[ صِرَاطَ الَّذِیْنَ : ان لوگوں کا راستہ ] [ اَنْعَمْتَ عَلَیْہِمْ : جن پر تو نے انعام کیا ] [ غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْہِمْ : جن پر غضب نہیں کیا گیا ] [ وَلَا الضَّآلِّیْنَ : اور جو گمراہ ہونے والے نہیں ہیں ]
ن ع م
نَعَمَ یَنْعَمُ ۔ نَعَمَ یَنْعُمُ (ف۔ ن) نَعْمَۃً : خوشحال ہونا ‘ نعمت پانا۔
نَعِمَ یَنْعَمُ (س) نَعَمًا : سرسبز ہونا ‘ تروتازہ ہونا۔
نَعْمَۃٌ اور نِعْمَۃٌ : نعمت ۔ { وَذَرْنِیْ وَالْمُکَذِّبِیْنَ اُولِی النَّعْمَۃِ } (المزمل :11) ” اور تو چھوڑ دے مجھ کو اور جھٹلانے والوں کو جو نعمت والے ہیں۔ “ { وَاذْکُرُوْا نِعْمَۃَ اللّٰہِ } (البقرۃ :231) ” اور تم لوگ یاد کرو اللہ کی نعمت کو۔ “
نعماء ج انعم : آرام ‘ آسودگی۔ { لَئِنْ اَذَقْنَاہُ نَعْمَائَ بَعْدَ ضَرَّآئَ } (ھود :10) ” اور اگر ہم چکھائیں اس کو آرام تکلیف کے بعد۔ “ { فَکَفَرَتْ بِاَنْعُمِ اللّٰہِ } (النحل :122) ” تو اس نے ناشکری کی اللہ کی (دی ہوئی) آسودگیوں کی) ۔ “
نَعِیْمٌ : ہمیشہ خوشحال ‘ ہمیشہ تروتازہ۔ { اِنَّ الْاَبْرَارَ لَفِیْ نَعِیْمٍ } (الانفطار :13) ” بیشک نیکوکار ہمیشگی کی خوشحالی میں ہوں گے۔ “ { اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَھُمْ جَنّٰتُ النَّعِیْمُ } (لقمٰن :8) ” بیشک جو لوگ ایمان لائے اور نیک اعمال کیے ان کے لیے ہمیشہ سرسبز رہنے والے باغات ہیں۔ “
نَاعِمٌ : خوشحال ہونے والا ‘ تروتازہ ہونے والا ۔ { وُجُوْہٌ یَّوْمَئِذٍ نَاعِمَۃٌ} (غاشیۃ :8) ” کچھ چہرے اس دن تروتازہ ہونے والے ہیں۔ “
نَعَمٌج اَنْعَامٌ : مویشی ‘ چوپائے (یہ اللہ کی نعمت ہیں) ۔ { فَجَزَائٌ مِّثْلَ مَا قَتَلَ مِنَ النَّعَمِ } (المائدۃ :95) ” تو بدلہ ہے ویسا ہی جو اس نے قتل کیا مویشی میں سے۔ “
نِعْمَ وَنَعِمًا : مدح یعنی تعریف کے الفاظ ہیں۔ کیسا اچھا ‘ کتنا عمدہ۔ { فَاعْلَمُوْا اَنَّ اللّٰہَ مَوْلٰـکُمْ نِعْمَ الْمَوْلٰی وَنِعْمَ النَّصِیْرُ } (الانفال :40) ” پس تم لوگ جان لو کہ اللہ تمہارا مولا ہے تو کیسا اچھا مولیٰ ہے اور کیسا اچھا مددگار ہے۔ “{ اِنْ تُبْدُوا الصَّدٰقٰتِ فَنِعِمَّاھِیَ } (البقرۃ :271) ” اگر تم علانیہ صدقہ دو تو کیسا اچھا ہے یہ۔ “
نَعَمْ : ہاں۔ { قُلْ نَعَمْ وَاَنْتُمْ دٰخِرُوْنَ } (الصفت :18) ” آپ ﷺ کہیے ہاں اور تم لوگ ذلیل ہو گے۔ “
اَنْعَمَ یُنْعِمُ (افعال) اِنْعَامًا : خوشحال کرنا ‘ نعمت دینا۔ { اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ } (الفاتحۃ :6) ” تو نے نعمت دی جن کو ۔ “
اَلَّذِیْنَ : اَلَّذِیْ واحد اور اَلَّذِیْنَجمع ہے۔ یہ دونوں مبنی ہیں۔ لیکن اس کا تثنیہ قاعدہ کے مطابق اَللَّذَانِ ۔ اَللَّذَیْنِآتا ہے ۔ یہ بھی نوٹ کرلیں کہ اَلَّذِیْ اوراَلَّذِیْنَایک لام کے ساتھ لکھا جاتا ہے جبکہ اس کا تثنیہ عموماً دو لام کے ساتھ لکھا جاتا ہے ۔ البتہ قرآن مجید کے املاء پر غور کرنا ضروری ہے۔ اس لیے کہ سورة النساء کی آیت 16 میں اَلَّذَانِایک لام کے ساتھ لکھا ہوا ہے۔
ترکیب :” صِرَاطَ الَّذِیْنَ “ میں ” صِرَاطَ “ مضاف ہے اور ” صِرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ “ کا بدل ہونے کی وجہ سے نصب میں ہے۔ ” اَلَّذِیْنَ “ مضاف الیہ ہے اس لیے محلاً حالت جر میں ہے۔ اس بات کو نوٹ کرلیں اگلی آیت میں اس کی ضرورت پڑے گی۔
