس ہے جہاں ہمارے ہر عمل سے ہر جنبش سے بلکہ خیال تک سے لہریں اٹھتی اور پھیلتی چلی جاتی ہیں۔ چونکہ کائنات کا کوئی ساحل نہیں اس لیے یہ لہریں سدا باقی رہیں گی اگر ہم کوئی ایسا ٹیلی ویژن ایجاد کرلیں جو ان لہروں کو صوت و حرکت میں بدل سکے تو ہر شخص کا پورا اعمال نامہ ایک فلم کی طرح ہمارے سامنے آجائے گا۔ اس آیت کریمہ میں غالباً اس حقیقت کی طرف اشارہ ہے :
اَلْیَوْمَ نَخْتِمُ عَلٰٓی اَفْوَاھِھِمْ وَتُکَلِّمُنَآ اَیْدِیْھِمْ وَتَشْھَدُ اَرْجُلُھُمْ بِمَا کَانُوْا یَکْسِبُوْنَ (36۔ 65) ” قیامت کے دن ہم ان کے منہ بند کردیں گے اور ان کے اعمال کی داستان ان کے ہاتھ اور پائوں سنائیں گے۔ اس آیت سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اعضاء بھی ہمارے حق میں یا ہمارے خلاف گواہی دیں گے بلکہ ہماری کھال تک ہمارے اعمال بد پر گواہی دے گی۔ قرآن کریم میں سورة حم السجدہ میں کہا گیا : وَیَوْمَ یُحْشَرُ اَعْدَآئُ اللہِ اِلٰی النَّارِ فَھُمْ یُوْزَعُوْنَ ۔ حَتّٰیٓ اِذَا مَاجَآئُ وْھَا شَھِدَ عَلَیْھِمْ سَمْعُھُمْ وَاَبْصَارُھُمْ وَجُلُوْدُھُمْ بِمَاکَانُوْا یَعْمَلُوْنَ وَقَالُوْا لِجُلُوْدِھِمْ لِمَ شَہِدْتُّمْ عَلَیْنَا قَالُوْآ اَنْطَقَنَا اللہ ُ الَّذِیْ ٓ اَنْطَقَ کُلَّ شَیْ ئٍ ۔ (41: 19۔ 21) ” جس دن خدا کے دشمن دوزخ کی طرف ہانکے جائیں گے اور وہ درجہ بدرجہ تقسیم کردیئے جائیں گے یہاں تک کہ جب وہ اس کے پاس پہنچیں گے تو ان کے کان ‘ آنکھیں اور ان کی کھالیں ان پر ان کے کرتوتوں کی گواہی دیں گی تو وہ اپنی کھالوں سے کہیں گے کہ تم نے ہم پر گواہی کیوں دی ؟ تو وہ بولیں گی کہ جس اللہ نے ہر چیز کو قوت گویائی بخشی ہے آج اسی نے ہمیں بھی بولنے کا حکم دیا ہے مزید ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہاں ہر عمل مخصوص شکل میں لایا جائے گا۔ جس کا ایک وزن ہوگا اب اس کی کمی بیشی کے لیے یا بوجھل اور ہلکے پن کو جاننے کے لیے میزان رکھا جائے گا۔ تو پھر جن کے وزن ہلکے ہوں گے وہ جہنم کا ایندھن بنیں گے اور جس کا وزن بھاری ہوگا وہ جنت کی نعمتوں سے سرفراز ہوگا۔
قرآن کریم سورة اعراف میں کہتا ہے : وَالْوَزْنُ یَوْمَئِذٍ نِ الْحَقُّ ج فَمَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِیْنُـہٗ فَاُوْلٰٓئِکَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ ۔ وَمَنْ خَفَّتْ مَوَازِیْنُـہٗ فَاُوْلٰٓئِکَ الَّذِیْنَ خَسِرُوْا اَنْفُسَھُمْ ۔ (الاعراف 7: 8۔ 9) ” اور اس دن وزن کرنا حق ہے پھر جس کی تولیں بھاری ہوئیں تو یہ وہ لوگ ہیں جو فلاح کو پہنچیں گے اور جن کی تولیں ہلکی ہوئیں یہ وہ ہیں جو اپنی جانوں کا نقصان کر بیٹھے ہیں۔
سورة القارعہ میں فرمایا : فَاَمَّا مَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِیْنُـہٗ فَھُوَ ۔ لا فِیْ عِیْشَۃٍ رَّاضِیَہٍ ۔ ط وَاَمَّا مَنْ خَفَّتْ مَوَازِیْنُہٗ ۔ لا فَاُمُّہٗ ھَاوِیَۃُ ۔ ط (القاریہ 101: 6۔ 9) ” آج جس کا تول بھاری ہو تو وہ عیش کی زندگی میں ہوگا اور جس کا تول ہلکا ہوا اس کا ٹھکانہ دوزخ ہے۔
تو حساب کتاب کے اس مرحلے سے گزرنے کے بعد لوگ اپنے اپنے اعمال کے مطابق جنت یا جہنم میں داخل کردیئے جائیں گے۔ البتہ ان لوگوں میں سے جنھوں نے کفر اور شرک کا رویہ اختیار کیا ہوگا ان کو تفصیلی حساب کتاب کی ضرورت نہ ہوگی کیونکہ اس جرم کے بعد باقی کوئی نیکی اپنا اعتبار نہیں رکھتی اس لیے ان کو سیدھا جہنم میں بھیج دیا جائے گا اور وہ ہمیشہ کے لیے جہنم میں رہیں گے اور کبھی ان کو معافی نہیں ملے گی۔ قرآن کریم کہتا ہے : اِنَّ اللہ َ لاَ یَغْفِرُ اَنْ یُّشْرَکَ بِہٖ وَیَغْفِرُمَادُوْنَ ذٰلِکَ لِمَنْ یَّشَآئُ ۔ ج (النساء : 4۔ 48) ’ ’ بیشک اللہ تعالیٰ اس آدمی کو کبھی نہیں بخشے گا جس نے اس کے ساتھ شرک کیا اس کے علاوہ جسے چاہے گا بخش دے گا “۔
سزا و جزا کا ہندوانہ نظریہ
لیکن یہ حساب کتاب جس میں نیکی کی جزا اور بدی کے سزا ہے اس طرح کا غیر معقول ‘ غیر منطقی اور اللہ کی رحمت کے بالکل برعکس نہیں ہے جس طرح کا تصو ربعض دیگر مذاہب میں پایا جاتا ہے۔ یہودیت اور عیسائیت نے بھی اس میں بہت کچھ ٹھوکریں کھائی ہیں اور قدم قدم پر غلطیاں کی ہیں لیکن ہندومت نے تو اس کو نامعقولیت اور غیر منطقی انجام کی انتہا تک پہنچا دیا ہے۔ اس کی ہم تفصیل سید سلیمان ندوی ( رح) کی سیرۃ النبی سے نقل کرتے ہیں۔
” درحقیقت مذاہب کا حقیقی تعلق اس عقیدہ سے ہے کہ انسان اپنے اعمال کا ذمہ دار ہے اور اچھا یا برا جیسا کام اس سے صادر ہوتا ہے اس کے مطابق اچھا یا برا بدلہ اس کو دوسری دنیا میں ضرور ملے گا۔ اس عقیدہ کا نشان مصر و بابل جیسی دنیا کی قدیم قوموں میں بھی ملتا ہے۔ ہندوستان کے مذاہب میں اس دوسری دنیا کو دوسرے جنم سے تعبیر کیا گیا ہے ‘ ان کا خیال یہ ہے کہ انسان جب مرتا ہے تو اس کے اچھے یا برے کاموں کے مطابق اس کی روح کسی جانور گھاس پھوس یا درخت کے قالب میں جا کر اپنے عمل کا نتیجہ بھگتتی ہے اور پھر انسانوں کے قالب میں لائی جاتی ہے اور کام کرتی ہے اس کے بعد جس کے گناہ زیادہ ہوتے ہیں ان کو ہملوک میں جانا پڑتا ہے۔ جہاں نرک (دوزخ) ہیں وہاں وہ ہر قسم کی سزا بھگتتی ہے ‘ بعد ازاں اپنے بعض اچھے کاموں کی بدولت چندر لوک (چاند کی دنیا) میں جاتی ہے ‘ جس روح کے کچھ کام اب بھی باقی ہیں وہ اس دنیا میں ہوا ‘ بادل اور بارش کے ذریعہ سے دوبارہ آتی ہے اور اپنے کام کے مطابق حیوانات یا نباتات کے روپ میں سزا پاتی ہے اور پھر چھوٹ کر انسان بنتی ہے ‘ یہاں تک کہ اس کے کام اتنے اچھے ہوجائیں کہ وہ سزا کے قابل نہ رہ جائے۔ اس وقت وہ مادی قالبوں کی قید سے نجات پا کر سورج لوک اور چندر لوگ وغیرہ اجرام سماوی کی دنیائوں میں جا کر آرام کرتی ہے اور پھر اپنے علم و عمل کی کسی کمی کے سبب سے بادل ‘ ہوا ‘ اناج یا کسی دوسری مخلوقات کے قالب میں ہو کر اس کو اس دنیا میں پھر آنا پڑتا ہے اور پھر وہی عمل شروع ہوتا ہے یعنی وہ نئے نئے جنموں میں سزا بھگتتی ہے اور اس وقت تک آمدورفت اور آواگون کے چکروں میں پھنسی رہتی ہے جب تک اس سے اچھے یا برے کاموں کا صدور ہوتا رہتا ہے۔ اس لیے کامل اور دائمی نجات کی صورت صرف یہ ہے کہ انسان سے اچھا یا برا کوئی کام صادر نہ ہو ‘ یہی ترک عمل روح کو مادہ کی قید سے آزاد کر کے ہمیشہ کے لیے چھٹکارا (موکش) دلاتا ہے۔ یہاں تک کہ یہ موجودہ مادی دنیا پرلے (قیامت) کے بعد پھر جب نئے سرے سے بنے گی تو پھر وہی عمل اور سزا یعنی آواگون کا چکر شروع ہوگا۔ اور پھر اس طرح چھٹکارا پائے گی اور پھر دوسری پرلے کے بعد نیا دور اسی طرح شروع ہوگا یہ چکر اسی طرح ہمیشہ رہے گا۔
یہ وہ چکر ہے جس سے انسان کو کبھی نکلنا نصیب نہ ہوگا۔ الا یہ کہ ہمالہ کی چوٹی یا غار میں بیٹھ کر ترک عمل کے ذریعہ سے خود اپنے وجود سے ہاتھ دھو لیا جائے لیکن اگر اس اصول نجات پر دنیا عمل کرے تو یہ بہارستان ایک دم میں خارستان بن جائے۔ ہر قسم کا کاروبار بند ہو کر دنیا آپ سے آپ فناکے قریب آجائے۔ بدی کے ساتھ نیکی کا وجود بھی صفحہ ہستی سے مٹ جائے اور باایں ہمہ دائمی و ابدی نجات میسر نہ ہو کیونکہ ہر پرلے کے بعد وہی جنم اور کم اور آواگون پھر شروع ہوتا ہے۔ “
سزا و جزا کا اسلامی نظریہ
لیکن اسلام نے اس جزا و سزا کے دن کا جو تصور دیا وہ عقل اور منطق کے انتہائی قریب اور اللہ کی رحمت کا عکاس ہے۔ اسلام نے اس بنیادی تصور کے ساتھ کہ ہر نیک عمل کی جزا اور ہر برائی کی ایک سزا ہے ‘ رحمت کے ایسے مواقع سے بھی بہر ور فرمایا ہے کہ اگر آدمی واقعی ان مواقع سے فائدہ اٹھانے کا فیصلہ کرلے اور اللہ کا خوف اس کو دامن گیر رہے تو کوئی وجہ نہیں ہے کہ وہ اللہ کی جنت کا مستحق نہ ٹھہرے۔ مثلاً سب سے پہلے پروردگار نے یہ کرم فرمایا کہ ایک اصول طے کردیا کہ تم جو برائی کرو گے تو ہم ہر برائی کے بدلے میں ایک ہی برائی کی سزا دیں گے البتہ اگر تم نیکی کرو گے تو ہم نے یہ اصول بنادیا ہے کہ مَنْ جَآئَ بِالْحَسَنَۃِ فَلَہٗ عَشْرُاَمْثَالِھَا۔ ج (الانعام : 6۔ 161) ” جو آدمی نیکی کرے گا تو ہم اس کو دس گناہ بدلہ دیں گے۔ “
