(آیت) اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَاِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ اس آیت میں ایک پہلو حمد وثناء کا اور دوسرا دعاء و درخواست کا ہے، نَعْبُدُ عبادت سے مشتق ہے جس کے معنی ہیں کسی کی انتہائی تعظیم و محبت کی وجہ سے اس کے سامنے اپنی انتہائی عاجزی اور فرمانبرداری کا اظہار نَسْتَعِيْنُ استعانت سے مشتق ہے، جس کے معنی ہیں کسی سے مدد مانگنا آیت کا ترجمہ یہ ہے کہ ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور صرف تجھ سے ہی مدد مانگتے ہیں انسان پر تین حالات گذرتے ہیں ماضی، حال مستقبل، پچھلی تین آیتوں میں سے اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ اور الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ میں انسان کو اس پر متنبہ کردیا گیا وہ اپنے ماضی اور حال میں صرف اللہ تعالیٰ کا محتاج ہے کہ اس کو ماضی میں نابود سے بود کیا اور اس کو تمام کائنات سے زیادہ بہترین شکل و صورت اور عقل و بصیرت عطا فرمائی اور حال میں اس کی پرورش اور تربیت کا سلسلہ جاری ہے اور مٰلِكِ يَوْمِ الدِّيْنِ میں یہ بتادیا کہ مستقبل میں بھی وہ خدا ہی کا محتاج ہے، کہ روز جزاء میں اس کے سوا کسی کا مددگار نہیں ہوسکتا، اور جب ان تینوں آیتوں نے یہ واضح کردیا کہ انسان اپنی زندگی کے تینوں دور میں خدا ہی کا محتاج ہے تو اس کا طبعی اور عقلی تقاضا یہ ہوا کہ عبادت بھی صرف اسی کی کی جائے کیونکہ عبادت جو انتہائی تعظیم و محبت کے ساتھ اپنی انتہائی عاجزی اور تذلل کا نام ہے وہ کسی دوسری ہستی کے لائق نہیں اس کا نتیجہ لازمی یہ ہے کہ ایک عاقل انسان پکار اٹھے کہ ہم تیرے سوا کسی کی عبادت نہیں کرتے اسی مقتضائے طبع کو اِيَّاكَ نَعْبُدُ میں ظاہر فرمایا گیا ہے اور جب یہ معلوم ہوگیا کہ حاجت روا صرف ایک ہی ذات اللہ تعالیٰ کی ہے تو اقتضائے عقلی و طبعی یہ ہے کہ اپنے کاموں میں مدد بھی صرف اسی سے مانگنا چاہئے، اسی اقتضائے عقل وطبع کو وَاِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ میں ذکر فرمایا گیا ہے (روح البیان)
غرض اس چوتھی آیت میں ایک حیثیت سے اللہ تعالیٰ کی حمد وثناء ہے کہ عبادت واعانت کے لائق صرف وہی ہے اور دوسری حیثیت سے انسان کی دعا و درخواست ہے کہ ہماری مدد فرمائے اور تیسری حیثیت اور بھی ہے کہ اس میں انسان کو تعلیم دی گئی ہے کہ اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرے اور حقیقی طور پر اللہ کے سوا کسی کو حاجت روا نہ سمجھے اور کسی کے سامنے دست سوال دراز نہ کرے کسی نبی یا ولی وغیرہ کو وسیلہ قرار دے کر اللہ تعالیٰ سے دعا مانگنا اس کے منافی نہیں، اس آیت میں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ ارشاد یہ ہے کہ ہم تجھ سے ہی مدد مانگتے ہیں کسی کام میں مدد مانگتے ہیں اس کا ذکر نہیں۔ جمہور مفسرین نے لکھا ہے کہ اس کا ذکر نہ کرنے میں عموم کی طرف اشارہ ہے کہ ہم اپنی عبادت اور ہر دینی و دنیوی کام اور ہر مقصد میں صرف آپ کی مدد چاہتے ہیں پھر عبادت صرف نماز روزے کا نام نہیں امام غزالی نے اپنی کتاب اربعین میں عبادت کی دس قسمیں لکھی ہیں۔ 1 نماز، 2 زکوٰۃ، 3 روزہ، 4 حج، 5 تلاوت قرآن، 6 ہر حالت میں اللہ کا ذکر کرنا، 7 حلال روزی کے لئے کوشش کرنا، 8 پڑوسی اور ساتھی کے حقوق ادا کرنا، 9 لوگوں کو نیک کاموں کا حکم کرنا اور برے کاموں سے منع کرنا، 10 رسول اللہ ﷺ کی سنت کا اتباع کرنا،
اس لئے عبادت میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرنے کے معنے یہ ہوگئے کہ نہ کسی کی محبت اللہ تعالیٰ کے برابر ہو نہ کسی کا خوف اس کے برابر ہو نہ کسی سے امید اس کی طرح ہو نہ کسی پر بھروسہ اللہ کی مثل ہو نہ کسی کی اطاعت و خدمت اور کام کو اتنا ضروری سمجھے جتنا اللہ تعالیٰ کی عبادت کو نہ اللہ تعالیٰ کی طرح کسی کی نذر اور منت مانے نہ اللہ تعالیٰ کی طرح کسی دوسرے کے سامنے اپنی مکمل عاجزی اور تذلّل کا اظہار کرے نہ وہ افعال کسی دوسرے کے لئے کرے جو انتہائی تذلّل کی علامات ہیں جیسے رکوع و سجدہ۔