Tafseer-e-Majidi - Al-Faatiha : 5
اِیَّاكَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاكَ نَسْتَعِیْنُؕ
اِيَّاكَ : صرف تیری نَعْبُدُ : ہم عبادت کرتے ہیں وَ : اور اِيَّاكَ : صرف تجھ سے نَسْتَعِيْنُ : ہم مدد چاہتے ہیں
ہم بس تیری ہی عبادت کرتے ہیں15، اور بس تجھی سے مدد چاہتے ہیں16 ،
15 (نہ کہ کسی اور کی، اے اللہ ! ) ایاک لفظ ایا خود ہی حصر اور تخصیص کے لیے آتا ہے۔ اور پھر بحیثیت مفعول اس کی تقدیم فعل نعبد پر اس حصر و تخصیص کو اور زیادہ مؤکد کررہی ہے۔ یعنی ہم تیری عبادت میں شائبہ بھی کسی کی شرکت کا نہیں رکھتے۔ معناہ نعبدک ولا نعبد غیرک (ابن عباس) وقدم المفعول للتعظیم والا ھتمام بہ والدلالۃ علی الحصر (بیضاوی) اب یہاں سے دعا کی تعلیم ہے گویا بندے اپنی زبان سے دعا کررہے ہیں۔ اس سے پہلے صرف تمہید دعا تھی۔ صیغہ غائب سے صیغہ مخاطب، یا مخاطب سے غائب کی طرف دفعۃ انتقال کا نام صنعت التفات ہے۔ اور عربی ادب وانشا میں یہ عیب نہیں۔ اس کا شمار بہترین صنعتوں میں سے ہے۔ صاحب کشاف نے اس موقع پر امر القیس جاہلی کے تین شعر شہادۃ نقل کیے ہیں، تنیوں میں یہ صنعت موجود ہے۔ بزرگوں سے منقول ہے کہ قرآن مجید کا لب لباب سورة فاتحہ ہے، اور سورة فاتحہ کا لب لباب یہ آیت ہے۔ قال بعض السلف الفاتحۃ سرالقرآن وسرھا ھذہ الکلمۃ (ابن کثیر) نعبد۔ عبادت نام ہے تذلل، انکسار وافتقار کے آخری مرتبہ کا۔ انھا غایۃ التذلل (راغب) العبادۃ اقصی غایۃ الخضوع والتذلل (کشاف) اور اسی لیے اس کا مستحق بجز ذات باری تعالیٰ کے اور کوئی نہیں، لم تستعمل الافی الخضوع للہ تعالیٰ (کشاف) ولا یستحقھا الا من لہ غایۃ الافضال وھواللہ تعالیٰ (راغب) مشرک قومیں خدا معلوم چھوٹے بڑے کتنے دیوی دیوتاؤں کو عبادت میں شریک کرتی رہتی ہیں۔ بلکہ ان کی عبادتوں میں تو خدا کی شرکت رہنے بھی نہیں پاتی معبود تمامتراگنی دیوتا اور سورج دیوتا اور کالی مائی اور لچھمی جی وغیرہا بن جاتی ہیں۔ مسیحیوں کے ہاں بھی نماز جیسی اور جب کبھی بھی ہوتی ہے، اس میں برابر خدا کے ساتھ فرزند خدا کی شرکت رہتی ہے۔ ملاحظہ ہو حاشیہ تفسیر انگریزی۔ آیت کے ایک لفظ ایاک سے تردید ہوگئی سارے مذہبوں کے مشرکانہ طرز عبادت کی۔ ن نعبد کا صیغہ جمع بھی قابل لحاظ ہے۔ دعاء تنہا ایک ایک فرد نہیں کررہا ہے۔ ساری ملت اسلامیہ مل کر اجتماعی رنگ میں کررہی ہے۔ اور یہ اجتماعیت کی اہمیت قرآن و حدیث دونوں کی دعاؤں میں کثرت سے جلوہ گر ہے۔ مرشد تھانوی مدظلہ نے فرمایا کہ یہ نسبت عبودیت سالک کے مقام کی انتہا ہے۔ کوئی مقام اس سے مافوق نہیں۔16 (نہ کہ کسی اور سے، اسے حاجت روا سمجھ کر، اے اللہ) آیت کے جزو اول میں بیزاری اور تبری ہے شرک سے۔ اس آخری جزو میں بندہ کی زبان سے اقرار ہے اپنی بےبساطی، بےقدرتی کا۔ اور اقرار ہے اپنے کو حفاظت اور نصرت کے لیے ہر طرح اللہ کے ہاتھ میں سپرد کردینے کا۔ فالاول تبرء من الشرک والثانی تبرء من الحول والقوۃ وتفویض الی اللہ عزوجل (ابن کثیر) نعبد کے معا بعد نستعین لانا گویا بندوں کی زبان سے یہ کہلانا ہے کہ ہم عبادت تک میں تیری ہی توفیق، تیری ہی اعانت، تیری ہی دستگیری کے محتاج ہیں۔ ایاک کی تکرار توحید اور رد شرک کی اہمیت کو اور دو بالا کررہی ہے۔ کرر للاھتمام والحصر (ابن کثیر) کرر الضمیر للتنصیص علی انہ المستعان بہ لا غیر (بیضاوی) آیت نے جڑ کاٹ دی ہے ہر قسم کی مظہر پرستی اور مخلوق پرستی کی۔ شرک کی خفی سے خفی بھی راہیں بند کردی ہیں، اور کوئی خفیف سی بھی گنجائش پیرپرستی، پیمبر پرستی، فرشتہ پرستی وغیرہ کی باقی نہیں چھوڑی ہے۔ مرشدد تھانوی نے فرمایا کہ سالک کا مقام ایاک نعبد پر تمام ہوجاتا ہے۔ ایاک نستعین سے وہ طالب تمکین ورسوخ کا ہوتا ہے۔
Top