ترکیب : صِرَاط مضاف الَّذِیْنَ مضاف الیہ موصول اَنْعَمْتَ عَلَیْہْمْ فعل بافاعل و ضمیر عاید اس کا صلہ۔ موصول و صلہ مل کر مضاف الیہ ہوا مضاف کا وہ مضاف اپنے مضاف الیہ سے مل کر بدل کل ہوا الصراط المستقیم سے۔ یعنی صراط مستقیم سے مراد وہ رستہ ہے کہ جو انبیاء (علیہم السلام) اور ان کے متبعین کا ہے۔ غَیْرْ الْمَغْضُوْبْ عَلَیْہْمْ معطوف علیہ ولا الضَّآلِّــیْنَ معطوف۔ معطوف اور معطوف علیہ دونوں مل کر الذین سے بدل ہوا۔ یعنی جن پر تو نے انعام کیا ہے ان سے مراد وہ لوگ ہیں کہ جن پر تیری خفگی نہیں ہوئی ہے اور نہ وہ گمراہ ہیں تاکہ کوئی انعام دنیاوی سمجھ کر گمراہ دولت مندوں اور بادشاہوں کا طریقہ نہ سمجھ لے۔ یہاں یہ سورة تمام ہوگئی۔
1 ؎ بچن۔ قول
2 ؎ کرم۔ فعل
تفسیر : نعمت 1 ؎ : لغت میں نرمی کو کہتے ہیں۔ ثوب ناعم اور جلد ناعم بولتے ہیں۔ یعنی نرم کپڑا یا نرم جلد۔ پھر اس حالت سرور و لذت پر اس مناسبت سے لفظ نعمت 2 ؎ بولنے لگے لیکن مراد اس سے وہ چیزیں لینے لگے کہ جن سے انسان کو راحت اور سرور پیدا ہوتا ہے اور انعام نعمت کسی کو اس طرح پر دینا کہ اس سے صرف احسان مقصود ہو اپنی کوئی غرض نہ ہو اور اسی لیے خدائے تعالیٰ کے سوا کسی کو منعم حقیقی نہیں کہہ سکتے ہاں مجازاً اطلاق کرسکتے ہیں۔
ہرچند خدائے تعالیٰ کی نعمتیں بیشمار ہیں جیسا کہ وہ خود فرماتا ہے وَاِنْ تَعُدُّوْا نِعْمَۃَ اللّٰہِ لَا تُحْصُوْھَا (ترجمہ) ” کہ اگر تم خدا کی نعمتیں گنو تو شمار نہ کرسکو گے “ لیکن ان کی دو قسمیں ہیں ایک دنیوی دوسری اخروی۔ پھر دنیوی کی دو قسم ہیں ایک وہبی کہ جس میں بندہ کو کچھ دخل نہیں۔ دوسرے کسبی کہ جو بندے کے کسب اور کام سے علاقہ رکھتے ہیں۔ پھر وہبی کی دو قسم ہیں ایک روحانی جیسا کہ اس کی روح کو پیدا کرنا اور پھر اس کے بدن سے متعلق کرنا کہ جس کو زندگی دنیاوی کہتے ہیں اور پھر اس کو عقل سے منور کرنا اور اس کے متعلق قوی فہم و فکر و نطق وغیرہ عطا کرنا۔ دوسرے جسمانی جیسا کہ اس کا بدن پیدا کرنا اور اس میں قوائے غادیہ و نامیہ وغیرہا کہ جن سے اس کا قوام بدن ہے ‘ عطا کرنا اور اس کے اعضا ہاتھ پائوں آنکھ ناک کو کامل بنانا اور پھر اس کے متعلق کھانا اور کپڑا اور دیگر حوائج وزینت ‘ روپیہ پیسہ ‘ زن و فرزند ‘ مکان و سواری وغیرہ وغیرہ بیشمار چیزیں ہیں یہ نعمتیں خدائے تعالیٰ کی کافرو مومن نیک و بد سب کو عطا ہیں چونکہ بندہ کو مفت ملی ہیں اس لیے قدر نہیں کرتا اگر ان میں سے ایک تندرستی اور فراخ دستی ہی کو دیکھا جائے تو کیسی نعمت ہے اور پھر ایک آنکھ یا ناک وغیرہ اعضاء کے لیے اگر لاکھوں روپیہ صرف کرے تو کہیں دستیاب نہ ہوں۔ ادنیٰ سی بات جوانی میں بالوں کا سیاہ ہونا ہے پھر اس کے لیے بڑھاپے میں لوگ خضاب لگا کر جو کچھ مشقت اٹھاتے ہیں بیان سے باہر ہے۔ پھر پانی اور ہوا اور طرح طرح کی خوشبوئیں اور میوے اور قسم قسم کے اناج اور نفیس کپڑے سب خدا کی مخلوق ہیں جو بندہ کے کام میں آتے ہیں بندہ کا اس میں خانہ زاد کچھ بھی نہیں اور کسبی بھی بہت سی نعمتیں ہیں جیسا کہ اخلاق حمیدہ سے نفس کو مزین بنانا اور علم و فضل ‘ صنعت اور طرح طرح کی آرائشیں ظاہری و باطنی پیدا کرنا۔ یہ بھی سب ادھر سے ہیں لیکن قدرے بندے کے کام کو دخل ہے مگر مراد کو وہی پہنچاتا ہے۔ ورنہ اپنی سعی و کوشش سلطنت اور دیگر کمالات حاصل کرنے میں کون کمی کرتا ہے۔ اخروی نعمتوں کے بھی بیشمار اقسام ہیں جیسا کہ بندہ کو اپنی معرفت اور ہدایت اور تقرب وغیرہ آخرت کے وسائل عطا کرنا اور اس کے گناہ معاف کرنا اور مرنے کے بعد اس کو عالم برزخ (قبر) اور عالم حشر میں جنت دینا اور اس میں صد ہا وہ نعمتیں کہ جن کو نہ کسی آنکھ نے دیکھا نہ کان نے سنا ہے نہ کسی کے دل پر ان کا خیال گزرا ہے اور سب سے بڑھ کر وہاں کا دوام اور اس کا دیدار ہے اللہم ارزقنا رؤیتک فی جنت الفردوس۔ آمین
1 ؎ نعمت بالفتح۔ 12 منہ۔
2 ؎ نعمت بالکسر یہ دنیا کی تمام عیش و عشرت ‘ دولت و جوانی ‘ حسن و خوبی ‘ اقبال و شہرت سب خواب و خیال ہیں جس طرح کوئی رات کو خواب میں شادی کرے اور نہایت خرمی اٹھاوے یا تخت سلطنت پاوے صبح کو جب آنکھ کھلے تو کچھ نہ دیکھنا۔ یہی حال اس چند روزہ زندگی اور اس کی بہار کا ہے۔ اگر کسی کو اس بات کا معائنہ کرنا ہو تو پرانے کھنڈرات بالخصوص پرانی دہلی میں بادشاہوں کی شکستہ عمارات اور کو شک ہزار ستون کی بنیاد دیکھے اور توزک سلاطین تیموریہ کا آئینہ عبرت لال قلعہ ہے۔ دہلی کے کسی بڑے بادشاہ نے اخیر عمر میں جب برسفر تھے کیا حسرت کے یہ اشعار کہے ؎
چوں گل دریں جہاں چمیدیم
سیار نعیم وناز دیدیم
اسپان بلند بر نشتیم
ترکان گراں بہا خریدیم
کردیم بسے نشاط و آخر
چوں قامت ماہ نو خمیدیم
عالم گیر کے اشعار
