Tafseer-e-Madani - Al-Faatiha : 7
صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْهِمْ١ۙ۬ۦ غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْهِمْ وَ لَا الضَّآلِّیْنَ۠   ۧ
صِرَاطَ : راستہ الَّذِينَ : ان لوگوں کا أَنْعَمْتَ : تونے انعام کیا عَلَيْهِمْ : ان پر غَيْرِ : نہ الْمَغْضُوبِ : غضب کیا گیا عَلَيْهِمْ : ان پر وَلَا : اور نہ الضَّالِّينَ : جو گمراہ ہوئے
یعنی ان حضرات کی راہ سے، جن پر تیرا انعام ہوا نہ ان کی جن پر تیرا غضب ہوا، اور نہ ان کی جو بھٹک گئے (راہ حق و صواب سے) ۔
8 انعام یافتہ حضرات سے مقصود و مراد ؟ : اور ان انعام یافتہ حضرات سے مراد وہ چار گروہ ہیں جن کا ذکر سورة نساء کی آیت نمبر 69 میں آیا ہے۔ یعنی انبیاء کرام، صدیقین اور شہداء و صالحین۔ (ابن کثیر، معارف، محاسن، جامع وغیرہ ) ۔ سو اس سے یہ بھی واضح ہوگیا کہ راہ ہدایت وہی ہے جس کو ان حضرات نے اختیار کیا اور جس کی تعلیم و تلقین ان کی طرف سے فرمائی گئی ہے۔ اور جو راستہ ان حضرات کے طریق و ارشاد کے خلاف ہوگا وہ راہ حق نہیں ہو سکتاـ وَالْعِیَاذ باللّٰہ الْعَظِیْم ـ یہاں سے صراط مستقیم کی اہمیت اور اس کی عظمت شان بھی مزید واضح ہوجاتی ہے کہ اس کے سلسلے میں صرف اتنی ہی ہدایت نہیں فرمائی گئی کہ ہمیں صراط مستقیم سے سرفراز فرما دے بلکہ اس کو مثبت اور منفی دونوں پہلووں سے مزید اس طرح آشکارا فرما دیا گیا کہ کوئی اشتباہ باقی نہ رہ جائے۔ مثبت پہلو یہ کہ یہ راستہ ان حضرات کا راستہ ہے جن پر تیرا انعام ہوا۔ اور وہ چار گروہ ہیں جن کا ذکر ابھی اوپر ہوا ہے۔ اور منفی پہلو یہ کہ وہ راستہ ان لوگوں کا نہ ہو جن پر تیرا غضب ہوا اور جو راہ حق و ہدایت سے بھٹک گئے۔ والعیاذ باللہ ۔ سو ایسے لوگ محروم اور اندھے اور اوندھے ہیں۔ اور نور حق و ہدایت سے محروم ہونے کے بعد ایسے لوگ ہلاکت اور تباہی کی راہ پر چل رہے ہیں مگر ان کو اپنے اس ہولناک خسارہ و نقصان کا احساس و شعور ہی نہیں ـ وَالْعِیَاذ باللّٰہ الْعَظِیْم ـ 9 { مغضوب علیہم } سے مراد ؟ : کہ انہوں نے حق کو اس کے واضح ہوجانے کے باوجود اپنی دنیاوی اغراض اور خواہشات نفس کی پیروی وغیرہ امور کے باعث اس سے منہ موڑ لیا۔ اور اس کو اس طرح پس پشت ڈال دیا کہ گویا وہ اس کو جانتے ہی نہیں۔ جیسا کہ سورة بقرہ کی آیت نمبر 100 اور نمبر 10 1 اور آل عمران کی آیت نمبر 187 میں اہل کتاب کے قبائح کے بیان کے ضمن میں ارشاد فرمایا گیا ہے۔ اس طرح " مغضوب علیہم " کا نمایاں مصداق اگرچہ یہود بےبہبود ہیں، جیسا کہ بعض روایات میں بھی ایسا وارد ہوا ہے اور خود قرآن حکیم کی دوسری آیات کریمہ سے بھی اس کی تائیدو تصدیق ہوتی ہے، مگر اس کے عموم میں دراصل ایسے تمام لوگ داخل و شامل ہیں جو کہ انکار اور نبذ حق کے اس جرم کے مرتکب ہیں۔ اسی لئے یہاں پر ان کا ذکر " یہود " کے اسم صریح کی بجائے " مغضوب علیہم " کے وصف عام سے کیا گیا ہے جو کہ سب کو عام اور شامل ہے۔ پس اس کی تعیین کے ضمن میں جو تفسیر کی عام کتابوں میں یہود کا ذکر آتا ہے وہ بطور مثال اور اس وصف کے ایک اہم اور واضح مصداق کے طور پر آتا ہے نہ کہ بطور تحدید و تعیین۔ (تفسیر المراغی، القاسمی وغیرہ) ۔ اور یہی مراد ہے ابن ابی حاتم کے اس قول کی کہ مفسرین کرام کے درمیان اس بارے میں کوئی اختلاف نہیں کہ " مغضوب علیہم " سے مراد یہود ہیں اور ضالّین سے مراد نصاریٰ ۔ ( محاسن التاویل وغیرہ) یعنی یہ دونوں گروہ ان دونوں لفظوں کے بڑے اہم اور واضح مصداق ہیں والْعِیَاذ باللّٰہ الْعَظِیْم ـ 10{ ضالّین } سے مقصود و مراد ؟ : یا تو اس لئے کہ ان کو راہ راست سے متعلق صحیح تعلیمات مل ہی نہیں سکیں یا ان کو یہ لوگ صحیح طور پر سمجھ نہیں سکے۔ (تفسیر المراغی، القاسمی وغیرہ) اس کا بھی نمایاں مصداق اگرچہ نصاریٰ ہیں مگر اس کے عموم میں اس طرح کے تمام لوگ داخل ہیں جیسا کہ اوپر گزرا۔ سو یہاں پر تین گروہوں کا ذکر فرمایا گیا۔ ایک " منعم علیہم " یعنی انعام یافتہ لوگ اور اس سے مراد وہ لوگ ہیں جن کو ہدایت و شریعت کی نعمت سے نوازا گیا۔ جو کہ قدرت کی طرف سے ملنے والا سب سے بڑا انعام ہے کہ یہ انعام انسان کیلئے دارین کی سعادت و سرخروئی کا کفیل اور ضامن ہے۔ سو انہوں نے اس نعمت خداوندی کو دل و جان سے قبول کیا اور اس کی پوری قدر کی۔ اور اس طرح وہ دارین کی سعادت و سرخروئی کے اہل اور مستحق بن گئے۔ دوسرا گروہ ہے " مغضوب علیہم " لوگوں کا گروہ۔ اور اس سے مراد وہ لوگ ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے اس عظیم الشان نعمت یعنی نعمت دین سے نوازا۔ مگر انہوں نے اس کی قدر کرنے اور اس کو صدق دل سے اپنانے کی بجائے اس کے پیش کرنے والوں ہی سے دشمنی کا طریقہ اپنایا ۔ والعیاذ باللہ ۔ یا قبول کیا بھی تو دل سے نہیں قبول کیا جس کے نتیجے میں وہ جلد ہی خواہشات نفس کے ریلے میں بہہ گئے۔ اور اس حد تک بہہ گئے کہ دین کی سچی تعلیمات کو ہی اپنی خواہشات کے مطابق ڈھالنے کی جسارت پر اتر آئے۔ اور وہ اللہ کے غضب کے مستحق ٹھہرے ـ وَالْعِیَاذ باللّٰہ الْعَظِیْم ۔ اور تیسرا گروہ ہے " ضالین " کا جنہوں نے اپنے دین میں غلو سے کام لیا۔ اور انہوں نے اپنے پیغمبر کو خدا اور خدا کا شریک بنادیا۔ اور اس طرح انہوں نے دین توحید کو دین شرک بنانے کی ہولناک جسارت کا ارتکاب کیا ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ سورة فاتحہ کے اختتام پر " آمین " کہنا مسنون ہے۔ جیسا کہ احادیث و روایات میں وارد ہے۔ اور یہ اسم فعل ہے جس کے معنی ہیں " اِستَجِبْ " یعنی " اے اللہ تو ہماری اس دعا کو قبول فرما لے " مگر یہ لفظ چونکہ قرآن پاک کا حصہ نہیں اس لئے مصحف میں لکھا نہیں جاتا۔ اور نبی اکرم ﷺ سے مروی ہے کہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جبریل امین نے مجھے سورة فاتحہ کی قراءت مکمل کرنے پر " آمین " کہنے کی تلقین فرمائی۔ اور فرمایا کہ یہ مکتوب پر مہر لگانے کے مترادف ہے۔ (الکشاف وغیرہ) ۔ اَللّہُمَّ فَثَبِّتْ اَقْدَامَنَا عَلَی صِرَاطِکَ الْمُسْتَقِیْمَ بِکُلّ حَال مِّنَ الأحْوَال وَ فِی کُل مَوْطِنٍ مِّنَ الْمَوَاطِن فِی الْحَیَاۃ یَا ذَا الْجَلَال والْاکْرَامِ ۔ بہرکیف سورة فاتحہ کے آخر میں " آمین " کہنا مسنون ہے۔ جیسا کہ بہت سی صحیح احادیث میں وارد و منقول ہے۔ چناچہ حضرت ابوہریرہ ؓ سے مروی ہے کہ آنحضرت ﷺ اس موقع پر " آمین " کہا کرتے تھے جس کو پہلی صف والے لوگ سنتے تھے۔ ( رواہ ابوداؤد ) ۔ اور صحیحین وغیرہ میں حضرت ابوہریرہ ؓ سے مروی ہے کہ آنحضرت ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جب امام " آمین " کہے تو تم بھی " آمین " کہو۔ کیونکہ جس کی " آمین " فرشتوں کی " آمین " کے ساتھ مل جائے تو اللہ تعالیٰ اس کے پچھلے سب گناہ معاف فرما دیتا ہے۔ ( بخاری : کتاب الآذان، باب جہر الامام بالتامین، مسلم : کتاب الصلاۃ ) ۔
Top