5 ہر قسم کی عبادت اللہ ہی کا حق ہے ؟ : یعنی " اِیَّاکَ " کی ضمیر منفصل اپنے عامل پر مقدم ہے جس سے اس میں حصر کا معنی پیدا ہوگیا۔ جیسا کہ ترجمہ سے ظاہر ہے۔ پس عبادت اور بندگی کی ہر قسم اور اس کی ہر شکل اسی وحدہ لاشریک کا حق اور اسی کے لئے خاص ہے۔ اس کے سوا اور کسی کے لیے بھی کسی بھی طور پر جائز نہیں۔ پس دست بستہ قیام اسی کے لیے، رکوع و سجود اسی کے لیے، طواف اسی کے لیے، نذر و نیاز اسی کے لیے، غائبانہ پکارنا اور حاجت روائی و مشکل کشائی کے لیے بلانا اسی کے ساتھ خاص ہے کہ یہ عبادت کے مختلف مظاہر اور اس کی شکلیں ہیں۔ اور عبادت کی ہر قسم اور ہر شکل اسی کا اور صرف اسی وحدہ لا شریک کا حق ہے۔ اس میں کسی بھی طرح کی عبادت کا اللہ تعالیٰ کے سوا اور کسی کے لیے بجا لانا شرک ہوگا ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ مگر آج کتنے ہی جاہل مسلمان ہیں جو { اِیَّاکَ نَعْبُدُ } کے اس اعلان و اقرار اور اظہار و تکرار کے باوجود طرح طرح کی شرکیات میں مبتلا ہیں ۔ ــوَالْعِیَاذ باللّٰہ الْعَظِیْم ۔ اور معبود برحق چونکہ وہی وحدہ لاشریک ہے اس کے سوا نہ کوئی معبود برحق ہوا ہے نہ ہوسکتا ہے۔ اور جنہوں نے اس کے سوا اور کسی کی عبادت و بندگی کی ہے یا کرتے ہیں وہ سراسر ظلم کرتے ہیں کہ وہ شرک کے مرتکب ہیں۔ اور شرک سب سے بڑا ظلم ہے۔ { اِنَّ الشِّرْکَ لَظُلْمٌ عَظِیْمٌ } (لقمن : 13) اور اللہ پاک نے حصر و تاکید کے ساتھ ارشاد فرما دیا کہ بندگی اس وحدہ لاشریک کے سوا اور کسی کی بھی نہیں کرنی۔ ارشاد ہوتا ہے ۔ { وَقَضٰی رَبُّکَ اَنْ لَّا تَعْبُدُوْا اِلَّا اِیَّاہُ } ۔ (بنی اسرائیل :23) اس لئے عبادت ہمیشہ اسی وحدہ لاشریک کی ہے۔ اب بھی اسی کی ہے اور آئندہ بھی اسی کی ہوگی کہ معبود برحق بہرحال وہی وحدہ لاشریک ہے۔ سو اسی مفہوم کو ظاہر اور واضح کرنے کیلئے ہم نے اپنے ترجمہ کے اندر بین القوسین کے الفاظ بڑھائے ہیں ۔ والحمد للہ جل و علا ۔
6 اللہ ہی سے مدد مانگنے کا مطلب ؟ اور بعض لوگوں کے ایک مغالطے کا جواب : یعنی فی الحال بھی ایسے ہی کرتے ہیں اور مستقبل میں بھی ایسے ہی کریں گے۔ کیونکہ معبود اور مستعان بہرحال وہی اور صرف وہی وحدہ لاشریک ہے۔ " نَعْبُدُ " اور " نَسْتَعِیْنُ " دونوں مضارع کے صیغے ہیں جو کہ حال اور مستقبل دونوں کے لیے آتا ہے۔ اس لئے ترجمہ میں بھی اس کا لحاظ و اظہار کیا گیا ہے۔ پھر اس " استعانت " یعنی عون و مدد کی دو صورتیں ہیں۔ " مَا تَحتَ الَاسباب "، اور " مَا فَوْقَ اْلاَسْبَابِ " پہلی قسم یعنی تحت الاسباب سے مراد ہر ایسی مدد ہے جو کہ عام قواعد و ضوابط اور اسباب و وسائل کے درجے میں ہوتی ہے۔ جیسے ڈاکٹر سے دوا لینا، درزی سے کپڑا بنوانا اور مزدور سے کام کروانا وغیرہ۔ سو استمداد و استعانت کی یہ قسم مخلوق سے نہ صرف جائز ہے بلکہ روز مرہ کی زندگی کا عام معمول و دستور ہے۔ اور شریعت مطہرہ نے نہ صرف یہ کہ اس کی اجازت دی ہے بلکہ اس کے بارے میں ترغیب وتحریض سے بھی کام لیا ہے۔ کہ اس طرح کے امور میں ایک دوسرے کے کام آنا چاہئے کہ یہ دنیا ہے ہی دار الاسباب۔ جبکہ استمداد و استعانت کی دوسری قسم جو کہ فوق الاسباب یعنی عام اسباب و وسائل سے ہٹ کر ہو وہ مخلوق سے مانگنا شرک ہے۔ جیسے کسی ایسے انسان سے سوال کرنا جو کہ انتقال کرچکا ہو۔ یا جو کہ کہیں دور دراز دوسرے ملک یا شہر میں ہو، اس کو کسی ظاہری سبب اور ذریعہ و وسیلہ کے بغیر بلانا اور پکارنا، اور اس سے مدد مانگنا، سو یہ جائز نہیں بلکہ یہ شرک کے زمرے میں آئے گا ـ ـــوَالْعِیَاذ باللّٰہ الْعَظِیْم ـ جیسا کہ متعدد دوسری نصوص میں بتکرار اور بتاکید اس کی تصریح فرمائی گئی ہے مثلاً سنن ترمذی وغیرہ کی مشہور اور طویل حدیث میں آنحضرت ﷺ نے حضرت ابن عباس ؓ کے واسطے سے اپنی امت کو صاف اور صریح طور پر تعلیم دی ہی " اذَا سَاَلْتَ فَاسْاَل اللّٰہَ وَ اِذَا اسْتَعَنْتَ فَا سْتَعِنْ باللّٰہ " یعنی جب تمہیں سوال کرنا ہو تو اللہ ہی سے کرو، اور جب تمہیں مدد مانگنا ہو تو اللہ ہی سے مانگو، اور ظاہر ہے کہ اس سے مراد وہی سوال و استعانت ہے جو کہ اسباب سے بالا ہو، ورنہ اسباب کے دائرہ میں تو آنحضرت ﷺ نے خود اپنے عمل اور اسوہ حسنہ سے اس کے جواز کی تعلیم دی ہے، پس اہل بدعت کے جن لوگوں نے اس موقع پر اس طرح کہا کہ " مقربان حق کی امداد امداد الٰہی ہے استعانت بالغیر نہیں، اور اگر اس آیت کے وہ معنی ہوتے جو وہابّیہ نے سمجھے تو قرآن پاک میں { اَعِینُونِیْ بقُوّۃٍ } اور { اِسْتَعِیْنُوا بالصَّبرٰ وَالصَّلوٰۃِ } کیوں وارد ہوتا، اور احادیث میں اھل اللہ سے استعانت کی تعلیم کیوں دی جاتی ؟ " تو ان اہل بدعت نے نری جہالت کا ثبوت دیا، یا تجاہل عارفانہ سے کام لیا، سو یہ ایک ایسی مغالطہ آفرینی ہے جو تحریف کے زمرے میں آتی ہے ـ وَالْعِیَاذ باللّٰہ الْعَظِیْم ـ کیونکہ ۔ { اَعِیْنْوْنِیْ بقُوَّۃٍ } ۔ میں خطاب نہ مردوں سے ہے اور نہ غائب اور غیر حاضر لوگوں سے۔ بلکہ یہ خطاب اور حکم ان لوگوں سے ہے جو بالفعل وہاں پر سامنے موجود اور حاضر تھے۔ جیسا کہ کوئی بھی شخص اپنے سامنے موجود کچھ لوگوں سے کہے کہ تم فلاں کام میں میری مدد کرو تو اس پر غائبانہ استعانت اور استمداد کو قیاس کرنے کا سوال ہی کیا پیدا ہوسکتا ہے۔ اور اسی طرح۔ { اِسْتَعِیْنُوْا بالصَّبْرِ وَالصَّلوٰۃِ } ۔ میں غیر اللہ سے استعانت کا سرے سے کوئی سوال اور احتمال ہی نہیں بلکہ اس میں تو نماز کے ذریعے اللہ تعالیٰ ہی سے مدد مانگنے کی تعلیم و تلقین فرمائی گئی ہے۔ چناچہ " بِالصَّبْر " پر جو حرف " با " موجود ہے وہ اس کا صاف اور صریح قرینہ ہے۔ اور یہ کہنا کہ احادیث میں اہل اللہ سے استعانت کی تعلیم دی گئی، نِرا جھوٹ اور افترا ہے۔ کیونکہ احادیث تو درکنار کسی ایک صحیح حدیث میں بھی مافوق الاسباب کے طور پر غیر اللہ سے استعانت کی تعلیم نہیں دی گئی۔ بلکہ ایسے امور میں اللہ تعالیٰ ہی سے مانگنے اور سوال کرنے کا حکم فرمایا گیا ہے۔ جیسا کہ ابھی اوپر سنن ترمذی وغیرہ کی حدیث میں گزرا کہ مافوق الاسباب مدد فرمانا اللہ تعالیٰ ہی کی شان اور اسی کا اختصاص ہے۔ اس میں کوئی بھی اس کا شریک نہیں ۔ سبحانہ و تعالیٰ -