اب جہاں ایک اور دس کا تناسب ہو تو کیا وہ آدمی جو صراط مستقیم پر چلنا چاہتا ہو اور شریعت کے تقاضوں کو ملحوظ خاطر رکھتا ہو کوئی وجہ نہیں کہ وہ اس تناسب سے فائدہ نہ اٹھا سکے۔
2 دوسرا کرم یہ فرمایا کہ اگر تم نیکی کا ارادہ کرو لیکن اسے کسی وجہ سے کر نہ پائو تو ہم تمہیں ایک نیکی کا صلہ ضرور دیں گے لیکن اگر تم برائی کا ارادہ کرو اور اسے پھر کر نہ پائو تو ہم تم سے کوئی مواخذہ نہیں کریں گے۔
3 پھر ہمارے لیے بعض ایسے مواقع رکھے کہ اگر ہم ان مواقع پر اور ان زمانوں میں اللہ کی بندگی بجا لائیں اور اس سے استغفار کریں تو بخشش خود آگے بڑھ کر قدم چومتی ہے۔ مثلاً رمضان کا مہینہ لیلۃ القدر ‘ عیدین کی دونوں راتیں ‘ یوم العرفہ ‘ 15 شعبان کی رات ‘ رات کا پچھلا پہر ‘ ان میں کوئی گنہگار سے گنہگار بھی استغفار کے لیے اللہ کے سامنے ہاتھ پھیلائے تو کبھی اسے خالی ہاتھ واپس نہیں لوٹایا جاتا۔
4 یہ صحیح ہے کہ آدمی بعض دفعہ بڑے سے بڑا گناہ بھی کر گزرتا ہے جس کی بخشش کے لیے دوسرے مذاہب نے کوئی امکان نہیں چھوڑا۔ لیکن اللہ کا بےحد کرم ہے کہ اس نے ہمارے لیے توبہ کا دروازہ کھلا رکھا ہے بلکہ قرآن کریم میں بار بار تسلیاں دی گئیں کہ اے ہمارے وہ بندوں جو اپنے نفسوں پر زیادتی کرچکے ہو : لاَ تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَۃِ اللہِ (39: 53) ” اللہ کی رحمت سے کبھی مایوس نہ ہوں وہ سب گناہوں کو بخش دے گا صرف ایک دفعہ توبہ کر کے دیکھو “۔
حضور ﷺ نے اس توبہ پر اس حد تک زور دیا کہ آپ کے اسمائے مبارکہ میں سے ایک اسم مبارک ” رسول التوبہ “ بھی ہے۔ یہ ایک ایسا امکان ہے کہ جس کے بعد سو سال کا مجرم بھی توبہ کے ذریعہ اپنی زندگی کو پاکیزہ بنا سکتا ہے اور اللہ کی رحمت کا استحقاق پیدا کرسکتا ہے اس قدر بخشش اور اسٹعفار کے مواقع ملنے کے بعد بھی کوئی آدمی اللہ کی رحمت کا استحقاق پیدا نہ کرسکے تو اسے بدنصیب کے سوا اور کیا کہا جاسکتا ہے لیکن قربان جائیں اللہ کی رحمتوں کے کہ اس نے مرنے کے بعد بھی اور قیامت کے دن بھی اپنے بندوں کو اپنی رحمتوں سے محروم نہیں کیا۔
5 مرنے کے بعد بھی اس نے ہمیں یہ حق دیا کہ اگر تم اپنے پیچھے کوئی صدقہ جاریہ چھوڑ جاؤ یا اپنی نیک اولاد چھوڑ جاؤ جو تمہارے لیے دعا کرتی رہے تو مرنے کے بعد بھی اس سے تمہاری برائیوں میں کمی ہوگی اور تم بخشش کے قریب ہوتے جاؤ گے۔
6 اور اگر معاملہ اس سے بھی نہ بن سکے تو پھر اللہ کی رحمتوں نے ہمارے لیے ایک اور امکان بھی پیدا فرمایا وہ یہ کہ ہمیں بتایا گیا کہ آنحضرت ﷺ ہمارے لیے شفاعت فرمائیں گے حضور کی ایک شفاعت تو شفاعت عامہ ہوگی جس کے نتیجے میں تمام امتوں کے لوگ جو حساب کتاب کے انتظار میں نہایت کرب اور اضطراب سے وقت گزار رہے ہوں گے ان کا حساب کتاب شروع ہوجائے گا۔ پھر آنحضرت ﷺ اپنی امت کے لیے بطور خاص سفارش فرمائیں گے حضرت انس ابن مالک ( رض) فرماتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے قیامت کی حالت بیان کرتے ہوئے بتایا کہ پھر میں سجدہ میں گر پڑوں گا ‘ نہ جانے کب تک پڑا رہوں گا آخر آواز آئے گی اے محمد ﷺ سر اٹھا ‘ مانگ دیا جائے گا۔ تب میں سر اٹھائوں گا اور اس حمد سے جو اس وقت خدا مجھے سکھائے گا اس کی حمد کروں گا اور سفارش کروں گا تو خدا ایک حد مقرر فرمائے گا تو میں ان کو دوزخ سے نکالوں گا اور جنت میں داخل کروں گا۔ پھر لوٹ آئوں گا اور سجدہ میں گر پڑوں گا پھر وہ کچھ لوگوں کو بخش دے گا اسی طرح تیسری بار پھر چوتھی بار کروں گا یہاں تک کہ دوزخ میں پھر وہی رہ جائے گا جس کو قرآن نے روک رکھا ہے۔
حضرت عمران ابن حصین سے روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ میری شفاعت سے کچھ ایسے لوگ بھی دوزخ سے نکلیں گے اور جنت میں داخل ہوں گے جن کا نام جہنم والے ہوگا۔ البتہ یہ بات ذہن میں رہنی چاہے کہ آنحضرت کی سفارش ہر ایک کے لیے نہیں ہوگی بلکہ اس سفارش سے وہ خوش نصیب بہرہ ور ہوں گے جو اخلاص قلب سے توحید پر ایمان رکھتے ہوں گے اور جن کے سر صرف اور صرف اللہ کے سامنے جھکتے ہوں گے۔ حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ ان کے سوال پر آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ میری سفارش سے سرفراز ہونے کی خوش قسمتی اس کو حاصل ہوگی جس نے خلوص قلب سے اللہ کی توحید کا اقرار کیا ہوگا۔
حضرت ابوہریرہ ( رض) ہی سے روایت ہے کہ جب اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے فیصلے سے فراغت پائے گا اور چاہے گا کہ ان کو جنھوں نے اس کی توحید کی گواہی دی تھی دوزخ سے نکالے تو فرشتوں کو ان کے نکالنے کا حکم دے گا۔ فرشتے ان توحید والوں کو اس علامت سے نکالیں گے کہ ان کی پیشانیوں میں سجدے کے نشان ہوں گے۔ خدا نے آدم (علیہ السلام) کے بیٹے کی پیشانی کے نشان کو دوزخ کی آگ پر حرام کردیا ہے وہ ان کو جلا کر خاکستر نہیں کرسکے گی۔ فرشتے جب ان کو نکالیں گے تو وہ جلے اور جھلسے ہوئے ہوں گے۔ پھر ان پر آب حیات چھڑکا جائے گا تو وہ اس طرح اگیں گے جس طرح سیلاب کے بہائو میں جنگلی دانہ اگتا ہے۔
ایسی متعدد روایات ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ جس کا خاتمہ ایمان پر ہوا اور جس نے توحید پر جان دی اور جس نے کبھی بھی کوئی نیک عمل کیا ہوگا جہنم کی سزا بھگتنے کے بعد بالآخر اللہ تعالیٰ آنحضرت ﷺ کی شفاعت سے اس کو جہنم سے آزادی دے دیں گے اور جنت میں اسے داخل کردیا جائے گا۔ البتہ وہ بدنصیب کبھی جہنم سے چھٹکارا نہیں پا سکے گا جس نے شرک کا ارتکاب کیا ہوگا۔
یہاں تک ہم نے اللہ تعالیٰ کی تین صفات کا مطالعہ کیا ہے جس سے ہمیں اندازہ ہوتا ہے کے ایک بندہ جب اپنے پروردگار کی حمدو ثناء کرنا چاہتا ہے تو اسے سب سے پہلے اپنے پروردگار کی صفت ربوبیت سے آگاہی ہوتی ہے وہ اپنے وجود کو دیکھتا ہے تو اس کا بچپن لڑکپن، جوانی اور ڈھلتی ہوئی عمر، غرضیکہ زندگی کا ایک ایک لمحہ اسے اپنے رب کی ربوبیت کے فیضان سے گراں با رمعلوم ہوتا ہے اس کی پیدائش کا پورا عمل ماں کے پیٹ کی زندگی دنیا میں آنے کے بعد کی بےبسی اور اس بےبسی میں قدم قدم پر تر بیت کا سامان اور ہر تبدیلی کے ساتھ تربیت کے عمل کی تبدیلی، جسمانی تبدیلیوں کے ساتھ ساتھ اندرونی اور بیرونی صلاحیتوں کا فیضان اور وقت کے ساتھ ساتھ دماغی نشو و نما میں ترقی پھر ایک وقت میں پہنچ کر شعلہ عقل کی روشنی فعلی اور انفعالی جذبوں کی افزائش گردوپیش کی موافقت اور اس کے مطابق ذوق اور مزاج کی تربیت ایک طویل داستان ہے جو ہر شخص کے گردوپیش پھیلی ہوئی دکھائی دیتی ہے پھر وہ ایک قدم آگے بڑھ کر دیکھتا ہے کے مجھے میرے پروردگار نے صرف جسمانی ضرورتوں سے ہی مالا مال نہیں کیا بلکہ میرے اندر ایسے احساسات کو بھی فروغ بخشا ہے جو میرے دماغی نفسیاتی روحانی اور جمالیاتی ذوق کی تسکین کا باعث ہیں اور پھر اس مزاج اور ذوق کی ضرورت کی بجا آوری کے لیے جا بجا ایسے مناظر اٹھا دئے گئے ہیں جس سے اللہ کی صفت ربوبیت کے ساتھ ساتھ اس کی صفت رحمت کا بھی احساس توانا ہونے لگتا ہے پھر جب آدمی انسانی زندگی کا مطالعہ کرتا ہے تو اسے محسوس ہوتا ہے کے انسانی زندگی میں مختلف کرداروں سے واسطہ پڑتا ہے جس کے نتیجہ میں مختلف رویے جنم لیتے ہیں کہیں رحم دلی نظر آتی ہے تو کہیں سنگدلی کہیں مروت کا اظہار ہوتا ہے تو کہیں شقاوت کا اس رویے کے نتیجہ میں خود بخود ایک احتسابی عمل کی ضرورت محسوس ہونے لگتی ہے کیونکہ اگر زندگی میں رویوں کو کھلی چھوٹ دے دی جائے تو انسانی زندگی جنگل کا منظر پیش کرنے لگے گی جس میں صرف طاقت کی حکومت ہوگی لیکن جب وہ دیکھتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ایک صفت عدالت بھی ہے جو یہاں عقیدے کی صورت میں کارفرما ہے اور قیامت میں نتیجے کی صورت میں کارفرما ہوگی تو اس کی روح جھوم اٹھتی ہے اور وہ بےساختہ حریم قدس کی طرف عبادت کے تصورات لے کر بڑھتا ہے اور اس کی زبان پر بےساختہ یہ نغمہ جاری ہوجاتا ہے۔ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّاکَ نَستَعِیْنُ ۔ ط
ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد چاہتے ہیں
یہ نغمہ اس کے دل کا سر جوش ہے جو از خود اس کے دل سے اچھل کر زبان پر آگیا ہے کیونکہ یہ بات انسان کے خمیر میں رکھی گئی ہے کہ وہ اپنے محسن کی احسان شناسی کے جذبے میں ڈوب کر اپنے محسن کے لیے کچھ کرنا چاہتا ہے پھر اگر وہ محسن اس کا ہم پایہ ہے اور اس کا احسان ایک عام سطح کا ہے تو یہ اس کی خدمت کر کے ایک تسکین محسوس کرتا ہے لیکن اگر وہ محسن ایک بڑی حیثیت کا مالک ہے تو یہ اس کی حیثیت کے مطابق اس کے آداب بجا لاتا ہے اور کوشش کرتا ہے کہ جو میرے بس میں ہے میں اس کی خوشنودی کے لیے کر گزروں اور اگر وہ احسان کرنے والی ذات ایسی ہے جو محبت، عقیدت اور بندگی کا مرجع ہے تو یہ احسان میں ڈوبا ہوا شخص اپنی زندگی کا سارا سرمایہ اور بندگی کا سارا خزانہ اور حمد وثناء کی ساری پونجی اس کے قدموں میں ڈھیر کر کے خود بھی اس کے سامنے ڈھیر ہوجاتا ہے یہ طرز عمل فطرت کا وہ رویہ ہے جو انسان کے خمیر میں گوندھ دیا گیا ہے اسی جذبے سے سرشار انسان جب اپنے رب کے احسانات کو دیکھتا ہے کہ اس کا وجود اس کے دل و دماغ کی رعنائیاں، اس کے احساسات کی سرگرمیاں، اس کے جذبوں کی فراوانیاں، اس کی ذہانت کی جولانیاں، اس کے عزائم کی بلندیاں، اس کی محبت کی گہرائیاں، اس کے جذبہء ایجاد کی ہمہ گیریاں، اس کے انفعالی جذبوں کی خوبصورتیاں اور اس کی شخصیت کی تہ در تہ کرم فرمائیاں سب پروردگار کی عطاء اور بخشش ہے تو وہ بےساختہ اس کے سامنے سجدہ ریز ہو کر اپنی ذات کی نفی کر کے اسی کی عبادت کا اقرار و اعتراف کرنے لگتا ہے اور پھر جب عبادت کی وسعتوں اور اپنی نا توانیوں کو دیکھتا ہے تو اسی سے مدد کا طلب گار ہوتا ہے لیکن یہ سب کچھ وہ اس عاجزی اور سر افگندگی کے ساتھ کرتا ہے جس سے ایک طرف دعا کا آہنگ جنم لیتا ہے اور دوسری طرف بندے اور اس کے رب کے درمیان ایک عہد و پیمان کی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے کہ بندہ اپنی بندگی کا سرمایہ لے کر جب حضور حق میں حاضر ہوتا ہے تو ادھر سے اسے آواز سنائی دیتی ہے کہ تم نے اپنا سب کچھ ہمارے حوالے کردیا تو ہم نے بھی تمہیں وہ سب کچھ دے دیا جو تم نے ہم سے مانگا اور جب تک تم اپنی بندگی کے اس عہد پر قائم رہو گے تو ہماری عنایات میں کبھی کمی نہیں دیکھو گے چناچہ تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ مسلمان وسائل کی کمی کے باوجومحض بندگی رب کے باعث اس سرزمین پر سرفراز رہے لیکن جب انھوں نے طاغوت کی بندگی شروع کردی تو وہ ٹھوکروں کی نذر ہو کر رہ گئے یہی وہ عہد ہے جو آنحضرت ﷺ نے جنگ بدر شروع ہونے سے پہلے اپنے پروردگار سے کیا تھا آپ ﷺ رات بھر اللہ کے حضور کھڑے دعائیں مانگتے رہے آخر آپ کی زبان پر یہ جملہ آیا کہ یا اللہ یہ زمین انسانوں سے معمور ہے لیکن آج کی پوری نوع انسانی میں یہ چند گنتی کے لوگ ہیں جو آپ کی توحید کے پرستار ہیں اگر اس جنگ میں یہ لوگ مارے گئے تو پھر دنیا میں تیری پوجا کرنے والا کوئی نہیں رہے گا اگر آپ چاہتے ہیں کہ دنیا میں آپ کی عبادت کی جائے تو پھر ان چند گنتی کے لوگوں کو اپنی تائید و نصرت سے نواز دیں تاکہ یہ آپ کی زمین پر آپ کے نام اور آپ کے دین کو بلند کرسکیں پروردگار نے فرمایا کہ ہم تمہارے اس وعدے پر تمہاری مدد کے لیے فرشتے بھیج رہے ہیں اور آئندہ بھی یہی فیصلہ ہوگا کہ تم اللہ کی بندگی میں کمی نہیں آنے دو گے اور اللہ تعالیٰ کبھی تمہیں اپنی تائید و نصرت سے محروم نہیں کرے گا اسی وعدے اور عہد کا اعادہ روزانہ ایک بندہ اپنے رب کے حضور کھڑا ہو کر کرتا ہے اب اس سے پہلے کہ ہم اس عبادت اور استعانت کی لفظی اور معنوی وضاحت کریں اس کی اہمیت اور افادیت کے حوالے سے چند بنیادی باتیں عرض کرتے ہیں :
اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں جن و انس کا مقصدتخلیق عبادت ٹھہرایا ہے ارشاد خداوندی ہے :
وَماَ خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلاَّلِیَعْبُدُوْنِ ۔ (الذاریات 51: 56)
کہ میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اس لیے پیدا کیا ہے کہ وہ میری عبادت کریں۔
انسانوں کی ہدایت کے لیے اللہ نے انبیا اور رسول مبعوث فرمائے اور قرآن کریم کی صراحت کے مطابق تمام انبیا اور رسولوں کی دعوت کا عنوان صرف عبادت رہا۔ پروردگار کا ارشاد ہے :
وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِیْ کُلِّ اُمَّۃٍِ رَّسُوْلاً اَنِ اعْبُدُو اللہ َ (النحل 16: 36)
ہم نے ہر امت کی طرف رسول بھیجا (انھوں نے آکر انھیں اللہ کا پیغام پہنچایا) کہ لوگو اللہ کی عبادت کرو۔
رسول اللہ ﷺ سب پیغمبروں کے آخر میں خاتم النبین بن کر تشریف لائے اور آپ ﷺ کے بعد نبوت اور رسالت کا دروازہ بند ہوگیا اور آپ کے واسطے سے اللہ تعالیٰ قیامت تک کے آنے والے انسانوں کو جو ہدایت دینا چاہتا تھا اسے تکمیلی انداز میں انتہائی جامعیت کے ساتھ عطا فرما دیا گیا۔ چناچہ قرآن کریم میں اس دعوت کا جب آغاز فرمایا گیا اس کا عنوان بھی یہی عبادت رکھا گیا۔ ارشاد ہوا :
یٰـٓاَیُّھَاالنَّاسُ اعْبُدُوْا رَبَّکُمُ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ وَالَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ (البقرۃ 2: 21)
اے لوگو ! عبادت کرو اپنے اس رب کی جس نے تمہیں پیدا کیا اور تم سے پہلے لوگوں کو پیدا کیا۔
مندرجہ بالا تفصیلات سے اندازہ ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں عبادت کی کیا اہمیت ہے کیونکہ یہی جن و انس کا مقصد تخلیق ہے، یہی تمام انبیا کی دعوت تھی اور یہی دعوت رسول اللہ ﷺ نے انتہائی جامعیت کے ساتھ جن و انس تک پہنچائی۔ اب سوال یہ ہے کہ اس عبادت کا مفہوم کیا ہے ؟ رسول اللہ ﷺ جب مبعوث ہوئے تو آپ ﷺ کی تشریف آوری سے پہلے دنیا میں عبادت کے حوالے سے چار تصورات پائے جاتے تھے۔
حضور ﷺ کی بعثت سے قبل عبادت کے چار تصورات
1 مشرکین مکہ کی عبادت کا تصور : ان کے نزدیک خالق کائنات کی حیثیت ایسے تھی جیسے ایک سلطنت کا بادشاہ ان کا خیال یہ تھا کہ سلطنت کا قانون صرف بادشاہ کی زبان ہوتی ہے وہ جو کہہ دے اور جس بات کا حکم دے دے وہ قانون بن جاتا ہے اور اس سلطنت میں محفوظ زندگی کی ضمانت بادشاہ کی رضا مندی ہے۔ وہ جب تک رعایا سے خوش ہے تو رعایا کو انعام و کرام سے نوازتا ہے اور جب وہ ان سے ناراض ہوتا ہے تو انھیں سزائیں دیتا ہے۔ اور اس کی رضامندی کا حصول اس کی تعریف و ستائش اور اس کے سامنے ہاتھ باندھ کر کھڑے ہونا، اس کی چاکری کرنا اور ہر ممکن طریقے سے اس کو خوش رکھنے میں ہے۔ ظاہر ہے یہ سارے اعمال صرف بادشاہ کے سامنے کے ہیں، جب رعایا کا کوئی فرد بادشاہ کے سامنے ہوتا ہے تو یہ سارے اعمال بجا لاتا ہے اور جب بادشاہ کی نگاہوں سے اوجھل ہوتا ہے تو اب وہ اپنی مرضی کا مالک ہے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ بادشاہ اس کے حال سے واقف نہیں ہے۔ اب اس کے سامنے بادشاہ کی رضامندی کی صرف ایک صورت ہے کہ مقامی طور پر جن لوگوں کو اس نے اپنے نمائندے مقرر کر رکھا ہے انھیں خوش رکھا جائے اور انھیں کوئی شکایت کا موقع نہ دیا جائے چناچہ انہی تصورات کے تحت وہ اللہ تعالیٰ کو بادشاہ سمجھ کر اس کے چند لگے بندھے رسم و رواج اور پوجا پاٹ کر طریقوں کو بجا لاتے تھے۔ بیت اللہ کا طواف کرتے سال بہ سال حج کرلیتے، اس کے غصے کو بڑھکنے سے روکنے کے لیے قربانیاں کرتے اور ان بتوں کی پوجا کرتے تھے جن کو یہ سمجھتے تھے کہ اللہ کی مرضی میں انھیں بھی دخل ہے۔