پس آپ کو جب نعمائِ الٰہی کا کسی قدر حال معلوم ہوا تو اب یہ جان لیجئے کہ اس آیت میں (کہ جن پر اے خدا تو نے نعمت کی ہے ان کی راہ پر چلا) نعمت اخرویہ مراد ہے۔ کس لیے کہ دراصل جس قدر دنیا کی نعمتیں ہیں سب فانی ہیں باقی نعمتیں اخرویہ ہیں۔ سو ان کے مقابلہ میں کالعدم ہیں۔ دوم دنیاوی نعمتوں میں تو گمراہ بھی شریک ہیں پھر ان کی راہ کیونکر مطلوب ہوسکتی ہے ان کی راہ تو سیدھی غمکدئہ جہنم میں جاتی ہے اعاذنا اللہ منہا اور یہ بھی واضح ہو کہ جن کو خدائے تعالیٰ نے اخروی نعمتیں عطا فرمائی ہیں وہ چار گروہ ہیں جیسا کہ خود ایک جگہ فرماتا ہے وَمَنْ یُّطِیْعَ اللّٰہَ وَالرَّسُوْلَ فَاُوْلٰٓئِکَ مَعَ الَّذِیْنَ اَنْعَمَ اللّٰہُ عَلَیْھْمْ مِنَ النَّبِیّْیْنَ وَالصِّدِّیْقِیْنَ وَالشُّھَدَآئِ وَالصّٰلِحِیْنَ وَحَسُنَ اُوْلٰٓئِکَ رَفِیْقًا ” کہ جس نے اللہ اور رسول کی اطاعت کی تو وہ ان لوگوں کے ساتھ رہے گا کہ جن پر خدا نے انعام کیا اور وہ انبیاء اور صد یقین اور شہداء اور صالحین ہیں اور یہ اچھے رفیق ہیں۔ “
آپ کو یہ تو معلوم ہوگیا کہ عالم غیب سے یہ صراط مستقیم اول انبیاء (علیہم السلام) کو عطا ہوتا ہے اور پھر ان کا پرتو صدیقین پر پڑتا ہے اور ان کا شہیدوں پر اور ان کا صالحین پر۔ کس لیے کہ خدائے تعالیٰ نے انسان کو دو قوتیں عطا فرمائی ہیں۔ ایک قوت نظریہ کہ جس کی وجہ سے اشیاء کا علم حاصل ہوتا ہے اور اس قوت کی تکمیل کی دو صورتیں ہیں ایک انکشاف کہ روح کو نور قدس سے وہ صفائی حاصل ہو کہ پھر حجابات اور ظلمات ادراک حقائقِ اشیاء سے مانع نہ آویں۔ اس کا قلب عالم غیب کا خزانہ ہوجائے اگر بغیر اکتساب وتعلیم یہ بات اس کو حاصل ہے تو وہ نبی ہے۔ پھر انبیاء کے بھی مراتب متفاوت ہیں۔ اعلیٰ درجہ میں رسول اولوالعزم ہیں اور ان سب کا سلسلہ ایک شخص کی طرف منتہی ہے کہ جو عالم روحانی میں خداوند تعالیٰ کے ظہور کا اول پرتو ہے کہ پھر جو اور مخلوقات ہے سب اس کی تفصیلات 1 ؎ ہیں اور عالم حسی میں وہ سب سے اخیر ہے جس کو حقیقت محمدیہ کہتے ہیں ﷺ کیا خوب کہا ہے کسی نے ؎
تو اصل وجود آمدی ازنخست
دگر ہرچہ موجود شد فرع تست
پس چونکہ کل کائنات اسی کے وجود کے انبساطات ہیں اس لیے جس طرح اپنے وجود کا علم ضروری ہے ان کا بھی ضروری ہے۔ اس لیے تمام علوم کا سرچشمہ آنحضرت ﷺ ہیں چناچہ خود بھی ارشاد فرماتے ہیں کہ مجھ کو تمام اولین و آخرین کے علم دیئے گئے ہیں اور چونکہ بنی آدم از علم یا بدکمال کمال کا اعلیٰ مرتبہ قوت علمیہ کی تکمیل ہے اور آپ اس میں سب سے بڑھ کر ہیں۔ اس لیے آنحضرت سید المرسلین قرار پائے۔ الحاصل نبی وہ ہے جس کی قوت علمیہ انکشافِ الٰہی سے نہایت کمال کو پہنچ جائے کہ پھر اس میں غلطی کا احتمال نہ رہے اور اس کی قوت عملیہ بھی مکمل ہوجاتی ہے کہ جس سے ہر قسم کے گناہوں سے محفوظ و معصوم رہتا ہے اور اس کی روحانی قوت سے خرق 2 ؎ عادات و معجزات اس کی
1 ؎ اس کی ایک چھوٹی سی مثال دیتا ہوں کہ جس سے ایک چیز کا سب سے اول ہونا اور آخر ہونا سمجھ میں آجائے۔ کسی درخت کے تخم کو دیکھئے کہ وہ اس درخت کی اصل ہے پھر اس سے دو پتے نکلتے ہیں یہ ایک مرتبہ تفصیل کا ہوا پھر کس قدر شاخیں نکالتا ہے یہ دوسرا مرتبہ اس تخم کی تفصیل کا ہوا۔ پھر تمام شاخیں اور پتے اور پھل پھول نمودار ہوتے ہیں۔ یہ تیسرا مرتبہ تفصیل کا ہوا کہ اس تخم میں جس قدر یہ چیزیں مجملاً ودیعت تھیں سب باہر آگئیں اور تفصیل ہوگئیں پھر تخم سب سے اخیر پھل میں آگیا۔ یہ تخم جو پھل میں نمودار ہوا ہو اگر کسی قدر تعینات کا لحاظ کیا جائے تو وہی پھل ہے کہ جس سے یہ تمام درخت پیدا ہوا۔ اب دیکھئے یہ تخم سارے درخت سے مقدم ہے مگر موخر بھی ہے۔ یہی حال حقیقت محمدیہ اور تمام سلسلہ انبیاء کا ہے فتامل۔ 12 منہ
2 ؎ معجزات کبھی اقوال ہوتے ہیں جیسا کہ غیب کی خبر دینا اور بےمثل کلام کہ جس میں کہ ہر طرح کی ہدایت مع غایت فصاحت ہو جیسا کہ قرآن مجید یا افعال ہیں جیسا کہ انگلیوں سے پانی جاری کرنا اور چاند کے دو ٹکڑے کردینا اور درختوں کا حاضر کردینا۔ ایک مشت خاک سے لشکر کو اندھا کردینا وغیرہ وغیرہ اور جس طرح انبیاء کو تصدیق کے لیے معجزات دیے جاتے ہیں اسی طرح ان کو آیات عقلیہ بھی ملتی ہیں۔ پھر ان آیات عقلیہ کی یہی چند قسم ہیں۔ ازان
