Al-Qurtubi - Al-Faatiha : 6
صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْهِمْ١ۙ۬ۦ غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْهِمْ وَ لَا الضَّآلِّیْنَ۠   ۧ
صِرَاطَ : راستہ الَّذِينَ : ان لوگوں کا أَنْعَمْتَ : تونے انعام کیا عَلَيْهِمْ : ان پر غَيْرِ : نہ الْمَغْضُوبِ : غضب کیا گیا عَلَيْهِمْ : ان پر وَلَا : اور نہ الضَّالِّينَ : جو گمراہ ہوئے
ان لوگوں کے رستے کی جن پر تو نے اپنا فضل فرمایا، جو نہ مغضوب ہوئے اور نہ گمراہ
’صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْہِمْ الآیۃ‘ آدمی جس چیز سے جتنا ہی گہرا لگاؤ رکھتا ہے اس کو اسی قدر وضاحت کے ساتھ خود بھی سمجھنا چاہتا ہے اور دوسرے کو بھی سمجھانا چاہتا ہے۔ اس وجہ سے صرف اتنے ہی پر بس نہیں کیا کہ ہمیں سیدھی راہ کی ہدایت بخش بلکہ اس کی پوری وضاحت بھی کر دی ہے اور یہ وضاحت مثبت اور منفی دونوں پہلوؤں سے ہے۔ مثبت پہلو یہ ہے کہ راستہ ان لوگوں کا ہو جن پر تیرا انعام ہوا ہے اور منفی پہلو یہ ہے کہ جو نہ تو مغضوب ہوئے ہیں اور نہ گمراہ۔ اس وضاحت کے بعد مدعا اس طرح آئینہ ہو کر سامنے آگیا ہے کہ کسی اشتباہ کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہی ہے۔ اس ساری وضاحت کی ضرورت اس وجہ سے نہیں تھی کہ (العیاذ باللہ) اللہ تعالیٰ کو دعا کا مدعا سمجھنے میں کوئی غلط فہمی پیش آنے کا امکان تھا، بلکہ صرف یہ ہے کہ طالب اپنے مطلوب حقیقی کی طلب کے ساتھ ساتھ ان لوگوں سے اپنی بیزاری کا اظہار بھی کر رہا ہے جنھوں نے اس محبوب و مطلوب سے منہ موڑا یا اس سے بھٹک گئے نیز اپنے لیے استقامت و استواری کا بھی طلب گار ہے کہ اس راستہ کو پاجانے کے بعد اس پر قائم رہنا نصیب ہو، ان لوگوں کا حشر نہ ہو جن کو یہ راستہ ملنے کو تو ملا لیکن وہ اس کو پالینے کے بعد یا تو دیدہ و دانستہ اس سے منحرف ہو جانے کے سبب سے خدا کے غضب میں مبتلا ہوئے، یا اپنی بدعت پسندیوں کی وجہ سے اس کو پاکر اس سے محروم ہو گئے۔ اس آیت میں تین گروہوں کا ذکر ہے۔ ایک منعم علیہم۔ دوسرا مغضوب علیہم۔ تیسرا ضالین۔ مختصراً ان تینوں گروہوں کی خصوصیات بھی معلوم کر لینی چاہییں۔ ’اَنْعَمْتَ عَلَیْہِمْ‘ میں نعمت سے مقصود دراصل ہدایت و شریعت کی نعمت ہے جس سے انسان دنیا اور آخرت دونوں کی فلاح کا راستہ معلوم کرتا ہے۔ فعل انعام یہاں اپنے کامل اور حقیقی معنی میں استعمال ہوا ہے۔ اس سے مراد درحقیقت وہ لوگ ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے شریعت کی نعمت عطا فرمائی اور انھوں نے دل و جان سے اس کو قبول کیا، اس نعمت کے دیے جانے پر وہ اللہ تعالیٰ کے شکرگزار رہے، اس کی خود بھی قدر کی اور دوسروں کو بھی اس کی قدر کرنے پر ابھارا، اس کے تحفظ کے لیے انھوں نے اپنی قوتیں اور قابلیتیں بھی صرف کیں، مال بھی قربان کیے اور اگر ضرورت پیش آئی تو اس کی راہ میں جان قربان کرنے سے بھی دریغ نہ کیا۔ یہاں بات اجمال کے ساتھ کہی گئی ہے اس وجہ سے واضح نہیں ہوتا کہ یہ اشارہ کس گروہ کی طرف ہے لیکن ایک دوسری آیت میں اس انعام یافتہ گروہ کی وضاحت ہو گئی ہے: فَاُولئکَ مَعَ الَّذِیْنَ اَنْعَمَ اللّٰہُ عَلَیْھِمْ مِّنَ النَّبِیّٖنَ وَالصِّدِّیْقِیْنَ وَالشُّھَدَآءِ وَالصّٰلِحِیْنَ. (69نساء) ’’پس یہ لوگ ان کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ نے اپنا انعام فرمایا انبیاء، صدیقین، شہدا اور صالحین کے ساتھ۔