2 عبادت کا دوسرا تصور ہمارے قریبی ہمسائے ہندوئوں اور انہی سے نکلنے والے بدھ مت کا تھا ان کے تصور کے دو پہلو ہیں۔ ایک پہلو تو وہ ہے جو مشرکین مکہ کے یہاں پایا جاتا ہے اور ان کے نزدیک بھی اللہ تعالیٰ ایک بادشاہ ہے جسے لگی بندھی رسموں کو ادا کرنے اور بعض قربانیاں پیش کرنے سے خوش کیا جاسکتا ہے۔ زندگی کے معاملات سے اس کا کوئی تعلق نہیں اور دوسری طرف وہ اللہ کی بندگی کو اس قدر بلند اور عظیم سمجھتے تھے کہ اس کا حق دنیا میں رہ کر، دنیا کے معاملات میں شریک ہو کر ادا ہی نہیں کیا جاسکتا اس لیے ترک دنیا یعنی دنیا کو چھوڑ دینا ضروری ہے دنیا ان کے نزدیک ایک آلودگی اور گندگی کا نام ہے۔ جس میں آلودہ ہو کر اللہ کو پکارا نہیں جاسکتا چناچہ اس لیے ان کے یہاں عبادات کا عظیم تر تصور جوگی ازم کی شکل میں ظاہر ہوا۔ چناچہ ان کے مذہبی لوگ جب گیان حاصل کرنے کی کوشش کرتے تھے تو وہ تارک الد ّنیا ہو کر پہاڑوں یا جنگلوں میں جا بیٹھتے، اپنے آپ کو زیادہ سے زیادہ جسمانی راحتوں سے دور رکھتے، شادی بیاہ کا تصور ان کے یہاں ممنوع ٹھہرتا اور کم سے کم کھانے پر اکتفا کر کے وہ اپنے نفس کی پاکیزگی کا سامان کرتے اور اس کو وہ عبادت سمجھتے تھے۔
3 عبادت کا تیسرا تصور ہم عیسائیوں میں دیکھتے ہیں عیسائیت پر بھی بعض محقققین کے نزدیک ہندو ازم کا اثر ہے، اس لیے انھوں نے اسی جوگیانہ تصور کو رہبانیت کے نام سے اختیار کیا اور ترک دنیا کو انتہائے بندگی کی علامت سمجھ کر اختیا کرلیا بلکہ ان کے نزدیک تو ہندہ ازم سے زیادہ ترک دنیا کا رجحان پایا جاتا ہے جس کو انھوں نے رہبانیت کا نام دیا ہے اس لیے ان کے یہاں جو خدا رسیدہ لوگ سمجھے جاتے تھے ان کا تارک الدنیا ہونا یعنی راہب ہونا ضروری تھا اور ایسے ہی لوگوں کی ان کے یہاں قدر و منزلت تھی اور دوسری بات ان کے یہاں ہندوئوں کی طرح ہی یہ بھی نظر آتی ہے کہ وہ اللہ کو دوسرے مشرکین کی طرح انسانی دسترس سے بہت بلند سمجھتے تھے اس لیے وہ یہ ناممکن جانتے تھے کہ انسانوں کی بندگی اور ان کی دعائیں براہ راست بھی اللہ تعالیٰ تک پہنچ سکتی ہیں اس لیے وہ خدا اور بندے کے درمیان واسطوں کے تصور کو ضروری خیال کرتے تھے مشرکین مکہ کے یہاں کا ہنوں کا تصور، ہندوئوں کے یہاں برہمنوں کا تصور اور عیسائیوں اور یہودیوں کے یہاں مذہبی رہنمائوں کا تصور اسی تصور کا نتیجہ ہے ؟ انھیں اس بات کا یقین تھا کہ جب تک درمیان کے واسطوں کو خوش نہیں رکھا جائے گا اور انہی کے حوالے سے جب تک اللہ تعالیٰ سے رابطہ نہ کیا جائے گا اس وقت تک اللہ تعالیٰ خوش ہوسکتا ہے اور نہ ہماری بندگی اس تک پہنچ سکتی ہے۔
4 چوتھا تصور یہود کا ہے وہ اگرچہ نسبتاََ اللہ تعالیٰ کی معرفت اور اس کی صفات کے فہم میں ان تمام اہل مذاہب سے بہتر تھے لیکن درمیانی رابطوں کا تصور ان کے یہاں بھی پایا جاتا ہے اور یہ بھی تابوتِ سکینہ اور اولادِ ہارون (علیہ السلام) کو واسطہ بنائے بغیر اللہ تعالیٰ کے تشریعی اور تعبدی تعلق کو ناممکن سمجھتے تھے حتی کہ حلت و حرمت کا اختیار بھی انھوں نے اپنے مذہبی راہنمائوں کو دے رکھا تھا۔ اس لیے قرآن کریم نے واضح طور پر یہ ارشاد فرمایا کہ انھوں نے اپنے احبار اور اپنے رہبان کو رب بنا رکھا ہے۔
یہ تھے عبادت کے وہ تصورات جو حضور ﷺ کی بعثت کے وقت دنیا میں موجود تھے جنھیں خلاصے کے طور پر یوں کہا جاسکتا ہے کہ عبادت ان کے یہاں مندرجہ ذیل نکات پر مشتمل تھی۔
1 اللہ تعالیٰ کو ایک بادشاہ تصور کر کے چند وقتی مراسم بجا لانا۔
2 دنیوی معاملات میں اللہ تعالیٰ کو دخیل نہ سمجھنا۔
3 اللہ تعالیٰ اور بندے کے تعلق کو دونوں کے درمیان ایک پرائیویٹ معاملہ سمجھنا۔
4 انسان براہ راست اللہ تعالیٰ سے تعلق پیدا نہیں کرسکتا اس لیے درمیانی واسطوں کو ضروری سمجھنا۔
5 خدا رسیدہ بننے کے لیے ترک دنیا یعنی رہبانیت اختیار کرنا کیونکہ دنیا ایک آلودگی ہے۔ اس آلودگی میں مبتلا شخص اللہ تعالیٰ سے قرب کا دعویٰ نہیں کرسکتا۔
اسلام میں عبادت کا تصور
اسلام نے آکر ان تمام تصورات کی اصلاح فرمائی اس نے سب سے پہلے اس بات کو واضح کیا کہ عبادت صرف بندگی کے چند مراسم بجا لانے کا نام نہیں۔ بلکہ اس نے عبادات کے نام سے بندگی کے جن طریقوں کو اپنے ماننے والوں کے لیے لازم ٹھہرایا ہے اس کے بارے میں واضح طور پر ارشاد فرمایا کہ یہ اسلام کی بنیادیں ہیں یہ اسلام کی مکمل عمارت نہیں ہے۔ ان کی حیثیت یہ ہے کہ کوئی آدمی ان سے صرف نظر اور انکار کر کے مسلمان ہونے کا دعوٰی نہیں کرسکتا لیکن صرف انہی کو بجالانا مکمل عبادت نہیں ہے۔ کیونکہ صرف بنیادیں بھر دینے سے عمارت وجود میں نہیں آجاتی البتہ یہ ضرور ہے کہ جب بھی عمارت بنے گی انہی بنیادوں پر بنے گی۔ چناچہ حضور ﷺ کا ارشاد ہے :
بُنِیَ الاِسلَامُ عَلٰی خمسِِ
” اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے۔ “
نماز کو عبادت میں سب سے اہم حیثیت حاصل ہے یہاں تک فرمایا گیا کہ نماز قائم کرو اور مشرکین میں سے نہ ہوجاؤ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جو نماز نہیں پڑھتا وہ مسلمان کہاں وہ تو مشرک ہے۔ اور یہ بھی فرمایا گیا کہ قیامت کے دن جس عمل کے بارے میں سب سے پہلا سوال ہوگا وہ نماز ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہم قرآن کریم میں دیکھتے ہیں کہ صاف طور پر فرمایا گیا :
اَقِم الصَّلٰوۃَ لذِکرِیْ (طٰہٰ 20: 14)
کہ نماز میری یاد کے لیے قائم کرو اس کا مطلب یہ کہ نماز اپنی تمام تر اہمیت کے باوجود اصل مقصود نہیں۔ بلکہ مقصد پوری زندگی میں اللہ کی یاد ہے کہ وہ کسی کام میں بھی دل سے اوجھل نہ ہونے پائے۔ مزید ارشاد فرمایا :
اِنِّ الصِّلٰوۃَ تَنْھٰی عَنِ الفَحْشَآئِ وَالْمُنْکَرِ ط (عنکبوت 29: 45)
کہ نماز تو بےحیائی اور برے کاموں سے روکتی ہے۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جہاں نماز مثبت حیثیت سے اللہ کی یاد کا ذریعہ ہے وہاں اس کا منفی پہلو یہ ہے کہ وہ بےحیائی اور منکرات سے روکتی ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی نماز آدمی کو بےحیائی اور بری باتوں سے نہیں روکتی تو وہ نماز مقصد نہیں ہے بلکہ اصل مقصد یہ ہے کہ نماز یعنی عبادت ایسی ہونی چاہیے جس کے نتیجے میں پوری زندگی کی فکری اور عملی تطہیر ہوجائے اس لیے اسلام نے سب سے پہلا کام یہ کیا کہ اس نے عبادت کو اللہ اور بندے کے درمیان پرائیویٹ معاملہ کی بجائے اس کو پوری زندگی کا دستور اور وظیفہ ٹھہرایا اور دوسرا تصور اس نے یہ دیا کہ اللہ تعالیٰ اپنی تمام عظمتوں کے باوجود انسان کے اس قدر قریب ہے کہ شہ رگ بھی انسان کے اس قدر و قریب نہیں۔ یعنی شہ رگ حیات زندگی کی بقا کی ضامن ہے اس کے کٹ جانے سے زندگی کٹ جاتی ہے ظاہر ہے کہ اس سے بڑھ کر اور کوئی چیز انسان کے قرب نہیں ہوسکتی۔ مگر اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ میں انسان کی شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہوں اور دوسرا اس نے اپنی کتاب میں بار بار فرمایا کہ میں سمیع ہوں، بصیر ہوں، علیم ہوں، تمہارا کوئی عمل حتیٰ کہ تمہاری کوئی احساس اور خیال بھی میرے علم سے باہر نہیں۔ اور تمہاری کوئی حرکت میری نگاہوں سے اوجھل نہیں۔ تو جو ذات اس قدر قریب ہے اور اس قدر انسان سے آگاہ ہے اس کے اور بندے کے درمیان کسی اور واسطے کا کیا معنی۔ اس لیے اس نے بار بار ارشاد فرمایا کہ تم مجھ پر ایمان لائے ہو تو پھر مجھی کو پکارو، میں تمہاری ہر پکار کو سنتا ہوں اور اسے قبول کرتا ہوں۔ اسی طرح اس نے درمیانی واسطے کا تصور ختم کردیا مزید اس نے یہ اصلاح فرمائی کہ عبادت کا تعلق چونکہ تمہاری پوری زندگی سے ہے اور تم اپنی زندگی دنیا اور اہل دنیا میں رہ کر گذارو گے اس لیے دنیا اور اہل دنیا سے تعلقات تمہاری عبادت سے کیسے خارج ہوسکتے ہیں اور تم دنیا سے لاتعلق ہو کر عبادت کے تقاضوں کو کیسے پورا کرسکتے ہو۔ اس لیے عبادت یہ نہیں کہ تم دنیا سے ترک تعلق کر کے صرف اللہ کا نام پکارتے رہو بلکہ عبادت یہ ہے کہ دنیا میں رہ کر دنیا کو برت کر اس طرح دکھائو کہ نہ تمہارا دل کبھی اللہ کے تصور سے غافل ہو اور نہ تمہارا قدم کبھی اس کی عائد کردہ حدود سے باہر نکلے۔ نہ تمہارا ہاتھ کبھی اس کے حکم کو توڑے اور نہ تمہارے دل و دماغ کی قوتیں کبھی اس سے بغاوت کریں۔ جس طرح تم بھوکے رہ کر اس کی بندگی کے پابند ہو اسی طرح پیٹ بھر کر بھی دولت مند ہو کر بھی حتٰی کہ تخت و تاج کے مالک ہو کر بھی اسی کے بندے ہو اس طرح تمام تصورات کا ابطال فرما کر اور غلط خیالات کو رد کر کے اسلام کا صحیح تصور عبادت پیش کیا۔ لیکن اسلام کا کامل تر تصور عبادت اس وقت تک سمجھ نہیں آئے گا جب تک کہ عبادت کے معنی اور اس کے مصداق کو اچھی طرح نہ سمجھ لیا جائے۔