تصدیق کے لیے ظاہر ہوتے ہیں اور جو لوگ ان کے فیض صحبت اور اثر تربیت سے اس درجہ علیا کو پہنچتے ہیں ان کو صدیق کہتے ہیں جیسا کہ صحابہ میں ابوبکر ؓ تھے اور پھر تابعین اور تبع تابعین اور ان کے بعد اور ہزارہا صدیقین گزرے ہیں کہ جن کے فیوض اور انوار نے ایک عالم کو منور کر رکھا ہے اگرچہ حکمائے اشراقیہ اور دیگر اہل ریاضت جیسا کہ ہنود کے جوگی وغیرہم بھی اس انکشاف سے کسی قدر بہرہ یاب ہوتے ہیں مگر بسبب اختلاط قوت وہمیہ کے غلطیوں سے محفوظ نہیں اور نہ یہ قوت ان کے حد کمال تک پہنچتی ہے بلکہ وہ ایسے ہیں کہ جس طرح کسی طائر کے تھوڑے سے پر ہوں اور وہ اچھی طرح نہیں اڑ سکتا کسی قدر تڑپتا ہے اور گر پڑتا ہے اور وہ لوگ عقاب کی طرح اڑتے ہیں اس لیے ان کا اعتبار نہیں ان کا اعتبار ہے اور وہی قابل اقتداء ہیں مگر عام لوگ ان کی ان ادنیٰ باتوں پر بھی گرویدہ ہوجاتے ہیں اور ان کو خدا بنا لیتے ہیں۔ چناچہ مدینہ منورہ میں آنحضرت ﷺ کے عہد میں ایک شخص ابن صیاد تھا کہ حضرت نے اس سے دخان دل میں رکھ کر پوچھا تو دخ کہہ کے رہ گیا اور اب بھی ہزاروں ایسے شعبدہ باز ہیں۔ دوسری صورت استدلال اور تجربہ وغیرہ امور ہیں گو ان چیزوں سے عقل کو ترقی ہوتی ہے مگر کمال کو نہیں پہنچتی۔ کس لیے کہ استدلال میں جو کچھ خرابیاں پیش آتی ہیں اس کے تو حکمائِ مشائین بھی قائل ہیں کہ جن کی اصلاح کے لیے فن منطق تدوین کیا تھا اور اس کے بعد بھی ارسطاطالیس وغیرہ بہت سے حکیم اغلاط سے نجات نہ پا سکے جیسا کہ ان کے فلسفہ سے ظاہر ہے۔ کیا خوب کہا ہے کسی نے ؎
پائے استدلالیاں چوبیں بود
پائے چوبیں سخت بےتمکیں بود
اور تجربہ کا یہ حال ہے کہ انسان کی جوں جوں عمر زیادہ ہوتی جاتی ہے تجربہ اور مشاہدہ سے عقل بڑھتی جاتی ہے مگر اس کے ساتھ ہی یوماً فیوماً حواس میں بھی فرق آنے لگتا ہے پس جس طرح بوڑھے لوگ دانائی کے لقب سے ممتاز ہیں اسی طرح کم عقلی کا بھی خطاب ان کو ملتا ہے۔ اس کے سوائے تجربہ کو امور آخرت وغیرہ یعنی فن نبوات سے کیا علاقہ ؟ اس لیے یہ فریق بھی معتبر نہ رہا اور ان کو خود حضرات انبیاء (علیہم السلام) کا متبع ہونا پڑا۔ دوسری قوت علمیہ ہے کہ جس سے کسی قول کے نتیجہ پر یقین کر کے اس کو عمل میں لاتے ہیں۔ پس جن لوگوں پر انبیاء (علیہم السلام) اور ان کے صدیقوں کا اثر پڑتا ہے اور ان کو ثواب اور وعدئہ الٰہی کی پوری تصدیق ہوجاتی ہے (گویا یہ اس کے پاس پہنچ گئے ہیں اور اس وجہ سے اس پر یہاں تک عمل کرنے کو آمادہ ہیں کہ اپنی جان تک دریغ نہیں کرتے) ان کو شہید 1 ؎ کہتے ہیں گو وہ زندہ ہوں مگر جب اس مرتبہ پر پہنچ
جملہاخلاق حمیدہ ہیں وبیان شافی و حجۃ واضحہ ہے۔ انوارِصحبت تکمیل نفس ہے کہ اس نبی ﷺ کی صحبت سے نفس کو کمال حاصل ہوجائے۔ ازان جملہ خیر و برکات و نیک وقتی ہے کہ اس کے یمن و برکت سے انسان کو ہر قسم کی نیک چلنی اور خیر و برکت حامل ہوجائے۔ پس جس طرح کہ ناقص لوگوں کو معجزات سے نبی کی تصدیق ہوتی ہے کاملوں کو اس سے بڑھ کر آیات عقلیہ سے تصدیق ہوجایا کرتی ہے۔ ہمارے نبی ﷺ کو اس قدر معجزات عطا ہوئے تھے کہ آج تک کسی نبی کو نہیں ملے مگر ان سے دو چند حضرت کو آیات عقلیہ عنایت ہوئی تھیں جس سے امت محمدیہ کا کمال معلوم ہوتا ہے یعنی جناب محمد ﷺ کی امت ایسی کوڑ مغزی نہیں کہ ان کو سوائے موٹی موٹی باتوں کے اور لطیف باتوں سے نبوت کے دریافت کرنے کا حصہ ہی نہیں ملا۔ دیکھئے اہل سنت اور حکمائِ اشراقیہ آیت عقلیہ سے دوسرے شخص کے کمالات کیسے جلد دریافت کرلیتے ہیں اور دیکھئے وائسرائے کا حاکم ہندوستان ہونا حامیوں کو ظاہری تحمل فوج و شوکت سے معلوم ہوتا ہے اور جو پارلیمنٹ کے ممبر ہیں ان کو اس کی کچھ حاجت نہیں وہ بغیر اس ظاہری تحمل کے یقین کامل کرتے ہیں۔ پس زیادہ ظاہری تحمل کے ساتھ رہنا وایسرائے کی خوبی اور کمال نہیں۔ بلکہ عامیوں کے نقصان عقل کی دلیل ہے۔ 12 منہ
1 ؎ پس جس طرح نبی کو اس لیے نبی کہتے ہیں کہ لفظ نبوت کے معنی علم و خبر کے ہیں اور وہ لوگوں کو اپنے علم سے خبر دیتا ہے اسی طرح صدیق چونکہ صداقت والا ہوتا ہے اور نبی کی تصدیق کرتا ہے اس کو صدیق کہتے ہیں اور شہادت کے معنی حاضر ہونے کے ہیں اور چونکہ گواہ مواقع پر حاضر ہوتا ہے۔ اس لیے اس کو شاہد
جاتے ہیں تو شہید ہی کہلاتے ہیں اور چوں کہ انہوں نے اپنی حیات مستعار کو دریغ نہ کیا تو اس کے بدلہ میں خدا ان کو حیات ابدی نصیب کرتا ہے کہ جس کی نسبت فرماتا ہے وَلَا تَقُوْلُوْا لِمَنْ یُّقْتَلُ فِیْ سَبْیْلِ اللّٰہِ اَمْوَاتًا بَلْ اَحْیَآئٌ وَّلٰکِنَّ لَّا تَشْعُرُوْنَ ” کہ جو خدا کی راہ میں مارے گئے ان کو مردہ نہ کہو وہ زندہ ہیں مگر تم کو خبر نہیں۔ “ کیا خوب کہا ہے کسی نے ؎
کشتگان خنجر تسلیم را
ہر زماں ازغیب جانے دیگر است
اور اسی لیے بعد مردن بھی ان کی روح سے امور عجیبہ اور اسرار غریبہ سرزد ہوتے ہیں۔ اور چونکہ ان کی یہ کارروائی ملائِ اعلیٰ کے موافق اور حسب خواہش ہوتی ہے تو ان کی یہ خواہش باغ اور خوشبو اور طرح طرح کی راحتوں میں ظہور کرتی ہے۔ اسی لیے نبی ﷺ نے فرمایا ہے کہ دنیا میں پھر آنے کی کوئی آرزو نہ کرے گا مگر شہید کہ وہ اس ذائقہ کے لیے پھر آنے کی آرزو کرے گا اور اسی لیے اس شہادت کی آرزو میں آنحضرت ﷺ فرماتے ہیں کہ واللہ میری یہ آرزو ہے کہ خدا کی راہ میں مارا جائوں اور پھر زندہ ہوئوں اور پھر مارا جائوں (مشکوٰۃ) یہ بات کہ اول قطرئہ خون سے شہید کے تمام گناہ معاف ہوجاتے ہیں منجملہ اور فضائل کے ایک ادنیٰ بات ہے۔ اسی لیے حضرت عمر ؓ یہ کہا کرتے تھے اللّٰھُمَّ ارْزُقْنِیْ شَھَادَۃً فِیْ سَبْیْلِکَ وَاجْعَلْ مَوْتِیْ بْبَلَدِ رَسُوْلِکَ ” الٰہی مجھ کو اپنی راہ میں شہادت نصیب کر اور اپنے رسول کے شہر میں موت دیجیو “ چناچہ خدا نے ان کی دعا قبول کی۔ الٰہی میں بھی دعا کرتا ہوں ؎