‘‘ ’مَغْضُوْبِ عَلَیْہِمْ‘ میں فعل کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف اس طرح براہ راست نہیں ہے جس طرح انعام کے ذکر میں ہے۔ اس کی ایک وجہ تو سوء ادب سے احتراز ہے اور دوسری وجہ یہ ہے کہ انعام ہمیشہ اور ہر حال میں بندہ پر اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے ہوتا ہے، برعکس اس کے خدا کے غضب کا مستحق بندہ اپنے اعمال کے سبب سے خود بنتا ہے۔ مغضوب علیہم سے مراد: ’مَغْضُوْبِ عَلَیْہِمْ‘ سے مراد دو قسم کے لوگ ہیں۔ ایک وہ جن پر اللہ تعالیٰ نے اپنی شریعت کی نعمت نازل فرمائی لیکن انھوں نے اپنی سرکشی کے سبب سے نہ صرف یہ کہ اس کو قبول نہیں کیا، بلکہ اس کی مخالفت کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے اور جن لوگوں نے اس کو ان کے سامنے پیش کیا ان کی بیخ کنی اور قتل کے درپے ہوئے جس کی پاداش میں ان پر خدا کا غضب نازل ہوا اور وہ ہلاک کر دیے گئے۔ دوسرے وہ لوگ جنھوں نے قبول تو کیا لیکن دل کی آمادگی کے ساتھ نہیں قبول کیا بلکہ مارے باندھے قبول کیا، پھر بہت جلد شہوات نفس میں پڑ کر انھوں نے اس کے کچھ حصہ کو ضائع کر دیا، کچھ حصہ میں کتر بیونت کر کے اس کو اپنی خواہشات کے مطابق بنا لیا اور جن لوگوں نے ان کا ہاتھ پکڑنے کی کوشش کی یا ان کو صحیح راستہ پر لانا چاہا انھوں نے ان میں سے بعض کو جھٹلا دیا اور بعض کو قتل کر دیا۔ پچھلی امتوں میں اس کی سب سے واضح مثال یہود ہیں۔ چنانچہ ان کے معتوب و مغضوب ہونے کا ذکر قرآن میں تصریح کے ساتھ ہوا بھی ہے۔ مثلاً: مَنْ لَّعَنَہُ اللّٰہُ وَغَضِبَ عَلَیْہِ وَجَعَلَ مِنْھُمُ الْقِرَدَۃَ وَالْخَنَازِیْرَ. (60مائدہ) ’’جن پر اللہ نے لعنت کی اور جن پر اس کا غضب ہوا۔ اور جن کے اندر سے اس نے بندر اور خنزیز بنائے۔‘‘ وَضُرِبَتْ عَلَیْھِمُ الذِّلَّۃُ وَالْمَسْکَنَۃُ وَبَآءُ وْ بِغَضَبٍ مِّنَ اللّٰہِ. (61بقرہ) ’’اور ان کے اوپر ذلت و مسکنت تھوپ دی گئی اور وہ خدا کا غضب لے کر پلٹے۔‘‘ ’ضالّین‘ کی حقیقت: ’ضَآلِّیْنََ‘ سے مراد وہ لوگ ہیں جنھوں نے اپنے دین میں غلو کیا، جنھوں نے اپنے پیغمبر کا رتبہ اتنا بڑھایا کہ اس کو خدا بنا کر رکھ دیا، جو صرف انہی عبادتوں اور طاعتوں پر قانع نہیں ہوئے جو اللہ اور اللہ کے رسول نے مقرر کی تھیں بلکہ اپنے جی سے رہبانیت کا ایک پورا نظام کھڑا کر دیا، جنھوں نے اپنے اگلوں کی ایجاد کی ہوئی بدعتوں اور گمراہیوں کی آنکھ بند کر کے پیروی کی اور اس طرح صراط مستقیم سے ہٹ کر گمراہی کی پگڈنڈیوں پر نکل گئے۔ پچھلی امتوں میں سے اس کی نہایت واضح مثال نصاریٰ ہیں۔ چنانچہ قرآن مجید نے انہی وجوہ کی بنا پر جن کا ہم نے اوپر ذکر کیا ہے، ان کو گمراہ اور گمراہ کرنے والے قرار دیا ہے۔ مثلاً: یٰٓاَھْلَ الْکِتٰبِ لَا تَغْلُوْا فِیْ دِیْنِکُمْ غَیْرَ الْحَقِّ وَلَا تَتَّبِعُوْٓا اَھْوَآءَ قَوْمٍ قَدْ ضَلُّوْا مِنْ قَبْلُ وَاَضَلُّوْا کَثِیْرًا وَّضَلُّوْا عَنْ سَوَآءِ السَّبِیْلِ. (77مائدہ) ’’کہہ دو اے اہل کتاب تم اپنے دین میں ناحق غلو نہ کرو اور ان لوگوں کی خواہشوں (بدعتوں) کی پیروی نہ کرو جو پہلے سے گمراہ چلے آرہے ہیں اور جنھوں نے بہتوں کو خدا کے راستہ سے بھٹکایا اور جو خود بھی اس کے راستہ سے بھٹکے۔‘‘
Top