8: اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيْمَ ۔ پہلی آیتوں کا خلاصہ یہ ہے کہ سب کا پیدا کرنے والا اللہ تعالیٰ ہے اور پھر ہر چیز اور ہر جاندار کو رفتہ رفتہ حد کمال تک پہنچانے والا بھی وہی ہے۔ سارے عالم کا نظام بھی اسی کے ہاتھ میں ہے۔ وہی متصرف ومختار ہے اور پھر محاسبۂ اعمال کے دن یعنی قیامت کے دن کا مالک بھی وہی ہے۔ جب انسان ان چاروں حقیقتوں کا اعتراف کرلے اور ان پر پختہ ایمان لے آئے تو وہ بلا ساختہ پکار اٹھے گا اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَاِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ ۔ یہ در اصل بندوں کا اپنے خدا سے عہد ہے کہ اے اللہ ہم صرف تیری ہی بندگی کریں گے۔ صرف تجھے ہی حاجات ومشکلات میں مدد کے لیے پکاریں گے۔ اس کے بعد اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَـقِيْمَ میں اسی عہد پر استقامت کی دعا مانگی جارہی ہے مطلب یہ ہے کہ اے اللہ یہ سیدھی راہ جو تو نے ہمیں دکھا دی ہے یعنی توحید اور صرف تیری عبادت و پکار اور صرف تجھی سے استعانت واستمداد کی راہ اب اس پر ہمیں قائم رکھ اور تادم آخرین ہمیں اس پر چلا۔ الصِّرَاطَ الْمُسْتَـقِيْمَسے توحید اور اللہ کی خالص عبادت و پکار کی طرف اشارہ ہے۔ ایک جگہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی زبان سے الصِّرَاطَ الْمُسْتَـقِيْمَکا یہ مفہوم بیان فرمایا۔ وَاِنَّ اللّٰهَ رَبِّيْ وَرَبُّكُمْ فَاعْبُدُوْهُ ۭھٰذَا صِرَاطٌ مُّسْتَقِيْمٌ (مریم :36) اور بیشک اللہ ہی میرا پروردگار ہے اور وہی تمہارا پروردگار اس لیے صرف اسی کی عبادت کرو اور صرف اسے ہی پکارو یہی ہے صراط مستقیم (سیدھی راہ) ۔ اور ایک جگہ تمام بنی آدم کو خطاب کر کے فرمایا اَلَمْ اَعْهَدْ اِلَيْكُمْ يٰبَنِيْٓ اٰدَمَ اَنْ لَّا تَعْبُدُوا الشَّيْطٰنَ ۚ اِنَّهٗ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِيْنٌ 60ۙوَّ اَنِ اعْبُدُوْنِيْ ڼ ھٰذَا صِرَاطٌ مُّسْتَــقِيْمٌ (یس :60، 61) اے اولاد آدم ! کیا میں تمہیں اس بات کی تاکید نہیں کی تھی کہ شیطان کی بندگی مت کرنا اور صرف میری ہی بندگی کرنا۔ یہی ہے صراط مستقیم۔
الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيْمَ کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ اس سے مطلق راہ حق مراد ہے جو اسلام کے تمام احکام کو شامل ہے۔ مثلاً عبادات، معاملات، اخلاق، معاشیات، سیاسیات، احکام برزخ و اصول آخرت وگیرہ۔ والمراد بہ طریق الحق وھو ملۃ الاسلام (مدارک جلد 1 ص 7) سورة انعام رکوع 19 میں بھی اس طرف اشارہ ہے۔ وہاں پہلے اللہ تعالیٰ نے شرک سے منع فرمایا پھر والدین سے احسان اور حسن سلوک کا حکم دیا۔ پھر قتل اولاد، قتل نفس محرمہ اور دیگر تمام فواحش سے منع کیا۔ پھر یتیموں کی حق تلفی سے روکا پھر ناپ تول پورا کرنے اور ہر حال میں عدل و انصاف کو قائم رکھنے کا حکم دیا اور آخر میں جناب نبی کریم ﷺ کو یہ اعلان کرنے کا حکم فرمایا۔ وَاَنَّ ھٰذَا صِرَاطِيْ مُسْتَقِـيْمًا فَاتَّبِعُوْهُ ۔ اور بیشک یہ ہے میرا راستہ جو بالکل سیدھا ہے۔ سو اس راہ پر چلو۔ یہاں دین کے تمام احکام کو صراط مستقیم فرمایا۔
الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيْمَ : مرکب توصیفی ہے اور الْمُسْتَـقِيْمَ اس چیز کو کہتے ہیں جو بالکل سیدھی ہو اور اس میں کسی قسم کی کجی اور پیچ وخم نہ ہو اور الصِّرَاطَ الْمُسْتَـقِيْمَ (سیدھی راہ) توحید یا پوری ملت اسلام کو اس لیے فرمایا کہ توحید کی راہ بالکل سیدھی ہے جس پر چلنے سے انسان خدا تک پہنچ سکتا ہے۔ اگر وہ توحید سے سرمو ہٹ گیا تو سیدھا جہنم میں پہنچے گا۔ اسی طرح ملت اسلام بھی سیدھی اور درمیانی راہ ہے اس میں نہ افراط ہے نہ تفریط جیسا کہ یہود نے حضرت عزیر کے بارے میں افراط اور حضرت مسیح (علیہما السلام) کے بارے میں تفریط سے کام لیا اور عیسائیوں نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے حق میں افراط سے کام لیا اور حضرت خاتم نبوت ﷺ کی شان میں تفریط کی اسی طرح باقی احکام شرعیہ میں بھی پہلی امتوں میں افراط وتفریط تھی لیکن شریعت محمدیہ علی صاحبہا الصلوۃ والسلام ہر قسم کی اعتقادی اور عملی افراط وتفریط سے بالکل پاک ہے۔
لفظ ہدایۃ ہمیشہ دو مفعولوں کی طرف متعدی ہوتا ہے۔ مفعول اول کی طرف ہمیشہ بلا واسطہ حرف جر اور مفعول ثانی کی طرف کبھی بواسطہ حرف جرمثلاً وَيَهْدِيْ مَنْ يَّشَاۗءُ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَــقِيْمٍ (یونس :25) اور وَهَدَيْنٰهُمْ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَـقِيْمٍ (الانعام :87) اور کبھی بلاواسطۂ جر مثلاً ۚوَهَدَيْنٰهُمَا الـصِّرَاطَ الْمُسْتَــقِيْمَ (الصافات :118) اور وَيَهْدِيَكَ صِرَاطًا مُّسْتَـقِيْمًا (الفتح :2) لیکن استعمال کی ان دونوں صورتوں کے معنوں میں فرق ہے۔ پہلی صورت میں ہدایت کے معنی اراءۃ الطریق، راہ نمودن یعنی راہ دکھانے کے ہوں گے۔ اور دوسری صورت میں اس کے معنی ایصال الی المطلوب بمنزل رسانیدن یعنی منزل مقصود تک پہنچانے کے ہوں گے۔ اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَـقِيْمَ میں ناضمیر منصوب متکلم مفعول اول ہے اور الصِّرَاطَ الْمُسْتَـقِيْمَ مفعول ثانی ہے جو بلاواسطہ حرف جر استعمال ہوا ہے۔ اس لیے ہدایت کے معنی یہاں ایصال الی المطلوب (منزل مقصود تک پہنچادینے) کے ہیں۔ یہاں چونکہ منزل مقصود صراط مستقیم ہے اسلیے معنی یہ ہوں گے کہ ہم کو صراط مستقیم (سیدھی راہ) پر چلا اور اس پر قائم رکھ جیسا کہ حضرت شاہ عبدالقادر (رح) نے اس کا ترجمہ کیا ہے " چلا ہم کو راہ سیدھی " اور یہاں یہی معنی موزوں اور مناسب ہیں کیونکہ جب ایک شخص الحمدللہ سے ایاک نستعین تک بیان کردہ تمام باتوں پر ایمان لے آتا ہے اور ان پر عامل ہوجاتا ہے تو صراط مستقیم تو اس نے دیکھ لیا اور سیدھی راہ اسے مل چکی۔ اس لیے اب اھدنا الصراط المستقیم۔ میں وہ سیدھی راہ دیکھنے کی دعا نہیں کر رہا بلکہ وہ یہ التجا کر رہا ہے کہ اے اللہ جو سیدھی راہ تو نے مجھے دکھا دی ہے۔ اب اس پر مجھے قائم رکھ۔ ومعناہ اَدِمْ ہدایتنا۔ (قرطبی ص 148 ج 1)
ہدایت کی دو قسمیں ہیں ایک فطری دوسری کسبی۔ فطری ہدایت تو انسان اور غیر انسان سب کے لیے عام ہے اور اللہ کی طرف سے ہر ذی روح کو پیدائش کے ساتھ ہی عطا کی جاتی ہے جیسا کہ ارشاد ہے اَعْطٰي كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهٗ ثُمَّ هَدٰى(طہ :50) اور اس نے ہر چیز کو صورت عطا کی اور پھر اس کی رہنمائی فرمائی۔ اور ایک جگہ فرمایا وَالَّذِيْ قَدَّرَ فَهَدٰى (الاعلی :3) وہ جس نے ہر چیز کا اندازہ مقرر کیا اور رہنمائی فرمائی۔