آرزو یہ ہے کہ تیری راہ میں
ٹھوکریں کھاتا ہمارا سر چلے
جس طرح حضرت مسیح (علیہ السلام) کے مریدوں میں استیقان (رح) یروشلم میں شہید ہوئے ہیں آنحضرت ﷺ کے صحابہ ہر جگہ صد ہا شہید ہوئے ہیں اور اگر یہ دونوں قوتیں کمال پر نہیں پہنچیں مگر اس کو حضرات انبیاء سے کمال درجہ کا اتباع ہے تو اس کو صالح کہتے ہیں۔ پس یہ وہ لوگ ہیں کہ جن پر خدائے تعالیٰ نے رحمت کی اور نعمت دی۔ حضرت ﷺ کی امت میں قیامت تک صدیق اور شہید اور صالح پیدا ہوتے رہیں گے۔
متعلقات : غضب : انسان کی ایک کیفیت ہے کہ جس میں خون دل جوش مارتا ہے اور روح حیوانی مکروہ کے دفع کرنے کو اور دشمن کے مقہور کرنے کو باہر کی طرف متوجہ ہوتی ہے۔ پس یہ بات ذات باری تعالیٰ کی نسبت محال ہے کیونکہ خون دل کا جوش مارنا جسمانی چیزوں اور ممکنات کا خاصہ ہے۔ پس اس صفت سے مراد اس کی غایت اور اثر ہے یعنی دشمن اور مخالف کا مقہور کرنا اور تمام صفات رحمت اور استہزاء اور خدع اور مکر وغیرہ جو قرآن مجید میں خدائے تعالیٰ کی نسبت واقع ہیں سب کے مجازی معنی اثر اور غایت مراد ہے۔ کس لیے کہ خدا تعالیٰ کو ممکنات سے کسی بات میں اشتراک نہیں مگر جب کہ اس کی صفات تعبیر کرنی پڑیں تو لامحالہ وہی الفاظ استعمال کرنے پڑے کہ جو بندوں کی صفات کے لئے وضع کئے گئے تھے۔ خدا تعالیٰ کا غصہ اس کی برخلافی اور سرکشی پر ہوتا ہے کہ جس کا نتیجہ دین و دنیا کی خرابی و بربادی ہے۔ خدا اپنے غضب سے محفوظ رکھے۔ آمین
ضلال : ہدایت کا ضد ہے۔ یعنی اس رستہ پر چلنا کہ جس سے مقصود کو نہ پہنچے۔ پس جس طرح ہدایت کے مراتب مرتبہ ہیں اسی طرح
کہتے ہیں اور شہید چونکہ اپنے دل سے ایسی تعمیل کرتا ہے گویا اس کے نتیجہ کے پاس پہنچ گیا اور حاضر ہوگیا۔ اس لیے اس کو شہید کہتے ہیں۔ اور چونکہ صالح نیک ہوتا ہے اس کو صالح کہتے ہیں۔ یہ لغوی معنی ہیں ورنہ حقیقت ہر ایک کی ہم اوپر بیان کر آئے ہیں۔ 12 منہ
ضلالت کے مراتب مرتبہ ہیں اور جس طرح ہدایت کے مراتب غیر متناہی ہیں اسی طرح ضلالت کے مراتب بھی لاانتہا 1 ؎ ہیں۔ الغرض ہر ہدایت کے مقابلہ میں ایک ضلالت ہے۔ پس جس کو دس مرتبے ہدایت کے حاصل ہوئے اس سے اوپر گیارہویں مرتبہ میں ہنوز ضلالت ہے۔ ایک بڑے سے بڑے کامل کو کہ ہنوز اخیر مرتبہ کمال کی اس کو ہدایت نہیں ہوئی اس مرتبہ کے لحاظ سے ضال کہہ سکتے ہیں اور اسی وجہ سے قرآن مجید میں آنحضرت ﷺ کو یہ فرمایا ہے وَوَجَدَکَ ضَآلًا فَھَدٰی کہ آپ جب تک مرتبہ نبوت اور وحی جلی کی ہدایت کو نہ پہنچے تھے۔ اس مرتبہ میں ضال تھے۔ پھر اس کی آپ کو ہدایت کردی۔ بعض بےعلم عیسائیوں نے اس لفظ کو عرفی ضلالت پر محمول کر کے آنحضرت ﷺ کی نسبت قبل نبوت گمراہی کا الزام لگایا ہے اور پولوس مقدس پر قیاس کیا ہے کہ ابتداء میں سخت بےدین تھا۔ چناچہ حضرت استیقان کے شہید کرنے والوں میں شامل تھا اور پھر ہر روز دینداروں کو قتل کرتا اور ستاتا تھا۔ اور دمشق کو کاہنوں کا خط لے کر ایمانداروں کو قتل کرنے چلا تھا کہ حضرت مسیح (علیہ السلام) نے روحانی تصرف سے اس کو اندھا کردیا اور پھر یہ شخص عیسائیوں کا وہ پیشوا ہوا کہ جس نے حضرت مسیح (علیہ السلام) کو بھی ملعون کہا اور تمام شریعت موسیٰ (علیہ السلام) اور تورات کو منسوخ کردیا۔ چناچہ یہ سب باتیں کتاب اعمال اور نامجات سے ظاہر ہوتی ہیں۔
یہ ضلالت یعنی گمراہی کبھی اختیاری ہوتی ہے کہ اسباب گمراہی کو از خود اختیار کرلیا جاوے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَاَمَّا ثَمُوْدُ فَھَدَیْنَاھُمْ فَاسْتَحِبُّوْا الْعَمٰی عَلَی الْھُدٰی ” کہ ہم نے ثمود کو اسباب ہدایت تو میسر کردیے تھے مگر انہوں نے از خود اسباب گمراہی کو اختیار کیا۔ “ وَاضلَّہُ اللّٰہُ عَلٰی عِلْمٍ بھی اسی قبیل سے ہے۔ اور یہ بات کبھی لذات جسمانیہ کو لذات روحانیہ پر مقدم کرنے سے حاصل ہوتی ہے اور کبھی حبِّ جاہ و مال سے پیدا ہوتی ہے اور کبھی پابندی رسم و عادات سے بھی حاصل ہوتی ہے اور کبھی صحبت بد سے اور کبھی نفس کو لذات اور خواہشوں میں شتر بےمہار کرنے سے اور جب نفس موٹا ہوجاتا ہے تو اسے نیکی سے نفرت پیدا ہوتی ہے جیسا کہ آج کل ہم اوباشوں کو دیکھتے ہیں کہ دن رات چانڈو اور بھنگ اور افیون اور شراب اور ناچ و رنگ گنجفہ و شطرنج میں غرق رہتے ہیں اور رنڈی بھڑو وں کو ہر وقت اپنی صحبت میں رکھنا اور ہا ہا ہو ہو اور فحش بکنے میں شب کے دو بجے تک جاگنا اور صبح کو دس بجے اٹھنا اور پھر کنگھی چوٹی میں باقی وقت ضائع کردینا اور پھر بٹیر بازی ‘ کبوتر بازی ‘ پتنگ بازی میں مصروف ہونا ان کے خمیر میں داخل ہوگیا۔ الغرض رات دن میں نہ خدا کا نام کبھی ان کے منہ سے نکلتا ہے نہ موت کا دھیان آتا ہے اور نہ دنیا کے کاروبار کا دل و دماغ ‘ نہ سلطنت و ملک کی کچھ خبر۔ عدل و انتظام مالی و ملکی تو کجا اور بیدار مغزی سے کیا علاقہ۔ ان لوگوں کا جس طرح حصہ دینی برباد ہوگیا دنیاوی حصہ بھی برباد ہوتا جاتا ہے۔ اگر باور نہ آئے تو ہندوستان کے رئیسوں اور امیروں کو دیکھ لیجئے اور ان کے ملک کی اندرونی حالت کو غور کرلیجئے انہیں خرافات کی بدولت سلطنت تیموریہ برباد ہوئی ‘ انہیں کی وجہ سے لکھنؤ اور مرشد آباد وغیرہ بڑی بڑی ریاستوں پر جھاڑو پھر گئی اور جو باقی ہیں ان کو عبرت نہیں۔ لشکر کی یہ حالت کہ پرانی توپوں پر زنگ لگا ہوا ہے۔ توڑے دار بندوقوں اور بیڈول اور نکمے ہتھیاروں کے بوجھ نے سپاہیوں کی پشت کو توڑ دیا ہے۔ ایک پائوں میں جوتی تو دوسرا ننگا۔ وردی ندارد اور جو پھٹی پرانی کہیں سرکارِانگریزی سے نیلام میں خرید لی ہے تو اس کی درستگی کی نوبت نہیں پہنچتی۔ نہ قواعد نہ پریڈ۔ نہ افسر قواعد جنگ سے واقف۔ افسر کون ؟ وہی امیروں کی نالائق اولاد کہ جن کو اپنے تن کا بھی ہوش نہیں۔ رئیس کے دیوان یا وزیر کون وہی عیاش یا ان کی اولاد کہ جنہوں نے رئیس کو لغویات میں بالکل بےہوش کر رکھا ہے۔ خزانہ کی حالت تباہ ‘ دروازے پر ہزاروں دادخواہ۔ نہ رعایات میں دینی مدارس نہ فنون کی تعلیم نہ علوم جدیدہ کے لیے کوئی جماعت مستثنیٰ ۔ حتیٰ کہ تمام ملک میں کوئی کارخانہ عمدہ بھی کسی چیز کا نہیں اور جو ہے تو غیرلوگوں کے اہتمام سے۔ نہ یہ توفیق کہ اپنی رعایا میں سے دس بیس کو غیرممالک میں تعلیم پانے کو بھیج کر اپنی رعایا میں وہ ہنر عموماً شائع کئے جاویں۔ نہ کوئی جنگی فوج کا حصہ
1 ؎ اور اسی لیے باوجودیکہ بندہ اس کے روبرو پہنچ گیا پھر اھدنا الصراط المستقیم کے سوال کرنے کا حکم ہوا کیونکہ قرب الٰہی کی نہایت نہیں ؎
اے برادر بےنہایت در گہیست
ہرچہ بردی میرسی بروے بایست
کہ جس سے مخالف کے دل پر کوئی اثر ہو نہ رعایا کو عام قواعد سکھانے کی خواہش۔ نہ والنٹیر لشکر رکھنے کی لیاقت۔ قلم کہاں سے کہاں چل نکلا۔ الغرض اس مرتبہ میں دل پر ایک زنگ لگ جاتا ہے کہ جس کو رین کہتے ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کلاَّ بَلْ رَّانَ عَلٰی قُلُوْبْھْمْ مَا کَانُوْا یَکْسِبُوْنَ پھر جب اس حالت کو توبہ اور تنبیہ کے صابون سے نہیں دھویا جاتا تو غشاوہ کی نوبت آتی ہے یعنی دلوں پر پردے پڑجاتے ہیں۔ پھر اس پر جب کچھ مدت گزرتی ہے تو ختم کی نوبت آتی یعنی دلوں پر مہر لگ جاتی ہے۔ اس کے بعد نوبت قفل کی آتی ہے اس کے بعد دل مرجاتا ہے۔ اس کے بعد نہ کوئی نصیحت اثر کرتی ہے نہ کوئی معجزہ کارگر ہوتا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے لاَ یَنْفَعُ الاَْیَاتِ وَالنُّذُوْرْ اور یہ بھی آتا ہے۔ سَوَآئٌ عَلَیْھْمْ ئَاَنْذَرْتَھُمْ اَمْ لَمْ تُنْذِرْھُمْ لاَ یُؤْمِنُوْنَاور کبھی ضلالت بےاختیاری بھی ہوتی ہے کہ مبدئہ غیب سے اس بدنصیب کو اس کی بداستعدادی کی وجہ سے سامان ہدایت عطا نہ ہوئے۔ ایسے شخص کو گمراہ ازلی اور شقی بطنی کہتے ہیں کہ ماں کے پیٹ ہی میں بدبخت تھا۔ ایسے لوگوں کی نسبت خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ ان لوگوں کو ہم نے جہنم کے لیے پیدا کیا ہے اور کچھ پروا نہیں۔ پس ان لوگوں سے بےخوف و خطر برائیاں اس طرح ظاہر ہوتی ہیں کہ جس طرح مقتضیات طبع سونا ‘ کھانا وغیرہ باتیں بلا تکلف سرزد ہوتی ہیں۔
جب آپ کو نعمت اور غضب اور ضلالت کے معنی بہ خوبی معلوم ہوگئے تو اب ہم ان دونوں آیتوں کی تفسیر بیان کرتے ہیں۔ آپ جان چکے ہیں کہ صراط مستقیم کی وضاحت کے لیے یہ دونوں آیتیں وارد ہیں اور صراط مستقیم درمیانی راستہ کو کہتے ہیں اور مخاطب کو وہ نشان دیا کرتے ہیں کہ جس کو وہ جانتا ہو اور جس کو مانتا ہو تو اس لیے خدائے تعالیٰ نے اپنے کلام مقدس میں تینوں چیزوں کا ایک ایک ایسا مسلّم وصف بیان کیا اور معلوم و مشہور نشان دیا کہ جس کو ہر شخص تسلیم کرتا ہے اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ ہر درمیانی راہ کی دو طرف مخالف ہوتی ہیں ایک افراط دوسری تفریط۔ پس یہ دو ہوئے ایک وہ درمیانی حالت۔ یہ تین رستے نکل آئے اس لیے سب سے مقدم درمیانی رستہ کو تو صراط الذین انعمت سے واضح کیا کہ صراط مستقیم وہ ہے کہ جس پر چلنے سے نیک نتیجہ پیدا ہو اور وہ خدا کی نعمت ہے۔ پس جس رستہ پر نیک نتیجہ مرتب نہ ہو وہ صراط مستقیم نہیں کیونکہ صراط مستقیم ہوتا تو مطلوب (جو رحمت ہے) حاصل ہوتا۔ یہ نشان صراط مستقیم کا وہ ہے کہ جس کو ہر شخص تسلیم کرتا ہے اور جو لوگ طبع سلیم رکھتے ہیں وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ درحقیقت خدا کا کامل انعام انبیاء اور صدیقین اور شہداء اور صالحین ہی پر ہے۔ اس لیے ان کی پیروی اور تقلید واجب ہوئی اور عہد آدم سے اس وقت تک آپ جس قدر بنی آدم کو دیکھیں گے اکثر کو ان چاروں فریق کا مقلد و متبع پاویں گے۔ پس مخاطب کے لیے صراط مستقیم ثابت کرنے کے لیے اس جملہ صراط الذین انعمت علیہم الخ سے بڑھ کر اور کوئی دلیل نہیں (وللہ الحجۃ البالغہ) اور اس صراط مستقیم کے ایک جانب مخالف اعنی افراط کو غیر المغضوب علیہم سے واضح کردیا اور دوسری جانب تفریط کو ولا الضالین سے کھول دیا اور یہ بتلا دیا کہ جن پر خدا کا غصہ بھڑکا اور جو گمراہ ہیں صراط مستقیم سے برطرف ہیں خواہ وہ یہودی ہوں خواہ نصاریٰ خواہ بت پرست ہوں خواہ منافق ‘ گنہگار۔
