Maarif-ul-Quran - Al-Faatiha : 5
اِیَّاكَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاكَ نَسْتَعِیْنُؕ
اِيَّاكَ : صرف تیری نَعْبُدُ : ہم عبادت کرتے ہیں وَ : اور اِيَّاكَ : صرف تجھ سے نَسْتَعِيْنُ : ہم مدد چاہتے ہیں
اے پروردگار ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھی سے مدد مانگتے ہیں
ایک نعبد وایاک نستعین خاص تیری ہی بندگی کرتے ہیں اور خاص تجھ ہی سے ہر کام میں مدد چاہتے ہیں۔ یعنی اجسام علویہ اور سفلیہ اور کواکب اور نجوم اور نور اور ظلمت کسی کو تیرا شریک نہیں ٹھہراتے ہیں ہر خیر وشر اور سعادت ونحوست کا تجھے ہی مالک سمجھتے ہیں پہلی آیت میں حق تعالیٰ کی ربوبیت اور رحمت کو بیان کیا اور معرفت ربوبیت کے بعد معرفت عبودیت کا درجہ ہے۔ اس لیے اس کے بعد عبادت کا ذکر کیا گیا۔ 1 ۔ کسی کی نہایت درجہ تعظیم کے لیے دل جان سے غایت درجہ کا تذلل اختیار کرنا اس کا نام عبادت ہے لہذا جو تذلل اختیاری نہ ہو بلکہ اضطراری یعنی بلا اختیار کے ہو وہ عبادت نہیں کہلائے گا اور اسی طرح جو تذلل کسی کے جبر اور قہر اور زور سے ہو وہ بھی عبادت نہ کہلائے گا اور جس تذلل سے تعظیم مقصود نہ ہو وہ استہزاء اور تمسخر کہلائیگا اور لائق عبادت اور مستحق بندگی وہی ذات ہوگی، جو غایت درجہ کی عظمت اور جلال اور نہایت درجہ خوبی اور کمال اور انتہائی انعام واکرام اور انتہائی جو دو نوال کے ساتھ متصف ہو کہ اس سے بڑھ کر اور کوئی درجہ اور مرتبہ عقل اور خیال میں نہ آسکے۔ اور جو انتہائی عظمت و جلال کے ساتھ موصوف نہ ہو اس کے سامنے انتہائی تذلل اختیار کرنا سراسر بےموقع اور بےمحل ہے اسی وجہ سے قرآن کریم نے شرک کو ظلم عظیم کہا ہے۔ اور کسی چیز کو بےمحل رکھنے ہی کا نام ظلم ہے۔ خداوند ذوالجلال کو اگچہ کسی کی عبادت اور بندگی کی ذرہ برابر حاجت نہیں مگر مقتضائے حکمت یہ ہے کہ صاحب نقصان صاحب کمال کے سامنے تذلل اور پستی اختیار کرے ورنہ کمال اور نقصان کی مساوات لازم آئے گی جو سراسر خلاف حکمت ہے ابتدائے آفرینش عالم سے اس وقت تک دنیا کے تمام عقلاء اور عالم کے تمام حکماء اس پر متفق رہے ہیں کہ ہر صاحب کمال کی تعظیم اور اس کا احترام عقلاً واجب اور فرض ہے یہ ہوسکتا ہے کہ کوئی ناقص کامل کی تعظیم کو اسلیے ضروری نہ سمجھے کہ اس ناقص کو اپنے زعم میں اس کامل کی ضرورت نہیں۔ مگر یہ احتمال خداوند ذوالجلال میں جاری نہیں ہوسکتا۔ اس لیے کہ مخلوق کا خالق سے مستغنی ہونا ناممکن اور محال ہے۔ ممکن کا وجود ہی واجب الموجود کے سہارے سے ہے۔ پناہ بلندی و پستی توئی ہمہ نیستند آنچہ ہستی توئی اسی وجہ سے امام اعظم ابوحنیفہ ؓ فرماتے ہیں کہ جو شخص وجود باری یا توحید باری کا منکر ہو وہ ناجی نہیں بلکہ ناری ہے۔ اگرچہ اس کو کسی نبی کی دعوت نہ پہنچی ہو۔ اس لیے کہ وجود باری اور توحید باری کا مسئلہ فطری اور عقلی اور بدیہی ہے اور عقلاء عالم کا اجماعی ہے۔ بعثت انبیاء پر موقوف نہیں حجت پوری ہوچکی ہے لہذا اب کوئی عذر مسموع نہیں۔ اور اسی وجہ سے کہ عبادت کے لیے نیت کا ہونا بالاجماع شرط قرار دیا ہے۔ حافظ ابن قیم فرماتے ہیں کہ کمال محبت کے ساتھ کمال اطاعت کا نام عبادت ہے۔ کمال عظمت کے ساتھ کمال محبت بھی عبادت کے مفہوم میں داخل ہے۔ جس درجہ کی محبت اور عظمت ہوگی اسی درجہ کی عبادت ہوگی۔ عظمت کے ساتھ جبتک محبت نہ ہو عبادت نہیں کہلائے گی اور ایاک جو نعبد کا مفعول ہے۔ اس کی تقدیم حصر کے لیے ہے یعنی خاص تیری بندگی کرتے ہیں کسی اور کی نہیں نیز تقدیم مفعول میں اس طرف بھی اشارہ ہے کہ عابد کی نظر اپنی عبادت پر نہ ہونی چاہئے بلکہ معبود پر ہونی چاہئے۔ نیز عبادت سے فقط معبود کی رضا اور خوشنودی مقصود ومطلوب ہونی چاہئے۔ خلاف طریقت بود کا ولیا تمنا کنند از خدا جز خدا گر از دوست چشمت بر احسان اوست تو در بند خوشی نہ در بند اوست اور نعبد صیغہ جمع ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ ہم سب تیری بندگی کرتے ہیں بجائے اعبد کے صیغہ جمع لانے میں التزام جماعت کی طرف اشارہ ہے نیز اس طرف بھی اشارہ ہے کہ بندگی کرنے والا اپنی عبادت پر ناز نہ کرے۔ بلکہ یہ سمجھے کہ عبادت کرنے والا صرف وہی ایک نہیں بلکہ بیشمار بندگی کرنے والوں میں سے ایک یہ بھی ہے۔ ابتداء سورت میں طرز کلام غائبانہ تھا۔ اور ایاک نعبد میں بجائے غائبانہ کے حاضرانہ طرز ِ کلام اختیار کیا گیا اور اس طرح غیبت سے خطاب کی طرف انتقال کیا گیا وجہ اس کی یہ ہے۔ 1 ۔ کہ شروع سورت میں حمد اور ثناء کا ذکر تھا اور تعریف اور ثناء غائبانہ زیادہ بہتر ہے اس لیے کہ غائبانہ حمد زیادہ اخلاص کی علامت ہے اور ایاک نعبد میں عبادت کا ذکر ہے اور عبادت اور خدمت حضور میں ہوتی ہے۔ 2 ۔ نیز نمازی نے جب نماز شروع کی تو شروع نماز میں بمنزلہ اجنبی کے آکر کھڑا ہوگیا اور خداوند ذوالجلال کی غائبانہ حمد وثناء شروع کی یعنی الحمد للہ رب العلمین کہا یعنی اسم ظاہر کے ساتھ اس کی حمدوثناء کی اور اسم ظاہر حکم میں غائب کے ہے اور جب حمد وثناء حد کمال کو پہنچی تو جو حجابات درمیان میں تھے وہ اٹھ گئے اور بعد قرب سے اور اجنبیت یگانگت سے بدل گئی اور یہ شخص اس قابل ہوگیا کہ خداوند ذوالجلال کے حضور بصیغہ خطاب عرض معروض کرسکے۔ 3 ۔ نیز ایاک نعبد کے بعد ہدایت کے سوال کا ذکر ہے اور سوال اور درخواست حضوری ہی میں زیادہ بہتر اور مناسب ہوتی ہے اس لیے کہ جب سخی کے سامنے سوال کیا جائے تو سخی اور کریم اس کے رد کرنے سے شرماتا ہے۔ اور ایاک نعبد کے بعد ایاک نستعین کو اس لیے ذکر فرمایا کہ اللہ کی عبادت اور اس کی اطاعت پر قوت اور قدرت بدون اس کی اعانت اور توفیق کے حاصل نہیں ہوسکتی اور توفیق کا طلب کرنا یہی استعانت ہے مطلب یہ ہے کہ عبادت کے لیے بندہ کی حوال اور قوت کافی نہیں جب تک خدا کی اعانت حاصل نہ۔ لا حول ولا قوۃ الا باللہ غرض یہ کہ ایاک نعبد کے بعد ایاک نستعین کا ذکر کرنا عجب (گھمنڈ) کو زائل کرتا اور نخوت اور کبر کو فناء کرتا ہے۔ ایاک نعبد میں فرقہ جبریہ کے رد کی طرف اشارہ ہے جبریہ۔ بندہ کو جماد کی طرح مجبور محض بتاتے ہیں۔ ایاک نعبد سے اس فرقہ کا رد ہوجاتا ہے کیون کی ہعبادت کے معنی اختیاری تذلل کے ہیں۔ فی الجملہ بندہ کے لیے اختیار ثابت ہوا اور جبر محض کی نفی ہوئی اور ایک نستعین میں فقہ معتزلہ کے رد کی طرف اشارہ ہے۔ ارباب اعتزال بندہ کو اپنے افعال کا خالق اور فاعل مستقل قرار دیتے ہیں۔ ایاک نستعین سے اس فرقہ کا رد ہوجاتا ہے اس لیے کہ مطلب یہ ہے کہ بندہ اگرچہ عبادت اور بندگی اپنے اختیار سے کرتا ہے لیکن جماد کی طرح مجبور محض اور اختیار سے عاری اور کو را نہیں مگر ایسا فاعل مستقل بھی نہیں کہ حق تعالیٰ شانہ کی اعانت سے مستغنی اور بےنیاز ہوجائے بندہ فاعل مکتار ضرور ہے مگر اپنے اس خداداد اختیار میں مختار نہیں ہر لمحہ اور ہر لحظہ اس کی اعانت اور امداد کا محتاج ہے۔ فافھم ذلک فانہ دقیق ولطیف وسیاتی تفصیل ذلک انشاء اللہ تعالی۔ (سوال) دربارۂ استعانت بغیر اللہ اس آیت سے یہ مفہوم ہوتا ہے کہ سوائے خدا کے کسی سے مدد نہ مانگی جائے۔ حالانکہ قرآن و حدیث میں جابجا اس کا ذکر ہے کہ ایک دوسرے کی مدد کرو۔ بیمار ہو تو علاج کرو۔ آخر یہ طبیب اور دوا سے استعانت اور استمداد نہیں تو اور کیا ہے لہذا یہ بتلایا جائے کہ وہ کون سی استانت ہے جو غیر اللہ سے جائز ہے اور کون سی کفر اور شرک ہے۔ جواب : جاننا چاہئے کہ غیر اللہ سے مطلقاً استعانت حرام نہیں استعانت بغیر اللہ بعض صورتوں میں کفر اور شرک ہے اور بعض صورتوں میں جائز ہے۔ ضابطہ اس کا یہ ہے کہ اگر سوائے خدا تعالیٰ کے کسی کو فاعل مستقل اور قادر بالذات سمجھ کر یا بعد عطاء الٰہی اور تفویض خداوندی اس کو قادر مختار جان کر اس سے مدد مانگے تو بلا شبہ کفر اور شرک ہے یا اس شیئ کو تاثیر اور فاعلیت میں مستقل بالذات یا مستقل بالعرض تو نہیں سمجھتا لیکن معاملہ اس کے ساتھ مستقل بالذات کا سا نہیں کرتا لیکن دوسروں کو اس کے استقلال کا تو ہم ہوتا ہے تو یہ استعانت بالغیر ناجائز اور حرام ہوگی۔ اور بعض صورتوں میں کفر اور شرک کا اندیشہ ہے۔ جیسا کہ آئندہ تفصیل سے معلوم ہوگا۔ پہلی صورت جبکہ غیر اللہ کو فاعل مستقل اور قادر بالذات سمجھے اس کے شرک ہونے میں تو کسی کو بھی کلام نہیں۔ دوسری صورت یہ ہے کہ غیر کو قادر بالذات سمجھے اس کے شرک ہونے میں تو کسی کو بھی کلام نہیں۔ دوسری صورت یہ ہے کہ گیر کو قادر بالذات تو نہیں سمجھتا لیکن قادر بعطائے الٰہی سمجھتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے قدرت اور اختیار عطاء کیا ہے کہ جو امور طاقت بشری سے باہر ہیں۔ ان میں جس طرح چاہے تصرف کرے اور جس کو چاہے دے اور جس کو چاہے نہ دے جیسے بادشاہ اپنے وزاء اور حکام کو کچھ اختیارات عطاء کردیتا ہے اور وہ بعد عطائے اختیارات مستقل سمجھے جاتے ہیں۔ اور پھر بادشاہ کے علم اور ارادہ کو دخل نہیں ہوتا۔ اسی طرح معاذ اللہ۔ خدا تعالیٰ نے بھی کچھ اختیارات انبیاء اور اولیاء کو عطاء کیے ہیں اور وہ بعد عطاء الٰہی مستقل اور مختار ہیں۔ مشرکین عرب، ملائکہ اور اصنام کے متعلق بعینہ یہی عقیدہ رکھتے تھے۔ ما نعبدھم الا لیقربونا الی اللہ زلفی۔ مشرکین ان کو مستقل بالذات نہیں سمجھتے تھے۔ بلکہ ان کو فاعل مستقل بعطاء الٰہی سمجھتے تھے۔ اور یہ کہتے تھے کہ ان کے پاس جو چھ ہے وہ خدا ہی کا دیا ہے قرآن کریم میں جا بجا اسی عقیدہ کو باطل کیا گیا کما قال تعالی۔ ویعبدون من دون اللہ ما لا یضرھم ولا ینفعھم وقال تعالیٰ ان الذین تعبدون من دون اللہ لایملکون لکم رزقا فابتغوا عنداللہ الرزق واعبدوہ۔ یہ نادان یہ نہیں سمجھتے کہ خدائی اور خدائی اختیارات کا کسی طرف منتقل ہونا یا عطاء کیا جانا نہ اختیاراً ممکن ہے اور نہ اضطراراً کفار بغیر عطاء الٰہی کسی چیز پر ان کو قادر نہیں سمجھتے تھے۔ وقال تعالیٰ قل انی لا املک لکم ضراً ولا رشداً وقال تعالیٰ قل لا املک لنفسی نفعا ولا ضراً الا ماشاء اللہ۔ ان آیات میں بالذات نفع اور ضرر کے مالکیت اور اختیار کی نفی نہیں اس یلے کہ نہ کوئی نفع اور ضرر کے بالذات مالک اور مختار ہونے کا مدعی تھا اور نہ کوئی عاقل اس کو تسلیم کرسکتا ہے کہ سوائے خدا تعالیٰ کے کوئی نفع اور ضرر کا بالذات مالک ہو۔ مشرکین بھی اس کے قائل تھے۔ اصل مالک اور خالق وہی اللہ ہے۔ تیسری صورت کہ جب اس غیر کو نہ مستقل بالذات سمجھے نہ مستقل بالعرض لیکن معاملہ اس کے ساتھ مستقل بالذات کا سا کرے۔ مثلاً اس کو یا اس کی قبر کو سجدہ کرے یا اس کے نام کی نذر مانے تو یہ بھی حرام اور شرک ہے لیکن یہ شرک اعتقادی نہیں بلکہ عملی ہے۔ اس کا مرتکب حرام کا مرتکب سمجھا جائیگا۔ دائرہ اسلام سے خارج نہ ہوگا۔ چوتھی صورت کہ جب استعانت بالغیر میں اس غیر کے استقلال کا ایہام ہوتا ہو جیسے روحانیات سے مدد مانگنا۔ اگرچہ یہ شخص مستقل نہ سمجھتا ہو لیکن مشرکین چونکہ ارواح کو فاعل مستقل سمجھ کر مدد مانگتے ہیں اس لیے ارواح سے مدد مانگنا قطعا حرام ہوگا۔ حرام ہونے میں کوئی شبہ نہیں تردد اس میں ہے کہ اس شخص کو دائرہ اسلام سے خارج کیا جائے یا نہیں یہ فعل چونکہ شرک کا مظہر اتم ہے اس لیے دارئرہ اسلام سے خارج ہوجانے کا قوی اندیشہ ہے خلاصہ کلام یہ کہ اول کی دو صورتیں قطعاً کفر اور شرک ہیں اور ان کا مرتکب دائرہ اسلام سے خارج ہے اور اخیر کی دو صورتیں قطعا حرام ہیں۔ تردد اس میں ہے کہ ایسے شخص کو کافر اور دائرہ اسلام سے خارج مانا جائے یا نہیں لیکن اگر ایسی شئے سے مدد مانگے کہ جس سے مدد مانگنا کفار اور مشرکین کے شعائر سے ہو تو ایسی صورت میں اگر کوئی فقیہ اور مفتی زنار باندھنے والے کی طرح اس پر بھی ظاہر کے اعتبار سے کفر اور شرک کا فتوی دے اور کافر ہونے کا حکم لگائے تو کچھ مضائقہ نہیں۔ چونکہ وہ شئے شعار کفر اور شرک سے ہے اس لیے اس کی نیت کا اعتبار نہ کیا جائیگا البتہ امور عادیہ جو طاقت بشریہ کے تحت داخل ہوں اور کارخانہ عالم اسباب ان کے ساتھ مربوط اور متعلق ہو اور کسی شخص کو ان کے فاعل مستقل ہونے کا تو ہم بھی نہ ہوتا ہو۔ جیسے روٹی کی امداد سے بھوک دفع کرنا اور پانی کی امداد سے پیاس دفع کرنا تو یہ استعانت بالغیر جائز ہے بشرطیکہ اعتماد محض اللہ پر ہو اور غیر کو محض ایک زریعہ اور وسیلہ اور عون الٰہی کا ایک مظہر سمجھے جیسے نل محض پانی کے آنے کا راستہ ہے اسی طرح اسباب فیض خداوندی کے راستے ہیں اصل دینے والا وہی ہے اور مشرک یہ سمجھتا ہے کہ یہ نل ہی مجھ کو پانی دے رہا ہے۔ اس لیے نل ہی سے پانی مانگتا ہے اور نل ہی کی خوشامد کرتا ہے۔ مثلاً جو شخص دوا کو محض ایک وسیلہ سمجھے اور طبیب کو محض معالج جانے تو کچھ مضائقہ نہیں لیکن اگر دوا کو مستقل مؤثر سمجھے اور طبیب کو صحت بخشنے والا جانے تو یہ شرک ہوگا جاننا چاہئے کہ اسباب شرعیہ کا بھی وہی حکم ہے کہ جو اسباب عادیہ کا حکم ہے صرف فرق اتنا ہے کہ اسباب عادیہ کا اسباب ہونا عادۃ سے معلوم ہوا اور اسباب شرعیہ کا سبب ہونا شریعت سے معلوم ہوا۔ پس جس طرح اسباب عادیہ سے استعانت اور استمداد جائز ہے اسی طرح اسباب شرعیہ مثل دعا اور رقیہ صبر اور نماز وغیرہ سے بھی استعانت جائز ہے اس لیے کہ ان امور کا اسباب ہونا شریعت سے معلوم ہوا۔ اور امور غیر عادیہ میں اگرچہ غیر کو مظہر عون الٰہی سمجھے اور اصل اعتماد بھی اللہ ہی پر ہو مگر چونکہ امور غیر عادیہ کا تسبب نہ عادۃ ً ثابت ہے نہ من جانب اللہ اور بالفرض اگر ثابت بھی ہو تو قطعی اور دائمی نہیں اس لئے امور غیر عادیہ میں استعانت بغیر اللہ کفر اور شرک تو نہ ہوگی۔ مگر بدعت وضلالت ضرور ہوگی حضرت شاہ عبدالعزیز قدس اللہ سرہ فرماتے ہیں۔ درینجا باید فہمید کہ استعانت از غیر بوج ہے کہ اعتماد برآن غیر باشد واو را مظہر عون الٰہی نداند حرام است و اگر التفات محض بجانب حق است واو را یکے از مظاہر عون دانستہ ونظر بکار خانہ اسباب و حکمت او تعالیٰ در آں نمودہ بغیر استعانت ظاہر نماید دور از عرفان نخواہد بود و در شرع نیز جائز ورد است وانبیاء وا ولیاء ایں نوع استعانت بغیر کردہ اند و درحقیقت ایں نوع استعانت بغیر نیست بلکہ استعانت بحضرت حق است لا غیر۔ (فتح العزیز صفحہ 8) ترجمہ : اس جگہ جاننا چاہئے کہ غیر اللہ سے استعانت اس وقت حرام ہے کہ جب اعتماد اور بھروسہ اس غیر پر ہو اور اس غیر کو امداد الٰہی کا مظہر نہ سمجھے۔ اور اگر التفات اور نظر صرف خدا پر ہو۔ اور اس غیر کو اعانت الٰہیہ کا محض مظہر جان کر کارخانۂ اسباب پر نظر کرتے ہوئے اس غیر سے ظاہری طور پر مدد چاہے تو خلاف عرفان نہیں اور شریعت میں بھی جائز ہے اور حضرات انبیاء اور اولیاء نے بھی غیر اللہ سے اس قسم کی استعانت کی ہے اور چونکہ نظر صرف حق تعالیٰ پر ہے اس لیے یہ استعانت بالغیر نہیں بلکہ درحقیقت اللہ تعالیٰ ہی سے استعانت ہے۔ اور دوسرے مقام پر فرماتے ہیں استعانت یا بچیزے است کہ تو ہم استقلال آنچیز در وہم وفہم ہیچ کس از مشرکین و موحدین نمے گزرد۔ مثل استعانت بحبوب وغلات در دفع گرسنگی واستعانت بآب در دفع تشنگی واستعانت برائے راحت بسایۂ درخ تو مانند آں و در دفع مرض بادویہ وعقاقیر ودر تعیین وجہ معاش بامیر وابداشاہ کہ درحقیقت معاوضہ خدمت بمال است وموجب تذلل نیست یا باطباء ومعالجان کہ بسبب تجربہ و اطلاع زائد ازانہا طلب مشورہ است واستقلالے متوہم نمی شود پس ایں قسم استعانت بلا کراہت جائز است زیرا کہ درحقیقت استعانت نیست و اگر استعانت است استعانت بخدا ست ویا بچیز یست کہ تو ہم استقلال در مدارک مشرکین جا گرفتہ مث استعانت بارواح ورحانیات فلکیہ یا عنصریہ یا ارواح سائرہ مثل بہوانی وشیخ سدو زین خاں وایں نوع استعانت عین شرک است ومنافی ملت حنفی (فتح العزیز ص 37) ترجمہ : استعانت اور استمداد یا تو ایسی چیز ہے کہ موحدین اور مشرکین کو بھی اس کے مستقل ہونے کا شبہ نہیں ہوتا جیسے بھوک دفع کرنے کے لیے غلہ اور اناج سے مدد حاصل کرنا اور پیاس دفع کرنے کے لیے پانی اور شربتوں سے مدد حاصل کرنا اور راحت آرام حاصل کرنے کے لیے درخت کے سایہ سے مدد حاصل کرنا اور بیماری دفع کرنے کے لیے دواؤں اور بوٹیوں سے مدد حاصل کرنا۔ معاشی امور میں امری اور بادشاہ سے مدد چاہنا کہ جو درحقیقت معاوضہ خدمت سے موجب تذلل نہیں۔ یا اطباء اور معالجین سے ان کے تجربہ اور زیادتی واقفیت کی بناء پر مشورہ لینا ان صورتوں میں استقلال کا وہم بھی نہیں ہوتا پس اس قسم کی استعانت بلا کراہت جائز ہے۔ اس لیے کہ یہ استعانت حقیقۃً نہیں محض ظاہری استعانت ہے حقیقۃً استعانت خدا تعالیٰ سے ہے۔ یا ایسی چیز کے ساتھ استعانت ہے کہ جس کا مستقل بالتاثیر ہونا مشرکین کے ذہنوں میں جگہ لیے ہوئے ہے جیسے ارواح سے یا روحانیات فلکیہ اور عنصریہ سے استعانت کرنا یا ارواح سائرہ یعنی چلنے پھرنے والی ارواح سے مدد طلب کرنا جیسے بہوانی اور شیخ سدو اور زین خاں اس قسم کی استعانت عین شرک ہے اور ملت حنفیہ اسلامیہ کے بالکل منافی اور مباین ہے۔
Top