عبادت کا مفہوم
عربی زبان میں عبودۃ ‘ عبادت اور عبودیت عَبَدَ سے مصدر ہے۔ اس کے اصل معانی خضوع اور تذلل کے ہیں یعنی تابع ہوجانا ‘ رام ہوجانا۔ کسی کے سامنے اس طرح سپر انداز ہوجانا کہ اس کے مقابلہ میں کوئی مزاحمت یا انحراف وسر تابی نہ ہو اور وہ اپنی منشا کے مطابق جس طرح چاہے خدمت لے۔ اسی اعتبار سے عرب اس اونٹ کو بعیر معبد کہتے ہیں جو سواری کے لیے پوری طرح رام ہوچکا ہو اور اس راستے کو طریق معبد کہتے ہیں جو کثرت سے پامال ہو کر ہموار ہوگیا ہو پھر اسی اثر سے اس مادہ میں غلامی ‘ اطاعت ‘ پوجا ‘ ملازمت اور قید کے مفہومات پیدا ہوئے۔ چناچہ اسی مادہ عَبَدَ سے بننے والا ایک مشہور لفظ جو عربی اور اردو دونوں زبانوں میں اکثر مستعمل ہے وہ عبد ہے عبد کا معنی ہے غلام اور یہ اردو اور عربی دونوں میں اسی معنی میں مستعمل ہے اور قرآن کریم نے بھی اس کو اسی معنی میں استعمال کیا ہے۔ مثلاََ ایک جگہ فرمایا :
اَلْحُرُّبِالْحُرِّ وَالْعَبْدُ بِالْعَبْدِ (البقرۃ 2: 178)
یہاں دیکھئے کہ حر کے بعد جس کا معنی آزاد ہے لفظ عبد غلام کے معنوں میں استعمال کیا گیا ہے اسی طرح ایک جگہ غلاموں اور لونڈیوں کے نکاح کرنے کا حکم دیا گیا تو فرمایا :
وَاَنْکِحُوالْاَیَامٰی مِنْکُمْ وَالصّٰلِحِیْنَ مِنْ عِبَادِکُمْ وَاِمَآئِکُمْ (النور 24: 32)
اس آیت میں دیکھئے لونڈیوں کے ساتھ عباد کا لفظ استعمال کیا گیا ہے جو عبد کی جمع ہے اسی طرح کائنات کی تمام مخلوق کے بارے میں جن میں نمایاں خود حضرت انسان ہے ارشاد فرمایا گیا :
اِنْ کُلُّ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ اِلَّآ اٰتِی الرَّحْمٰنِ عَبْدًا۔ ط (النور 24: 93)
یہاں بھی دیکھئے عبد کا لفظ غلام کے معنی میں استعمال ہوا ہے اسی طرح قرآن پاک میں اور بھی کیے مواقع پر آپ کو عبد یا عباد کا لفظ غلام کے معنی میں مستعمل نظر آئے گا۔ اسی طرح عبد کو باب تفصیل میں لے جا کر غلام بنانے کے معنی میں قرآن کریم میں ذکر کیا گیا ہے۔ حضرت موسٰی (علیہ السلام) کے حوالے سے بیان کیا گیا :
وَتِلْکَ نِعْمَۃٌ تَمُنُّھَا عَلَیَّ اَنْ عَبَّدْتَّ بَنِیْ ٓ اِسْرَآئِ یْلَ ۔ ط (الشعراء 29۔ 22)
یہاں دیکھئے عُبَّدتَّ غلام بنانے کے معنوں میں استعمال ہوا ہے۔
مختصر یہ کہ عبد کا معنی ہے غلام اور عبادت، عبودیت، عبد سے مصدر ہے اس کا معنی ہے غلامی۔ یعنی کسی کی بالادستی و برتری تسلیم کر کے اس کے مقابلے میں اپنی آزادی اور خود مختاری سے دستبردار ہوجانا سرتابی اور مزاحمت چھوڑ دینا اور اس کے لیے رام ہوجانا۔ یہی حقیقت بندگی اور غلامی کی ہے۔ لہٰذا اس لفظ سے اولین تصور جو ایک عرب کے ذہن میں پیدا ہوتا ہے وہ بندگی اور غلامی ہی کا تصور ہے۔ پھر چونکہ غلام کا اصلی کام اپنے آقا کی اطاعت و فرمانبرداری ہے اس لیے لازماً اس کے ساتھ ہی اطاعت کا تصور پیدا ہوتا ہے اور جب غلام اپنے آقا کی بندگی و اطاعت میں محض اپنے آپ کو سپرد ہی نہ کرچکا ہو بلکہ اعتقاداً اس کی برتری کا قائل اور اس کی بزرگی کا معترف بھی ہو اور اس کی مہربانیوں پر شکر و احسان مندی کے جذبہ سے سرشار بھی ہو تو وہ اس کی تعظیم و تکریم میں مبالغہ بھی کرتا ہے۔ مختلف طریقوں سے اعتراف نعمت کا اظہار بھی کرتا ہے اور طرح طرح سے مراسم بندگی بھی بجا لاتا ہے اسی کا نام پرستش ہے۔ اور یہ تصور عبدیت کے مفہوم میں صرف اس وقت شامل ہوتا ہے جبکہ غلام کا محض سر ہی آقا کے سامنے جھکا ہوا نہ ہو بلکہ اس کا دل بھی جھکا ہوا ہو۔ چناچہ قرآن کریم میں ان تینوں معنوں میں عبادت کے لفظ کو استعمال کیا گیا ہے۔ لیکن تینوں حوالوں سے اصل مقصود غلامی ہے اور یہ دونوں تصورات اس سے پھوٹنے والے اجزا ہیں۔ اس لیے اگر غلامی کی حقیقت کو سمجھ لیا جائے تو خود بخود یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اسلام میں عبادت کا صحیح مفہوم کیا ہے۔
اسلام میں غلامی کا مفہوم
اس غلامی کے حوالے سے قرآن و سنت اور اسلامی تاریخ میں ہمیں دو متضاد تصورات پہلو بہ پہلو سفر کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ پہلا تصور یہ ہے کہ غلامی اسلام کی نگاہ میں انتہائی مکروہ اور ناقابل قبول ہے بلکہ یہ ایک ایسی برائی ہے جس کے تصور کو بھی قبول کرنے سے اسلام انکار کرتا ہے یہی وجہ ہے کہ پورے قرآن پاک میں ہمیں اس کا کہیں ذکر نہیں ملتا کہ اگر امت غلام بنا لی جائے تو پھر اسے زندگی کس طرح گزارنی چاہیے بلکہ ہم پورے قرآن کریم میں ایک آزاد قوم کے تصور حیات کو جا بجا پھیلا ہوا دیکھتے ہیں بلکہ قرآن پاک میں متعدد مرتبہ اس بات کو دھرایا گیا کہ تمہاری زندگی کے مقاصد میں نمایاں ترین مقصد یہ ہے کہ تم طاغوت سے اجتناب کرو۔ چناچہ جس آیت شریفہ میں انبیا کی دعوت کے حوالے سے عبادت کا ذکر کیا گیا ہے اس کے ساتھ یہ بھی فرمایا گیا : ” واجتنبوالطاغوت “
اور تاریخ اسلامی میں ایسے متعدد واقعات ہمیں ملتے ہیں جن سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ مسلمان جن اصولوں کی بنیاد پر حالات بدلنے کے لیے اٹھے تھے ان میں سب سے بڑی بات انسان کو غیر اللہ کی غلامی سے آزاد کرانا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اہل عجم سے جو پہلی بڑی جنگ لڑی گئی ہے وہ جنگ قادسیہ ہے۔ اس میں حضرت ربعی بن عامر ( رض) جب مسلمانوں کی طرف سے سفیر بن کر رستم کے دربار میں گئے تو رستم نے پوچھا کہ تم کس مقصد کے لیے آئے ہو تو انھوں نے فرمایا تھا کہ ہم اس لیے آئے ہیں تاکہ انسان کو انسان کی غلامی سے آزاد کرائیں۔ اس سے آپ اندازہ فرما سکتے ہیں کہ غلامی کا تصور اسلام کی نگاہ میں کس قدر نا پسندییدہ اور کس قدر ناقابل قبول ہے لیکن دوسری طرف ہم یہ دیکھتے ہیں کہ یہ تصور بھی قرآن پاک اور اس کی تعلیمات میں پوری طرح سرایت کیے ہوئے ہے اور جابجا ہمیں پھیلا ہوا ملتا ہے کہ قرآنی تعلیمات کا حقیقی مقصد انسان کو اللہ کا غلام بنانا ہے اور جو لوگ اللہ کے حکم کی اطاعت اور اس کے راستے میں سرفروشی کی وجہ سے اس کے قرب کا مقام پالیتے ہیں تو انھیں اس راستے میں جو بڑے سے بڑا اعزاز مل سکتا ہے وہ یہی لفظ عبد ہے جس کا معنی غلام ہے۔ فرشتے اللہ کے حکم اور اس کی اطاعت سے کبھی سرتابی نہیں کرتے۔ ان کی تعریف کرتے ہوتے پروردگار نے فرمایا : بَلْ عِبَادٌ مُّکْرَمُوْنَ ۔ لا ” وہ معززغلام ہیں۔ “ (الانبیآء : 21۔ 26) انبیا کرام کا گروہ انسانیت کا گل سر سبد ہے۔ ان کی تعریف میں جابجا یہ لفظ استعمال ہوا ہے۔ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے بارہ فرمایا گیا : وَوَھَبْنَالِدَاوْدَ سُلَیْمٰنَ ط نِعْمَ الْعَبْدُ ط ” کہ ہم نے حضرت دائود (علیہ السلام) کو حضرت ـسلیمان (علیہ السلام) جیسا بیٹاعطا فرمایا تھا وہ کتنا اچھا غلام تھا۔ “ (ص : 38۔ 30) رسول اللہ ﷺ جو مقصود کائنات اور سید المرسلین ہیں، ان کا بھی سب سے بڑا اعزاز یہی لفظ عبد ہے۔ معراج شریف کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا گیا : سُبْحٰنَ الَّذِیْ ٓ اَسْرٰٰی بِعَبْدِہٖ لَیْلاً مِّنَ الْمَسْجِدِالْحَرَامِ اِلَی الْمَسْجِدِالْاَقْصَی (بنی اسرائیل : 17۔ 1) ” پاک ہے وہ ذات جو لے گئی اپنے عبد یعنی اپنے غلام کو ایک ہی رات میں مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک “ یہاں دیکھئے حضور ﷺ کو عبد سے یاد کیا گیا حالانکہ حسی معجزات میں سے معراج حضور کا سب سے بڑا معجزہ ہے۔ اس معجزے کے حوالے سے جب حضور کا ذکر کیا جائے گا تو یقینََا اس اعزاز کے ساتھ کیا جائے گا جو اللہ کی نگاہ میں انتہائی قدرو منزلت کا حامل ہوگا۔ مگر ہم یہاں دیکھتے ہیں کہ حضور ﷺ کو عبد کے لفظ سے یاد کیا جا رہا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ عبدیت اللہ کی نگاہ میں ایک انسان کے لیے سب سے بڑا اعزاز ہے۔ شائد اسی وجہ سے کلمہ شہادت میں بھی ” اشھدان محمدا عبدہ ورسولہ “ فرمایا گیا یعنی میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد ﷺ اس کے بندے اس کے غلام اور اس کے رسول ﷺ ہیں۔
