Aasan Quran - Al-Faatiha : 4
مٰلِكِ یَوْمِ الدِّیْنِؕ
مَالِكِ : مالک يَوْمِ : دن الدِّينِ : بدلہ
ہم خاص تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور خاص تجھ سے ہی مدد چاہتے ہیں
(عبادت و استعانت میں تخصیص ) سورۃ الفاتحہ کی پہلی تین آیات میں غائبانہ طریقے پر اللہ تعالیٰ کی حمد وثنا بیان کی گئی تھی اور اب چو تھی آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ سے براہ راست خطاب ہے ، بندہ اپنے مالک حقیقی سے مخاطب ہوتا ہے کہ اے پروردگار ! جس کا ذاتی نام اللہ ہے اور جس کی صفات رب رحمان رحیم اور مالک ہیں ، بندہ اس کے حضور عرض کرتا ہے ایاک نعبد ہم خاص تیری ہی عبادت کرتے ہیں وایاک نستعین اور خاص تجھ سے ہی مدد چاہتے ہیں ۔ امام زمخشری اور امام بیضاوی اس کا ترجمہ یوں کرتے ہیں (1 تفسیر بیضاوی ص 8 ج 1 تفسیر کثاف ص 14 ج 1) نخصک بالعبادۃ والا ستعانۃ یعنی ہم خاص کرتے ہیں تجھ عبادت اور استعانت کے ساتھ ۔ کائنات میں کوئی اور ایسی ہستی نہیں ہے جس کی عبادت کی جاسکے یا جس سے استعانت (مدد طلب ) کی جائے۔ استعانت سے مراد مافوق الا سباب غائبانہ مدد ہے اور یہ صرف ذات خداوندی کے ساتھ مخصوص ہے اسی طرح عبادت بھی سوائے خدا تعالیٰ کے کسی اور کی روا نہیں ہے۔ ضمیر میں تقدم وتاخر) اس آیت کریمہ میں ایاک مفعول کی ضمیر ہے اور عربی زبان کا اسلوب کلام یہ ہے کہ مفعول یا اس کی ضمیر فعل اور فاعل کے بعد آتی ہے مگر یہاں پر مفعول کی ضمیر ایاک کو پہلے لایا گیا ہے جب کہ فعل اور فاعل نعبد اور نستعین کو موخر کردیا گیا ہے۔ اس ضمن میں علم معانی والے کہتے ہیں کہ جس لفظ کا حق موخر ہوتا ہے جب اسے مقدم لایا جائے تو اس سے متعلقہ مقصد کا حصر مطلوب ہوتا ہے اور اسے مفعول کے ساتھ بند کردیا جاتا ہے ۔ اس آیت میں مفعول کی ضمیر کو مقدم لانے کا مطلب یہ ہے کہ عبادت اور استعانت صرف ذات خداوندی میں بند ہے یہ چیز کسی دوسری ذات کے ساتھ روا نہیں رکھی جاسکتی ۔ اسی لیے آیت کا معنی یہ کیا جاتا ہے کہ اے پروردگار ! ہم خاص تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور خاص تجھ سے ہی مدد طلب کرتے ہیں ۔ (عبادت و استعانت میں تقدم وتاخر) امام محمد ابن ابی بکر بن عبدالقادر رازی نے مسائل القرآن کے نام سے ایک مختصر سی تفسیر لکھی ہے جس میں صرف ان آیات کی تشریح بیان کی گئی ہے جن میں کچھ پیچیدگی پائی جاتی ہے یا جن پر جن پر بعض اعتراضات اٹھائے گئے ہیں ۔ اس مقام پر امام رازی نے (1 مسائل (الرازی واجو بتھاص 2) نے یہ نقطہ اٹھایا ہے کہ اس آیت کریمہ میں عبادت کا پہلے ذکر ہے اور استعانت کا بعد میں ۔ حالانکہ عام فہم بات یہ ہے کہ پہلے استعانت طلب کی جاتی اور پھر عبادت کی بات ہوتی ۔ یعنی اللہ تعالیٰ سے توفیق مانگی جاتی ہے اور پھر اس توفیق کے بعد عبادت کی جاتی ہے کیونکہ قرآن پاک میں موجود ہے وما توفیقی الا باللہ اس کی توفیق کے بغیر کوئی انسان کچھ نہیں کرسکتا ۔ اس عقدے کو امام صاحب نے خود ہی اس طرح حل کیا ہے کہ عبادت کی ایک قسم توحید فی العبادت بھی ہے یعنی صرف اور صرف خدا ذوالجلال ہی کی عبادت کرنا۔ اور عبادت موقوف ہے اصلاح عقیدہ پر ۔ جب تک عقیدہ درست نہیں ہوگا کوئی عبادت درست نہیں ہوگی قرآن پاک میں موجود ہے فمن یعمل من الصلحت وھو مومن فلا کفران لسعیہ جو شخص مومن ہو کر کوئی نیک عمل کرے تو اس کے کام کی ناقدری نہیں کی جائے گی بلکہ اس کی سعی مشکور ہوگی ۔ تو فرماتے ہیں کہ عقیدے کی درستگی چونکہ بنیادی چیز ہے اور اسی پر ہر عمل کا دارومدار ہے ، لہذا ایاک نعبد کو پہلے ذکر کیا گیا ہے ۔ اور ایاک نستعین کو مؤخر کیا گیا ہے۔ (مردم خیز خطہ) امام محمد بن ابی بکر بن عبد القادررازی جہنوں نے مذکورہ تقدم وتاخر کا مسئلہ بیان کیا ہے ۔ شیراز کے رہنے والے تھے کسی زمانے میں یہ بڑا مردم خطہ تھا اللہ تعالیٰ نے اس سرزمین میں بڑے بڑے دیندار لوگ پیدا کیے ہیں یہی امام محمد بن ابی بکر رازی ہیں جنہوں نے قرآن پاک کی تفسیر کے علاوہ مختار الصحاح کے نام سے لعنت کی کتاب بھی لکھی ۔ امام ابوبکر جص اس رازی بھی اسی سرزمین کے رہنے والے تھے آپ نے بھی قرآن پاک کی نہایت عمدہ تفسیر لکھی ہے ۔ احکام القرآن کے نام سے تین ضنجیم جلدوں میں یہ تفسیر صرف ان آیات کی ہے جن میں احکام بیان کیے گئے ہیں مثلا حلال و حرام کے احکام صوم وصلوۃ جہادصدقہ خیرات وغیرہ کے احکام ۔ اس قسم کی تفسیر آپ کے بعد بھی لوگوں نے لکھی ہے مگر امام جصاص کی تفسیر کے پایہ کی کوئی دوسری تفسیر نہیں ہے ۔ آپ چو تھی صدی کے حنفی مسلک کے امام تھے ۔ اسی طرح امام فخرالدین راز ی کی تفسیر کبیر کسی تعارف کی محتاج نہیں ۔ آپ سطان محمد غوری کے زمانے میں چھٹی صدی کے آخر میں ہوئے آپ کی وفات 606 ھ ہے آپ بھی اسی مردم خیز خطہ میں ہوئے ہیں ۔ ان کے علا وہ اس سرزمین نے اور بھی بہت سے قابل اور دین سے محبت رکھنے والے فرزنذ پیدا کیے ہیں ۔ (عبادت میں خلوص ) بہر حال امام محمد بن ابی بکر بن عبدالقادر رازی نے یہ نقطہ بیان فرمایا ہے کہ جب تک عقید ہ درست نہ ہو عبادت میں خلوص پیدا نہیں ہو سکتا ۔ حضرت ابن عباس کا قول (1 تفسیر ابن کثیر ص 69 ج 4) ہے ہے لباب القران فی الحوامیہ السبعۃ یعنی قرآن کریم کا خلاصہ حم سے شروع ہونے والی سات سورتوں میں ہے اسی طرح سورة یس کو قرآن پاک کا قلب کہا گیا ہے (1 ترمذی ص 116 ج 2) ان سب میں مشترک چیز یہی فاعبد اللہ مخلصا لہ الدین (الزمر) یعنی اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو اس حالت میں کہ عبادت میں اخلاص کرنے والے ہو ۔ امام ابوبکر حبصاص فراتے ہیں کہ اخلاص اسی وقت پیدا ہوگا جب ایمان پاک ہوگا اور اس میں کفر شرک نفاق شک اور الحاد کی ملاوٹ نہیں ہوگی ۔ اگر ایمان میں ان چیزوں کی ملاوٹ ہوگی تو اخلاص پیدا نہیں ہو سکتا چناچہ حوامیم سبعہ میں یہی بات سمجھائی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت نہایت اخلاص کے ساتھ کروجس کے لیے سب سے پہلے عقیدے کی درستگی ضروری ہے حضوعلیہ السلام کا ارشاد (2 بخاری ص 13 ج 1) مبارک ہے کہ انسانی جسم میں ایک لوتھڑا ہے اگر وہ صحیح ہے تو ساراجسم صحیح ہے اور اگر وہ لوتھڑ ابگڑا ہوا ہے تو سارا جسم ہی بگڑا ہوا ہے فرمایا الا وھی القلب یادرکھو وہ لوتھڑا دل ہے ۔ اس کی اصلاح پر سارے جسم کا دار و مدار ہے ۔ قلب مرکز اخلاق ہوتا ہے ۔ ایمان کفر اخلاص شک تودو محبت اور نفرت اس میں ہوتے ہیں ۔ لہذا اس کی صحت ضروری ہے۔ اسی طرح سورة یس کو قرآن پاک کا دل کہا گیا ہے۔ اس سورة مبارکہ میں چاربنیادی حقائق یعنی توحید ، رسالت وحی الٰہی اور قیامت کے مسائل نہایت عمد گی کے ساتھ بیان کئے گئے ہیں ۔ گویا جس طرح حوامیم میں عقیدے کی درستگی اور توحید پرزوردیا گیا ہے اسی طرح سورة یس میں بھی یہی چیز بیان کی گئی ہے۔ تو امام ابوبکر رازی فرماتے ہیں کہ ایاک نعبدکو مقدم لانے سے یہی مقصود ہے کہ پہلے عقیدہ پاک جائے تو اس کے بعد باقی امور انجام دیے جائیں گے ۔ شاہ ولی اللہ محدث (1 حجۃ اللہ ص 51 ج 1 باب حقیقہ السعادۃ ) دہلوی بھی فرماتے ہیں کہ انسان کی حقیقی سعادت اللہ تعالیٰ کی عبادت پر موقوف ہے۔ اگر انسان اللہ کی صحیح طریقے سے عبادت کریں گے تو ان کو سعادت نصیب ہوسکے گی اس کے بغیر کوئی آدمی سعادت مند نہیں ہو سکتا ۔ اس دنیا کی سعادت کے تو بہت سے ذرائع ہیں جیسے مال و دولت کا مل جانا کسی پارلمینٹ کا ممبربن جانا ، اقتدارحاصل ہوجانا ، زن و فرزند کا حاصل ہوجانا وغیرہ وغیرہ مگر حقیقی سعادت اخلاص فی العبادت ہی سے حاصل ہو سکتی ہے۔ (اللہ اور بندوں کا حق ) حدیث شریف میں آتا ہے (2 حجۃ ص 51 ج 1) کہ کسی سفر کے دوران حضرت معاذ ؓ حضور ﷺ کے ساتھ سواری پر پیچھے بیٹھے تھے ۔ راستے میں آپ نے حضرت معاذ ؓ سے پوچھا معاذ ! کیا تم جانتے ہو کہ اللہ کا حق بندوں پر کیا ہے ؟ عرض کیا حضور ! اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں ۔ پھر آپ نے خودہی فرمایا کہ اللہ کا حق اپنی اشرف مخلوق پر ہے ان یعبد وہ ولا یشرکو بہ شیاء کہ بندے صرف اسی کی عبادت کریں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بنائیں ۔ اللہ تعالیٰ کا یہ حق ہر انسان پر ہے جو اس کی خلاف ورزی کرے گا اللہ تعالیٰ کے غضب کا نشانہ بنے گا ۔ پھر حضور ﷺ نے یہ بھی فرمایا ، معاذ ! کیا تم جانتے ہو کہ بندوں کے کا حق اللہ تعالیٰ پر کیا ؟ انہوں نے پھر عرض کیا ، حضور ! اللہ اور اس کا رسول ہی عبادت کریں گے اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں بنائیں گے تو پھر بندوں کا اللہ پر یہ حق ہے ان لا یعذبھم کہ وہ ان کو عذاب نہیں کریگا بلکہ جنت میں داخل کردے گا ۔ سورة یونس میں فرمایا کذلک حقاعلینا ننج المو منین یہ بات ہمارے ذمے ہے کہ ہم اہل کو نجات دے دیں گے ۔ سورة روم میں فرمایا وکان حقا علینا نصرالمؤ منین یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم مومنوں کی مدد کریں ۔ اس مقام پر یہ بات سمجھ لینی چاہیئے کہ اللہ تعالیٰ چونکہ انسان کا خالق اور مالک ہے اس لیے کا حق تو بندوں پر ہے مگر انسان بحیثیت مخلوق اور مملوک ہونے کے اللہ تعالیٰ پر کوئی حق نہیں رکھتے ۔ تا ہم جیسا کہ قرآن پاک سے اخذہوتا ہے ، اللہ تعالیٰ نے اپنے کرم اور مہربانی کے ساتھ بندوں کے بعض حقوق اپنے ذمے لے رکھے ہیں ، اونہ کسی مخلوق کو اللہ تعالیٰ پر کوئی حق قائم کرنے کا حق نہیں پہنچتا ۔ اس قسم کے حقوق کی بات دیگر احادیث میں بھی ملتی ہے جیسے حضور ﷺ نے فرمایا (1 ترمذی ص 15 ج 2) کہ جو شخص کسی دوسرے آدمی کی عزت وآبر و کی حفاظت کرتا ہے تو ایسے شخص کے لیے اللہ کے ذمے یہ حق ہے کہ وہ اسے اخرت کی پریشانیوں سے بچائے ۔ بہرحال اس قسم کے حقوق اللہ تعالیٰ نے کمال مہربانی سے اپنے ذمے لے رکھے ہیں ۔ (الو ہیت کی شرائط) بندے اپنے اللہ کے حضور اقرا کرتے ہیں ایاک نعبد پروردگار ہم ! صرف تیری ہی عبادت کرتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ کی عبادت اس لیے ضروری ہے کہ وہ الٰہ یعنی معبود ہے اور الوہیت کی بعض شرائط ہیں جو صرف خدا تعالیٰ کی ذات میں پائی جاتی ہیں ، لہذا عبادت بھی اس کی ضروری ہے۔ الوہیت کی پہلی شرط واجب الوجود ہونا ہے ، یعنی عبادت کے لائق وہ ہستی ہے جس کا وجود خود بخود ہے اور کسی دوسری ہستی کا عطا کردہ نہیں ۔ یہی چیز خدا تعالیٰ کو باقی مخلوق سے ممتاز کرتی ہے۔ باقی ہرچیز کا وجود خدا تعالیٰ کا عطا کردہ ہے جب کہ اس کا اپنا وجود خود بخود ہے ۔ فارسی میں اللہ تعالیٰ کو خدا اسی لیے کہا جاتا ہے کہ اس کی ذات خود بخود ہے۔ الوہیت کی دو سری شرط قادر مطلق ہونا ہے ۔ یعنی عبادت صرف ایسی ہستی کی ہوسکتی ہے جو اپنی منشاد کے مطابق جو چاہے کرے اور اس کے راستے میں کوئی رکاوٹ نہ ہو ۔ اسی لیے قرآن پاک میں جگہ جگہ آتا ہے ان للہ علی کل شیء قدیر اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے اور وہی قادر مطلق ہے۔ الو ہیت کی تیسر ی شرط علیم کل ہونا ہے ۔ عبادت صرف اسی ذات کی ہو سکتی ہے جا کا ئنات کے ذرے ذرے سے واقف ہو اور کوئی چیز اس کے علم سے باہر نہ ہو ۔ یہ شرط بھی صرف اللہ تعالیٰ میں پائی جاتی ہے ۔ ہر چیز کا ازلی ابدی علم صرف اسی کے پاس ہے واللہ بکل شیء علیم وہی ہر چیز کو جاننے والا ہے ۔ اس کا علم ذرے ذرے پر محیط ہے مخلوق میں سے مقرب ترین ہستیاں انبیاء فرشتے حتی کہ سیدالانبیاء اور جبرائیل (علیہ السلام) کا علم بھی محدود ہے اور علیم کل صرف ذات خداوندی ہے الوہیت کی چوتھی شرط خالق ہونا ہے ۔ ہرچیز کا پیدا کرنے والا بھی صرف اللہ تعالیٰ ہے ۔ قرآن پاک میں صراحت کے ساتھ موجود ہے اللہ خالق کل شیء (الزمر) ہرچیز کو پیدا کرنے والا ہی ہے ۔ نیز الا لہ الخلق والا مر (الا عراف) پیدا کرنا بھی اسی کا کام ہے اور ہر چیز پر حکم بھی اسی کا چلتا ہے ۔ اللہ نے یہ بھی فرمایا افمن یخلق کمن لا یخلق (النحل ) کیا پیدا کرنے والا اور برابر ہوسکتے ہیں ، ہر گز نہیں ۔ اللہ نے یہ بھی فرمایا ھل من خالق غیر اللہ یرزقکم من السماء والا رض (فاطر) کیا اللہ کے سوا کوئی دوسرا خالق بھی ہے جو تمہارے لیے آسمان اور زمین سے روزی کے سامان پیدا کرتا ہے ؟ جواب پھر وہی آتا ہے کہ کوئی نہیں ۔ غرضیکہ فرمایا کہ عبادت کے لائق وہی ذات ہو سکتی ہے جس میں یہ چارشرائط پائی جائیں ۔ یعنی وہ واجب الوجود ہو ، قادر مطلق ہو علیم کل ہو اور خالق ہو یہ چاروں شرائط چو ن کہ صرف ذات باری تعالیٰ میں پائی جاتی ہیں ۔ لہذاعبادت کے لائق بھی وہی ذات ہے ۔ اسی لیے بندوں کی زبان سے کہلوایا گیا ہے ایاک نعبد اے پروردگار ! ہم صرف تیری ہی عبادت کرتے ہیں ۔ کسی اور کی عبادت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ہے ۔ (تو حید کے چاردرجات) امام شاہ ولی اللہ تعالیٰ محدث دہلو ی فرماتے (1 ب حجتہ اللہ البالغہ ص 59 ج 1) ہیں کہ تو حید کے چاردرجات ہیں ۔ ان میں سے دودرجوں میں تو سب مومن ، کافر مشرک وغیرہ متفق ہیں ، مگر باقی دودرجوں میں کفار و مشرکین اہل ایمان سے علیحد ہ ہوجاتے ہیں ۔ توحید کا پہلا درجہ واجب الوجود ہوتا ہے اس پر سب متفق ہیں کہ واجب الوجود صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہے صرف اس کا وجود خود بخود ہے ۔ باقی ہر مخلوق کا وجودعطائی ہے ۔ تو حید کا دوسرادرجہ صفت خلق ہے کسی سے پو چھیں ہر چیز کا خالق کون ہے تو کہیں گے کہ خدا تعالیٰ ایشور یا گاڈ ہے ۔ صرف دہریوں کی قلیل تعداد کے علاوہ باقی تمام مذاہب اللہ تعالیٰ ہی کو خالق مانتے ہیں ۔ گویا ان دودرجات میں سب کا اتفاق ہے۔ تو حید کا تیسرادرجہ تدبیر ہے ۔ یہاں آکر کافر و مشرک اہل ایمان سے علیحد ہ ہوجاتے ہیں ۔ ایمان والوں کا نظریہ یہ ہے کہ ہر چیز کا تدبیر کنندہ یعنی مدبر اللہ تعالیٰ ہی ہے ۔ سورة الم سجدہ میں مو جود ہے یدبرالامر من السماء الی الارض بلندیوں سے لیکر پستیوں تک ہر چیز کی تدبیر کرنے والا اللہ تعالیٰ ہی ہے یہاں آکر نجومی (ستارہ پرست ) اور مشرک علیحدہ ہوجاتے ہیں نجومی ستاروں کو مدبر مانتے ہیں۔ اور قبر پرست قبر والوں سے اپنی حاجتیں طلب کرتے ہیں پیر پرست اپنے پیروں کو مدبر جانتے ہیں بعض لوگ فرشتوں جنات اور بھوت پریت کے ساتھ اپنی تو قعات وابستہ کرتے ہیں مگر اہل ایمان صرف اللہ تعالیٰ کو ہی مدبر حقیقی مانتے ہیں ۔ تو حید کا چوتھا درجہ عبادت کا ہے ، عبادت انہتائی درجے کی تعظیم کا نام ہے یہاں پر بھی لوگ شرک میں مبتلا ہوجاتے ہیں ۔ ایمان والے کہتے ہیں کہ عبادت صرف اسی ذات کی ہوسکتی ہے ۔ جو واجب الوجود قادر مطلق علیم کل نافع ضار اور ہر چیز میں متصرف ہے مگر مشر ک لوگ عبادت میں بھی دوسروں کو شریک کرتے ہیں ۔ عبادت قولی بھی ہوتی ہے اور فعلی بھی عبادت مال سے بھی ہوتی ہے اور نذر و نیاز میں بھی ۔ مشرکین نے قبروں اور بتوں کی پوجاشروع کردی کسی نے جنات اور فرشتوں کو معبود بنالیا نجومیوں نے ستارہ پرستی شروع کردی نصاری نے میسح (علیہ السلام) کو معبود بنا لیا اور یہودیوں نے عزیر (علیہ السلام) کو خدا کا بیٹا کہ دیا مگر صحیح ایمان کا تقاضا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت میں کسی دوسری ذات کو شریک نہ کیا جائے اسی لیے یہاں پر فرمایا ہے ایاک نعبد اے مولا کریم ! ہم صرف تیری ہی عبادت کرتے ہیں ۔ اور اس میں کسی دوسرے کو شریک نہیں کرتے ۔ وایاک نستعین اور استعانت بھی تیر ی ہی ذات سے طلب کرتے ہیں ہم عبادت اور استعانت تیری ذات کے ساتھ مخصوص کرتے ہیں ۔ تیرے سوا کوئی ذات اس کی اہل نہیں ہے عبادت کے بارے میں مزید کچھ عرض کیا جائے گا ۔ سورۃ الفاتحۃ 1 ایا ک نعبدوایاک نستعین درس سیزدہم 13 126 ترجمہ : ہم خاص تیری عبادت کرتے ہیں اور خاص تجھ ہی سے مد طلب کرتے ہیں (امضامین) سورۃ کی ابتداء میں اللہ تعالیٰ کی حمد اور اس کی صفات بیان کی گئیں ۔ اس کے ذاتی نام اللہ صفاتی نام رب رحمان رحیم اور مالک کا ذکر کیا گیا۔ پھر اللہ تعالیٰ سے براہ راست خطاب کیا گیا ایاک نعبد وایاک نستعین اے مولا کریم ! تو جو ان صفات کا مالک ہے ، ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں ۔ عبادت کے بارے میں پہلے عرض کیا جاچکا ہے کہ یہ صرف اسی ذات کی ہو سکتی ہے جو واجب الو جود قادرمطلق علیم کل اور خالق ہو۔ الو ہیت کی صفات چونکہ صرف اللہ تعالیٰ میں پائی جاتی ہیں لہذاعبادت کا مستحق وہی ہے۔ (عبادت کی تعریف ) امام بیضادی اور بعض دیگر مفسرین کرام فرماتے (1 تفسیر بیضادی ص 9 ج 1) کہ عبادت کہتے ہیں ۔ اقصی غایھ التعظیم یعنی انہتائی درجے کی تعظیم مگر یہ تعظیم اس اعتقاد کے ساتھ پیدا ہونی چاہیے کہ جس ذات کی تعظیم کی جارہی ہے وہ واجب الوجود قادر مطلق علیم کل اور نافع وضار ہے عبادت گزار یا تعظیم کنندہ کے دل میں یہ بخپتہ یقین ہونا چاہیئے کہ یہ تعظیم اس ذات کے لیے کی جارہی ہے جو تمام اشیاء میں تصرف کرنیوالی زندہ کر نیوالی مارنے والی روزی دینے والی اور شفابخشنے والی ہے پھر تعظیم قول سے بھی ہوتی ہے عمل سے بھی اور مال سے بھی ۔ اسی لیے ہم قعدے میں پڑھتے ہیں ۔ التحیات للہ والصلوت والطیبت یعنی تمام بدنی قولی اور مالی عبادتیں اللہ ہی کے لیے ہیں۔ جب کوئی شخص اللہ تعالیٰ کو خالق مالک قادر مختار نافع ضا ر اور معطی سمجھنے کے باوجود اپنی حاجات اس کے سامنے پیش کرنے کی بجائے کسی دوسری ہستی کے سامنے پیش کرتا ہے تو ایساشخص آزد اور شریف نہیں ہوگا بلکہ غلام اور مشرک سمجھا جائیگا ۔ کیونکہ وہ اپنی ضروریات اپنے حقیقی مالک کے سامنے پیش کرنے سے قاصر ہے ۔ (عبادت کی غایت ) عبادت کے متعلق مفسترین کرام یہ بھی بیان کرتے ہیں کہ عبادت یا تو ثواب حاصل کرنے کی غرض سے کی جاتی ہے اور یاللہ تعالیٰ کی گرفت سے بچنے کے لیے چناچہ قرآن پاک میں اکثرانبیاء کے تذکرے ہیں سورة انبیاء میں ہے یدعوننا رغب اور ھبا ، وہ ہمیں پکارتے ہیں ہمارے سامنے وست دعا پھیلا تے ہیں ہماری نعمتوں میں رغبت کرتے ہوئے اور ہماری گرفت سے ڈرتے ہوئے ۔ اللہ تعالیٰ کی عبادت اس لیے بھی کی جاتی ہے کہ انسان کو اس کے ہاں عظمت بزرگی اور شرافت حاصل ہو یا عبادت اس لیے کی جاتی ہے کہ معبود برحق دہی ہے ۔ وہی خالق ہے اور عبادت گزار اس کا بندہ ہے اور بندے کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے مالک کی تعظیم بجالائے ۔ چناچہ جب کوئی انسان پوری کائنات میں غوروفکر کرتا ہے تو اسے یقین آجاتا ہے کہ اس کائنات کا مالک اور متصرف وہی ہے ، ہر چیز پر اسی کا کنٹرول ہے ، لہذاعبادت بھی اسی کی ہوسکتی ہے اور اس میں کسی دوسری ذات کو شریک نہیں کیا جاسکتا ہے۔ (خاندان شاہ ولی اللہ ) برصغیر پاک وہند میں دین کے سو بڑے بڑے امام اور پیشواگزرے ہیں اور جہنوں نے اپنی زندگی کی تمام تو انائیاں دین اسلام کی خدمت کے لیے وقف کردیں ان میں حضرت مجد دالف ثانی اور خاندان شاہ ولی اللہ کو امتیاز حاصل ہے شاہ ولی اللہ محدث دہلوی آپ کے چاروں فرزمذ آپ کے شاگردان رشید اور پھر شاگردوں کے شاگرد علمائے دیوبند نے دین کی بیحد خدمت کی ہے ۔ دین کی تبلیغ کے لیے درس گاہیں قائم کی گئیں کتابیں لکھی گئیں اور خاص طور پر قرآن کی تشریح میں کارہائے نمایاں انجام دیے گئے ۔ حضرت شاہ صاحب کے فرزند شاہ عبدالعزیز خاص طور پر قابل ذکر ہیں جو اپنے والد محترم کے شاگرد اور پھر آپ کے جانشین ہوئے ۔ آپ نے فارسی زبان میں قرآن پاک کے کچھ حصے کی تفسیر لکھی ہے جس کے متعلق حضرت مولانا انورشاہ کشمیری فرماتے ہیں کہ اگر یہ تفسیر مکمل ہوجاتی تو کہا جاسکتا تھا کہ حضور ﷺ کی امت پر تفسیر قرآن پاک جو فریضہ عایدہوتا تھا ، وہ مکمل ہوگیا مگر افسوس کہ وہ تفسیر پایہ تکمیل کو نہ پہنچ سکی ۔ چونکہ آپ آخری عمر میں نابینا ہوگئے تھے ، لہذا آپ نے تفسیر کا ابتدائی حصہ املا کرایا ، زندگی نے مہلت نہ دی اور یہ کام نامکمل رہ گیا اس تفسیر میں شاہ صاحب نے قرآن پاک کو بہترین طریقے سے سمجھایا ہے ۔ خود امام شاہ ولی اللہ جذبہ دین سے سرشار ہو کر فرماتے ہیں کہ اسلام اور اہل اسلام کی خیرخواہی مختلف زمانوں میں مختلف طریقوں سے ہوتی رہی ہے آپ اپنے دور کی بات کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے میرے دل میں القا کیا کہ اب وقت آگیا ہے کہ دین کو ایک مکمل شکل میں ظاہر کیا جائے چناچہ آپ نے حجۃ اللہ البالغہ جیسی عظیم کتاب لکھی ۔ اس کتاب کے ذریعے آپ نے دین کا فلسفہ شرائع قوانین اور پورانظام بہترین طریقے سے سمجھائے ہیں۔ (عبد اور معبود کے درمیان نسبت) بہرحال شاہ عبد العزیز اپنی تفسیر (1 تفسیر عزیزی ص 117 ج 1 ، تفسیر سورة بقرہ ) میں عبادت کی حقیقت یوں بیان کرتے ہیں حقیقت عبادت تصحیح نسبت کی درستگی کا نام ہے ۔ اگر یہ نسبت درست نہ ہوسکی تو عبادت نہیں ہوگی ۔ فرماتے ہیں کہ نسبت کی تصحیح اس طرح ہوگی کہ انسان اپنے آپ کو ممکن اور اللہ کی ذات کو واجب الوجود سمجھے ۔ ممکن کا مطلب یہ ہے کہ یہ وجود کسی زمانے میں موجود نہیں تھا ، پھر یہ اس دنیا میں معرض وجود میں آیا ۔ اور پھر ایک دور ایسا آئیگا جب یہ وجود نہیں ہوگا ، تو گویا ممکن وہ ہوتا ہے جو دوعدموں کے درمیان ہو۔ آدمی اس دنیا میں آتا ہے کئی اچھے اور برے اعمال انجام دیتا ہے اور پھر ایک شعلے کی طرح بجھ جاتا ہے۔ امام شاہ ولی اللہ فرماتے ہیں۔ کہ دہریے کافر یا کم علم لوگ سمجھتے ہیں کہ آدمی مرکرختم ہوجاتا ہے حالانکہ انسانی زندگی لافانی ہے ۔ اس زندگی میں ایک تسلسل ہے جو مختلف سیٹجوں سے گزرتا ہوا قراررہتا ہے اس دنیا میں آنے پہلے بھی انسانی زندگی کی ایک سیٹج تھی ۔ اس دنیا میں وہ دوسری سیٹج پر آیا یہاں پرا پنی مقررہ عمر گزارنے کے بعد انسان پر طبعی موت واقع ہوتی ہے اور وہ زندگی کے اگلے ٹسیج میں چلاجاتا ہے پھر جب حشرکا میدان قائم ہوگا تو وہ ایک علیحد ہ ٹسیج ہوگی ، وہاں سے گزرکر انسان اپنی آخری سیٹج پر پہنچ جائے گا ۔ مطلب یہ کہ انسان فنا نہیں ہوتا بلکہ ایک سٹیج سے دوسری سٹیج کی طرف منتقل ہوتا رہتا ہے۔ بہرحال شاہ عبدالعزیز فرماتے ہیں کہ عبد اور معبود کے درمیان تصحیح نسبت اسی طرح وہ سکتی ہے کہ انسان یہ سمجھ لے کہ اس کا وجود اللہ تعالیٰ کا عطا کردہ ہے ۔ جب کہ خدا تعالیٰ کا وجود خود بخود ہے ۔ فرماتے ہیں کہ انسان اللہ تعالیٰ کو مالک اور اپنے آپ کو یعنی اپنے مالک کو اپنے اوپر غالب اور خود کو مغلوب سمجھے اور جان لے کہ وہ جب چاہے اور جس طرح چاہے اپنے بندے کی گرفت کرسکتا ہے ۔ شاہ صاحب فرماتے ہیں کہ نسبت کی درستگی کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ بندہ خود کو مقدور اور اللہ تعالیٰ کو قادر سمجھے ۔ اسی طرح بندہ اپنے آپ کو مامور اور خدا تعالیٰ کو آمر سمجھے یعنی اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کے ہر حکم تابع خیال کرے پھر یہ بھی ہے کہ بندہ اپنے آپ کو عاجز اور خدا تعالے کو عزت والا سمجھے ۔ اگر انسان اللہ تعالیٰ کے ساتھ اس قسم کی نسبت قائم کرنے میں کامیاب ہوگیا تو اس عبادت کا مضہوم پالیا اور اس کی عبادت درست ہوگئی۔ (عبادت کی عملی صورت ) شاہ عبد العزیز عبادت کی یہ تعریف بھی کرتے (ب 1 تفسیر عزیز ی فارسی ص 7 ج 1) ہیں کہ عبادت درحقیقت مشغول کردن تمام اعضاء وجوارح ظاہر و باطن ارورراہ او ضیات او یعنی اپنے تمام اعضاء و قوی ظاہرہ اور باطنہ کو اللہ تعالیٰ کے راستے میں اس کی مرضیات پر لگا دینے کا نام عبادت ہے ۔ شاہ صاحب فرماتے ہیں کہ عبادت انسان کے ظاہر ی اعضاد سے بھی ہوتی ہے اور باطنی اعضاء سے بھی ۔ مثلازبان کی عبادت یہ ہے کہ انسان قرآن پاک کی تلاوت کرتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتا ہے اس کی تسبیح اور تہلیل بیان کرتا ہے استغفار کرتا ہے درود شریف پڑھتا ہے دعائیں کرتا ہے کوئی بھی اچھا کلمہ زبان سے ادا کرتا ہے تو یہ سب زبانی عبادت شمارہوتی ہے۔ (آنکھ) آنکھ کی عبادت یہ ہے کہ انسان خانہ کعبہ کو دیکھے کیونکہ النظدۃ الی الکعبۃ عبادۃ کعبہ شریف کو محض دیکھنا بھی عبادت میں شمار ہوتا ہے قرآن پاک اور دینی کتب کو دیکھنا اللہ کے نیک بندوں کو تعلیم حاصل کرنے کی غرض سے دیکھنا ۔ اللہ تعالیٰ کے نشانات کو اس لیے دیکھنا کہ اس کی قدرت سمجھ میں آئے سعدی صاحب کہتے ہیں کہ ہر درخت اور پودے کا ایک ایک پتہ پروردگار کی معرفت کا ایک دفتر ہے بشرطیکہ کوئی اس میں غور وفکر کرے ۔ پہرحال ان سب چیزوں کا دیکھنا آنکھ کی عبادت ہے ۔ (کان) اسی طرح کان کی عبادت یہ ہے کہ انسان قرآن پاک سنے وعظ ونصیحت کی بات کو سنے تا کہ اللہ کی کتاب سمجھ میں آسکے مسائل دینیہ کو سمجھنے کی غرض سے سنے غرضیکہ ہر ایسی بات کا سننا جس سے اللہ تعالیٰ کی محبت پیدا ہو اس کی اطاعت کا جذبہ بیدار ہو اور دل میں اس کی یاد پیدا ہو عبادت میں داخل ہے ۔ (ہاتھ اور پاؤں) اسی طرح ہاتھ کی عبادت یہ ہے کہ انسان قرآن پاک اور دینی کتب لکھے اللہ تعالیٰ کے اسمائے پاک لکھے غرضیکہ ہر ایسی تحریر جو عبد اور معبود کے درمیان تعلق استوار کرنے کا باعث ہو ہاتھ کی عبادت میں شامل ہے اب اگر کوئی شخص اپنا پاؤں نیکی کے کام کے لیے اٹھاتا ہے تو یہ اس کے پاؤں کی عبادت ہوگی ۔ جب کوئی شخص نماز کے لیے مسجد کی طرف چلتا ہے تو اس کے ہر ہر قدم کے بدلے اس کے نامہ اعمال میں نیکی لکھی جاتی ہے اس کے گناہ گرتے ہیں اور درجات بلند ہوتے ہیں ، گویا ایک ایک قدم کے بدلے میں تین تین فوائد حاصل ہوتے ہیں ۔ اس کے علاوہ حج کے لیے جانا نیک لوگوں کی ملاقات کے لیے چلنا جہاد اور تبلیغ کے لیے سفراختیار کرنا کسی کمزور کی مدد یا کسی استعانت کے لیے چل کر جانا اچھے کام کی سفارش کے لیے کسی کے پاس جانا ، سب پا ؤں کی عبادت میں داخل ہے۔ (اعضائے باطنہ) اعضائے باطنہ میں سے عقل کی عبادت یہ ہے کہ انسان قرآن کریم اور شریعت کے احکام میں غور وفکر کرے ان کو سوچے سمجھے اور پھر ان پر عمل پیرا ہوجائے ۔ اسی طرح نفس کی بھی عبادت ہے ۔ سورة یو سف میں جود ہے ان النفس لا مارۃ بالسوء بیشک انسان کا نفس تو اسے برائی پر آمادہ کرتا ہے ، اس لیے نفس کی عبادت یہ ہے کہ انسان صبر کرے نفس کو مالوفات اور مرغوبات سے روکے شیطانی کاموں سے بازرکھے روزہ رکھ کر کھانے پینے اور خواہشات سے روکے اعتکاف بیٹھے تا کہ جھوٹی سچی خبروں کی وجہ سے ذہن میں پیدا ہونے ولی پریشانی پر قابو پاسکے ہر مصیبت میں صبر کا دامن تھا مے رکھے ، جزع فزع سے باز رہے ۔ محرمات اور معاصی سے روکے ہر خرابی پیدا کرنے والی بات سے ہٹاٹے غرضیکہ نفس کو تمام برائیوں سے باز رکھنا نفس کی عبادت ہے۔ بہرحال اپنے ظاہر و باطن کو اللہ تعالیٰ کی مرضیات کے تابع کردینے کا نام ہی عبادت ہے ۔ بندے اور مالک کے درمیان تعلق کی درستگی ہی عبادت ہے اور اس میں قولی ہلور مالی ہر قسم کی عبادات شامل ہیں عبادت کے متعلق میں نے مختصر اور ضروری بیان عرض کردیا ہے۔ سورۃ الفاتحۃ 1 ایاک نعبد وایاک نستعین درس چہار دہم 14 ترجمہ : (اے پروردگار ) ہم خاص تیر ی ہی عبادت کرتے ہیں اور خاص تجھ سے ہی مدد مطلب کرتے ہیں (عبد اور معبود ) اس سورة مبارکہ میں اللہ تعالیٰ پانچ صفات بیان کرنے کے بعد اسے براہ راست خطاب کیا گیا ہے ایاک نعبد وایاک نستعین اے پروردگار ! ہم خاص تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور خاص تجھ سے ہی مدد طلب کرتے ہیں۔ ہم تیرے سوا کسی دوسری ذات کو مستحق عبادت نہیں سمجھتے کیونکہ عبودیت کے تمام شرائط تیری ذات کے علاوہ کسی دوسری ذات میں نہیں پائے جاتے تیرے سوا نہ کوئی خالق ہے اور نہ قادرمطلق نہ کوئی واجب الوجود ہے اور نہ کوئی علیم کل نہ کوئی نافع ہے اور نہ کوئی ضار۔ مخلوق میں سے کسی کی کوئی چیزذاتی نہیں ، حتی کہ اس کا وجود بھی خدا تعالیٰ کا عطا کردہ ہے ۔ ظاہر ہے کہ جس ذات کی کوئی چیز اپنی نہیں ہے اس میں الوہیت کی کوئی صفت ہی نہیں پائی جاتی تو وہ معبود کیسے ہو سکتی ہے ؟ برخلاف اس کے مخلوق میں سے ہر چیز اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے والی اور اسی کے دروازے کی سوالی ہے ۔ سورة الرحمن میں مو جود ہے یسئلھ من فی السموت والارض آسمان و زمین کی ہر چیز اسی سے منگتی ہے کیونکہ قادروہی ہے۔ تمام اسباب پر کنڑول اسی کا ہے ۔ متصرف فی الا موروہی ہے ، لہذا اس کے علا وہ عبادت بھی کسی کی نہیں ہوسکتی ۔ اگر کوئی ایسا کریگا تو وہ کفر اور شرک میں مبتلا ہوگا ، اس آیت کریمہ میں یہی بات سمجھائی گئی ہے۔ (مسلہ استعانت اور شفا) اس آیت کریمہ میں دوسرامسئلہ استعانت کا بیان ہوا ہے ، مافوق الا سباب استعانت بھی خدا تعالیٰ ہی کا خاصہ ہے اس کے علاوہ کوئی بھی کسی کی مدد پر قادر نہیں ہے۔ البتہ جہاں تک دائرہ اسباب کا تعلق ہے ، وہاں ایک دوسرے کی اعانت کا حکم دیا گیا ہے کہ ایک محدود وائرہ کار کے اندر ایک دوسرے کی مدد کرو ، جیسا سورة مائدہ میں ارشاد ہے وتعاونوا علی البروالتقوی یعنی نیکی اور تقوی کے کاموں میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرو ۔ اس کی تفصیل حضور ﷺ کے ارشاد مبارک سے ملتی ہے کہ اللہ کے بندو ! جب تم بیمار ہوجاؤ ۔ تو علاج کرو بیماری میں علاج کر نیکی اجازت ہے کیونکہ جس اللہ نے بیمار ی کو پیدا کیا ہے اس نے شفاکا سلسلہ بھی قائم کیا ہے اور اسے اپنے ہاتھ میں رکھا ہے ۔ حضور ﷺ نے دعا میں یہی بات سکھلائی (1 بخاری ص 855 ج 2) ہے کہ اے مولیٰ کریم لا شفاء الا شفاء ک شفا صرف تیری ہی شفا ہے تیرے بغیر کوئی بھی شفادینے پر قادر نہیں لا شافی الا انت مالک الملک ! تیرے بغیر کوئی بھی شفادینے والا نہیں ہے ۔ شفا جبھی ہوتی ہے جب تو شفادینا چاہے کوئی ڈاکٹر کوئی حکیم ، کوئی طبیب شفا نہیں دے سکتا۔ بعض لوگ سو فیصدی گارنٹی کے ساتھ علاج کرتے ہیں جو کہ جھوٹ محض ہے۔ شفاتو اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے ۔ دوا یا کسی چیز میں بھی تاثیر تو اللہ کی پیدا کردہ ہے وہ جب چاہے اسے مئوثر کردیتا ہے اور جب چاہے اس تاشیر کو روک لیتا ہے۔ لہذا شفا بھی منجانب اللہ ہے ۔ سورة الشعراء میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا یہ بیان موجود ہے واذامرضت فھویشفین جب میں بیمار پڑجاتا ہوں تو وہی پروردگار مجھے شفا بخشتا ہے۔ کچھ عرصہ پہلے تک کے ڈاکٹر اور طبیب بھی علاج کرتے تھے مگر شفامنجانت اللہ ہی سمجھتے تھے ۔ چنا نچہ وہ نسخہ تحریر کرنے سے پہلے ھوالشافی کے الفاظ لکھتے تھے جس کا مطلب یہ ہوتا تھا کہ بیشک ہم یہ دواتجویز کر رہے ہیں مگر حقیقت میں شفادینے والی ذات وہی ہے جب تک خدا تعالیٰ دوا میں اثر نہیں ڈالے گا ، شفاممکن نہیں ۔ مگر آج کل یہ سلسلہ بھی بند ہوچکا ہے۔ اب تو نسخہ بھی بسم اللہ کے بغیر ہی الٹے ہاتھ سے لکھ دیا جاتا ہے ، ایسے نسخے اور ایسے علاج میں کیا برکت ہوگی ؟ ایک شخص حضوعلیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ میں بہت بڑا طبیب ہوں ۔ لوگوں کا شرطیہ علاج کرتا ہوں ۔ حضور ﷺ نے فرمایا (ب 1 ابو داؤد ص 222 ج 2 ، مسند احمد ص 163 ج 4) اللہ الطبیب بل انت رجل رفیق بھی ! تم طبیب کہاں ہو ؟ طیب تو خدا تعالیٰ کی ذات ہے ، وہی شفادیتا ہے تم تو رفیق یعنی ساتھی ہو کر دواتجویز کرتے ہو ۔ شفاتو اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ (کوئی چیز مئوثر بالذات نہیں ) ہر چیز کی تاثیر اللہ تعالیٰ کی پیدا کردہ ہے اور وہ جب چاہتا ہے اس تا ثیر کو روک لیتا ہے ۔ لہذ کوئی چیز خود بخود مئوثر بالذات نہیں ہے مثلا آگ کی تاثیریہ ہے کہ دہ جلاڈالتی ہے مگر جب اللہ تعالیٰ چاہے تو جلانے کی اس تا ثیرکو روک لے ابراہیم (علیہ السلام) کے وقعہ میں ایسا ہی ہوا ، تو معلوم ہوا کہ آگ میں جلادینے کی تاشیر اس کی ذاتی نہیں ہے اگر کوئی شخص سمجھتا ہے کہ فلاں چیز کی فلاں تا ثیر اس کی ذاتی ہے ، تو ایسا شخص شرک کا مر تکب سمجھا جائے گا ۔ یورپ کے بڑے بڑے سائنسدان مختلف شعبوں میں لاتعداد تجربات کرنے کے بعد اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ کسی چیز میں کوئی ذاتی تا ثیر نہیں ہے وہ کہنے لگے ہیں کہ ضروری نہیں کہ جہاں علت ہوگی وہاں معلول بھی ہوگا جہاں سبب ہوگا وہاں مسبب بھی ہوگا اور جہاں ہوگا وہاں بھی ضرور ہوگا بلکہ ہر علت ، سبب اور کسی مافوق الا سباب ہستی کے حکم متنظر رہتا ہے کہ اگر حکم ہو تو آگے بڑھ کر اپنا کام کروں ۔ پھر جب حکم ہوتا ہے تو سبب کا اثر ظاہر ہوتا ہے ورنہ نہیں ہوتا ۔ تو معلوم ہوا کہ کوئی بھی چیز مئوثر بالذات نہیں ہے ل کہ اس میں اثر اس وقت پیدا ہوتا ہے جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے اجات ملتی ہے۔ حدیث شریف میں حضور ﷺ کا فرمان (1 بخاری ص 454 ج 1) ہے کہ سورج ہر روز سجد ہ کرتا ہے ۔ اس کی تشریح میں محقیقن مفسرین اور محدثین بیان کرتے ہیں کہ سورج کے سجد ہ کرنے سے ایساسجد ہ مراد نہیں جیسا ہم سجدہ کرتے ہیں ۔ بلکہ اس کی صورت ایسی ہی ہوسکتی ہے جیسے ہم خواب میں کوئی کام کرتے ہیں حالانکہ ہمارا جسم تو چارپائی پر محوخواب ہوتا ہے اور اس کے ساتھ روح حیوانی بھی موجود ہوتی ہے مگر روح انسانی کہیں سے کہیں پہنچی ہوتی ہے یہ کبھی خانہ کعبہ کا طواف کرتی ہے کبھی کسی سے ملاقات کرتی ہے کبھی مسجد میں نماز ادا کرتی ہے ، جماعت میں شریک ہوتی ہے ، قیام رکوع اور سجدہ کرتی ہے تو سورج کا ہر روز سجد ہ کرنا بھی اس پر قیاس کیا جاسکتا ہے۔ پھر یہ بھی آتا ہے کہ سورج کا ہر ہر قدم اللہ تعالیٰ سے اجازت طلب کرتا ہے کہ اگر حکم ہو تو آگے بڑھوں ، ورنہ وہیں رک جاؤں ۔ چناچہ سورج اللہ تعالیٰ کے حکم سے ہی ایک سمت کو رواں دواں ہے۔ پھر ایک دن ایسا بھی آئے گا جب سورج آگے بڑھنے کی اجازت طلب کرے گا تو حکم ہوگا کہ اپنی معمول کی جرکت کو روک کر اسے معکوس کردو ۔ چناچہ سورج کا سفر مشرق سے مغرب کی بجائے مغرب سے مشرق کی طرف شروع ہوجائے گا اور صبح سے دوپہرتک اس کا یہ سفرجاری رہے گا ۔ بہرحال کہنے کا مقصد یہ کہ کسی بھی چیز میں اس کا کوئی ذاتی تصرف نہیں ہے بلکہ کائنات کا ذرہ اپنے پروردگار کے حکم منتظر رہتا ہے اور اس کے حکم کے مطابق عمل کرتا ہے گویا متصرف فی الا مور صرف ذات خداوندی ہے باقی ہر چیز اس کے حکم کے تابع ہے۔ (اسباب سے استفادہ ) شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی نے اپنی تفسیر عزیزی میں (ب 1 تفسیر عزیزی فارسی ص 8) حضرت سفیان ثوری کے متعلق لکھا ہے کہ سورة فاتحہ کی تلاوت کرتے ہوئے جب اس آیت پر پہنچے ایاک نعبد وایاک نستعین ۔ تو غش کھاکر گرپڑے ۔ لوگوں نے پوچھا حضرت کیا بات ہوٹی ۔ فرمایا جب میں نے اپنی زبان سے یہ ادا کیا کہ اے پروردگار ! ہم صرف تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور صرف تجھ سے ہی مدد طلب کرتے ہیں تو مجھے یکدم خیال آیا کہ اگر قیامت کے دن اللہ تعالیٰ نے کہہ دیا کہ تو اپنے دعواے میں جھوٹا ہے تو میرا کیا حشرہوگا۔ اگر اس نے کہ دیا کہ تو فلاں کام کے لیے حاکم سے دوستی کرتا ہے ، تنخواہ لینے کے لیے فلاں شخص کے پاس جاتا ہے اور شفا کے لیے ڈاکٹر کے پاس جاتا ہے تو تیرے دعویٰ میں صداقت کہاں رہ گئی ، تو نے اسباب کو موثر سمجھ لیا فرماتے ہیں کہ یہ خیال آتے ہی مجھ پر غشی طاری ہوگئی ۔ یہ تو ان کے تقو اے کی بات تھی ۔ مگر ظاہر ی اسباب کو ترک کرنے کی بھی اجازت نہیں بلکہ عالمیگری میں یہ فتوی موجود ہے کہ ظاہر ی اسباب ترک کرنا جائز نہیں ۔ اگر کوئی شخص بوقت ضرورت ان اسباب سے مستفید نہیں ہوتا اور مر جاتا ہے تو وہ مردار کی موت مریگا بھوک کو مٹانے کے لیے کھانا کھانا ضروری ہے ، تشنگی کو رفع کرنے کے لیے پانی پینا لازم ہے۔ لہذا اگر کوئی شخص ان اسباب ظاہر ہ کو اختیار نہیں کرتا تو وہ قابل مئواخذہ ہوگا ۔ البتہ یہ بات یادرکھنی چاہیئے کہ ان اسباب کو مئوثر بالذات نہ سمجھے بلکہ خالص اللہ تعالیٰ پر بھر وسہ کرتے ہوئے ان کو استعمال کرے ۔ کیونکہ ان اسباب میں تا ثیرپیدا کرنا اللہ تعالیٰ کا کام ہے ۔ اگر کھانے میں بھوک مٹانے کی ذاتی تاثیرہوتی تو لوگ جوع الکلب کی بیماری میں مبتلانہ ہوتے جس میں زیادہ سے زیادہ کھانے سے بھی پیٹ نہیں بھر تا بلکہ بھوک بد ستور قائم رہتی ہے ۔ بھوک کو روٹی نہیں مٹاتی بلکہ اللہ تعالیٰ مٹاتا ہے ۔ البتہ بعض اسباب ایسے ہیں جن کے متعلق یقین نہیں ہوتا بلکہ محض گمان ہوتا ہے کہ ان سے فائدہ ۔ جیسے بیماری میں علاج کا معاملہ ہے کہ اس میں صحت یابی کا یقین نہیں ہوتا کیونکہ شفامن جانب اللہ ہے ۔ الہذاعلاج کرنا مسنون یا مسنون یا مستحب تو ہے مگر ضروری نہیں ، اسی لیے بعض کامل درجے کے لوگ ایسے اسباب بھی اختیار نہیں کرتے بلکہ وہ مکمل طور پر اللہ تعالیٰ پر بھر وسہ کرتے ہیں ۔ البتہ عام لوگوں کے لیے یہی حکم ہے کہ ان اسباب کو اختیار کریں ۔ بعض اسباب موہوم قسم کے جیسے پھونک ، تعویز گنڈاوغیرہ ان کو ترک کردینا ادنی قسم کے تو کل میں داخل ہے ۔ (عبادت میں استغراق) ہماری عبادات میں عام ملور پر استغراق نہیں پایا جاتا اکثر طبیعتوں پر وہم چھائے رہتے ہیں ، وسواس ہوتے ہیں ، الفاظ کی ادائیگی بھی صحیح نہیں ہوتی کئی خامیاں رہ جاتی ہیں ، اس لیے ہزاروں میں کوئی اکاد کا آدمی ایسا ہوگا جس کی نماز صحیح ہو۔ کسی شخص نے حضرت مولا حکیم الا مت شاہ اشرف علی تھا نوی سے عرض کیا حضرت ! مجھے نماز کے دوران خیالات بہت آتے ہیں ، آپ نے فرمایا آتے رہیں مگر تم نماز کو ترک نہ کرو کہ ہمارے لیے یہی حکم ہے ۔ اپنے طورکوشش کرو کہ خیالات کم سے کم آمئیں مگر اس میں عام طور پر کا میابی نہیں ہوتی ، تاہم اللہ کے کامل بندے ایسے بھی ہوتے ہیں کہ نماز میں مکمل استغر اق حاصل ہوتا ہے اور انہیں اپنے موحول کی خبرتک نہیں ہوتی ابو داؤد شریف میں ایک صحابی کا ذکر (ب 1 ابو راؤدص 26 ج 1) ہے جو رات کو پہر ہ دے رہا تھا ۔ اس دوران اس نے نماز شروع کردی ۔ اتنے میں دشمن کی طرف سے تیر آیا ۔ جو صحابی کے جسم میں پیوست ہوگیا ۔ آپ نماز میں اس قدر مہنک تھے جسم کا خون بہ جانے کے باوجود انہیں محسوس بھی نہ ہوا کہ ان کے ساتھ کوئی حادثہ پیش آگیا ہے۔ اسی قسم کا ایک واقعہ امام ابوحنیفہ کا بھی آتا ہے۔ (ب 1 تفسیر کبیر لاہم رازی ص 249 ج 1) آپ باقی لوگوں کے ساتھ نماز ادا کر رہے تھے ۔ اتنے ایک سانپ چھت سے گر پڑاسب لوگ بھاگ گئے مگر امام صاحب نماز میں اس قدرمشغول تھے کہ آپ کو پتہ بھی نہ چلا کہ کیا ہوگیا ہے ۔ حضرت عروہ بن زبیر مشہور تابعی اور مدینہ کے سات چوٹی کے فقہا میں سے ہوئے ہیں ۔ آپ بڑے پاٹے کے عالم اور کمال درجے کے عبادت گزار تھے ۔ آپ کے پاؤں میں زخم آگیا لوگ آپریشن کرنا چاہتے تھے مگر آپ اس کی اجازت نہیں دیتے تھے ۔ آخرجب وہ نماز میں منمک ہوگئے تو آپ کے پاؤں کا آپریشن کردیا گیا (ب 2 تفسیر کبیر ص 249 ج 1) ہے۔ آپ باقی لوگوں کے ساتھ نماز ادا کر رہے تھے ۔ اتنے میں ایک سانپ چھت سے گرپڑا۔ سب لوگ بھوگ گئے مگر امام صاحب نماز میں اس قدرمشغول تھے کہ آپ کو پتہ بھی نہ چلا کہ کیا ہوگیا ہے ۔ حضرت عروہ بن زبیر مشہور تابعی اور مدینہ کے سات چوٹی کے فقہا میں سے ہوئے ہیں ۔ آپ بڑے پائے کے عالم اور کمال درجے کے عبادت گزار تھے ۔ آپ کے پاؤں میں زخم آگیا لوگ آپریشن کرنا چاہتے تھے مگر آپ اس کی اجازت نہیں دیتے تھے ۔ آخر جب وہ نماز میں منمک ہوگئے تو آپ کے پاؤں کا آپریشن کردیا گیا۔ (ب 2 تفسیر کبیر ص 249 ج 1) آپ عبادت میں اس قدر مستغرق تھے کہ آپریشن کا پتہ تک نہ چلا۔ (عبودیت کے اثرات) عام لوگوں پر عبودیت کے اثرات ظاہر نہیں ہوتے کیونکہ وہ عبادت کی شرائط پوری نہیں کرتے ۔ ہماری نمازیں اکثراوہام کا شکار ہوتی ہیں لہذاعبادت کے اثرات بھی بہت کم ہوتے ہیں ۔ البتہ جو لوگ اللہ کی عبادت اچھے طریقے سے کرتے ہیں ، ان پر عبودیت اور اللہ تعالیٰ کی مہربانیوں کے اثرات بھی ظاہر ہوتے ہیں اور ان سے کرامت کا ظہور بھی ہونے لگتا ہے ۔ عبودیت کا سب سے بڑا اثریہ ہوتا ہے کہ انسان کو نیکی کی توفیق مسلسل ملتی رہتی ہے ۔ اگر اس میں عبادت کا ذوق وشوق بڑھ رہا ہے تو سمجھ لو کہ نیکی کی مزید تو فیق مل رہی ہے اور اس پر آثار عبودیت ظاہر ہو رہے ہیں ۔ اگر کوئی شخص نیکی کے کام کرنے سے رک گیا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس سے نیکی کی تو فیق ہی سبب کرلی گئی ہے ایسے شخص پر عبودیت کے کیا آثار ظاہر ہوں گے ؟ بزرگان دین کے تذکرے میں بعض ایسے لوگوں کا ذکر بھی ملتا ہے کہ جن کی ظاہر ی حالت تو کچھ نہیں ہوتی مگر عبادت کی روح کو پالینے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے مقربین میں شامل ہوتے ہیں ۔ ایسے ہی بزرگوں میں شیبان راعی ہیں ۔ بڑے نیک عابد اور زاہد تھے ۔ امام شافعی اور امام احمد کے ہم عصر تھے اور یہ دونوں بزرگ شیبان راعی کی مجلس میں بیٹھ کر سکون حاصل کرتے تھے کسی نے کہا کہ حضرت ! آپ بڑے صاحب علم لوگ ہیں (ب 1) محدث فیقہہ اور مجتہد ہیں مگر بکریاں چرانے والے ایک ایسے شخص کی مجلس میں جاتے ہیں جو بالکل ان پڑھ ہے نہ کسی مدرسے میں تعلیم حاصل کی ہے اور نہ کوئی سند رکھتے ہیں ۔ فرمایا اللہ تعالیٰ نے اس چروا ہے کو وہ چیز عطا کی ہے جو ہمارے اندر نہیں پائی جاتی لہذا ہم اس کی مجلس میں جاکر بیٹھتے ہیں ۔ حضرت مولا ناعبید اللہ سندھی بھی اپنے پیرومرشد کی مجلس کا ذکر کرتے ہیں جن کے ہاتھ پر وہ مشرف بہ اسلام ہوئے تھے فرماتے ہیں کہ میں ان کی مجلس کا اثر کبھی نہیں بھول سکتا ۔ وہ اپنی مجلس میں جن کلمات یا کلمہ تو حید کی تلقین فرماتے تھے ، جو وعظ ونصیحت کرتے تھے یا وظائف بتلا تے تھے اس کا اثر فورا طبیعت پر ہوجاتا تھا ۔ آپ کے بعد میں نے یہ اثر حضرت مولا نارشید احمد گنگوہی کی مجلس میں دیکھا ہے ۔ شاہ اسماعیل شہید اور مولانا عبدالحی (دامادشاہ عبدالعزیز) سید احمد شہید کے ساتھ معرکہ بالا کوٹ میں شریک تھے کسی نے کہا کہ آپ تو بڑے پاٹے کے عالم ہیں ، آپ کی بہت تصانیف موجود ہیں مگر آپ نے ایک ایسے شخص کے ہاتھ پر بعیت کی ہے جو زیادہ علم نہیں رکھتا ۔ کہنے لگے تم نہیں جانتے جو کچھ اللہ تعالیٰ نے انہیں عطا کیا ہے وہ ہمارے پاس کہاں ہے ۔ سید صاحب کی تعلیم زیادہ نہیں تھی مگر اللہ تعالیٰ نے ان پر بڑافضل فرمایا تھا ۔ اور ان کو اعلیٰ درجے کی روحانیت عطاکررکھی تھی اسی حضرت مولا نا محمد قاسم نانوتوی اور مولا رشید احمد گنگوہی بڑے پائے کے عالم اور بزرگ تھے کسی نے کہا کہ آپ نے حاجی امداد اللہ مہاجر مکی کے ہاتھ پر بعیت کی ہے حالانکہ وہ زیادہ علم نہیں رکھتے حضرت گنگوہی نے فرمایا کہ آپ یہ تو کہہ سکتے ہیں کہ حاجی صاحب کے پاس ظاہری علم کم ہے مگر ہم نے ان کی بعیت اس لیے کی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو حرارت ان کے قلب میں پیدا کی ہے وہ ہمارے اندر کہاں ہے ؟ ہم تو وہ حرارت حاصل کرنا چاہتے ہیں جو ان کے قلب میں ہے۔ حضرت عبدالعزیز دباغ بھی نویں دسویں صدی کے بہت بڑے بزرگ ہوئے ہیں ۔ بظاہر ان پڑھ تھے مگر ان کے ملفوظات ان کے شاگرد مبارک نے اپنی کتاب الابریز میں جمع کیے ہیں ۔ جب بھی آپ سے قرآن وحدیث کے متعلق کوئی مسئلہ دریافت کیا جاتا تو توفیق ایزدی سے بالکل صحیح صحیح جو اب (ب 1) دیتے اللہ تعالیٰ نے ایسی روحانیت اور ملکہ عطا فرمایا تھا۔ شیبان راعی جن کا ابھی ذکر ہوا جنگل میں بکریاں چراتے تھے اس دوران جنابت کی حالت لاحق ہوگئی ۔ مگر غسل کے لیے پانی نہیں تھا اللہ تعالیٰ کے حضور عرض کیا پروردگار ! میں تیرا عاجز بندہ ہوں سوائے تیرے میرا کوئی آسرا نہیں مجھے نماز پڑھنا ہے مگر طہارت کی صورت نظر نہیں آرہی ہے ۔ اتنا عرض کرنا تھا کہ بارش شروع ہوگئی آپ نے غسل کرکے نماز ادا کی ۔ آپ ہی کے متعلق ذکر آتا ہے کہ جب جمعہ کا دن آتا تو بارگا ہ رب العزت میں عرض کرتے مولا کریم ! شہر میں میں جاکر جمعہ کی نماز ادا کرنا ہے ۔ مگر بکریوں کی دیکھ بھال کرنے والا بھی کوئی نہیں ۔ پھر خودہی بکریوں کو ایک جگہ جمع کرکے ان کے اردگرد ایک دائرہ کھینچ دیتے اور جمعہ کے لیے چلے جاتے اللہ تعالیٰ ان کی حفاظت کرتا اور کوئی بکر ی دائرے سے باہر نہ نکلتی ۔ مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ عبودیت کے اثرات بعض لوگوں پر ظاہر ہوجاتے ہیں مگر بعض لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں کہ ساری عمر نہایت انماک کے ساتھ عبادت کرتے ہیں مگر کوئی کرامت ظاہر نہیں ہوتی ۔ ظاہر ہے کہ آثار کا اظہار بھی اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے وہ چاہے تو ظاہر کردے اور اگر نہ چاہے تو نہیں ہوتے بہرحال اللہ کے بندے ایسے ہمیشہ رہے ہیں جو اللہ پر مکمل بھر وسہ رکھتے ہیں ۔ خالص اسی کی عبادت کرتے ہیں شرک سے سخت پیزار رہتے ہیں اور ان پر عبودیت کے اثرات بھی ظاہر ہوتے ہی جیسا کہ ان بزرگوں کے واقعات سے پتہ چلتا ہے ۔ حضرت شاہ اسماعیل شہید نے ایک دفعہ دل میں خیال کیا کہ رات کو دو رکعت ایسی نماز پڑھوں جس کے دوران وساوس نہ آئیں ۔ کہتے ہیں کہ میں نے سو رکعت نماز ادا کی مگر اپنے مقصد میں کا میابی حاصل نہ ہوئی صبح کے وقت اپنے پیر ومرشد سید احمد شہید کے سامنے ذکر ہواتو انہوں نے فرمایا کہ اپنے مقصد کے حصو ل کے لیے میرے پیچھے صرف دو رکعت ادا کرلو چناچہ انہوں نے ایسا ہی کیا ۔ اللہ تعالیٰ نے ان دو رکعتوں کے دوران ایسی کیفیت پیدا کردی کہ ہمیشہ کے لیے نماز میں حضور قلب حاصل ہوگیا ۔ (حقیقت معجزہ و کرامت ) یہ عبودیت کے آثار ہیں جو اللہ کے نیک بندوں پر ظاہر ہوتے ہیں مگر اکثر لوگ یہاں پر غلطی کا شہکار ہوجاتے ہیں ۔ کسی بزرگ کی کرامت دیکھی تو اسے بزرگ کا ذاتی فعل سمجھ کر اس کی پوجا شروع کردی حالانکہ درحقیقت نبی کا معجزہ اور ولی کی کرامت اللہ تعالیٰ کا فعل ہوتا ہے ۔ اس کو ذاتی سمجھ کو ہی لوگ شرک میں مبتلا ہوتے ہیں نصاری نے مسیح (علیہ السلام) کے معجزات دیکھے تو انہیں خدا بنا دیا ۔ اللہ کے ولی کی کرامت دیکھ کر لوگ انہی کو سب کچھ سمجھ لیتے ہیں کہ یہی لینے دینے والے ہیں حالانکہ وہ اللہ کا بندہ تو آثارعبودیت میں ہوتا ہے۔ الل چاہے تو کوئی چیز ظاہر کردے اور نہ چاہے تو نہ کرلے وہ مالک ہے ، نہ چاہے تو نبی کی دعا چالیس سال کے بعد قبول ہوئی ۔ بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے۔ یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کے تصرف میں ہے ، لوگ یہیں پر آکر غلطی کرتے ہیں وہ اللہ کے فعل بندے کی طرف منسوب کرکے شرک میں مبتلا ہو جاے ہیں۔
Top