9: صِرَاطَ الَّذِيْنَ اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ ۔۔۔ الصِّرَاطَ الْمُسْتَـقِيْمَ سے بدل الکل ہے اور بدل کا فائدہ یہ ہے کہ صراط مستقیم کی تفسیر اور تعیین ہوجائے۔ یعنی صراط مستقیم وہ راستہ ہے جس پر وہ لوگ قائم رہے جو الَّذِيْنَ اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْکے مصداق ہیں اور جمہور مفسرین کے نزدیک اس سے انبیاء علیہم السلام، صدیقین شہداء اور صالحین مراد ہیں جیسا کہ ایک دوسری آیت میں اس طرف اشارہ ہے۔ وَمَنْ يُّطِعِ اللّٰهَ وَالرَّسُوْلَ فَاُولٰۗىِٕكَ مَعَ الَّذِيْنَ اَنْعَمَ اللّٰهُ عَلَيْهِمْ مِّنَ النَّبِيّٖنَ وَالصِّدِّيْقِيْنَ وَالشُّهَدَاۗءِ وَالصّٰلِحِيْنَ ۚ وَحَسُنَ اُولٰۗىِٕكَ رَفِيْقًا (النساء :69) جو شخص اللہ اور رسول کی اطاعت کرے گا تو ایسے اشخاص بھی ان لوگوں کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ تعالیٰ نے انعام فرمایا ہے یعنی انبیاء وصدیقین اور شہداء اور صالحین اور یہ حضرات بہت اچھے رفیق ہیں۔ قال الجمہور من المفسرین انہ اراد صراط النبیین والصدیقین والشہداء والصالحین وانتزعوا ذلک من قولہ تعالیٰ ومن یطع اللہ والرسول فاولئک مع الذین انعم اللہ علیہم الخ (قرطبی ص 149 ج 1) ۔
ایک شبہ : اگر الصراط المستقیم سے مندرجہ بالا چار گروہوں کی راہ مراد ہے تو اس سے معلوم ہوا کہ اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَـقِيْمَ میں ان چاروں جماعتوں کے درجات حاصل کرنے کی درخواست کی گئی ہے اور اس میں النبیین کا درجہ بھی شامل ہے تو اس کے حاصل کرنے کی درخواست بھی اس میں شامل ہوگی اور یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اب بھی درجہ نبوت حاصل کرنے کا امکان موجود ہے۔
جواب : اول تو یہی غلط ہے کہ اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَـقِيْمَ میں ان چاروں جماعتوں کے درجات حاصل کرنے کی درخواست کی گئی ہے بلکہ اس میں تو صرف ان جماعتوں کی راہ پر چلنے کی اور قائم رکھنے کی درخواست ہے۔ نیز درخواست اور دعاء ہمیشہ ایسی چیز کے حاصل کرنے کے لیے کی جاتی ہے جس کا حصول کسب اور محنت سے ممکن ہو اور جس فضل و کمال کا حصول کسب اور محنت سے ناممکن ہو، اس کے لیے درخواست کرنا بالکل بےمعنی اور عبث ہے۔ اس لیے اگر بالفرض یہ مان لیا جائے کہ اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَـقِيْمَ میں ان چاروں جماعتوں کے درجات حاصل کرنے کی درخواست کی گئی ہے تو درجہ نبوت چونکہ کسب و ریاضت سے حاصل نہیں ہوسکتا بلکہ نبوت ایک محض وہبی چیز ہے اور اس کے بارے میں قانونِ خداوندی یہ ہے اَللّٰهُ اَعْلَمُ حَيْثُ يَجْعَلُ رِسَالَتَهٗ (الانعام :124) لہذا درخواست کا تعلق نبوت سے نہیں بلکہ درخواست صرف صدیقین، شہداء اور صالحین کے کمالات کے لیے ہے۔
