Tafseer-e-Jalalain - Al-Faatiha : 6
اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَۙ
اِهْدِنَا : ہمیں ہدایت دے الصِّرَاطَ : راستہ الْمُسْتَقِيمَ : سیدھا
ہم کو سیدھے راستے چلا
اھدنا الصراط المستقیم یہ ایک بڑی اور جامع دعاء ہے جس چیز کی اس میں دعاء کی گئی ہے اس سے کوئی فرد بےنیاز نہیں، اور وہ ہے ” صراط مستقیم “ صراط مستقیم کی ہر کام میں ضرورت ہوتی ہے خواہ دین کا ہو یا دنیا کا، اب رہی یہ بات کہ وہ صراط مستقیم ہے کیا ؟ اس کی نشاندہی اگلی آیت میں کی گئی ہے۔ صراط الذین انعمت علیھم یعنی ان لوگوں کا راستہ کہ جن میں افراط وتفریط نہ ہو، اور وہ، وہ لوگ ہیں جن پر تو نے انعام فرمایا، اور ان منعم علیہم کو ایک دوسری آیت ” الَّذِیْنَ اَنَعَمَ اللہ عَلَیھم “ (الآیۃ) میں بیان کیا گیا ہے یعنی وہ لوگ جن پر اللہ تعالیٰ کا انعام ہوا، یعنی انبیائ اور صدیقین اور شہداء اور صالحین، مقبولین بارگاہ کے یہ چار درجات ہیں جن میں سب سے اعلیٰ انبیاء (علیہم السلام) ہیں۔ اس آیت میں پہلے مثبت اور ایجابی طریق سے صراط مستقیم کو متعین کیا گیا ہے کہ ان چار طبقوں کے لوگ جس راستہ پر چلیں وہ صراط مستقیم ہے، اس کے بعد آخری آیت میں سلبی طریقہ پر اس کی تعین کی گئی ہے ؛ چناچہ ارشاد فرمایا : غیر المغضوب علیھم ولا الضالین یعنی نہ راستہ ان لوگوں کا جن پر آپ کا غضب نازل ہوا، اور نہ ان لوگوں کا جو راستہ سے بھٹک گئے، مغضوب علیہم سے وہ لوگ مراد ہیں جو دین کے احکام کو جاننے پہچاننے کے باوجود شرارت یا نفسانی اغراض کی وجہ سے ان کی خلاف ورزی کرتے ہیں، جیسا کہ عام طور پر یہود کا یہی حال تھا کہ دنیا کے ذلیل مفاد کی خاطر دین کو قربان کرتے اور انبیاء (علیہم السلام) کی توہین کرتے تھے۔ اور ضالین سے وہ لوگ مراد ہیں جو ناواقفیت اور جہالت کے سبب دین کے معاملہ میں غلط راستہ پر پڑگئے ہیں، جیسا کہ نصاری کا عام طور پر یہی حال تھا کہ نبی کی تعظیم میں اتنے بڑھے کہ انہیں خدا بنا لیا، اور دوسری طرف یہ ظلم کہ اللہ کے نبیوں کی بات نہ مانی ؛ بلکہ انہیں قتل کرنے تک سے گریز نہ کیا۔ (واللہ اعلم بالصواب)
Top