اب دیکھئے یہ متضاد تصورات کہ ایک طرف غلامی سے نفرت اور دوسری طرف غلامی ہی منزل مقصود ہے اس تضاد کو سمجھنے کے لیے ایک بات زہن میں رکھنی چاہیے وہ یہ کہ انسان کو جو خصوصیات دے کر پیدا کیا گیا ہے اس کو دیکھتے ہوئے یوں معلوم ہوتا ہے کہ غلامی اور عبدیت انسان کی فطرت ہے وہ اس سے بےنیاز نہیں رہ سکتا۔ وہ ہزار یہ دعوٰی کرے کہ میں ایک آزاد زندگی اختیار کرنا چاہتا ہوں جس میں کوئی پابندی کسی اطاعت اور کسی بندگی کا شائبہ تک نہ ہو مگر عملََا اس کے لیے یہ ممکن نہیں کیونکہ وہ غذا کا محتاج ہے اس احتیاج سے بچ نہیں سکتا وہ آرام کے حصول کا خوگر ہے اس سے بےنیاز نہیں ہوسکتا وہ نہ جانے کتنے مائوف لمحوں میں کبھی خوف اور کبھی امید کی گرفت میں آجاتا ہے اس سے وہ آزاد نہیں ہوسکتا۔ محبت اور نفرت اس کے ایسے لاحقے ہیں جو اس سے الگ نہیں کیے جاسکتے بڑا بن کر رہنا اور دوسروں پر برتری ظاہر کرنا یہ اس کی وہ اندرونی خواہشیں ہیں کہ جن کی زنجیروں کو وہ توڑ نہیں سکتا۔ ممکن ہے کہ وہ بادشاہت کی غلامی سے بچ جائے وہ کسی نظام کو ماننے سے انکار کر دے۔ وہ برادری کی برتری سے بغاوت کر دے۔ لیکن سٹیٹس اور پر سٹیج کی پوجا اور خواہشات کی پیروی سے وہ کبھی آزاد نہیں رہ سکتا۔ یہ غلامی کی کہ وہ چند در چند صورتیں ہیں جس کی کسی نہ کسی صورت میں وہ ضرور مقید رہتا ہے اور یہی وہ قیود ہیں جو اس کی صلاحیتوں کے لیے سمِّ قاتل ثابت ہوتی ہیں وہ جتنا جتنا ان غلامیوں سے آزاد ہوتا جاتا ہے ویسے ویسے اس کی شخصیت میں قوت کے سوتے پھوٹتے جاتے ہیں اور جتناان غلامیوں کا شکار ہوتا جاتا ہے ویسے ویسے اس کی صلاحیتیں دھیمی پڑتی جاتی ہیں۔ بقول اقبال :
بندگی میں گھٹ کے رہ جاتی ہے اک جوئے کم آب
اور آزادی میں بحر بےکراں ہے زندگی
چناچہ انسانیت کا مستقبل، انسان کی صلاحیتوں اور اس کے آزاد ارادوں کو بروئے کار لانے اور اس کے ولولوں ہمہموں اور اس کی امنگوں کے پھلنے پھولنے میں مضمر ہے اس لیے پروردگار نے ہر قسم کی غلامی کو انسان کے لیے حرام قرار دے دیا۔ لیکن دوسری طرف چونکہ غلامی اس کی فطرت میں داخل ہے جس سے وہ کسی صورت بچ نہیں سکتا اس لیے ایک ایسی غلامی اس کی منزل مقصود بنادی گئی کہ جس غلامی کو قبول کرنے کے بعد آدمی باقی ساری غلامیوں سے نجات پاسکتا ہے۔ یہ بات بالکل واضح ہے کہ اگر مخلوق کی غلامیوں سے کسی غلامی کو مشروع قرار دیا جاتا تو پھر مخلوق کی غلامی سے بچنا ممکن نہ ہوتا اس لیے مخلوق کی ہر غلامی سے آزادی کا حکم دیا گیا اور صرف ایک غلامی کا جوار بخشا گیا بلکہ اس کا حکم دیا گیا وہ ہے ہمارے آقا ﷺ اور خالق کی غلامی کیونکہ خالق کی پرستش، اور خالق کی اطاعت اس کی غلامی کے بغیر ممکن نہیں اور پھر یہ وہ غلامی ہے جو باقی تمام غلامیوں سے خلاصی اور نجات کا ذریعہ ہے۔ بقول اقبال :
یہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے
ہزار سجدے سے دیتا ہے آدمی کو نجات
یہی وہ غلامی ہے جس سے مخلوق کی ہر طرح کی غلامی کی جڑ کٹ جاتی ہے اور اس کے نتیجے میں آدمی آزادی کے اس تصور کو پاسکتا ہے جس کے سائے میں اس کی صلاحیتیں پروان چڑھتی ہیں خواہشیں صحیح حدود میں محدود رہتیں اور اس کے ولولے پوری طرح بروئے کار آتے ہیں۔ چناچہ ہم آنحضرت ﷺ کی بعثت سے پہلے عرب و عجم میں جس بری طرح سے انسان کو بگڑا ہوا دیکھتے ہیں اس کی اگر حقیقت کو سمجھا جائے تو اس کے سوا کچھ نہیں کہ اس دور کا انسان پوری طرح اپنی خواہشوں کی گرفت میں تھا۔ وہ صرف اپنے مفادات کے لیے جیتا اور اپنے مفادات کے لیے مرتا تھا۔ خواہشات اور مفادات میں اجتماعی تصادم سے اللہ تعالیٰ کی یہ زمین فساد سے بھر گئی تھی اور انسانیت کا مستقبل تاریک ہو کر رہ گیا تھا۔ جیسے ہی اس پر اللہ کی غلامی کی سحر طلوع ہوئی اس نے رفتہ رفتہ انسان کو اس کی خود عائد کردہ زنجیروں سے آزاد کیا تو وہ انسان تیا رہوا جس کی نظیر نہ اس سے پہلے کبھی چشم فلک نے دیکھی تھی اور نہ آج پوری طرح دکھائی دیتی ہے۔ لیکن صدیوں سے وقت اس کی راہ تک رہا تھا۔ وہ بالآخر صحابہ کی شکل میں نظر آئی۔ بقول اقبال : ؎
طلب جس کی صدیوں سے تھی زندگی کو
وہ سوز اس نے پایا انہی کے جگر میں
اور پھر دعا کرتا ہے کہ :۔
دلِ مردِ مومن میں پھر زندہ کر دے
وہ بجلی کہ تھی نعرئہ لاتذر میں
عزائم کو سینوں میں بیدار کر دے
نگاہِ مسلماں کو تلوار کر دے
اب صرف ایک سوال باقی رہ جاتا ہے کہ اس غلامی کا صحیح مفہوم کیا ہے۔ ہم نہایت اختصار سے عرض کریں گے کہ غلامی کے اس مفہوم میں چار تصورات داخل ہیں۔
1 غلام اسے کہتے ہیں جسے حق ملکیت حاصل نہ ہو اس کے پاس جو کچھ ہے چاہے وہ جسم ہے یا جان، اس کی صلاحیتیں ہیں یا اس کی امنگیں ٗ اس کا مال و دولت ہے یا اس کے تعلقات ان میں سے وہ کسی چیز کا مالک نہیں۔ ان تمام چیزوں کا مالک اس کا وہ آقا ہے جس کا وہ غلام ہے۔
2 چونکہ وہ کسی چیز کا مالک نہیں اس لیے وہ یہ دعویٰ نہیں کرسکتا کہ میں اپنے زیر تصرف چیزوں میں اپنی مرضی کرنے کا حق رکھتا ہوں۔ یعنی مجھے آزادانہ تصرف کا حق حاصل ہے کہ جیسے چاہوں اور جہاں چاہوں استعمال کروں۔ اس لیے کہ آزادانہ تصرف کا حق اور من مرضی کا اختیار وہاں ہوتا ہے جہاں آدمی کو حق ملکیت حاصل ہو۔ کیونکہ اسی حق سے باقی حقوق پیدا ہوتے ہیں۔
3 غلام وہ ہوتا ہے جو اپنی زندگی کا نصب العین اور زندگی کا مقصد ازخود متعین نہیں کرسکتا، وہ خود یہ فیصلہ کرنے کا حق نہیں رکھتا کہ مجھے زندگی کس طرح گزارنا ہے۔ میں ایک عالم بن کر زندگی گذاروں یا ایک استاد بن کر۔ مجھے انجینئر بننا ہے یا ایک تاجر بننا ہے۔ میں زندگی اپنے لیے گزاروں یا لوگوں کی خدمت کے لیے صرف کروں۔ ان میں سے اسے کسی بات کا حق نہیں ہوتا ٗاس کی ان باتوں کا اختیا راس کے آقا کو ہے۔ وہ جو اس کا مقصد زندگی متعین کر دے اسے اسی مقصد کے مطابق زندگی گزارنا ہوگی۔
4 اس غلام کا آقا اسے جس حال میں رکھے اسے اس بات کا حق نہیں ہوتا کہ وہ حرف شکایت زبان پر لائے وہ ادب اور احترام سے اپنی ضرورتیں اپنے آقا کی خدمت میں پیش کرسکتا ہے بلکہ شائد آقا کو یہ بات اچھی لگے کہ اس کا غلام اس سے مانگے بلکہ مانگتا رہے۔ لیکن اگر وہ اسے دینا پسند نہ کرے یا اس کی مرضی کے مطابق دینا پسند نہ کرے تو اسے یہ حق نہیں ہے کہ وہ اس کے خلاف سوچے، زبان کھولیٗ یا دوسروں سے شکایت کرے۔
