17 یعنی وہ راہ جس میں کوئی کجی نہیں، کوئی اونچ نیچ نہیں، کہیں ٹھوکر لگنے کا احتمال نہیں۔ مراد اس سے جادۂ شریعت ہے کہ یہی زندگی کا مکمل نظام ہے۔ زندگی کے ہر گوشہ اور ہر شعبہ کے باب میں ایک مکمل دستور ہدایت ہے۔ اور اسی پر چلتے رہنا فردو جماعت دونوں کے حق میں، دنیوی واخروی اعتبار سے فلاح ہی فلاح ہے۔ صحابہ، تابعین سب سے یہی معنی مروی ہیں، ھو دین اللہ الذی لا عوج لہ (ابن جریر۔ عن ابن عباس ؓ قال ابن عباس و جابر ھو الاسلام وھو قول مقاتل (معالم) یہ گویا بندوں کی زبان سے درخواست ہے کہ اے ہمارے ہادی برحق ورہنمائے حقیقی، اپنا سیدھا راستہ ہم پر کھول دے۔ اس پر چلنے کی ہمیں توفیق عطا فرما۔ اور اپنے فضل وکرم کو ہمارا دستگیر رکھ ! طلب ہدایت کی بھی دو صورتیں ہیں۔ ایک یہ کہ راہر وبھٹکا ہوا ہے اور وہ راستہ دریافت کررہا ہے۔ دوسرے یہ کہ راہ تو مل چکی ہے، درخواست اسی پر قائم رہنے کی ہے۔ یہاں مراد یہی دوسری قسم کی دستگیری ہے۔ اے وفقنا الثبات علیہ (ابن جریر۔ عن ابن عباس ؓ اھدنا اے ثبتنا (کشاف۔ عن علی وابی ؓ جو پہلے ہی سے ہدایت یاب ہیں۔ ان کی طرف سے یہ درخواست ہدایت پر ثبات و استقامت اور مزید ہدایت کی ہے۔ اور چونکہ روحانی ترقیوں کی انتہا نہیں اس لیے جو جس مرتبہ پر ہے، اس کی دعا اس سے بھی بلند تر مرتبہ کی رہتی ہے۔ اور مومن کی ہوس ہدایت طلبی کبھی نہیں بجھتی۔ یہ اعتراض محض طفلانہ ہے کہ ہدایت یاب کو درخواست ہدایت کی ضرورت نہیں۔ نعبد نستعین، اھدنا سب میں ضمیر متکلم کا صیغہ جمع میں آنا بہت ہی پر معنی ہے۔ ظاہر ہے کہ اظہار عبودیت کرنے والا اپنی اپنی جگہ پر فرد واحد ہی ہوگا۔ اس پر بھی یہ التزام ہے کہ فرد کا ربط امت سے کسی حال میں بھی نہ چھوٹنے پائے عبادت کرتے ہیں تو ایک ” میں “ نہیں بلکہ ” ہم سب “ طلب اعانت کرتے ہیں تو ” ہم سب “۔ درخواست ہدایت کرتے ہیں تو ” ہم سب “۔ امت وملت کی یہ زبردست وہمہ وقتی شیرازہ بندی اسلام ہی کا حصہ ہے۔ مرشد تھانوی مدظلہ نے فرمایا کہ مطلوب ومقصود صراط مستقیم تشریعی ہے نہ کہ تکوینی جو ساری مخلوق کے لیے خود بخود عام ہے۔