تشریح : یہاں انسان مزید وضاحت چاہتے ہوئے دعا کرتا ہے کہ یوں تو ہدایت اور نجات کے تمام راستے طریقے اور اعمال قرآن مجید میں وضاحت سے بیان کردیئے گئے ہیں مگر ایسے لوگوں کی مثالیں ہمارے سامنے کھول کر رکھ دے کہ جنہوں نے فلاح پائی اور تیرے انعام کے حقدار ہوئے۔ ایسے لوگوں کا ذکر سورة نساء کی آیت 69 میں اس طرح کیا گیا ہے :
” ان لوگوں کے ساتھ جن پر اللہ نے انعام کیا یعنی نبی، صدیق، شہید، صالح اور ان کی رفاقت کیسی اچھی ہے “۔
1 نبی : سے مراد اللہ تعالیٰ کا ایسا برگزیدہ بندہ کہ جو اللہ کا پیغام بندوں تک پہنچائے۔
2 صدیق : یہ انبیاء کے بعد دوسرے درجہ پر ہیں مثلاً حضرت ابوبکر صدیق ۔
3 شہداء : خدا کی خوشنودی کے لئے اپنی جان تک قر بان کرنے والے۔ اللہ ان کو ہمیشہ کی زندگی عطا کرتا ہے اللہ فرماتا ہے :
” ان کو مردہ نہ کہو بلکہ وہ زندہ ہیں اور تمہیں ان کی زندگی کا شعور نہیں ہے “۔
4 صالحین : یہ ایسے لوگ ہوتے ہیں جو انبیاء کی پیروی ہر صورت کرتے ہیں۔
یہ تمام لوگ انعام یافتہ لوگ ہیں انہی کے نقش قدم پر چلنے کی ہمیں توفیق دے کیوں کہ یہی لوگ سیدھے راستہ پر چلے اور انعام یعنی جنت کے حق دار ہوئے۔
تشریح : دعا میں یہ بھی شامل کیا گیا کہ ان لوگوں کے راستہ پر ہمیں نہ چلانا جن پر آپ ناراض ہوئے کیونکہ انہوں نے گمراہی کے راستے اختیار کئے اور پھر آپ کی ناراضگی اور غضب کا شکار ہوئے۔ ان میں وہ تمام لوگ شامل ہیں جنہوں نے توحید سے انکار کیا۔ ہدایت ملنے کے باوجود راہ ہدایت پر نہ چلے مثلاً یہ لوگ دنیوی نعمتوں سے مالا مال تو ہوگئے مگر اپنی شرارتوں، نافرمانیوں، بدعہدیوں اور کفر کی وجہ سے تباہ و برباد ہوئے اور آخرت میں بھی ذلیل و خوار ہو کر جہنم میں ڈالے جائیں گے۔ ان میں کفار مکہ یہود و نصاری، فرعون، نمرود اور قارون کی مثالیں دی جاسکتی ہیں۔ یہ سب لوگ اللہ کی نعمتوں، برکتوں اور رحمتوں سے مالا مال ہوئے مگر بداعمالیوں کی وجہ سے راہ نجات نہ پا سکے انہی لوگوں کا ذکر اس آیت میں کیا گیا ہے۔
آخر میں صرف یہی کہوں گی کہ سورة فاتحہ دراصل پورے قرآن مجید کا خلاصہ ہے۔ تمام احکامات مختصراً بیان کردیئے گئے ہیں جو آگے پورے قرآن پاک میں بتائے جائیں گے۔ یہ ایک دعا ہے جو انسان مجموعی طور پر دن میں چالیس دفعہ کرتا ہے، مجموعی اس طرح کہ اس میں ہر جگہ جمع کا صیغہ یعنی ہم استعمال کیا گیا ہے جو امت مسلمہ کے اتحاد اور یکجہتی کی طرف اشارہ کرتا ہے اور اگر خلوص نیت سے اس کو پڑھا جائے تو اس کی وجہ سے بہت سی معاشرتی، روحانی، جسمانی اور ملکی خرابیوں سے نجات مل سکتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور عظمت و انتظام کا جب مکمل یقین ہوجاتا ہے تو رشوت، سفارش، بےسکونی، لڑائی جھگڑے اور قتل و غارت گری کا خاتمہ خود بخود ہوجاتا ہے۔ شاعر نے کیا خوب کہا ہے۔
وہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے۔
ہزار سجدوں سے دیتا ہے آدمی کو نجات۔ (علامہ اقبال)
قرآن مجید میں اس کا خلاصہ یوں بیان کیا گیا ہے۔ سورة ھود میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
” اس کی عبادت کرو اور اسی پر بھروسہ کرو۔ “