تاریخ میں آتا ہے کہ حضرت عبداللہ ابن مبارک ایک دن اپنے گھر میں بیٹھے تھے کھڑکیوں کے شیشوں سے انھوں نے گلی میں دیکھا کہ ایک نوجوان بار بار کسی کام کے لیے اس یخ بستہ رات میں آجا رہا ہے۔ انھوں نے اسے غور سے دیکھا تو یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ اس نے اکہرا لباس پہن رکھا ہے اور اوپر کوئی گرم چادر تک نہیں بہت حیران ہوئے۔ نہ رہ سکے، اس نوجوان کو اندر طلب کیا پوچھا ٗ صاحبزادے تمہیں سردی نہیں لگتی ؟ اس نے عرض کیا ٗ جی لگتی ہے۔ کہا تم نے گرم کپڑے کیوں نہیں پہنے ؟ عرض کیا کہ گرم کپڑے میرے پاس نہیں ہیں۔ فرمایا تم کون ہو ؟ عرض کیا کہ میں غلام ہوں۔ پوچھا تم نے اپنے آقا سے گرم کپڑے نہ ہونے کی شکایت نہیں کی۔ اس نے حیران ہو کر حضرت عبد اللہ ابن مبارک کی طرف دیکھا اور ادب سے عرض کیا کہ حضرت میں غلام ہوں میرے آقا جانتے ہیں کہ میرے پاس گرم کپڑے نہیں ہیں۔ یہ بھی جانتے ہیں کہ یہ سردیوں کا موسم ہے۔ اور رات بہت ٹھنڈی ہے اس کے باوجود وہ باہر مجھے کام کے لیے اس حالت میں بھیج رہے ہیں۔ تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ مجھے اسی حال میں دیکھ کر خوش ہیں۔ اب میری غلامی کا یہ تقاضا ہے کہ جس حال میں میرا آقاخوش رہے میں اس کی خوشی میں خوش رہوں اور اس کے خلاف حرف شکایت زبان پر نہ لائوں کیونکہ اگر میں نے ایسا کیا تو یہ میری غلامی کے آداب کے خلاف ہوگا۔ یہ جواب سن کر حضرت عبد اللہ ابن مبارک پھڑک اٹھے۔ فرمایا نوجوان تم نے میری آنکھیں کھول دیں۔ اور آج مجھے معلوم ہوا کہ غلامی کا حقیقی مفہوم کیا ہے ؟ حیرت ہوتی ہے کہ صحابہ کرام ( رض) زیادہ پڑھے لکھے لوگ نہیں تھے لیکن آنحضرت ﷺ کی صحبت نے ان میں وہ چیزیں پیدا کردی تھیں کہ برس ہا برس کے مطالعہ کے بعد بھی آدمی بصد مشکل سمجھ پاتا ہے۔ روایات میں آتا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے ایک صاحب کو مغرب کی نماز پڑھ کر سلام پھیرتے ہی فورا ً مسجد سے نکلتے دیکھا تو آپ کو حیرت ہوئی۔ دوسرے تیسرے چوتھے روز بھی آپ نے اسی طرح اسے نکلتے دیکھا تو آپ نے آواز دے کر اسے بلایا اور پوچھا کہ بھئی تم نماز کے فورا ًبعد کیوں چلے جاتے ہو ؟ اس نے عرض کی کہ حضور کوئی اور پوچھتا تو میں کبھی نہ بتاتا لیکن آپ سے کیسے چھپاؤں ؟ بات یہ ہے کہ یہ جو میں اپنے اوپر چادر لے کر آیا ہوں یہی میرے گھر کا کل اثاثہ ہے۔ گھر میں میری بیوی منتظر ہیں کہ میں گھر پہنچوں تاکہ وہ بھی اول وقت میں نماز ادا کرسکیں کیونکہ ان کے پاس کوئی اور چادر نہیں ہے۔ اس لیے میں جلدی چلا جاتا ہوں۔ حضور ﷺ یہ سن کر آبدیدہ ہوگئے اور آپ نے ان کے لیے فراخیِ رزق کی دعا فرمائی۔ وہ صاحب جب گھر پہنچے تو بیوی نے پوچھا کہ آج آپ کچھ تاخیر سے تشریف لائے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ حضور ﷺ نے روک لیا تھا۔ بیوی نے پریشانی سے پوچھاک ہیں آپ نے بتا تو نہیں دیا۔ انھوں نے کہا کہ بتا آیا ہوں۔ بیوی نے انتہائی پریشانی کے عالم میں کہا کہ آپ نے اچھا نہیں کیا۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں جس حال میں رکھا تھا ہم اس کے بندے ہیں ہمیں کوئی حق نہیں پہنچتا کہ ہم اس کے خلاف حرف شکایت زبان پر لائیں۔ آپ نے جو آنحضرت ﷺ سے ذکر کیا کہیں اس کا مطلب یہ نہ سمجھ لیا جائے کہ ہم اپنے اس حال پر صابرو شاکر نہیں ہیں۔
یہ ہے غلامی کا وہ حقیقی مفہوم کہ ہر مسلمان اپنے اللہ کا غلام ہے۔ نہ اس کا جسم اپنا ہے نہ جان نہ اس کی صلاحتیں اور توانائیاں اپنی ہیں نہ جسمانی قوتیں ‘ نہ اولاد پر اسے حق ملکیت حاصل ہے نہ مال و دولت پر ‘ یہ سب کچھ اللہ کی دین ہے۔ وہی ان سب کا مالک ہے۔ مسلمانوں کے پاس یہ اس کی دی ہوئی امانت ہے۔ امانت میں ان حدود سے تجاوز کرنا جو امانت رکھنے والے عائد کردی ہیں یا اپنی مرضی اس طرح استعمال کرنا جو امانت کو ملکیت بنا دے تو یہ امانت داری نہیں بلکہ خیانت ہے۔ ہم اپنی ان چیزوں میں اپنی مرضی کرنے کے ہرگز مجاز نہیں۔ زندگی اس نے ہمیں گذارنے کے لیے دی ہے تو گزارنے کے طریقے بھی عطا فرمائے ہیں۔ اس میں اپنی مرضی سے لکیریں کھینچنا ‘ اپنی مرضی سے نقشے بنانا ‘ اپنی مرضی سے اس کے اصول و ضوابط اور آداب وضع کرنا یہ بندگی اور غلامی کے آداب کے خلاف ہے اور پھر اس زندگی کے لیے از خود نصب العین اور مقصد زندگی متعین کرنا یہ سراسر حدود سے تجاوز ہے۔ اور پھر زندگی کے ہر شعبے کے لیے جو احکام دیئے گئے ہیں انھیں کامل بندگی کے تصور کے ساتھ بجا لانے کی بجائے انکے خلاف دل و دماغ کی قوتیں صرف کرنا ‘ اس کے خلاف اپنے اعضاء و جو اراح کو حرکت میں لانا بلکہ کھلم کھلا اس کے احکام کے خلاف زندگی کا فیصلہ کرنا یہ سراسر اس کی بندگی اور غلامی سے بغاوت ہے اور پھر وہ تنگی و ترشی ‘ عسر وبسر اور امن اور خوف ‘ جس حال میں بھی رکھے اس کے خلاف حرف شکایت زبان پر لانا یا اس کے سوا کسی اور کے سامنے دست سوال دراز کرنا اور کسی اور سے امیدیں باندھنا ‘ محبت کسی اور سے کرنا ‘ نفرت کا حوالہ کسی اور کو بنانا ‘ دل کی دینا کسی اور سے آباد کرنا ‘ زندگی کے الجھے ہوئے مسائل میں اس کی دی ہوئی ہدایت کے بر عکس کوئی اور ہدایت قبول کرنا یہ سب وہ باتیں ہیں جو اس بندگی اور غلامی کے خلاف ہیں۔
یہ غلامی کا وہ حقیقی مفہوم ہے جس میں کائنات کا ذرہ ذرہ جکڑا ہوا ہے۔ خالق حقیقی وہ غالب و قادر آقا ہے کہ اس کی کائنات کی ہر مخلوق اس کے سامنے سراپا تسلیم وانقیاد ہے جس مخلوق کو جس کام میں لگا دیا گیا ہے اس کی مجال نہیں کہ وہ اس سے سرتابی کرسکے۔ ایک چھوٹے سے چھوٹے ذرے سے لے کر بڑے سے بڑے کُرّے تک ہر مخلوق اپنی اپنی مفوضہ ذمہ داری ادا کرنے میں سرتا پا مصروف عمل ہے۔ ارشاد خداوندی ہے :
اللّٰہَ یَسْجُدُ لَہٗ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَالشَّمْسُ وَالْقَمَرُوَالنُّجْوُمُ وَالْجِبَالُ والشَّجَرُ وَالدَّوَآبُّ وَکَثِیْرٌمِّنَ النَّاسِ ط (الحج : 22۔ 18)
(اللہ ہی کے لیے جھکے ہوئے ہیں جو آسمانوں اور زمین میں ہیں اور سورج اور چاند اور ستارے اور پہاڑ اور درخت اور چارپائے اور بہت سے لوگ (سب اسی کے سامنے سجدہ ریز ہیں )
وَلِلَّہِ یَْسجُدُ مَافِی السَّمٰوٰتِ وَمَافِی الْاَرْضِ مِنْ دَآبَّۃٍ وَّالْمَلٰٓـِٔکَۃُ وَھُمْ لاَ یَسْتَکْبِرُوْنَ ۔ یَخَافُوْنَ رَبَّھُمْ مِّنْ فَوْقِھِمْ وَیَفْعَلُوْنَ مَاَیُؤْمَرُوْنَ ۔ ع السجدۃ
(اور اللہ ہی کے لیے سجدہ کر رہے ہیں جو کوئی آسمانوں میں ہیں اور جو کوئی زمین میں ہیں چارپایوں میں سے اور فرشتوں میں سے اور وہ تکبر نہیں کرتے وہ اپنے اوپر اپنے رب سے ڈرتے ہیں اور وہ کرتے رہتے ہیں جس کا انھیں حکم دیا جاتا ہے)
وَاِنْ مِّنْ شَیْئٍ اِلَّا یُسَبِّحُ بِحَمْدِہٖ وَلٰـکِنْ لاَّ تَفْقَہُوْنَ تَسْبِیْحَھُمْ ط (بنی اسرائیل : 17۔ 44)
(ہر چیز اس کی تسبیح میں لگی ہوئی ہے مگر تم ان کی تسبیح کو سمجھتے نہیں ہو)
اِنْ کُلُّ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ اِلاَّ اٰتِی الرَّحْمٰنِ عَبْدًا ط (مریم : 19۔ 93)
(آسمانوں اور زمین میں جو کوئی ہے وہ اللہ کے پاس غلام بن کے آنے والا ہے)
سورج اس کی غلامی میں چمک رہا ہے۔ چاند اس کی بندگی میں دمک رہا ہے ہر سیارہ اس کی چاکری میں محو حرکت ہے۔ پہاڑ اس کے حکم کی تعمیل میں ایستادہ ہیں۔ زمین اس کی اطاعت میں بچھی ہوئی اپنا فرض انجام دے رہی ہے۔ فرشتے اس کے احکام کی بجاآوری میں ہمہ وقت اور ہمہ تن مصروف عمل ہیں کائنات کی ہر مخلوق سراپا خدمت و اطاعت ہے اور ایک لمحے کے لیے بھی اپنی ڈیوٹی سے غفلت یا سرکشی کا شکار نہیں ہوتی۔
مسلمانوں میں عبادت کا غلط تصور