نکات : (1) انسان کی پوری سعادت یہ ہے کہ اس کی دونوں قوتیں کامل ہوجاویں اور وہ دونوں یہ ہیں۔ قوت نظریہ کہ جس سے علم و معرفتِ الٰہی حاصل ہوتی ہے اور مبداو معاد کے متعلق عقائد کی درستی میسر آتی ہے۔ دوسری قوت عملیہ کہ جس سے عمدہ اعمال ظہور میں آتے ہیں۔ پس یہ جس کی دونوں قوتیں مکمل ہوگئیں اس کو بڑی نعمت نصیب ہوئی اس لیے اس گروہ کو خدا نے انعمت علیہم سے یاد فرمایا اور اس لفظ سے ان دونوں قوتوں کے مکمل کرنے کی رغبت دلائی۔ اور جس کی اول قوت میں نقصان ہے۔ یعنی خدائے تعالیٰ کی ذات وصفات قیامت اور رسولوں اور فرشتوں کی بابت برا عقیدہ ہے بلکہ خیالات فاسدہ اور توہماتِ کا سدہ ہی کو علم و معرفت تصور کر کے مست و مغرور ہے تو ان پر غضب الٰہی پُر ضرور ہے۔ کس لیے کہ سزا بقدر گناہ ہوتی ہے اور قوت نظریہ انسان کی سعادت کا اعلیٰ بازو ہے کہ جو بعد مردن بھی باقی رہتی ہے اور عمل کا اسی پر مدار ہے کیونکہ جب علم ہوتا ہے تب اس کے موافق عمل کرتا ہے۔ پس جس نے اس عمدہ قوت کو کہ جس کی وجہ سے ملائکہ میں مل سکتا ہے خراب کیا تو اس پر غضب الٰہی نازل ہوا۔ اور اس گروہ میں کافر و مشرک و منافق اور دہریہ وغیرہم داخل ہیں ان لوگوں کو مغضوب علیہم سے یاد کیا تاکہ سزا اور نتیجہ برا خیال میں آوے اور ہر شخص اس شریف قوت کے خراب کرنے سے ڈر جاوے۔ پس وہ جو صحابہ ؓ سے منقول ہے کہ مغضوب علیہم یہود ہیں ہمارے قول کا مؤید ہے اور جس کی قوت عملیہ میں خرابی ہے تو وہ چوری ‘ زنا ‘ حسد و بغض وغیرہ بدکام کرتا ہے اور نیک کاموں میں کوتاہی کرتا ہے۔ نماز ‘ روزہ ‘ عبادات ‘ سخاوت ‘ محبت ‘ انصاف وغیرہ چیزوں سے بےبہرہ رہتا ہے۔ سو وہ گو اس مرتبہ کا گناہگار نہیں کہ اس پر غضب الٰہی بھڑکے اور وہ ہمیشہ جہنم میں رہے۔ مگر راہ راست اور طریق ثواب سے ضرور دور ہے اور اسی لیے کافر کو فاسق سے زیادہ قابل عقوبت شرع نے بیان کیا ہے اس فریق کو خدا نے ضالین سے تعبیر کیا تاکہ ان کی ناراستی معلوم ہوجائے۔
(2) یا یوں کہو کہ بندوں کی تین قسم ہیں (اول) وہ لوگ جو خدا کے ظاہراً و باطناً فرماں بردار ہیں اور ان کو مومن کہتے ہیں (دوم) وہ کہ جو ظاہر و باطن نافرمان ہیں ان کو کافر کہتے ہیں (سوم) وہ کہ جو ظاہر میں کسی خوف یا لالچ دنیاوی سے فرماں بردار شریعت ہیں اور درپردہ مخالف۔ ان کو منافق کہتے ہیں۔ پس اول فریق کو بلفظ انعمت علیہم تعبیر فرمایا اور فرماں برداری کا نتیجہ بتلا دیا۔ دوسرے اور تیسرے فریق کو بلفظ مغضوب علیہم ولا الضالین تعبیر کیا تاکہ ان کے اس کام کا بد نتیجہ معلوم ہوجائے لیکن منافق گو کفر میں کافر کے برابر ہے مگر اس کی فریب بازی سے عام اہل اسلام کو مضرت پہنچتی ہے۔ اور اسی لیے جس قدر فتنہ و فساد اول دن سے اسلام میں اب تک واقع ہوئے ہیں انہیں بدنصیبوں کی وجہ سے واقع ہوئے ہیں۔ آنحضرت ﷺ کے عہد میں جو کچھ ہوا سو معلوم ہے مگر اب بھی جو فتنے ان لوگوں نے برپا کر رکھے ہیں (کہ بظاہر مسلمان کہلاتے ہیں اور درپردہ اسلام کے سخت دشمن جیسا کہ نیچریہ) فتنہ مسیح الدجال سے کم نہیں۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اِنَّ الْمُنَافِقِیْنَ فِی الدَّرَکِ الْاَسْفَلِ مِنَ النَّارْ کہ ” منافق جہنم کے سب سے نیچے کے درجے میں ہوں گے “ اسی لیے پیشتر ان کو بہ لفظ مغضوب علیہم تعبیر کیا اور کفار کو بلفظ ضالین تعبیر کیا۔ خواہ یہود ہوں خواہ نصاریٰ ۔
(3) صراط مستقیم کے بیان کرنے میں ضرور تھا کہ تین فریق کا ذکر ہوتا۔ ایک وہ کہ جو صراط مستقیم پر ہے۔ دوسرے وہ کہ جو افراط وتفریط میں پڑ کر اس کو چھوڑ گئے لیکن کسی شخص خاص یا قوم خاص کا نام لینا منصب نصیحت و پایہ ہدایت کو مناسب نہ تھا دو وجہ سے۔ اول یہ کہ جس کو صراط مستقیم پر قائم کہا جاتا اور جس کو برخلاف کہا جاتا تو وہ خود پسندی اور یہ ناراضگی ظاہر کرتے اور یہ سمجھتے کہ اب تو ہم صراط مستقیم پر ہیں کچھ پروا نہیں اور ہم گمراہ ازلی ہیں جستجو بےفائدہ ہے۔ دوم یہ کہ کسی فریق کے نام لینے سے ان تینوں فریق کے نتیجوں کا ذکر رہ جاتا ہے جو مقصود اصلی تھا۔ علاوہ اس کے شارع کے احکام کلیہ ہونے چاہییں جو ازمان و اشخاص کے بدلنے سے نہ بدلیں اوراقوام کا کیا اعتبار۔ کوئی قوم کبھی کیسی اور کبھی کیسی ہوجاتی ہے۔ اچھوں کو برا اور بروں کو اچھا ہوتے دیکھا ہے۔ پس اس نکتہ کے لیے خدائے پاک نے کسی کا نام نہ لیا بلکہ یہ کہہ دیا کہ صراط مستقیم ان کا طریق ہے کہ جن پر فضلِ الٰہی ہوا نہ ان کا کہ جن پر غصہ ہوا۔ نہ ان کا کہ جو بےراہ ہیں۔ ایسی عام نصیحت دل پر موثر ہوتی ہے یہاں تک کہ جو مختصراً ہم نے بیان کیا وہ ہر ہر جملہ کی بابت بیان کیا ہے۔ اب ہم مجموعہ کلام کے نکات اور اسرار بیان کرتے ہیں۔
