اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَاِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ :
ایا : خلیل او سیبویہ کے نزدیک یہ اسم ضمیر ہے پھر سیبویہ کہتے ہیں کاف حرف خطاب ہے اور اس کا محل اعراب کوئی نہیں، مگر خلیل کہتے ہیں، کاف اسم ضمیر ہے، جس کی طرف ایا کے لفظ مضاف کردیا۔ کیونکہ فعل و فاعل سے مقدم آنے کی وجہ سے یہ ام ظاہر کے مشابہ ہے۔
کوفی علماء : ایاک ایک مکمل اسم ہے۔
آیت میں فعل سے پہلے مفعول کو اس لیے لائے تاکہ تخصیص ہوجائے، اب معنی یہ ہوگا ہم تجھے ہی عبادت کے ساتھ خاص کرتے ہیں۔
عبادت کا معنی :
عبادت : خضوع و عاجزی کی آخری حد کو کہتے ہیں۔ (ایاک نستعین) ہم امداد کی طلب میں تجھے ہی خاص کرتے ہیں۔
غائب سے خطاب :
صنعت التفات کی وجہ سے غائب سے مخاطب کی طرف رجوع کیا، یہ التفات کبھی غائب سے خطاب، کبھی خطاب سے غائب اور کبھی غائب سے متکلم کی طرف ہوتا ہے جیسا قرآن مجید کی اس آیت میں (حتی اذا کنتم فی الفلک وجرین بھم بریح طیبۃ) یونس :22 ۔ خطاب سے غائب کی طرف ہے اور آیت (واللہ الذی ارسل الریح فتثیر سحابا فسقنہ) فاطر :9 ۔ میں غائب سے متکلم کی طرف ہے۔
اسی طرح امر القیس کے ان اشعار میں :
تطاول لیلک بالاثمد۔۔۔۔۔ ونام الخلی ولم ترقد
بات و باتت لہ لیلۃ۔۔۔۔۔ کلیلۃ ذی العائر الارمد
وذلک من نبا جائنی۔۔۔۔۔۔ وخبرتہ عن ابی الاسود
ان اشعار میں لیلی، بت، جائک، نہیں کہا بلکہ اس کی بجائے لیلک، بات، جائنی کہا۔
کلام عرب میں صنعت التفات عام استعمال ہوتی ہے، اس کی وجہ ان کے خیال میں یہ ہے کہ جب کلام کا اسلوب بدل جائے تو سامع کے دل کو زیادہ متاثر کرتا ہے، اور یہ اسلوب مخاطب کے لیے نشاط طبع کے اضافہ کا باعث بنتا ہے، اور اس کی توجہ کو اور زیادہ مائل و مبذول کرتا ہے۔
اگرچہ بعض اوقات اس سے مزید خصوصی فوائد و لطائف بھی حاصل ہوتے ہیں مگر ایسی باتیں مخصوص ماہرین کلام اور بڑے علماء کے سامنے ذکر کرنا مناسب ہیں۔ اور ایسے لوگوں کی تعداد اقل قلیل ہے۔