Mualim-ul-Irfan - Al-Faatiha : 6
اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَۙ
اِهْدِنَا : ہمیں ہدایت دے الصِّرَاطَ : راستہ الْمُسْتَقِيمَ : سیدھا
اے پروردگار ہدایت کر ہم کو (دکھا ہم کو) سیدھا راستہ
سورة الفاتحۃ 1 اھدنا الصراط المستقیم درس پانزدہم 15 دکھلاھم کو سید ھا راستہ (اللہ کی شرط) گذشتہ دروس میں عبادت و استعانت کا بیان تھا اور میں نے ان کا مفہوم عرض کردیا تھا کہ عبادت کا تعلق تو اللہ تعالیٰ کی ذات کے ساتھ ہے اور اس کے سوا کوئی ایسی ہستی نہیں جو عبادت کے لائق ہو ۔ جہاں تک استعانت کا تعلق ہے تو ہے تو یہ اللہ تعالیٰ کی شرط ہے ۔ مدد کرنا اسی ذات وحد ہ لاشریک کا کام ہے اس کے علاوہ مافوق الا سباب مدد کرنے والا بھی کوئی نہیں ہے ۔ امام رازی نے اپنی اپنی تفسیر (ب 1 تفسیر کبیر ص 249 ج 1) میں ایک واقعہ قلمبند کیا ہے۔ لکھتے ہیں کہ اونٹ پر سوار ایک دیہاتی مسجد نبوی میں میں آیا ۔ اونٹ کو باہر چھوڑا اور خود مسجد میں آ کر اطمینان سے نماز ادا کی ۔ پھر جب فارغ ہو کر باہر نکلا تو اونٹ موجود نہیں تھا ۔ کہنے لگا اے پروردگار ! میں نے نماز اداکر کے اپنی شرط پوری کردی ہے اب مدد کرنا تیری شرط ہے لہذا تو بھی اونٹ کے معاملے میں شخص کی نکیل پکڑے اس کے پاس پہنچ گیا حالا ن کہ اس شخص کا اپنا ہاتھ کٹا ہوا تھا بہرحال امام صاحب نے اس واقعہ سے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنا انسان کا کام ہے اور مدد کرنا اللہ تعالیٰ کی شرط ہے۔ جب کوئی شخص اپنی عبادت کو اللہ تعالیٰ کے لیے خاص کرلیتا ہے تو پھر اللہ تعالیٰ بھی اسے بےیارو مددگار نہیں چھوڑتا سب سے پہلے بندوں نے اللہ تعالیٰ کی تعریف بیان کی کہ تمام تعریفیں ۔ (صراط مستقیم ) اللہ تعالیٰ کے لیے ہیں جو تمام جہانوں کا پروردگار ہے وہ از حد مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے ۔ پھر نہایت خلوص کے ساتھ کیا اے مولا کریم ہم خاص تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور خاص تجھ سے ہی مدد طلب کرتے ہیں ۔ اب یہاں سے دعا کی ابتداء ہورہی ہے ۔ اللہ کے بندے اس کے حضور عرض کرتے ہیں اھدنا الصراط المستقیم دکھلا ہم کو سیدھا راستہ۔ صراط مستقیم کیا ہے ؟ اس کی تشریح خود قرآن پاک میں موجود ہے ۔ اس راستے سے مراد اسلام دین اور توحید کا راستہ ہے۔ یہی وہ راستہ ہے جس پر اللہ کے تمام انبیاء علہیم السلام گامزن رہے ۔ سورة الحجر میں جہاں ابلیس نے انسانوں کو اللہ کے راستے سے بہکانے کا چیلنج کیا ہے ، وہاں اللہ نے فرمایا ہے ھذا صراط علی مستقیم یہی سیدھا راستہ ہے جو میری طرف آتا ہے اس کے اصول و ضوابط قرآن پاک میں بتلادیے گئے ہیں اور اس راستے پر چلنے والے مخلص بندوں پر شیطان کا کوئی داؤکا میاب نہیں ہوسکے گا یہ وہی راستہ ہے جو اللہ کی رضا اور اس کے قریب کے مقام تک پہنچا نے والا ہے آگے سورة نحل میں آتا ہے وعلی اللہ قصدالسبیل سیدھے راستے کی طرف راہنمائی کرنا اللہ تعالیٰ کا کام ہے ومنھا جائر اور بعض ٹیڑھے راستے بھی ہیں جن پر چل کوئی منزل مقصود تک نہیں پہنچ سکتا یہ کفروشرک کے شیطانی راستے ہیں ، شیطان لوگوں کو ان راستوں کی طرف لے جانا چاہتا ہے مگر اسلام دین حق اور توحید کا یہی صراط مستقیم ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف جاتا ہے۔ سورۃ آل عمران اللہ تعالیٰ کا یہ بھی فرمان ہے ان الدین عند اللہ الاسلام اللہ تعالیٰ کے نزدیک دین برحق صرف اسلام ہے جو اللہ کی توحید اور اس کی اطاعت کا راستہ ہے ، تمام انبیاء ملائکہ اور نیک لوگ یہی راستہ اختیار کرتے آئے ہیں یہی صراط مستقیم ہے ۔ اللہ نے واضح طور پر فرمادیا ہے ومن یبتغ غیرالا سلام دینا فلن یقبل منھم (آل عمران) جو آدمی اسلامی کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ تلاش کرے گا تو وہ قابل قبول نہیں ہوگا ۔ اور ایسا شخص آخرت میں سخت نقصان اٹھانے والا ہوگا ۔ وہ منزل مقصود تک نہیں پہنچ سکے گا بلکہ خدا تعالے کے غضب کا شکار ہو کر جہنم میں پہنچ جائے گا ۔ اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کو ماننا انسان کا فطری حق ہے جو شخص ان فطری تقاضوں کے مطابق چلے گا ، فرائض کو اداکر یگا نواہی سے پرہیزگاری کرے گا وہی صراط مستقیم کا مسافر ہوگا ، اور وہی راستہ ہے جس کی تعلیم وتلقین تمام انبیاء کرتے آئے ہیں لہذانسان اللہ کے حضور عرض کرتے ہیں کہ مولا کریم ! ہمیں اس صراط مستقیم کی طرف راہنمائی فرماجس پر چل کر انسان بالا خر جنت میں پہنچ جائے ۔ (اولین استعانت) صراط مستقیم کی اہمیت کو سمجھنے کے لیے ایک دفعہ پھر ابتداء کی طرف لوٹتے ہیں ۔ انسان اللہ تعالیٰ کی تعریف بیان کرنے اور اس کے اسمائے پاک کا ذکر کرنے کے بعد کہتے ہیں کہ اے اللہ ! ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ سے ہی مدد چاہتے ہیں ۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ انسان کو سب سے پہلے کون سی استعانت کی ضرورت ہے ۔ اللہ تعالیٰ تو بہر حال ذرے ذرے کو جانتا ہے مگر انسانوں کے اذہان میں یہ بات آسکتی ہے کہ انہیں سب سے پہلے کس استعانت کی ضرورت ہے اس موقع پر بھی خود اللہ تعالیٰ نے ان کی راہنمائی فرمائی ہے اور ان کی زبان سے کہلوایا ہے کہ مولا کریم ! سب سے پہلے اھدناالصداط المستقیم ہمیں سید ھا راستہ دکھلا گویا انسان کی اولین ضرورت صراط مستقیم ہے جس پر چلنے کے لیے وہ اللہ تعالیٰ کے سامنے دست سوال دراز نہ کرتا ہے ۔ (قوائے عقل وفہم ) اب سید ہے راستے کو پہچاننے اور اس پر گامزن ہونے کے لیے بعض قوی کی ضرورت ہوگی ۔ لہذا انسان اللہ تعالیٰ سے ان قوتوں کا فیضان طلب کرتے ہیں ۔ جن کے ذریعے وہ سید ہے اور ٹیڑھے راستے میں امتیاز کرسکیں ۔ اس کے لیے عقل وہم اور حواس ظاہر ہ و باطنہ کی ضزورت ہے اگر عقل ہی نہ ہو تو نہ انسان مکلف ہوسکتا ہے اور نہ ہدایت پاسکتا ہے ۔ لہذا انسان اللہ تعالیٰ سے عقل وفہم کی درخواست کرتے ہیں ۔ پھر حواس ظاہرہ ہیں جو حصول علم کے ذرائع ہیں ۔ اگر انسان کو آنکھ اور کان جیسی عظیم نعمت حاصل نہ ہو تو انسان علم حاصل نہیں کرسکتا اور نہ ہی صراط مستقیم کی پہچان کرسکتا ہے اسی طرح سونگنے ٹٹولنے چکھنے کے ظاہر ی حواس ایسے ہیں جن کے بغیر انسان بہت سی چیزوں سے محروم ہوجاتے ہیں ، لہذانسان ان تمام حواس ظاہرہ کے لیے اللہ کے حضور درخواست کرتے ہیں ۔ حواس ظاہرہ کے علاوہ حواس باطنہ مثلا جس مشترک خیال وہم قوت متفکرہ وغیرہ ایسی چیزیں ہیں کہ حق و باطل کی پہچان کے لیے ان کی بھی اشد ضرورت ہوتی ہے ، لہذا انسان یہ دعا کرتے ہیں کہ ہمیں یہ تمام چیزیں عطاکردے جو ہماری ہدایت کا ذریعہ بن سکیں ۔ پھر یہ بھی ہے کہ کسی چیز کماحقہ سمجھنے کے لیے دلیل کی ضرورت ہوتی ہے اس کے بغیر بھی کسی چیز کا مکمل ادراک حاصل نہیں ہو سکتا ۔ تو اس دعا میں یہ بات بھی شامل ہے کہ مولا کریم ! ہمارے لیے ایسے دلائل قائم کردے جن کے ذریعے ہم حق و باطل میں امتیاز کرسکیں اور صراط مستقیم کو اختیار کرسکیں ، چناچہ اللہ تعالیٰ نے سورة بلد میں یہ بات پہلے ہی واضح کردی ہے کہ ہم نے انسان کو پہلے پیدا کیا اسے دو آنکھیں دیں زبان اور دوہونٹ عطا کیے وھدینہ النجدین اور اسے نیکی اور بدی کی دونوں گھاٹیوں کا علم بھی دے دیا خیروشرکا فلسفہ سمھادیا کہ یہ راستہ نیکی کی طرف جاتا ہے اور یہ برائی کی طرف اور پھر انسان کو اختیار دید یا کہ اپنے قوائے ظاہرہ و باطنہ کو بروئے اور خیروشر میں سے کوئی ساراستہ اختیار کرے ۔ مقصد یہ ہے کہ صراط مستقیم کو اختیار کرنے کے لیے جن قوی کی ضرورت ہوتی ہے انسان اللہ تعالیٰ سے ان کی درخواست کرتے ہیں کہ پروردگار ! ہمیں یہ چیزیں عطا کردے تاکہ ہم تیرے صراط مستیقم کو پہچان کر اس پر گامزن ہوسکیں ۔ (رسول اور کتب) علم کا اولین ذریعہ وحی الٰہی ہے جو اللہ کے رسولوں پر آتی ہے ۔ چناچہ صراط مستقیم کی راہنمائی کے لیے رسولوں کا آنا بھی ضروری ہے ۔ خود اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ ارسال رسل اس کی صفت ہے ۔ سورة السجدہ میں موجود ہے وجعلنا منھم ائمۃ یھدون بامر ہم نے رسولوں کو امام اور پیشواپنا کر بھیجا تا کہ وہ ہمارے حکم کے مطابق انسانوں کی راہنمائی کرسکیں ۔ یہ تمام انبیاء کا کا م رہا ہ کہ وہ اپنی امتوں کو صراط مستقیم کی طرف راہنمائی کرتے ہیں لہذا اھدناالصراط المستقیم میں اللہ تعالیٰ سے رسول مبعوث کرنے کی دعا بھی شامل ہے ۔ ہدایت کے لیے آسمانی کتابوں کی بھی ضرورت ہے اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولوں پر کتابیں نازل فرمائیں ۔ سورة شوری میں موجود ہے اللہ نے فرمایا قل امنت بما انزل اللہ من کتب آپ کہہ دیں کہ میرا ان تمام کتابوں پر ایمان ہے جو اللہ نے نازل فرمائیں ۔ چناچہ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی راہنمائی کے لیے حضرت شیث (علیہ السلام) کے صحیفوں سے لے کر زبور تک صحائف اور کتابیں نازل فرمائیں اور پھر آخر میں قرآن پاک کو نازل فرما کر ہدایت کو مکمل کردیا اگر چہ سابقہ کتب میں ان کے پیروکاروں نے تغیر تبدل بھی کردیا ان میں غلط باتیں بھی داخل کردیں مگر اللہ تعالیٰ نے ہدایت کا سامان نازل فرما کر حجت تمام کردی یہ صرف قرآن پاک کو شرف حاصل ہے کہ قیامت تک یہ تحریف سے پاک رہے گا اس کے متعلق اللہ نے سورة بنی اسرائیل میں فرمایا ان ھذالقران یھدی للتی ھی اقوم بیشک یہ قرآن حکیم سب سے سیدھے راستے اور سب سے سیدھی ملت کی طرف راہنمائی کرتا ہے بہرحال اھدناالصراط المستقیم میں یہ ساری باتیں شامل ہیں کہ اے مولا کریم ! ہمیں ایسی قوتیں عطافرما ایسے دلائل سمجھا جو تیرے راستے کی طرف راہنمائی کرسکیں ، نیز اپنے انبیاء اور کتابوں کے ذریعے ہمیں سیدھے راستے کی طرف راہنمائی فرما۔ (اسرارومعارف) اس دعا میں یہ بات بھی شامل ہے کہ اے خداوند قدوس ! ہمارے دلوں ایسے اسرارومعارف منکشف کردے جن کے ذریعے ہم اشیاء کو ان اصلی حالت میں دیکھ سکیں ایک دعا میں الفاظ آتے ہیں اللھم ارنا الا شیاء کما ھی اے اللہ ہمیں چیزوں کو اس طرح دکھا جسا کہ وہ واقع میں ہیں بعض اوقات کسی چیز کو دیکھنے اور سمجھنے میں غلطی لگتی ہے ۔ پیغمبر کی ذات کے سوا کوئی انسان بھی غلطی سے خالی نہیں بعض اوقات کوئی چیز دیکھنے میں بعض دیکھنے میں ، بعض اوقات سمجھنے میں بعض اوقات اخذ کرنے میں اور بعض اوقات بیان کرنے میں غلطی سرزد ہوجاتی ہے ۔ اس لیے اللہ تعالیٰ سے یہ دعا بھی کی جاتی ہے کہ مولا کریم ! ہمارے دلوں کو اسرار ومعارف کے لیے کھول دے تا کہ ہم ہرچیز کو اس کی اصلی حیثیت میں جان اور پہچان سکیں کیونکہ یہ چیز بھی ہدایت میں داخل ہے۔ اس کے علاوہ وحی الٰہی الہام اور سچے خوابوں کے ذریعے بھی ہدایت نصیب ہوتی ہے۔ وحی تو صرف انبیاء پر آتی ہے ۔ البتہ الہام انبیاء اور غیر انبیاء کو بھی ہوتا ہے ۔ اور رویا صادقہ (سچے خواب) ہر ایماندار کو آسکتے ہیں ۔ بعض اوقات اللہ تعالیٰ خواب کے ذریعے بھی بعض چیزیں منکشف کردیتا ہے ۔ یہ سب ہدایت کے ذرائع ہیں اور سیدھے راستے کی تلاش میں انسان بالواسطہ ان سب چیزوں کی درخواست کرتا ہے ۔ (ہدایت کا بہتر طریقہ ) انسان جس ہدایت کا طالب ہے اس سے مراد ایسی اچھے طریقے سے راہنمائی ہے جس میں نرمی اور الطفات ہو اور جس میں سختی اور درشتگی نہ ہو دو طریقے سے ہوسکتی ہے ۔ پہلا طریقہ تو یہ ہے کہ جس شخص کو راستہ معلوم نہیں ہے کوئی دوسرا شخص اس کو دور سے راستہ دکھادے کہ بھی یہ بھٹی یہ راستہ تمہاری منزل مقصود کی طرف جاتا ہے اسے ارادۃ الطریق کہتے ہیں ۔ جب انسان قرآن کریم کی تلاوت کی ابتداء کرتا ہے تو وہ اسے پہلے ہی دن صراط مستقیم کی طرف رہنمائی کریم کی تلاوت کی ابتداء کرتا ہے تو وہ اسے پہلے ہی دن صراط مستقیم کی طرف راہنمائی کرتا ہے ۔ حدیث شریف میں آتا ہے کہ قرآن پاک اپنے قاری کو کہتا ہے کہ یہی سید ھاراستہ ہے اسے اصول و ضوابط سمجھاتا ہے کہتا ہے کہ سید ہے اس راستے پر چلنا ۔ اس کے دئیں بائیں کچھ پکڈنڈیاں ہیں ان پر نہ چلنا ورنہ دور نکل جاؤ گے اور منزل مقصود تک نہیں پہنچ سکو گے ۔ مطلب یہ کہ قرآن پاک ہی منزل مقصود ہی کی طرف راہنمائی کردیتا ہے۔ ہدایت کا دوسرا معنی یہ ہے کہ کسی شخص کی راہنمائی اس طریقے سے کی جائے کہ اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے منزل مقصود تک پہنچادیا جائے اسے ایصال الی المطلوب کہتے ہیں ، ہدایت اور راہنمائی کا یہ بہترین طریقہ ہے۔ (طلب صراط پر اعتراض) بعض لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ مسلمان ساری ساری عمر صراط مستقیم کی دعا کرتے رہتے ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ انہیں عمر سیدھا رستہ نہیں ملتا یہی اعتراض دیا نند سرسوتی آریہ سماجی نے حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی کے سامنے پیش کیا تھا ۔ بعض عیسائی اور دیگر متعصب قسم کے لوگ بھی ایسا اعتراض کرتے ہیں مگر یہ نامعقول اعتراض ہے ۔ اھدنا کئی معنوں میں آتا ہے۔ اس کا معنی دکھانا بھی ہے اور منزل مقصود تک پہنچانا بھی ۔ اس کا معنی ثابت قدم رکھنا بھی آتا ہے ۔ چناچہ شا ہ عبدالقادر نے اس آیت کا ترجمہ یہ کیا ہے چلاہم کو سید ہے راستے پر محض دکھانا نہیں بلکہ چلانا مقصود ہے ۔ امام ابن جریر اس (ب 1 تفسیر طبری ص 74 ج 1) کا ترجمہ کرتے ہیں وفقنا وثبتنا اے اللہ ! ہمیں سیدھے راستے کی توفیق عطا فرما اور پھر اس پر ثابت قدم رکھ ۔ راستہ معلوم ہوجانے کے بعد اس پر ثابت قدم رہنا بھی ضروری ہے ۔ گویا یہ لفظ وسیع معنوں میں آیا ہے اور یہاں یہ سارے ہی معانی مراد ہیں ثابت قدمی اس لیے بھی ضروری ہے کہ بعض لوگ راستہ معلوم ہوجانے کے باوجود اس سے بھٹک جاتے ہیں ۔ غلام احمد پرویز مرزا قادیانی اور بعض دیگر گمراہ فرقے ہیں جو راستہ معلوم ہونے کے بعد گمراہی میں پڑگئے لہذا انسان ہر وقت یہ دعا کرتا ہے کہ مولا کریم ! ہمیں سید ہے راستے پر چلنے کی توفیق عطافرما اور اس راستے پر ثابت قدم رکھ جو ایمان اور توحید کا راستہ ہے جو دین اسلام اور دین توحید کا فطری راستہ پر مستمر رکھا تا کہ ہمارے پاؤں میں لغزش نہ آنے پائے ۔ اس راستے کو ہمارے لیے قائم ودائم رکھ اور ہمارے لیے اس راستے کی ہدایت میں اضافہ فرما قرآن پاک میں موجود ہے زدنھم ھدی ہم نے ان کی ہدایت میں اضافہ کردیا ۔ پہلے علم کم ہوتا ہے ۔ پھر جوں جوں انسان ترقی کرتا جاتا ہے اس کی ہدایت میں اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ مفسر قرآن مولانا شاہ اشرف علی تھانوی فرماتے ہیں کہ طلب ہدایت ہر درجے اور مرتجے کے مطابق جاری رہنی چاہیئے ۔ جب کوئی انسان کسی خاص مرتبے تک پہنچ جاتا ہے تو کے مطابق جاری رہنی چاہیئے ۔ جب کوئی انسان کسی خاص مرتبے تک پہنچ جاتا ہے تو اس کا سفرختم نہیں ہوجاتا بلکہ اسے اگلے مرتبے تک پہنچنے کے لیے اپنی تگ ودد اور سفرجاری رکھنا چاہیئے ۔ اسے ہمیشہ آگے بڑھنے کی کوشش کرنی چاہیئے مو لانا رومی نے یہ بات اس طرح سمجھائی ہے۔ اے برادر ! بےنہایت درگے است ہر کہ بروے میرسی بروئے مایست اے بھائی ! اللہ کی بارگاہ بےانہتا ہے لہذا آیت کے جس مر تبے پر بھی پہنچو اس سے آگے بڑھنے کی کوشش کرو ۔ اور اللہ تعالیٰ سے دعا کرو کہ پروردگار ! مجھے اگلا مرتبہ عطافرما ۔ انسان کو ہر وقت ہر اوپر والے درجے کی درخواست کرنی چا ہیئے ۔ لہذاھدنا الصراط المستقیم کا سفر کبھی ختم نہیں ہوتا اور یہ دعا ایمان کی زبان پر عمربھر جاری رہتی ہے۔ (مادی اور روحانی راستے ) صراط مستقیم پر استقامت سے یہ بھی مراد ہے کہ جس راستے پر کوئی شخص گامزن ہے وہ آسان قریب اور محفوظ ہو۔ اگر کوئی شخص کسی مادے راستے پر سفر کرنا چا ہے تو وہ ایساراستہ اختیار کرتا ہے جو حتی الامکان قریب ہو ، سیدھا ہو اور صاف بھی راستے میں کا نٹے یا پتھر نہ ہوں اور یہ ٹیڑھا بھی نہ ہو شیخ سعد ی کہتے ہیں راہ راست بردگر چہ دوراست سیدھا راستہ پکڑو اگرچہ مسافت میں کچھ دور ہی کیوں نہ ہوتا کہ بھٹکنے سے محفوظ رہ سکو۔ ہمیشہ ایسے راستے کی تلاش ہوتی ہے جو دیگر باتوں کے علاوہ مامون بھی ہو یعنی اس راستے سے کسی چور ڈاکو یاراہزن کا خطرہ نہ ہو ۔ یہ ایساراستہ ہو جس پر سفر کے دوران کوئی مشقت نہ اٹھانی پڑے ۔ اور آدمی آسانی سے منزل مقصود تک پہنچ جائے ۔ اسی طرح روحانی راستے کے لیے بھی ضروری ہے کہ وہ خطرات سے خالی ہو ایسے راستے پر شیطان انس اور جن ہوتے ہیں جو اس راستے کے مسافروں پر ڈاکہ ڈالتے ہیں اور انہیں صحیح راستے سے بھٹکانے کی کوشش کرتے ہیں ۔ لہذادعائے استقامت میں یہ بات بھی شامل ہے کہ مولا کریم ! ہمیں ایسے راستے پر چلاجو روحانی ڈاکوؤں سے مامون ہو۔ استقامت زبان سے بھی ہوتی ہے قولواقولا سدید (الا حزاب) منہ سے ٹھیک بات کرو قولواللناس حسنا لوگوں سے اچھی بات کہو یہ بھی صراط مستقیم پر استقامت ہے ۔ اسی طرح عقائد اور اعمال میں بھی استقامت کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ عقیدے اور عمل میں کوئی غلط چیز شامل نہ ہوسکے عقیدے میں کفر ، شرک اور نفاق کی ملاوٹ ہوسکتی ہے جب کہ اعمال میں ریا شامل ہوجاتی ہے لہذایہ دعا ان تمام امور پر مشتمل ہے ۔ جب انسان سید ہے راستے کی دعا کرتا ہے تو کہتا ہے کہ پروردگار ! ہمیں صحیح راستہ دکھا ، اس پر چلا اور اس پر استقامت عطافرما۔
Top