اسرار مجموعہ سورة : (1) اس سورة میں پانچ چیزیں خدائے تعالیٰ کے متعلق اور پانچ بندہ کے متعلق مذکور ہیں۔ خدائے تعالیٰ کے متعلق یہ ہیں۔ اللہ ‘ رب ‘ رحمن ‘ رحیم ‘ مالک اور بندہ کے متعلق یہ ہیں۔ عبادت ‘ استعانت ‘ طلب ہدایت ‘ طلب استقامت ‘ طلب نعمت اور غضب الٰہی سے پناہ۔ پس عبادت لفظ اللہ سے اور استعانت لفظ رب سے اور ہدایت لفظ رحمن سے اور طلب استقامت لفظ رحیم سے اور نعمت باقیہ کا طلب کرنا اور غضب سے محفوظ ہونا مالک کے متعلق ہے اور اسی طرح انسان پانچ چیز سے مرکب ہے۔ بدن ‘ نفس شیطانی ‘ نفس سبعی ‘ نفس بہیمی ‘ جوہر ملکی سے کہ جس کو عقل کہتے ہیں۔ پس یہ پانچوں چیزیں ان پانچوں اسماء سے ایک مناسبت خاصہ رکھتی ہیں کہ جس سے ان کی اصلاح ہوتی ہے۔ چناچہ جوہر ملکی اسم اللہ سے چمکتا ہے اَلَا بْذِکْرْ اللّٰہِ تَطْمَئِنَّ الْقُلُوْبُ اور کثاقت بدنی رب العالمین کے ملاحظہ سے دور ہوجاتی ہے۔ اور نفس سبعی کی اصلاح لفظ رحمن سے ہوتی ہے اور نفس شیطانی کی اصلاح لفظ رحیم سے متعلق ہے اور نفس بہیمی پر مالک یوم الدین سے دہشت طاری ہوتی ہے۔ جب ان پانچوں ناموں کی تجلی سے آدمی بالکل مہذب اور شائستہ ہوگیا ہے تو اپنے مقصود کی طرف چلا۔ پس طاعت بدن کے لیے ایاک نعبد کہا اور نفس بہیمی کے زیر کرنے کو ایاک نستعین زبان پر لایا اور نفس سبعی کے پنجہ اور شیطان کے چنگل سے رہائی پانے کو اھدنا الصراط المستقیم کہا اور جن کا جوہر ملکی کامل ہے (یعنی ارواح مقدسہ) ان کی رفاقت طلب کرنے کے لیے صراط الذین انعمت کہا اور غضب سے بچنے اور ارواح خبیثہ سے دور رہنے کے لیے غیر المغضوب علیہم ولا الضالین کہا۔
(2) جب کہ بندے نے مقام مناجات میں کھڑے ہو کر کمالات وصفات باری تعالیٰ کا الحمد للہ سے لے کر مالک یوم الدین تک ملاحظہ کیا تو اس کو بےاختیار شوق الیٰ اللہ پیدا ہوا پھر اس کو اس سفر کا کاٹنا ضرور پڑا اور ایسے سفر میں توشہ اور سواری ضرور ہے۔ پس ایاک نعبد کا توشہ لیا یعنی عبادت کو اس سفر کا زاد راہ اور ایاک نستعین اعنی استعانت کو سواری بنایا کیونکہ گو عبادت سے خدائے تعالیٰ کا وصال ہے مگر بغیر اعانتِ الٰہی اور مدد غیبی محال ہے۔ جب زاد و راحلہ مہیاہو تو سیدھے رستے کے درپے ہوا اور اھدنا الصراط المستقیم کہا اور جب کہ سیدھی سڑک مل گئی تو رستے کے رفیق بھی درکار ہوئے کہ جن کے سبب سے اس رستہ کی تمام صعوبتیں آسان ہوجاویں اور اس کے مشابہ دوسرے رستہ پر نہ پڑجائے تو اس لیے صراط الذین انعمت علیہم کہا اور جب کہ راہزنوں سے خوف پیدا ہوا تو غیرالمغضوب علیہم ولا الضالین کہا۔
(3) اس تھوڑے کلام میں نہایت خوش اسلوبی سے خدا تعالیٰ نے وہ تینوں علم بیان کردیے جن کے لیے انبیاء (علیہم السلام) آئے اور ان کے قبول و تصدیق کرنے کے لیے معجزات و آیات دکھائے۔ اس لیے اس سورة کو تمام کتب سماویہ کا خلاصہ کہیں تو بجا ہے اور سب کا عطر کہیں تو روا ہے اور اسی لیے نبی ﷺ نے فرمایا کہ یہ وہ سورة ہے کہ اس کے برابر توراۃ و انجیل و قرآن میں کوئی سورة نہیں (کماسیئاتی) اور وہ تین علم یہ ہیں علم شریعت یعنی وہ قانونِ الٰہی کہ جس کے مطابق چلنا بندوں پر ضرور ہے۔ علم طریقت کہ جس میں دل کے معاملات پہچانے جاتے ہیں۔ علم حقیقت یعنی مکاشفات ارواح اور تجلی علمی۔
علم شریعت : کی دو قسم ہیں۔ اول علم عقائد کہ جس کو اصول کہتے ہیں دوسرا علم احکام فقہیہ کہ جس کو فرع کہتے ہیں پھر علم عقائد کی تین قسم ہیں :
(1) خدا تعالیٰ کی ذات وصفات کے متعلق عقائد کہ وہ موجود ہے واحد لاشریک ہے۔ ہر چیز کا اس کو علم ہے۔ دیکھتا ‘ سنتا ہے ‘ ازلی ہے ابدی ہے ‘ عادل ‘ رحیم و کریم ہے۔ کھانے ‘ پینے ‘ سونے ‘ مکان و زمان میں ہونے و دیگر عیوب سے پاک ہے۔ کوئی چیز اس کے مثل نہیں نہ کوئی اس کی اولاد ہے نہ وہ کسی کی۔ سب کاموں میں بےنیاز اور ہر چیز پر قادر ہے۔ کوئی اس کے حکم کو ٹال نہیں سکتا۔ نہ اس سے مقابلہ کرسکتا ہے سو یہ سب باتیں خدائے تعالیٰ نے الحمد للہ رب العالمین الرحمن الرحیم سے ثابت کردیں۔ کیونکہ جب تمام عالم کا وہ مربی ہو تو اب کون چیز ہے جو اس کی شریک وسہیم ہے۔ اور مربی بغیر رحیم وعلیم ‘ قادر و سمیع وبصیر اور حی قیوم ہونے کے نہیں ہوسکتا اور جب تمام عالم کا مربی ہے تو عالم کی ذات سے اس کی ذات غیر ہے کسی کے مشابہ و مانند نہیں تو جمیع اوصاف حوادث سے لامحالہ بری ہوا۔ بالخصوص ان سے کہ جن سے اس کی تقدیس میں فرق آتا ہے۔