غ ض ب
غَضِبَ یَغْضَبُ (س) غَضَبًا : غضب ناک ہونا ‘ غصہ میں ہونا (لازم ہے) ۔ غَضِبَ عَلَیْہِ کسی پر غضب کرنا ‘ کسی پر غصہ کرنا (متعدی ہے) ۔
غَضْبَانٌ (فَعْلَانٌ کے وزن پر مبالغہ) : بہت زیادہ غضب ناک { وَلَمَّا رَجَعَ مُوْسٰی اِلٰی قَوْمِہٖ غَضْبَانَ اَسِفًا } (الاعراف :150) ” اور جب واپس ہوئے موسیٰ ( علیہ السلام) اپنی قوم کی طرف بہت غضبناک حالت میں جھنجھلائے ہوئے۔ “
مَغْضُوْبٌ عَلٰی (اسم المفعول) : غضب کیا ہوا ‘ غصہ کیا ہوا۔
ض ل ل
ضَلَّ یَضِلُّ (ض) ضَلَالاً وَضَلَالَۃً : گمراہ ہونا ‘ راستہ کی تلاش میں سرگرداں ہونا ‘ کسی چیز کا ضائع ہونا۔
ضَالٌّ ج ضَالُّوْنَ (اسم الفاعل) : گمراہ ہونے والا ‘ راستہ کی تلاش میں سرگرداں ہونے والا۔ { وَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الضَّالُّوْنَ } (آل عمران :90) ” اور وہ لوگ ہی گمراہ ہونے والے ہیں۔ “{ وَوَجَدَکَ ضَالًّا فَھَدٰی } (الضحی :7) ” اور اس نے پایا آپ ﷺ کو حق کی تلاش میں سرگرداں تو ہدایت دی۔ “
اَضَلَّ یَضِلُّ (افعال) اَضْلَالاً : گمراہ کرنا ‘ ضائع کرنا۔ { وَمَا یُضِلُّوْنَ اِلاَّ اَنْفُسَھُمْ } (النسائ :113) ” اور یہ لوگ گمراہ نہیں کرتے مگر خود اپنے آپ کو۔ “ { فَلَنْ یُضِلَّ اَعْمَالَھُمْ سَیَھْدِیْھِمْ } (محمد :4 ۔ 5) ” تو وہ ہرگز ضائع نہیں کرے گا ان کے اعمال کو (بلکہ) وہ ان کو ہدایت دے گا) ۔ “
مُضِلٌّ (اسم الفاعل) : گمراہ کرنے والا۔ { وَمَنْ یَّھْدِ اللّٰہُ فَمَالَہٗ مِنْ مُّضِلٍّ } (الزمر :37) ” اور جس کو اللہ ہدایت دے تو اس کو گمراہ کرنے والا کوئی نہیں ہے۔ “
(تفعیل) تَضْلِیْلًا : ضائع کردینا ‘ برباد کردینا۔ { اَلَمْ یَجْعَلْ کَیْدَھُمْ فِیْ تَضْلِیْلٍ } (الفیل :12) ” کیا اس نے نہیں کردیا ان کی خفیہ تدبیر کو برباد۔ “
ترکیب :” غَیْرِ “ کی جر بتارہی ہے کہ یہ ” اَلَّذِیْنَ “ پر عطف ہے جو محلاً حالت جر میں ہے۔ اس لیے ترجمہ ہوگا ” جن پر غضب نہیں کیا گیا “۔ اگر یہ ” غَیْرَ “ ہوتا تب یہ ” صِرَاطَ “ پر عطف ہوتا۔ پھر یہ ترجمہ ممکن ہوا ” نہ راستہ ان لوگوں کا “۔ لیکن ” غَیْرِ “ کی جر کی وجہ سے یہ ترجمہ ممکن نہیں ہے ۔ ” اَلضَّالِّیْنَ “ کی حالت جر بھی ” غَیْرِ “ پر عطف ہونے کی وجہ سے ہے ۔
نوٹ (1) : مذکورہ ترجمہ سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ جو بھی اللہ کے غضب اور گمراہی سے بچ گیا وہ انعام یافتہ لوگوں یعنی صالحین میں شامل ہوگیا اس کے بعد درجات (status) کی بلندی کا مسئلہ پیدا ہوتا ہے۔ ہر کس بقدر ہمت اوست۔
نوٹ (2) : سورة الفاتحہ کے مطالعہ سے دعا مانگنے کا سلیقہ بھی واضح ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ سے مانگنے سے پہلے اس کی حمد و ثنا کرنی چاہیے۔ حضور ﷺ کی تعلیم یہ ہے کہ پہلے تیسرا کلمہ پڑھو۔ پھر درود شریف پڑھو اور اس کے بعد دعا مانگو۔
نوٹ (3) : آمین غیر عربی لفظ ہے۔ اکثریت کی رائے ہے کہ یہ عبرانی لفظ ہے جس کے معنی ہیں ” تو قبول کر “۔ یہ لفظ قرآن مجید میں کہیں استعمال نہیں ہوا لیکن اس کا پڑھنا سنت سے ثابت ہے۔