ہم دیکھتے ہیں کہ مرغی کا بچہ انڈے سے نکلتے ہی دانہ چگنے لگتا ہے جانوروں کے بچے پیدا ہوتے ہی پستان مادر سے دودھ پینے لگتے ہیں آخر انہیں کون بتاتا ہے کہ یہ ہماری غذا ہے اور اسے حاصل کرنے کا مقام اور طریقہ یہ ہے۔ یہ راہنمائی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوتی ہے اور ہر ذی روح کی فطرت میں ودیعت ہوتی ہے۔
ہدایت کی دوسری قسم کسبی ہے جو اللہ کی طرف سے انبیاء (علیہم السلام) اور کتب سماویہ کے ذریعے حاصل ہوتی ہے پھر اس کے چار درجے ہیں :
1 ۔ انابت یعنی اللہ کی طرف رجوع کرنا اور ضد وعناد کو چھوڑ کر راہ ہدایت کی تلاش و جستجو کرنا۔ ہدایت صرف انہی لوگوں کو ملتی ہے جن میں انابت الی اللہ اور تلاش حق کا جذبہ ہوتا ہے۔ چناچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ وَيَهْدِيْٓ اِلَيْهِ مَنْ اَنَابَ (الرعد :27) اور دوسری جگہ فرمایا وَيَهْدِيْٓ اِلَيْهِ مَنْ يُّنِيْبُ (الشوری :13) یعنی اللہ تعالیٰ ہدایت کی توفیق صرف ان لوگوں کو دیتا ہے جو اس کی طرف رجوع اور انابت کرتے ہیں۔
2 ۔ ہدایت : یعنی سیدھی راہ پانا یہ انابت اور رجوع الی اللہ کے بعد حاصل ہوتی ہے جیسا کہ پہلے مذکور ہوا۔
3 ۔ استقامت : ہدایت کے بعد استقامت کا درجہ ہے جب ایک آدمی کو ہدایت حاصل ہوجاتی ہے اور اسے صراط مستقیم مل جاتا ہے تو اب وہ اللہ کی ہدایت کے مطابق سیدھی راہ پر چلتا ہے اور اس پر قائم ہوجاتا ہے۔ اِنَّ الَّذِيْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللّٰهُ ثُمَّ اسْـتَقَامُوْا (حم السجدہ :30) اس میں دوسرے اور تیسرے درجہ کا بیان ہے قَالُوْا رَبُّنَا اللّٰهُ میں ہدایت آگئی اور ثُمَّ اسْـتَقَامُوْا میں استقامت۔
4 ۔ ربط القلب : راہ ہدایت اور صراط مستقیم پر استقامت کے بعد ربط القلب کا درجہ حاصل ہوتا ہے۔ یہ درجہ رسوخ ایمان اور یقین کی پختگی کا سب سے اونچا اور بلند مقام ہے۔ جب مؤمن کو ایمان ویقین کا یہ درجہ حاصل ہوجائے تو دنیا کی کوئی طاقت اسے راہ ہدایت سے نہیں ہٹا سکتی اور نہ اس کے ایمان ویقین کو متزلزل کرسکتی ہے یہ درجہ بہت کم لوگوں کو حاصل ہوتا ہے اصحاب کہف کو یہ درجہ حاصل تھا چناچہ ارشاد ہے ۭ اِنَّهُمْ فِتْيَةٌ اٰمَنُوْا بِرَبِّهِمْ وَزِدْنٰهُمْ هُدًى 13 ڰ وَّرَبَطْنَا عَلٰي قُلُوْبِهِمْ اِذْ قَامُوْا فَقَالُوْا رَبُّنَاالایة۔ (الکہف :14) وہ چند نوجوان تھے جو اپنے رب پر ایمان لائے اور ہم نے ان کی ہدایت میں ترقی کردی اور ان کے دل مضبوط کردئیے اس آیت میں تین درجات کا ذکر ہے۔ اٰمَنُوْا بِرَبِّهِمْمیں ہدایت۔ وَزِدْنٰهُمْ هُدًىمیں استقامت اور وَّرَبَطْنَا عَلٰي قُلُوْبِهِمْمیں ربط القلب کا ذکر ہے۔ ہدایت کا یہ درجہ حضرات صحابہ کرام ؓ کو بھی حاصل تھا جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے وَلٰكِنَّ اللّٰهَ حَبَّبَ اِلَيْكُمُ الْاِيْمَانَ وَزَيَّنَهٗ فِيْ قُلُوْبِكُمْ وَكَرَّهَ اِلَيْكُمُ الْكُفْرَ وَالْفُسُوْقَ وَالْعِصْيَانَ (الحجرات :7) لیکن اللہ تعالیٰ نے ایمان کو تمہارا محبوب بنادیا اور اس کو تمہارے دلوں میں مرغوب کردیا اور کفر اور فسق اور نافرمانی سے تم کو نفرت دے دی۔ اِھْدِنَا میں ہدایت کے آخر دو درجے حاصل کرنے کی درخواست کی گئی ہے یعنی استقامت اور ربط القلب۔ کیونکہ انابت اور ہدایت تو پہلے حاصل ہوچکی ہے۔ ہدایت کی طرح ضلالت کے بھی چار درجے ہیں۔ ان کا ذکر آگے آرہا ہے