Jawahir-ul-Quran - Al-Faatiha : 5
اِیَّاكَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاكَ نَسْتَعِیْنُؕ
اِيَّاكَ : صرف تیری نَعْبُدُ : ہم عبادت کرتے ہیں وَ : اور اِيَّاكَ : صرف تجھ سے نَسْتَعِيْنُ : ہم مدد چاہتے ہیں
تیری ہی ہم بندگی کرتے ہیں اور تجھی سے مدد چاہتے ہیں7
7: اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَاِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ سورۂ فاتحہ میں یہ آیت مرکزی حیثیت رکھتی ہے۔ اِيَّاكَ نَعْبُدُ میں اِيَّاكَ مفعول کو نَعْبُدُفعل پر مقدم کیا گیا ہے۔ تاکہ حصر کا فائدہ دے اور مطلب یہ ہو کہ عبادت صرف اللہ کے لیے ہونی چاہیے۔ اور اس کے سوا کسی پیغمبر، فرشتہ یا ولی کی عبادت اور پکار نہیں ہونی چاہیے کیوں کہ وہ سارے خود اللہ کے حکم سے اسی ہی کی عبادت کرتے ہیں۔ اسی طرح اِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُمیں فائدہ حصر کے لیے مفعول بہ کو فعل پر مقدم کیا ہے۔ اور مطلب یہ ہے کہ مدد صرف اللہ ہی سے مانگنی چاہیے۔ اور اس کے سوا کسی پیر یا پیگمبر سے اور کسی فرشتہ یا ولی سے مافوق الاسباب امور میں مدد نہیں مانگنی چاہئے۔ امام ابن کثیر بعض بزرگوں سے نقل فرماتے ہیں کہ ساری قرآن کا مرکزی حصہ سورة فاتحہ ہے اور سورة فاتحہ کا مرکزی حصہ اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَاِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُہے۔ وہ لکھتے ہیں۔ الفاتحہ سر القران وسرھا ھذہ الکلمۃ (ایاک نعبد وایاک نستعین۔ ابن کثیر ص 25 ج 1) عبادت کا مفہوم۔ عبادت کے مفہوم میں دو چیزیں داخل ہیں ایک غایت تذلل یعنی انتہائی عاجزی اور ذلت۔ دوم غایت تعظیم۔ لیکن اس اعتقاد اور شعور کے ساتھ کہ معبود کو غائبانہ تصرف اور قدرت حاصل ہے جس سے وہ نفع نقصان پر قادر ہے کیونکہ معبود صرف وہی ہوسکتا ہے جس میں دو صفتیں موجود ہوں (1) یہ کہ وہ عالم الغیب ہو۔ کائنات کا ذرہ ذرہ اس پر منکشف ہو اور زمین و آسمان کی ساری مخلوق کے ظاہر و باطن سر و علانیہ کو وہ اچھی طرح جانتا ہو (2) یہ کہ وہ مالک ومختار، متصرف فی الامور اور اقتدار اعلیٰ کا مالک ہو قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے جہاں کہیں اپنے لیے استحقاق عبادت و پکار کا ذکر فرمایا ہے وہاں اپنی انہی دونوں صفتوں کو اس کی علت قرار دیا ہے اور جہاں کہیں غیر اللہ سے عبادت و پکار کی نفی ہے وہاں غیر سے دونوں صفتوں کی نفی فرمائی ہے کہیں دونوں صفتوں کی نفی ہے اور کہیں صرف ایک کی چناچہ ایک جگہ ارشاد ہے۔ وَرَبُّكَ يَخْلُقُ مَا يَشَاۗءُ وَيَخْتَارُ ۭ مَا كَانَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ ۭ سُبْحٰنَ اللّٰهِ وَتَعٰلٰى عَمَّا يُشْرِكُوْنَ 68؀ وَرَبُّكَ يَعْلَمُ مَا تُكِنُّ صُدُوْرُهُمْ وَمَا يُعْلِنُوْنَ 69؀ وَهُوَ اللّٰهُ لَآ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ ۭ لَهُ الْحَمْدُ فِي الْاُوْلٰى وَالْاٰخِرَةِ ۡ وَلَهُ الْحُكْمُ وَاِلَيْهِ تُرْجَعُوْنَ (سورۃ القصص :68 تا 70) اور تیرا رب جو کچھ چاہتا ہے پیدا کرتا ہے اور پسند کرتا ہے ان لوگوں کوئی اختیار (حاصل) نہیں۔ اللہ ان کے شرک سے پاک ہے اور برتر ہے اور تیرا رب جانتا ہے جو ان کے دلوں میں پوشیدہ ہے اور جو کچھ ظاہر کرتے ہیں اور وہی اللہ ہے اس کے سوا کوئی معبود بننے کے لائق نہیں۔ دنیا وآخرت میں تمام صفات کارسازی کا مستحق وہی ہے اور اسی کی حکومت ہوگی اور اسی کے پاس لوٹ کر جاؤ گے۔ دوسری جگہ فرمایا لَهٗ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَمَا فِي الْاَرْضِ وَمَا بَيْنَهُمَا وَمَا تَحْتَ الثَّرٰى ۝ وَاِنْ تَجْــهَرْ بِالْقَوْلِ فَاِنَّهٗ يَعْلَمُ السِّرَّ وَاَخْفٰي ۝ اَللّٰهُ لَآ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ ۭ لَهُ الْاَسْمَاۗءُ الْحُسْنٰی (سورۂ طہ :8) اسی کی ملک میں جو چیزیں آسمانوں میں ہیں اور جو چیزیں زمین میں ہیں اور جو چیزیں ان دونوں کے درمیان میں ہیں۔ اور جو چیزیں تحٹ الثری میں ہیں اور اگر تم پکار کر بات کہو تو وہ تو چپکے سکہی ہوئی بات کو اور اس سے زیادہ چھپی ہوئی بات کو بھی جانتا ہے، اللہ ایسا ہے کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ اس کے اچھے اچھے نام ہیں اور ایک جگہ ارشاد ہے۔ وَلِلّٰهِ غَيْبُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَاِلَيْهِ يُرْجَعُ الْاَمْرُ كُلُّهٗ فَاعْبُدْهُ وَتَوَكَّلْ عَلَيْهِ ۭ وَمَا رَبُّكَ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُوْنَ (ھود :123) اور آسمانوں اور زمین میں جتنی بھی غیب کی باتیں ہیں۔ ان سب کا علم صرف اللہ ہی کو ہے اور سب امور اسی کی طرف رجوع کرتے ہیں پس تم اسی کی عبادت کرو اور اسی پر بھروسہ کرو اور تمہارا رب ان باتوں سے بیخبر نہیں جو تم کرتے ہو۔ ان کے علاوہ آیۃ الکرسی اور دوسری کئی آیتوں میں بھی یہ مضمون وضاحت سے بیان کیا گیا ہے۔ ان تمام آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے پہلے اپنی ان دونوں سفتوں کا ذکر فرمایا کہ وہ متصرف ومختار ہے۔ زمین و آسمان میں جو کچھ ہے سب اسی کے قبضہ میں ہے۔ زمین و آسمان کی ساری مخلوق کے تمام معاملات اور سارے کارخانۂعالم کی تدبیر اور پورا نظام عالم اسی کے زیر اقتدار ہے۔ اور زمین و آسمان کے تمام غیوب کو جاننے والا بھی وہی ہے اور تینوں جگہوں میں دونوں صفتیں بیان کرنے کے بعد یہ اعلان فرمایا کہ جب عالم الغیب اور متصرف ومختار اللہ ہے تو معبود بننے اور پکارے جانے کے لائق بھی صرف اللہ ہی ہے، تمام صفات کا رسازی بھی اسی کے ساتھ مخصوص ہیں۔ لہذا تم اسی کی عبادت کرو۔ اسی کو پکارو۔ اسی کے آگے جھکو اور اسی سے مانگو جو کچھ بھی مانگو۔ ایک مقام پر تو اللہ تعالیٰ نے مشرکین کو خطاب کر کے صاف صاف ان کے رویہ پر انکار فرمایا کہ تم ایسے بےبس اور بےچارے معبودوں کو پکارتے ہو جو تمہارے نفع اور نقصان کا بھی اختیار نہیں رکھے اور نہ تمہارے حالات کو جانتے اور نہ تمہاری پکار کو سنتے ہیں اور اس خداوند قادر وعلام کو چھوڑتے ہو جو سب کچھ سنتا اور جانتا ہے اور تمہارے نفع اور نقصان کا بھی پورا پورا اختیار رکھتا ہے۔ قُلْ اَتَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ مَا لَا يَمْلِكُ لَكُمْ ضَرًّا وَّلَا نَفْعًا ۭوَاللّٰهُ هُوَ السَّمِيْعُ الْعَلِيْمُ (المائدہ : 76) کہہ دیجئے کیا تم خدا کے سوا ایسوں کی عبادت کرتے ہو ایسوں کو پکارتے ہو جو نہ تمہیں نقصان پہنچانے کا اختیار رکھتے ہیں اور نہ نفع پہنچانے کا حالانکہ اللہ تعالیٰ ہی سب کچھ جاننے سننے والا ہے۔ اس بیان سے یہ بات واضح ہوگئی کہ ہر قول اور فعل، دعا اور پکار، ثنا اور تعظیم، رکوع اور سجود، قیام اور قعود وغیرہ جو اس اعتقاد اور شعور کے ساتھ ہو کہ معبود کو مافوق الاسباب ہمارے تمام معاملات پر غیبی قبضہ اور تسلط حاصل ہے اور وہ سب کچھ سنتا اور جانتا ہے وہ عبادت ہے۔ چناچہ علامہ ابن القیم نے عبادت کی تعریف کو ایک جامع تعبیر سے حسب ذیل عبارت میں بیان فرمایا ہے۔ " العبادۃ عبارۃ عن الاعتقاد والشعور بان للمعبود سلطۃ غیبیۃ یقدر بھا علی النفع والضرر فکل ثناء ودعاء وتعظیم یصاحبیہ ھذا الاعتقاد والشعور فھی عبادۃ (مدارج السالکین ص 40 ج 1) یعنی عبادت اس اعتقاد اور شعور کا نام ہے کہ معبود کو ایک غیبی تسلط حاصل ہے جس کی وجہ سے نفع ونقصان پر قادر ہے۔ اس لیے ہر تعریف ہر پکار اور ہر تعظیم جو اس مذکورہ اعتقاد و شعور کے ساتھ ہو وہ عبادت ہے۔ ایک شبہ کا جواب : تقریر بالا سے اس شبہ کا جواب بھی ہوگیا کہ تعظیم و تکریم اور عزت واحترام تو اللہ کے سوا اوروں کا بھی کیا جاتا ہے۔ خدا کے پیغمبر ﷺ کی تعظیم و تکریم تو ساری امت پر فرض ہے استاد اور پیرومرشد کا ادب واحترام بھی لازم ہے اور والدین کی تعظیم و تکریم بھی ضروری اور لابدی امر ہے۔ لہذا اگر تعظیم و تکریم اور عجز کا عبادت ہے تو پھر یہ بھی عبادت ہوگی۔ حالانکہ عبادت صرف اللہ کا حق ہے غیر اللہ کی عبادت جائز نہیں تو اس کا جواب یہ ہے کہ تعظیم صرف وہی عبادت ہے جس میں معبود کو مافوق الاسباب غیبی طور پر متصرف اور مختار اور عالم الغیب سمجھا جائے اور اگر معظم ومحترم ہستی کو صفات بالا سے متصف نہ ماناجائے تو یہ تعظیم عبادت میں داخل نہیں۔ اس لیے ایسی تعظیم غیر اللہ کی بھی جائز ہے اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ تعظیم کی دو قسمیں ہیں ایک وہ جو ذات باری تعالیٰ کے ساتھ مخصوص ہے دوم وہ جو غیر خدا کے لیے بھی جائز ہے۔ تعظیم کی پہلی قسم : پہلے آیات قرآنیہ سے بوضاحت مذکور ہوچکا ہے کہ معبودیت کے لیے دو شرطیں ہیں ایک متصرف ومختار اور قدرت کاملہ کا مالک ہونا دوم زمین و آسمان کی تمام ظاہر اور چھپی ہوئی چیزوں کا عالم ہونا۔ علامہ ابن القیم کی جو عبارت پہلے نقل کی جا چکی ہے۔ اس کا حاصل بھی یہی ہے کہ معبود وہی ہوسکتا ہے جسے علم اور تصرف کے اعتبار سے تمام مخلوق پر گیبی تسلط حاصل ہو۔ جس کی وجہ سے وہ نفع اور نقصان پہنچانے پر قادر ہو۔ لہذا تعطیم کا ہر وہ طریقہ خواہ وہ حمدوثنا ہو یا دعاء و پکار، رکوع و سجود ہو یا کچھ اور جو اس اعتقاد اور شعور کے ساتھ بجالایا جائے کہ معظم ومحترم ہستی مافوق الاسباب اختیار و تصرف کی مالک اور عالم الغیب ہے تو ایسی تعظیم عبادت ہوگی اور ذات باری تعالیٰ کے ساتھ مخصوص ہوگی لہذا جب یہ عقیدہ ہو کہ فلاں کو مجھ پر ظاہری اسباب کے سوا مافوق الاسباب غیبی تسلط حاصل ہے۔ اور وہ غائبانہ مجھے نفع ونقصان پہنچاسکتا ہے اس اعتقاد کے تحت کوئی بھی تعظیم ہاتھ پاؤں سے سرزد ہو یا زبان سے ثنا یا پکار ہو تو وہ اس کی عبادت ہوگی اگر یہ اعتقاد اللہ تعالیٰ کے متعلق ہو تو اس کے تحت کیے گئے تمام افعال تعظیم اللہ تعالیٰ کی عبادت میں داخل ہوں گے اور معاذ اللہ مذکورہ بالا اعتقاد غیر خدا کے لیے ہو مثلاً فرشتہ، جن، پیغمبر، ولی، زندہ یا فوت شدہ تو اس اعتقاد کے تحت، سجدہ، رکوع، پکار، نذرونیاز، جھکنا، دو زانو بیٹھنا، قبر پر چادر یا پھول چڑھانا وغیرہ تعظیمی افعال ان کی عبادت ہوگی اور شرک ہوگا۔ اللہ تعالیٰ نے جہاں کہیں خالص عبادت کا حکم دیا ہے اور شرک سے منع فرمایا ہے وہاں یہی مراد ہے کہ مذکورہ بالا اعتقاد و شعور کے ساتھ تمام تعظیمی افعال واقوال (سجدہ، رکوع، دعا، پکار، نذر، نیاز وغیرہ) صرف اللہ تعالیٰ کے لیے بجا لائے جائیں سورة زمر رکوع 1 میں ارشاد ہے۔ فَاعْبُدِ اللّٰهَ مُخْلِصًا لَّهُ الدِّينسو آپ خالص اعتقاد کر کے اللہ کی عبادت کرتے رہیے۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ غیبی تسلط اور مافوق الاسباب اقتدار اعلیٰ کے اعتقاد کے ساتھ ہر قسم کی تعظیم صرف اللہ ہی کی بجا لاؤ نہ کہ کسی پیغمبر یا ولی یا فرشتہ کی اور سورة زمر کے دوسرے رکوع میں فرمایا۔ ؀ قُلْ اِنِّىْٓ اُمِرْتُ اَنْ اَعْبُدَ اللّٰهَ مُخْلِصًا لَّهُ الدِّيْنَ اور ایک آیت کے بعد فرمایا قُلِ اللّٰهَ اَعْبُدُ مُخْلِصًا لَّهٗ دِيْنِيْ فَاعْبُدُوْا مَا شِئْتُمْ مِّنْ دُوْنِهٖ مطلب یہ ہے کہ اے پیغمبر ﷺ آپ فرمادیں کہ مجھے تو یہ حکم ملا ہے کہ میں غائبانہ تسلط اور مافوق الاسباب تصرف وقدرت کے تحت تمام تعظیمی افعال و اعمال صرف اللہ ہی کے لیے بجا لاؤں اور اے مشرکین تم مذکورہ اعتقاد کے ساتھ یہ تعظیمی افعال اللہ کے سوا جس کے لیے چاہو بجا لاؤ۔ ابراہیم واسماعیل اور ہابیل (ہبل) (علیہم السلام) کے لیے یا، لات اور دوسرے بزرگوں کے لیے لیکن میں تو ایسا ہرگز نہیں کروں گا۔ جو لوگ مذکورہ بالا تعظیم صرف اللہ کے لیے بجا لائیں گے اور غیر اللہ کی ایسی تعظیم سے اجتناب کریں گے جنت اور نعیم آخرت کی خوشخبری بھی ایسے ہی لوگوں کے لیے ہے۔ وَالَّذِيْنَ اجْتَنَبُوا الطَّاغُوْتَ اَنْ يَّعْبُدُوْهَا وَاَنَابُوْٓا اِلَى اللّٰهِ لَهُمُ الْبُشْرٰى (الزمر : 17) یعنی جو لوگ طاغوت کی عبادت اور غیبی تسلط کے اعتقاد کے تحت اس کے لیے تعظیمی افعال و اعمال بجالانے سے اجتناب کریں اور یہ سب کچھ صرف اللہ ہی کے لیے بجا لائیں تو خوشخبری ایسے ہی لوگوں کے لیے۔ حاصل یہ ہے کہ غیبی تسلط اور مافوق الاسباب تصرف وقدرت کے اعتقاد کے تحت جو افعال تعظیمی بجالائے وہ عبادت میں داخل ہیں اور ایسی تعظیم اللہ کے ساتھ خاص ہے اور اللہ کے سوا کسی پیغمبر، ولی، پیرومرشد، استاد اور ماں باپ اور حاکم وقت وغیرہ کے لیے جائز نہیں۔ تعظیم کی دوسری قسم : تعظیم کی دوسری قسم یہ ہے کہ غیبی تسلط اور مافوق الاسباب قدرت و تصرف کا اعتقاد رکھے بغیر پیغمبر خدا ﷺ ، اپنے استاذ، پیرومرشد اور دوسروں کی تعظیم و تکریم بجالانا، ان کی اطاعت کرنا، ان کے سامنے دو زانو بیٹھنا، ان کے ہاتھوں کو بوسہ دینا، ان کی خدمت میں تحفے تحائف اور ہدیے پیش کرنا وغیرہ وغیرہ۔ یہ تعظیم چونکہ عبادت میں داخل نہیں اس لیے یہ اللہ کے سوا قابل احترام ہستیوں کے لیے جائز ہے کیونکہ اس میں وہ اعتقاد نہیں پایا گیا جو عبادت کی روح ہے۔ تو اس سے معلوم ہوا کہ عبادت اور غیر عبادت میں فارق اور مابہ الامتیاز نیت اور اعتقاد ہے لیکن یہ بات یاد رہے کہ تعظیم کی بعض صورتیں ایسی ہیں جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ مخصوص ہیں وہ کسی بھی نیت سے غیر اللہ کے لیے جائز نہیں ہیں مثلاً سجدہ کرنا۔ خدا کے گھر کا طواف کرنا۔ حلف اٹھانا، قسم کھانا اور نذر ومنت دینا وغیرہ یہ امور ایسے ہیں کہ ہر حال میں اللہ ہی کے لیے کرنے جائز ہیں۔ غیر خدا کے لیے بالکل ناجائز ہیں۔ اگر یہ امور غیر خدا کے لیے مذکورہ بالا اعتقاد (غیبی تسلط اور مافوق الاسباب قدرت) کے ساتھ کیے جائیں تو صریح شرک ہیں اور اگر اس اعتقاد کے بغیر کیے جائیں تو شرک نہیں ہوں گے لیکن اس صورت میں حرام ہوں گے۔ حاصل کلام یہ کہ تعظیم کے وہ افعال واقوال جو خدا کے ساتھ مخصوص نہ ہوں اور ان کو مذکورہ بالا اعتقاد کے بغیر غیر خدا کے لیے بجا لایا جائے تو وہ عبادت میں شمار نہیں ہونگے اس لیے ایسی تعظیم غیر خدا کے لیے جائز ہے۔ استعانت : اِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ ۔ یہاں بھی مفعول کو فعل پر اس لیے مقدم کیا تاکہ حصر کا فائدہ حاصل ہو مطلب یہ کہ جس طرح عبادت صرف اللہ ہی کی ہونی چاہئے اسی طرح استعانت (مدد طلب کرنا) بھی صرف اسی ہی سے ہونی چاہئے۔ نہ کسی اور سے۔ استعانت (یعنی حاجات ومشکلات میں پکارنا اور مدد مانگنا) چونکہ عبادت کی سب سے بڑی اور اہم شاخ ہے اس لیے عبادت کے بعد خصوصیت سے اس کا ذکر فرمایا۔ ہر آدمی جو کسی معبود کی عبادت کرتا ہے۔ دنیوی زندگی کے اعتبار سے اس کی عبادت کا مقصد اور لب لباب ہے۔ الدعاء مخ العبادۃ۔ اور ایک روایت میں ہے الدعاء ھو العبادۃ (تفسیر ابن جریر ج 24 ص 46، ابو داوٗد ج 1 ص 28، ترمزی ج 1 ص 73) یعنی پکارنا ہی اصل عبادت ہے قرآن مجید میں بھی لفظ عبادت بمعنی دعاء اور پکار وارد ہوا ہے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔ وَقَالَ رَبُّكُمُ ادْعُوْنِيْٓ اَسْتَجِبْ لَكُمْ ۭ اِنَّ الَّذِيْنَ يَسْتَكْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِيْ سَيَدْخُلُوْنَ جَهَنَّمَ دٰخِرِيْنَ (المومن :60) اور تمہارے پروردگار نے فرمادیا ہے کہ مجھ کو پکارو میں تمہاری درخواست قبول کروں گا جو لوگ (صرف) میری عبادت سے سرتابی کرتے ہیں وہ عنقریب (مرتے ہی) ذلیل ہو کر جہنم میں داخل ہوں گے۔ اس آیت میں پہلے اللہ تعالیٰ نے اپنی پکار کا حکم فرمایا ہے پھر پکار کو لفظ عبادت سے تعبیر فرمایا جیسا کہ خود نبی کریم ﷺ نے اس آیت کی تفسیر میں فرمایا ہے کہ عِبَادَتِيْسے مراد دُعَائِیہے یعنی اس آیت میں عبادت سے دعا اور پکار مراد ہے۔ (تفسیر ابن جریر ج 24 ص 47 وابن کثیر ج 4 ص 85) سورة زمر اور حوامیم کا مرکزی مقصد ہے فَادْعُوْهُ مُخْلِصِيْنَ لَهُ الدِّيْنَ (المؤمن : 65) اور سورة فاتحہ میں اسی دعویٰ کو اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَاِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُسے بیان کیا گیا ہے اس طرح سارے قرآن کا مرکزی مضمون حوامیم میں اور حوامیم کا خلاصہ سورة فاتحہ میں اور فاتحہ کا لب لباب اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَاِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُمیں ہے۔ ایک شبہ : ہم ہر وقت یہ مشاہدہ کرتے رہتے ہیں کہ ہر انسان دوسرے انسان سے مدد مانگتا ہے اور اسے اپنی مدد کے لیے پکارتا اور اس سے مدد کی درخواست کرتا ہے۔ یہ باہمی مددوامداد کا سلسلہ اس قدر وسیع اور ضروری ہے کہ اس کے بغیر دنیا کا کاروبار ایک منٹ بھی نہیں چل سکتا اور اس باہمی امداد کا ثبوت خود قرآن مجید میں بھی موجود ہے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے جب یہودیوں کی شرارت بھانپ لی اور سمجھ لیا کہ وہ کفر پر اڑ گئے ہیں تو اعلان کیا :۔ مَنْ اَنْصَارِيْٓ اِلَى اللّٰهِ ۭ قَالَ الْحَوَارِيُّوْنَ نَحْنُ اَنْصَارُ اللّٰهِ (آل عمران : 52) اللہ کی طرف میرے مددگار کون ہیں تو حواریوں نے جواب دیا کہ ہم ہیں اللہ کے دین کے مددگار۔ اسی طرح حضرت ذوالقرنین نے بھی ایک قوم سے مدد کی درخواست کی تھی۔ سورة کہف رکوع 11 میں فَاَعِیْنُوْنِیْ بِقُوَّ ةٍ ۔ یعنی تم لوگ قوت بازو سے میری مدد کرو۔ علاوہ ازیں اللہ تعالیٰ نے تمام انسانوں کو امداد باہمی کا حکم دیا ہے۔ چناچہ رشاد ہے۔ ۘوَتَعَاوَنُوْا عَلَي الْبِرِّ وَالتَّقْوٰى ۠(المائدہ :2) اور نیکی اور خدا خوفی کے کاموں میں ایکد وسرے کی مدد کیا کرو۔ تو اس سے معلوم ہوا کہ غیر خدا سے مدد مانگنا جائز ہے آج کل کے اہل بدعت اس قسم کی چیزیں پیش کر کے عوام کو ورغلانے کی کوشش کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ دیکھو جی خدا نے ایک دوسرے سے مدد مانگنے کا حکم دیا ہے اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے بھی اپنے متبعین سے مدد مانگی تھی۔ لہذا اولیاء اللہ سے بھی مدد مانگنا جائز ہے۔ اس کا جواب : اہل بدعت کے قول سے معلوم ہوا العیاذ باللہ عوام الناس اولیاء اللہ اور انبیاء (علیہم السلام) کے حاجت روا اور مشکل کشا ہیں کیونکہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے حواریوں سے مدد مانگی اور ذوالقرنین نے اپنی قوم سے۔ یہ اہل بدعت بھی عجب کشمکش اور مخمصے میں مبتلا ہیں ایک طرف تو دعویٰ کرتے ہیں کہ انبیاء (علیہم السلام) اور اولیاء کرام حاجت روا اور مشکل کشا ہیں اور دوسری طرف عوام الناس کو انبیاء اور اولیاء کا حاجت روا سمجھتے ہیں۔ معاذ اللہ ربی۔ یہ تو الزامی جواب تھا۔ اس کا تحقیقی جواب یہ ہے کہ اِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُمیں جو استعانت اور استمداد اللہ کے ساتھ مختص کی گئی ہے وہ اور ہے اور جو استمداد واستعانت روز مرہ کی زندگی میں ہر آدمی دوسرے سے کرتا ہے یا جو انبیاء (علیہم السلام) نے اپنے متبعین سے کی وہ اور ہے۔ اس کی تفصیل حسب زیل ہے :۔ استعانت کی دو قسمیں : استعانت (مدد مانگنے) کی دو قسمیں ہیں۔ ایک استعانت ماتحت الاسباب یعنی ظاہری اسباب کے تحت کسی سے مدد مانگی جائے۔ یہ وہ امداد ہے جو تمام انسانوں کو روز مرہ کی زندگی میں ایک دوسرے سے حاصل ہوتی ہے۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے حواریوں سے جو مدد مانگی تھی وہ بھی ماتحت الاسباب تھی جب انہوں نے محسوس کیا کہ یہود ان کو قتل کرنا چاہتے ہیں تو حواریوں سے فرمایا کہ کیا تم میں کوئی ہے جو اللہ کے دین کے لیے میری امداد کرے۔ حواریوں نے جواب دیا کہ ہم ہیں اللہ کے دین کے مددگار۔ یہ سارا معاملہ ماتحت الاسباب تھا حواری حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے پاس تھے۔ غائب نہیں تھے۔ انہوں نے بالمشافہ حواریوں سے اسباب عادیہ کے تحت امداد طلب کی اسی طرح ذوالقرنین نے بھی یاجوج ماجوج کو روکنے کے لیے دیوار بناتے وقت لوگوں سے جو کہا تھا۔ اَعِیْنُوْنِیْ بِقُوَّةٍکہ تم لوگ قوت بازو یعنی کام سے میری مدد کرو یہ مدد بھی ظاہری اسباب کے تحت تھی۔ نہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے حواریوں کو غائبانہ پکارا اور نہ ان سے مافوق الاسباب مدد مانگی اور نہ ہی ذوالقرنین نے اپنی قوم سے ایسا کیا۔ جس طرح ظاہری اسباب کے تحت مددا مداد جائز ہے اسی طرح اسبابِ عادیہ کے تحت پکار بھی جائز ہے یعنی جو آدمی سامنے موجود ہو اسے پکار کر (یعنی اے فلاں کہہ کر) کوئی ایسا کام کرنے کا کہا جائے جو اسباب عادیہ کے تحت اس کی قدرت میں ہو مثلاً اسے کہا جائے کہ مجھے پانی پلا دو یا بازار سے سودا سلف لادو وغیرہ۔ قرآن مجید میں ہے۔ جنگ احد میں وقتی افراتفری کی بنا پر جب کچھ صحابہ کرامحضور ﷺ سے علیحدہ ہوگئے تو آپ نے ان کو واپس بلایا۔ وَّالرَّسُوْلُ يَدْعُوْكُمْ فِيْٓ اُخْرٰىكُمْ (آل عمران :153) اور رسول پیچھے سے تم کو بلا رہے تھے۔حضور ﷺ کا یہ بلانا اور پکارنا اسباب ظاہری کے تحت تھا اور آواز ان کو دی جارہی تھی جو میدانِ احد میں آپ کی آواز سن رہے تھے۔ یہ پکار ماتحت الاساب ہے اور اس کے بغیر دنیا کا کاروبار ہی نہیں چل سکتا۔ ایک جگہ فرمایا لَا تَجْعَلُوْا دُعَاۗءَ الرَّسُوْلِ بَيْنَكُمْ كَدُعَاۗءِ بَعْضِكُمْ بَعْضًا (النور : 63) یعنی جس طرح تم آپس میں ایک دوسرے کو نام سے اور بلند آواز سے پکارتے ہو اس طرح رسول خدا ﷺ کو نہ پکارا کرو، معلوم ہوا کہ جو استعانت، امداد باہمی اور پکار عادی اسباب کے تحت ہو وہ نہ صرف جائز ہے بلکہ اس کے سوا دنیا کا کاروبار ہی نہیں چل سکتا اور اِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُمیں اس قسم کی استعانت کا حصر مقصود نہیں اور نہ ہی اس کی قرآن میں ممانعت ہے۔ استعانت کی دوسری قسم ہے مافوق الاسباب یعنی اسباب عادیہ کے بغیر کسی کو دور ونزدیک سے غائبانہ پکارا جائے اور اس سے استمداد کی جائے یہ پکار اور استعانت اللہ تعالیٰ کے ساتھ مخصوص ہے اور اللہ کے سوا کسی پیغمبر، فرشتہ یا ولی سے ہرگز جائز نہیں۔ تمام انسانوں بلکہ جانداروں کی مافوق الاسباب مدد اللہ تعالیٰ ہی کرتا ہے۔ اس کی امداد میں قرب وبعد کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوگا۔ اور یہ استمداد غیر خدا سے شرک ہے اور یہی وہ استمداد واستعانت ہے جس کا اِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُمیں حصر ہے۔ اس موقع پر تفسیروں میں ایک سوال و جواب مذکور ہے کہ انسان ایک دوسرے سے کئی امور میں مدد لیتا ہے۔ پانی مانگتا ہے۔ روٹی مانگتا ہے اور اس سے کئی ضرورت کی چیزیں طلب کرتا ہے تو پھر اِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ کا حصر کس طرح صحیح ہوا اس کا جواب یہ دیا گیا ہے کہ انسان ظاہری اسباب کے تحت ایک دوسرے سے جو امداد لیتا ہے۔ وہ ظاہری امداد بھی در اصل اللہ تعالیٰ ہی سے ہوتی ہے۔ کیونکہ مدد کرنے والے انسان کے جسم وجان کو خدا ہی نے پیدا فرمایا ہے۔ اسے ہاتھ پاؤں اسی نے دئیے اور ان میں حرکت بھی اسی نے پیدا فرمائی لیکن استعانت اور استمداد کی مذکورہ بالا دو قسمیں (ماتحت الاسباب اور مافوق الاسباب) بیان کرنے کے بعد اس قسم کے سوال و جواب کی ضرورت ہی باقی نہیں رہتی۔ ایک مغالطہ : بعض اہل بدعت اس موقع پر ایک اور مغالطہ پیش کرتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ یہ تو درست ہے کہ غیر اللہ کی عبادت جائز نہیں بلکہ شرک ہے۔ خواہ کسی پیغمبر کی عبادت ہو یا فرشتہ اور ولی کی۔ لیکن انبیاء اور اولیاء کو حاجات و مشکلات میں امداد کے لیے غائبانہ پکارنا شرک نہیں بلکہ جائز ہے اور قرآن مجید کی جن آیتوں میں غیر خدا کی دعا سے منع کیا گیا ہے وہاں دعا سے مراد عبادت ہے نہ کہ پکار اور ثبوت یہ پیش کرتے ہیں کہ مفسرین نے یَدْعُوْنَکی تفسیریَعْبُدُوْنَسے، یَدْعُوْاکی یَعْبُدُسے اور اَدْعُوْاکیاَعْبُدُسے کی ہے۔ جواب : غیر خدا کو غائبانہ مافوق الاسباب پکارنا شرک ہے اور اہل بدعت کا استدلال سراسر غلط ہے کیونکہ پہلے بالتفصیل بیان ہوچکا ہے کہ دعا اور پکار کی دو قسمیں ہیں ایک مافوق الاسباب اور دوم ماتحت الاسباب۔ پکار کی پہلی قسم عبادت ہے اور اللہ کے ساتھ خاص ہے۔ اور دوسری قسم چونکہ عبادت نہیں اس لیے وہ غیر اللہ کے لیے بھی جائز ہے اور یہی وہ پکار ہے جس سے مغالطہ دیا جاتا ہے۔ باقی رہا مفسرین کا تَدٌعُوْنَکی تفسیر تَعْبُدُوْنَسے کرنا تو اس سے ان کا مقصد دعا کا حاصل معنی بیان کرنا ہے اور یہ مطلب ہے کہ غائبانہ مافوق الاسباب دعا بھی عبادت ہی کا فرد ہے (بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ یہ دعا اور پکار عبادت کا سب سے اہم فرد ہے) اور جس طرح عبادت اللہ کے سوا کسی کی جائز نہیں اسی طرح یہ دعا اور پکار بھی اللہ کے سوا کسی کی جائز نہیں۔ شاہ ولی اللہ الفوز الکبیر میں فرماتے ہیں۔ " مفسرین حاصل معنی بطریق افہام بیان می کنند مردمانِ ناواقف گمان می کنند کہ لفظی معنی کردہ اند۔ دعا بمعنی مطلق خواندن کسے را منع نیست۔ مراد از خواندان کسے رادر غائبانہ حاجات است، لہٰذا مفسرین تفسیر بعبادت می کنند " شاہ صاحب کی عبارت سے معلوم ہوا کہ غیر اللہ کو پکارنا دو قسم ہے ایک غائبانہ حاجات میں یعنی مافوق الاسباب۔ مفسرین کرام یَدْعُوْنَکی تفسیریَعْبُدُوْنَ سے کر کے اس طرف اشارہ فرما رہے کہ مافوق الاسباب غائبانہ حاجات میں پکارنا عبادت ہے اس لیے اللہ کے ساتھ مخصوص ہے اور غیر اللہ کے لیے شرک ہے۔ پکار کی دوسری قسم ماتحت الاسباب ہے اور وہ غیر اللہ کے لیے جائز ہے جیسا کہ وَّالرَّسُوْلُ يَدْعُوْكُمْ فِيْٓ اُخْرٰىكُمْ (آل عمران :153) اور لَا تَجْعَلُوْا دُعَاۗءَ الرَّسُوْلِ میں ہے جیسا کہ تفصیل سے مذکور ہوچکا ہے۔ نیز تمام اہل لغت نے دعا کے معنی خواندان (پکارنا) سے کیے ہیں عبادت سے نہیں کیے اور مفسرین کا کام لغوی معنی بیان کرنا نہیں بلکہ ان کا کام تو مطلب اور تفسیر بیان کرنا ہے۔
Top