مسئلہ نمبر 23: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ایاک نعبد۔ اللہ تعالیٰ نے غائب کے صیغوں سے خطاب کے صیغہ کی طرف رجوع فرمایا کلام میں رنگینی پیدا کرنے کے لئے کیونکہ سورت کے آغاز سے لے کر یہاں تک اللہ تعالیٰ کے متعلق خبر تھی اور اس کی ثنا تھی۔ جیسا اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : وسقھم ربھم شرابا طھوراً (الدہر) (اور پلائے گا انہیں ان کا پروردگار نہایت پاکیزہ شراب) ۔ پھر آگے مخاطب کی ضمیر ذکر فرمائی۔ فرمایا : ان ھذا کان لکم جزآءً (الدہر :22) ( انہیں کیا جائے گا) یہ تمہارا صلہ ہے۔ اسی طرح اس کا الٹ بھی قرآن میں ہے یعنی پہلے مخاطب کے صیغے اور پھر غائب کے صیغے ذکر فرمائے۔
حتی اذا کنتم فی الفلک وجرین بھم (یونس :22) یہاں تک کہ جب تم سوار ہوتے ہو کشتیوں میں اور وہ چلنے لگتی ہیں مسافروں کو لے کر) اس کا ذکر آگے آئے گا۔
نعبد کا معنی ہے نطیع (ہم عبادت کرتے ہیں) عبادت کا مطلب طاعت اور عجز و انکساری کا اظہار کرنا ہے۔ طریق معبد اس راستہ کو کہتے ہیں جو چلنے والوں کے لئے آسان بنایا گیا ہو۔ یہ ہر وی کا قول ہے۔ بندہ جب یہ کہتا ہے تو یہ اللہ تعالیٰ کی ربوبیت کا اقرار ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے لئے عبادت کو ثابت کرتا ہے، کیونکہ لوگ اللہ تعالیٰ کے سوا بتوں وغیرہ کو بھی پوجتے ہیں۔ وایاک نستعین۔ یعنی ہم تجھے سے ہی مدد، تائید اور توفیق طلب کرتے ہیں۔ سلمی نے “ حقائق ” میں کہا : میں نے محمد بن عبد اللہ بن شاذان کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ میں نے ابو حفص فرغانی کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ جس نے ایاک نعبد وایاک نستعین کا اقرار کیا وہ جبر وقدر سے بری ہوگیا۔
مسئلہ نمبر 24: اگر یہ سوال کیا جائے کہ یہاں مفعول کو فعل پر مقدم کیوں کیا گیا ہے تو جواباً کہا جائے گا اہتمام کی خاطر مقدم کیا گیا ہے۔ عربوں کی یہ عادت ہے کہ اہم کو مقدم کردیتے ہیں۔ ذکر کیا جاتا ہے کہ ایک بدو نے دوسرے بدو کو گالی دی تو جس کو گالی دی گئی اس نے گالی دینے والے سے اعراض کیا۔ گالی دینے والے نے اس سے کہا : ایاک اعنی (میری مراد تو ہی ہے) ۔ اسے دوسرے نے کہا : وعنک اعرض میں تجھ ہی سے اعراض کرتا ہوں۔ دونوں نے اہم کو مقدم کیا۔ اسی طرح بندے اور عبادت کو معبود پر مقدم نہیں کیا گیا۔ پس نعبدک اور نسعتینک، ولا نعبد ایاک ونسعتین ایاک جائز نہیں کہ فعل کو مفعول کی ضمیر پر مقدم کیا جائے، لفظ قرآن کی اتباع کی جائے گی۔ عجاج نے کہا :
ایاک ادعو فتقبل ملقی واغفر خطایای وکثر ورقی
میں تجھ سے ہی التجا کرتا ہوں، میری عاجزی کو قبول فرما، میرے گناہ معاف فرما اور میرے مال سے زیادہ فرما۔
اور ثمر بھی مروی ہے۔ رہا شاعر کا قول :
الیک حتی بلغت ایاکا اونٹنی تیری طرف چلی حتیٰ کہ تیرے پاس پہنچ گئی۔
یہ شاذ ہے اس پر قیاس نہیں کیا جائے گا۔ ورق راء کے کسرہ کے ساتھ ہو تو مراد دراہم اور واو کے فتحہ کے ساتھ ہو تو مراد مال ہوگا۔ آیت میں ضمیر کو مکرر فرمایا تاکہ یہ وہم نہ ہو کہ تیری عبادت کرتے ہیں اور غیر سے مدد چاہتے ہیں۔
مسئلہ نمبر 25: جمہور قراء اور علماء ایاک کو یاء کی شد کے ساتھ پڑھتے ہیں۔ عمرو بن فائدنے ایان کو ہمزہ کے کسرہ اور یاء کی تخفیف کے ساتھ پڑھا ہے۔ انہوں نے یاء کی تضعیف کو ناپسند کیا ہے کیونکہ یاء کی تشدید اور اس کے ماقبل کسرہ ہونے کی وجہ سے ثقل لازم آتا ہے یہ قرأت مرغوب نہیں ہے کیونکہ اس صورت میں معنی ہوگا ہم تیرے سورج یا تیری روشنی کی عبادت کرتے ہیں ایاۃ الشمس کا مطلب ہے سورج کی روشنی اور کبھی ہمزہ کو فتح بھی دیا جاتا ہے۔ شاعر نے کہا :
سقتہ ایاۃ الشمس الا لثاتہ اسف فلم تکدم علیہ باثمد
اس میں شاعر نے ایاۃ کو ہمزہ کے فتحہ کے ساتھ پڑھا ہے۔
اگر تو ہا کو گرا دے تو مد کے ساتھ پڑھے گا۔ کہا جاتا ہے : الا یاۃ للشمس کا لھالۃ للقمر یعنی چاند کے اردگرد کے دائرہ کو ہالہ کہتے ہیں اور سورج کے دائرہ کو ایاۃ کہتے ہیں۔ فضل رقاشی نے ایاک ہمزہ کے فتحہ کے ساتھ پڑھا ہے۔ یہ مشہور لغت ہے (1) ۔ ابو سوار غنوی نے دونوں جگہ پر ھیاک پڑھا ہے۔ یہ بھی ایک لغت ہے۔ شاعر نے کہا :
فھیاک والامر الذی ان توسعت مورادہ ضاقت علیک مصادرہ
یہاں ھیاک، ایاک کے لئے استعمال ہوا ہے۔
مسئلہ نمبر 26: وایاک نستعین۔
جملہ کا جملہ پر عطف ہے۔ یحییٰ بن وثاب اور اعمش نے نستعین کو نون کے کسرہ کے ساتھ پڑھا ہے۔ یہ تمیم، اسد، قیس اور ربیعہ قبائل کی لغت ہے تاکہ مدد طلب کرنے والے پر دلالت کرے، نون کو کسرہ دیا جاتا ہے جس طرح الف وصل کو کسرہ دیا جاتا ہے۔ نستعین اصل میں نستمعون تھا واؤ کی حرکت عین کو دی تو واو یاء بن گئی۔ اس کا مصدر استعانۃ ہے اصل میں استمعوان تھا۔ واو کی حرکت عین کو دی گئی تو واو الف سے بدل گئی، دوساکن جمع نہیں ہوتے، تو دوسرے الف کو حذف کیا گیا کیونکہ یہ زائدہ تھا۔ بعض نے فرمایا : پہلے الف کو حذف کیا گیا کیونکہ دوسرا معنی کے لئے ہے اور ھاء عوضا لازم ہے (یعنی واو کو حذف کیا تو اس کے عوض آخر میں ھاء لازم ہے۔ )