10: غَيْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّاۗلِّيْنَ یہ الَّذِيْنَ اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ سے بدل ہے یا اس کی صفت ہے اور وَلَا الضَّاۗلِّيْنَ ۔۔ غَيْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَيْهِمْ پر معطوف ہے اور لَا تاکید نفی کے لیے ہے جو لفظ غَيْرِ سے مفہوم ہے۔ بدل من الذین انعمت علیہم او صفۃ لہ ولا مزیدۃ لتاکید ما فی غیر من معنی النفی (مظھری ج 1 ص 10) حضرت نبی کریم ﷺ سے منقول ہے کہ مَغْضُوْبِ عَلَيْهِمْ سے یہود اور ضاۗلِّيْنَ سے نصاری مراد ہے ہیں۔ اسی طرح حضرت عبداللہ بن مسعود اور حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے بھی منقول ہے (ابن جریر ص 61 ج ص 62 ص 63)
غضب کے معنی شدید غصہ کے ہیں اور یہ ایک نفسانی کیفیت ہے لیکن اللہ تعالیٰ کی صفات میں غضب کے معنی ارادہ عقوبت اور قصد سزا کے ہیں۔ ومعنی الغضب فی صفۃ اللہ تعالیٰ ارادتہ العقوبۃ فھو صفۃ ذات وارادۃ اللہ تعالیٰ من صفات ذاتہ (قرطبی ص 15 ج 1) اور ضلال کے معنی سیدھی راہ سے بھٹک جانا اور راہ ہدایت سے علیحدہ ہو کر چلنا۔ الضلال فی الدین الذھاب عن الحق (روح ص 69 ج 2) ۔
ان آیتوں کا حاصل یہ ہے اے اللہ ہم کو ان لوگوں کی راہ پر قائم رکھ جن پر تو نے انعام فرمایا اور جن پر نہ تیرا غضب ہوا اور نہ وہ گمراہ ہوئے۔ جن لوگوں پر تیرا غضب ہوا مثلاً یہود اور جو لوگ راہ حق سے گمراہ ہوئے مثلاً نصاری ان کی راہ سے ہم کو بچا۔ مَغْضُوْبِ عَلَيْهِمْکی تفسیر یہود سے ضَالِّيْنَ کی نصاریٰ سے بطور تمثیل ہے۔ یہ مطلب نہیں کہ مَغْضُوْبِ عَلَيْهِمْ صرف یہودی ہیں ضَالِّيْنَ سے صرف نصاریٰ ہی ہیں اس لیے یہود ونصاریٰ کے علاوہ مشرکین اور منافقین بھی ان دونوں لفظوں میں داخل ہیں۔ آنحضرت ﷺ سے کے وقت چونکہ یہود ونصاریٰ مذہب اور خانقاہیت کے اجارہ دار تھے اور ساتھ ہی راہ حق سے گمراہ اور بھٹکے ہوئے تھے اور خداوند تعالیٰ کے قہر وغضب کے مستحق تھے اس لیے الْمَغْضُوْبِ عَلَيْهِمْ اور الضَّاۗلِّيْنَ کی تفسیر ان دونوں گروہوں سے کی گئی۔
ہدایت کی طرح گمراہی کے بھی چار درجے ہیں۔
1 ۔ ریب وشک۔ یہ درجہ گمراہی کا پیش خیمہ ہوتا ہے۔ پہلے آدمی کے دل میں توحید اور دین حق کے بارے میں شبہات وشکوک پیدا ہوتے ہیں جو اسے صراط مستقیم اور راہ ہدایت سے بھٹکاتے ہیں۔
2 ۔ ضلالت (گمراہی) توحید اور دین حق سے متعلق شکوک و شبہات کا ازالہ نہ کیا جائے اور وہ کسی کے دل میں جاگزیں ہوجائیں تو آدمی ضلالت اور گمراہی میں جا گرتا ہے اور راہ حق کو چھوڑ کر باطل کی راہ اختیار کرلیتا ہے۔
3 ۔ جدال : ضلالت کے بعد جدال کا درجہ ہے گمراہی کے بعد گمراہ شخص اپنے باطل نظریات اور غلط عقائد کو حق اور صحیح ثابت کرنے کے لیے اہل حق سے جھگڑا اور مجادلہ ومنازعہ کرتا ہے اور ضد وعناد سے ہر حق بات کو رد کردیتا ہے۔