لمحہء فکریہ، یہ ہے کہ یہ تمام مخلوقات جو اپنی تمام تر قوت و شوکت کے باوجود حضرت انسان کے لیے مسخر و مطبع اور تابع فرمان بنادی گئی ہیں اور انسان کو نہ صرف ان سے خدمت لینے کا حق دیا گیا ہے بلکہ کائنات کی پاکیزہ ترین مخلوق یعنی فرشتوں کا اسے مسجود بنادیا گیا ہے اور اشرف المخلوقات کا طغرہ اس کے سر پر سجایا گیا ہے۔ وہ مخلوقات تو اپنے خالق ومالک کی ہمہ وقت اور ہمہ نوع بندگی و غلامی میں مصروف ہیں اور یہ اشرف واعلیٰ کہلانے والا بندگی و غلامی تو رہی ایک طرف بالعموم معصیت و نافرمانی بلکہ سرکشی و بغاوت پر تلا رہتا ہے۔ اس کی شرافت و فضیلت کا تقاضہ تو یہ تھا کہ یہ بندگی و اطاعت میں باقی تمام مخلوقات سے بڑھ جاتا بلکہ پروردگار کی طرف سے بھی اس پر دوسری مخلوقات سے بڑھ کر بندگی و غلامی کی ذمہ داریوں کا بار ڈالا جاتا جبکہ ہمارے یہاں عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ نماز ‘ روزہ ‘ حج اور زکوٰۃ صرف یہی عبادات ہیں ان پر عمل کرلینے سے عبادت کا حق ادا ہوجاتا ہے یعنی زندگی کے شب و روز میں سے نماز کے چند اوقات بارہ مہینوں میں رمضان کا ایک مہینہ پوری زندگی میں حرمین کی بقصد حج ایک دفعہ کی حاضری اور دولت کی بہتات میں بھی سال بہ سال اڑھائی فیصد زکوٰۃ کی ادائیگی یہ وہ پروردگار کے حقوق ہیں جن کے ادا کرنے سے عبادت کی ذمہ داری ساقط ہوجاتی ہے۔ یہی وہ غلط فہمی ہے جس نے ہماری اجتماعی زندگی کو عبادت کے ہمہ نوعی اثرات سے محروم کردیا ہے حالانکہ امر واقعہ یہ ہے کہ ہماری زندگی مہد سے لحد تک عبادت کی ذمہ داریاں رکھتی ہے۔ قبل از بلوغ ماں باپ کے واسطے سے یہ ذمہ داریاں ادا ہوتی ہیں اور بعد از بلوغ ہر مرد و عورت کی مکلف زندگی شروع ہوجاتی ہے۔ جس میں جوانی کی جولانیاں بھی ہیں ‘ صلاحیتوں اور توانائیوں کا امتحان بھی ہے۔ قلب و ذہن کی رعنائیوں کا نشیب و فراز بھی ہے۔ محبتوں کی ہماہمی بھی ہے ‘ تنہائیوں کا سوز و گداز بھی ہے۔ ذمہ داریوں کے بار بھی ہیں۔ اور فارغ البالیوں کی سرمستیاں بھی ہیں۔ ڈھلتی ہوئی عمر کا سوز و گداز بھی ہے اور دم توڑتی ہوئی صلاحیتوں کا خمار بھی ہے ان تمام حوالوں سے عبادت اپنا مفہوم رکھتی ہے اور ان تمام بدلتے ہوئے حالات میں پروردگار کے احکام کی اطاعت فی الحقیقت وہ عبادت ہے جس کے بارے میں کل کو سوال ہوگا آنحضرت ﷺ کا ارشاد ہے کہ قیامت کے دن جب ہم میں سے ہر فرد بارگہ حق میں حاضر ہوگا تو زمین ہمارے پاؤں جکڑلے گی اور اس وقت تک نہیں چھوڑے گی تاوقتیکہ پانچ باتوں کا جواب نہیں دے دیا جائے گا۔ پوچھا جائے گا زندگی کیسے گذار کے آئے ہو جوانی کس طرح کے کاموں میں صرف کی۔ مال کس طرح کمایا اور کہاں خرچ کیا اور علم حاصل کیا یا نہیں اگر کیا تو اس کا کیا حق ادا کیا۔ یعنی زندگی کے ایک ایک لمحے ‘ نعمتوں میں سے ایک ایک نعمت اور توانائیوں اور صلاحیتوں سے ایک ایک توانائی اور صلاحیت اور عہدہ و مناصب میں سے ایک ایک منصب کا حساب ہوگا۔
دست درازیوں کا بھی حساب ہوگا اور کوتاہیوں کا بھی دل و دماغ کی کج اندیشیوں کے کے بارے میں بھی پوچھا جائے گا اور نگاہوں کی خیانتوں کے بارے میں بھی قدموں کے حدود سے تجاوز کا بھی حساب ہوگا اور تساہل و تغافل اور لغزش قدم کا بھی مال و دولت کے حوالے سے حرام ذرائع اختیار کرنے پر بھی باز پرس ہوگی اور بخل واسراف پر گرفت بھی جھونپڑے والا اگر احتساب سے گذرے گا تو تخت و تاج کا مالک بھی اس سے بچ نہ سکے گا۔ رند و مست اگر پکڑا جائے گا تو عابد و زاہد بھی خشوع و خضوع کا حساب دیے گا۔ غرضیکہ انسان کو ہمہ وقتی اور ہمہ نوعی عبادت کا مکلف بنایا گیا ہے جس میں زندگی کا ہر شعبہ اور ہر ذمہ داری شامل ہے۔
نماز، روزہ، حج اور زکوٰۃ کو عبادت کہنے سے اسلام کی مراد
اسلام نے اگرچہ نماز روزہ حج اور زکوٰۃ کو عبادت کا نام دیا ہے مگڑ اس کا یہ مطلب نہیں کہ صرف یہی عبادات ہیں۔ ان کو عبادت کہنے کا مطلب تو یہ ہے کہ یہ اس طرح کی عبادات ہیں کہ ان کو فہم و شعور سے ادا کرنے والا باقی زندگی کو بھی اسی ڈھب پر لے آتا ہے اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ یہ ایسے افعال ہیں جواز اول تا آخر خالصتاً تسلیم و الْقیاد اور حضوریِ حق سے عبارت ہیں جبکہ باقی زندگی کا ہر کام اطاعت خداوندی سے عبادت بنتا ہے۔ یہی وہ غلط فہمی ہے جو بعض صحابہ کو بھی ہوئی انھوں نے صرف انھیں افعال و اعمال کو دینداری اور عبادت سمجھ کر اور باقی معاملات کو دنیاداری جان کر یہ فیصلہ کیا کہ ہم راتیں نماز میں گزاریں گے اور دن روزے میں۔ اور بیویوں سے کوئی تعلق نہیں رکھیں گے۔ آنحضرت ﷺ نے انھیں سرزنش کرتے ہوئے فرمایا کہ مجھے دیکھو میں رات کو نماز بھی پڑھتا ہوں اور سوتا بھی ہوں میں روزے بھی رکھتا ہوں اور چھوڑتا بھی ہوں میں نکاح بھی کرتا ہوں اور بیویوں سے تعلق بھی رکھتا ہوں یہ میرا طریقہ یعنی میری سنت ہے جس نے میرے طریقے کی پیروی کی وہ مجھ سے ہے اور جس نے ایسا نہ کیا اس کا مجھ سے کوئی رشتہ نہیں عجیب بات تو یہ ہے کہ کھانا پینا جو سراسر ایک دنیاداری ہے قرآن کریم نے اسے بھی دینداری اور عبادت قرار دیا۔ ارشاد خداوندی ہے :
یٰٓاَیُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُلُوْا مِنْ طَیِّبٰتِ مَارَزَقْنٰـکُمْ وَاشْکُرُوْالِلّٰہِ اِنْ کُنْتُمْ اِیَّاہُ تَعْبُدُوْنَ ۔ (البقرۃ 2: 172)
(اے مومنو ! کھاؤ ان پاکیزہ نعمتوں میں سے جو اللہ نے تمہیں عطا فرمائی ہیں اور اللہ کا شکر بجا لاؤ اگر تم اسی کی عبادت کرنا چاہتے ہو)
تو غور فرمائیے اس آیت میں پاکیزہ نعمتوں کے کھانے اور ان پر شکر بجا لانے کو عبادت قرار دیا ہے۔
مندرجہ بالا گزارشات سے یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ ہمیں جس عبادت کا حکم دیا گیا ہے اور وہی ہماری تخلیق کا مقصد بھی ہے وہ ایک ہمہ وقتی عبادت ہے جو پوری زندگی پر حاوی ہے اور جس میں زندگی کا ہر شعبہ داخل ہے۔ اس پوری زندگی کی عبادت سے انسان باقی تمام مخلوقات بالخصوص ملائکہ کا ہم پلہ ہوجاتا ہے مگر انسان کے اشرف المخلوقات ہونے کا تقاضہ تو اس سے کچھ سوا کا تقاضہ کرتا ہے کیونکہ :
جن کے رتبے ہیں سوا ان کی سوا مشکل ہے
اس کی شرافت و فضلیت کا تقاضا تو یہ ہے کہ اس کی عبادت میں کوئی ایسی حقیقت کار فرمائی ہونی چاہیے جو باقی مخلوقات پر اس کا افضل ہونا مبرہن کر دے۔
انسان کے اشرف المخلوقات ہونے کی دو بنیادی وجوہات
اس حوالے سے جب غور کرتے ہیں تو دو حقائق ہمارے سامنے کھلتے ہیں جو انسان کے افضل و اعلیٰ ہونے پر دلالت کرتے ہیں۔ ان میں سے پہلی حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی تمام مخلوقات جن وانس کے علاوہ ایسی ہیں جن کے بارہ یہ بات مسلم ہے کہ قدرت نے انھیں ارادہ و اختیار کی آزمائش میں مبتلا نہیں کیا۔ ان کی اطاعت و عبارت جیسی کچھ بھی ہے اس میں ان کے اختیار کا کوئی دخل ہیں۔ انھیں انکار کی صلاحیت سے بہرہ ور نہیں کیا گیا بلکہ وہ اپنی فطرت اور جبلت کے اعتبار سے اللہ تعالیٰ کی عبادت و اطاعت اور تسلیم وانقیاد پر مجبور ہیں۔ مگر اس کے برعکس انسان کا حال یہ ہے کہ اسے اس بات کی آزادی دی گئی ہے اور حق و باطل کے اختیار اور خیر وشر کے امتیاز میں اسے آزاد چھوڑا گیا ہے کہ دونوں میں جسے چاہو اختیار کرو۔ اسی طرح احکام کی اطاعت میں بھی کوئی اضطرار نہیں بلکہ یہ اختیار دیا گیا کہ چاہو تو اطاعت کا راستہ اختیار کرو چاہو تو معصیت کا۔ اس قوت تمیز اور اختیار کی آزادی کے صحیح استعمال پر اجرو ثواب کی امید دلائی کئی اور غلط استعمال پر سزا اور عذاب کی تہدید سنائی گئی۔ پھر اسی پر بس نہیں بلکہ اس اختیار اور آزادی کے مزید امتحان کے لیے انسان کے اندر مکروہات و منکرت اور فواحش کی خواہش اور ہوس کو بھی پیدا کیا گیا۔ اب جو آدمی خواہشات و مرغوبات اور امیدوں اور آرزوؤں کے کانٹوں سے دامن بچاکر ارادہ و اختیار کے صحیح استعمال سے معصیت و نافرمانی اور سرکشی و بغاوت کا راستہ اختیار کرنے کی بجائے عبادت و بندگی کا راستہ اختیار کرتا ہے تو اس کے افضل او اعلیٰ ہونے میں کیا شبہ ہے ؟ فرشتہ کبھی گناہ نہیں کرتا۔ اس لیے کہ اس میں گناہ کے لیے رغبت ہی نہیں وہ کبھی انحراف اور سرکشی کا رویہ اختیار نہیں کرتا اس لیے کہ اس میں اس کی طاقت و صلاحیت ہی نہیں وہ شرم و حیا کا پیکر بن کر پاکدامنی کی علامت بن جاتا ہے اس لیے کہ اس میں خواہش نفس کا وجود ہی نہیں۔ مگر جب یہی صفات انسان اختیار کرتا ہے تو بجا طور پر یہ اس کے لیے باعث شرف ہے کیونکہ وہ خواہش ِنفس کا شکار ہے وہ معصیت کی طرف رغبت رکھتا ہے وہ حُبِّ دنیا اور ہوس زر کا اسیر ہے۔ وہ طاقت اور گھمنڈ کا رسیا ہے۔ وہ عہدہ و منصب کا نخچیر ہے۔
بقیہ تفسیر اس آیت کی اگلی آیت میں۔