4 ۔ مہر جباریت یا بطع علی القلب یا ختم علی القلب۔ گمراہی کے بعد جب آدمی حق کے مقابلہ میں جھگڑا اور جدال شروع کرتا ہے اور تمام عقلی اور نقلی دلائل سے حق کے واضح اور ثابت ہوجانے پر بھی حق کو نہیں مانتا اور اپنی ضد اور عناد پر ڈٹا رہتا ہے تو اب اس کے دل پر مہر لگ جاتی ہے یعنی اس کے دل میں جو کفر ونفاق اور شرک ہے وہ دل سے باہر نہیں نکل سکتا اور جو چیز اس کے دل سے باہر ہے یعنی ایمان ویقین اور توحید واخلاص وہ اس کے دل میں داخل نہیں ہوسکتی جب آدمی گمراہی کے اس درجہ میں پہنچ جاتا ہے تو اس کا راہ راست پر آنا ناممکن ہوجاتا ہے۔ اس درجہ میں اس سے ہدایت کی توفیق سلب کرلی جاتی ہے۔ حضرت شیخ (رح) اس کو مہر جباریت سے تعبیر فرماتے تھے۔ قرآن میں یہ چاروں درجے کہیں جدا جدا اور کہیں دو دو یا اس سے زیادہ یکجا مذکور ہیں۔ سورة مؤمن رکوع 4 میں دو آیتوں کے اندر چاروں درجے ایک ساتھ مذکور ہیں۔
وَلَقَدْ جَاۗءَكُمْ يُوْسُفُ مِنْ قَبْلُ بِالْبَيِّنٰتِ فَمَا زِلْتُمْ فِيْ شَكٍّ مِّمَّا جَاۗءَكُمْ بِهٖ ۭ حَتّىٰٓ اِذَا هَلَكَ قُلْتُمْ لَنْ يَّبْعَثَ اللّٰهُ مِنْۢ بَعْدِهٖ رَسُوْلًا ۭ كَذٰلِكَ يُضِلُّ اللّٰهُ مَنْ هُوَ مُسْرِفٌ مُّرْتَابُۨ 34ښ الَّذِيْنَ يُجَادِلُوْنَ فِيْٓ اٰيٰتِ اللّٰهِ بِغَيْرِ سُلْطٰنٍ اَتٰىهُمْ ۭ كَبُرَ مَقْتًا عِنْدَ اللّٰهِ وَعِنْدَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا ۭ كَذٰلِكَ يَطْبَعُ اللّٰهُ عَلٰي كُلِّ قَلْبِ مُتَكَبِّرٍ جَبَّارٍ (سورۃ مومن :34-35)
اور یقیناً اس سے قبل یوسف (علیہ السلام) تمہارے پاس دلائل (توحید ونبوت) لے کر آچکے ہیں سو تم ان امور میں برابر شک میں رہے جو تمہارے پاس لائے تھے یہاں تک کہ جب ان کی وفات ہوگئی تو تم کہنے لگے کہ بس اللہ اب ان کے بعد کوئی رسول نہیں بھیجے گا۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ حد سے تجاوز کرنے الوں اور (توحید میں) شک کرنے والوں کو گمراہ کردیتا ہے جو (جو محض ضد وعناد کی وجہ سے) بلا کسی دلیل کے جو ان کے پاس موجود ہو اللہ کی آیتوں میں جھگڑے نکالتے ہیں۔ یہ (کج بحثی اور جھگڑا) خدا تعالیٰ کو بھی سخت ناپسند ہے اور ایمان والوں کو بھی۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ ہر مغرور اور جابر کے پورے دل پر مہر لگا دیتا ہے۔ اس آیت میں کذلک میں دونوں جگہ کاف تعلیلیہ ہے اور بمعنی لام ہے جیسا کہ ترجمہ میں ظاہر کردیا گیا ہے اس آیت میں چاروں درجات بالتدریج مذکور ہیں۔ پہلے وہ لوگ حضرت یوسف (علیہ السلام) کے لائے ہوئے دلائل توحید ونبوت کے بارے میں ریب وشک میں پڑے رہے اس وجہ سے گمراہ ہوئے اور راہ ہدایت اور جادۂ توحید سے بھٹک گئے۔ اس کے بعد انہوں نے ضد وعناد سے جھگڑا اور مجادلہ شروع کردیا اور توحید اور دین حق سے دور بھاگنے لگے اس لیے اللہ نے ان کے دلوں پر مہرجباریت لگا دی ضلالت کے یہ چاروں درجوں کے مقابلے میں ہیں۔ اول انابت کے مقابلہ میں ریب وشک۔ دوم۔ ہدایت کے مقابلہ میں ضلالت۔ سوم استقامت کے مقابلہ میں جدال ومخاصمت چہارم ربط علی القلب کے مقابلہ میں طبع علی القلب۔ غَيْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّاۗلِّيْنَ میں ضلالت کے چاروں درجات مذکور ہیں۔ پہلے تینوں درجے الضَّاۗلِّيْنَ میں اور چوتھا درجہ الْمَغْضُوْبِ عَلَيْهِمْ میں۔