(2) آخرت کے متعلق عقائد کہ مرنے کے بعد روح باقی رہتی ہے وہاں جا کر ہر قسم کے آرام و راحت پاتی یا تکلیف دکھ اٹھاتی ہے اور ہر نیکی و بدی کا بدلہ ضرور ہے اور اعمال کے بموجب اپنے کئے کو ہر شخص پاوے گا۔ اور ایمانداروں پر وہ وہاں مہربانی فرماوے گا۔ سو یہ سب باتیں اس نے مالک یوم الدین سے ثابت کردیں کیونکہ جو شخص جزا کے دن کا مالک ہے تو اس کے لیے یہ باتیں ضرور ہیں کَمَالاَ یَخْفٰی۔ ان دونوں قسموں کے علم کو علم مبدء و معاد بھی کہتے ہیں کہ تمام عالم کی ابتداء انتہاء انجام کار سب کچھ بیان کردیا کہ ابتدا میں وہی ایک تھا اور پھر سب کے پیچھے وہی ایک واحد قہار رہ جائے گا۔
(3) نبوت و امامت و ولایت کے متعلق عقائد اور ان کے مقابلے میں کفر اور بدعت اور شرک کی پہچان۔ سو ان سب باتوں کو مجملاً صراط الذین انعمت علیہم الخ میں مع ان کے نیک و بد نتیجہ کے بیان کردیا۔ اھدناالصراط المستقیم کہا تو سیدھے رستے کی خواہش ظاہر کی اور صراط الذین انعمت میں اس رستہ پر چلنے والوں انبیاء و صدیقین و شہداء و صالحین کا منعم علیہ ہونا بیان کردیا اور انبیاء کی عصمت ثابت کردی اور ان کا پیشوا اور رہبر ہونا بتلا دیا اور اسی طرح ان کے مقابلہ میں برے لوگوں کا حال بیان کردیا اور علم فقہ کی دو قسم ہیں عبادات کہ عبادت و استعانت ہر قسم کی خدائے تعالیٰ ہی کو سزاوار ہے نہ کسی کو سجدہ کرنا چاہیے نہ رکوع۔ اور نہ کسی اور کو بوقت حاجت پکارنا چاہیے۔ اسی سے ہر کام میں مدد مانگنی چاہیے۔ اور مال و بدن میں ہر قسم کی عبادت اسی کا حق ہے پس ان سب باتوں کو ایاک نعبدو ایاک نستعین سے ثابت کردیا دوسرے معاملات اعنی بیع و شراء ‘ نکاح و طلاق ‘ قرض و امانت وغیرہ وغیرہ جملہ احکام کو اھدنا الصراط المستقیم میں واضح کردیا اور ہر امرونہی ‘ فرض و واجب ‘ مندوب و مکروہ حرام کا نتیجہ صراط الذین انعمت علیہم غیر المغضوب علیہم و لا الضالین سے مؤکد کردیا۔
علم طریقت : کو اجمالاً اھدنا الصراط المستقیم میں بیان کردیا اور اس کی دونوں جانب افراط وتفریط کو غیر المغضوب علیہم ولا الضالین سے خوب واضح کردیا۔ پھر اہل طریقت کے تینوں مرتبوں کو بھی بیان کردیا۔ کس لیے کہ طریقت کا مرتبہ ابتدائی ہے کہ جس بغیر طریقت حاصل نہیں ہوتی اس کو عبادت کہتے ہیں۔ سو اس کو ایاک نعبد کے ساتھ تعبیر کردیا اور اس کا درمیانی مرتبہ استعانت اور اس کو ایاک نستعین سے واضح کیا اور انتہائی مرتبہ استقامت ہے اور اس کو اھدنا الصراط المستقیم میں ذکر کیا اور اس علم میں بڑھ کر دو چیزوں کے حالات سے مطلع رہنا اصل الاصول ہے۔ اول نفس کہ جو ہر دم ہر طرح کی خواہشوں کی طرف رغبت دلاتا اور راہ راست سے ادھر ادھر لے جاتا ہے کہ جس کے مطیع کرنے کو لوگ سخت ریاضت کرتے ہیں۔ بھوک و پیاس وغیرہ زائد تکلیفیں دے کر اس موذی کو مارتے ہیں۔ مگر خدائے تعالیٰ نے غیر المغضوب علیہم ولا الضالین میں اس کی لگام کی دونوں باگیں سالک کے ہاتھ میں دے دیں۔ یعنی در صورت زیادتی غضب اور درصورت کمی ضلالت ہے۔ پس جو شخص ان دونوں باتوں کو ملحوظ رکھے گا۔ نفس کو ادھر ادھر جانے نہ دے گا۔ (دوم) قلب کہ جس کی سلامتی اللہ تعالیٰ کی ایک بڑی نعمت ہے۔ اِلَّا مَنْ اَتَی اللّٰہُ بْقَلْبٍ سَلِیْمٍ اس قلب کا کام شوق اور محبت ہے۔ جس کا دل محبت الٰہی سے معمور ہوگیا وہ مراد کو پہنچ گیا۔ اس لیے اس سورة میں خدا نے اپنے سے ہر قسم کے محبت کے پیدا کرنے کا طریقہ بتلا دیا۔ محبت ذاتیہ لفظ الحمد للہ سے اور صفاتیہ رب العالمین الرحمن الرحیم مالک یوم الدین سے تلقین کردی اور پھر ایاک نعبدو ایاک نستعین میں تو صاف صاف محبت پیدا کرنے کا طریقہ تعلیم کردیا کہ جس سے محبان خدا اور خاصان کبریا سے ملنے کا بےحد شوق پیدا ہو ؎
نالہ من برسانید بمرغان چمن
کہ ہم آواز شمادر قف سے افتادہ است
اور نہایت اشتیاق میں اھدنا الصراط المستقیم صراط الذین انعمت علیہم کہا اب مومن کا دل محبت الٰہی سے ایسا بھر گیا کہ اور کی جگہ بھی نہ رہی۔ اس قلب کی حفاظت پر تمام انبیاء صدیقین تاکید کرتے چلے آئے ہیں ؎
پاسبانی کن بسے در کوئے دل
زاں کہ دردانند در پہلوئے دل
واضح ہو : کہ جن چیزوں کی اصلاح اہل طریقت کے نزدیک زیادہ تر ملحوظ ہے وہ تین قوت ہیں۔ ایک شہوت ‘ دوسری غضب ‘ تیسری ہواء۔ قوت شہوت کو نفس بہیمی یا بہمیت کہتے ہیں اور اس کی کمی زیادتی جسم کی کمی زیادتی سے ہوتی ہے اور غضب کو نفس سبعی اور سبعیت بھی کہتے ہیں یعنی درندہ پن اور ہوا کو نفس شیطانی اور شیطانیت بھی کہتے ہیں۔ لیکن سب میں زیادہ تیز ہوا ہے کہ جو جسم کے پژمردہ ہونے سے بھی کم نہیں ہوتی۔ اس کے بعد غضب ہے پھر شہوت۔ آپ یہ بھی جان چکے ہیں کہ جب یہ تینوں صلاحیت پر آتی ہیں تو عفت اور حلم وغیرہ صفات حمیدہ پیدا ہوتی ہیں کہ جن کو عدالت کہتے ہیں کہ جس کے سبب حضرت انسان ملائکہ سے فوقیت لے گئے اور خلیفہ بنائے گئے۔ مگر اسی طرح جب یہ قویٰ خراب ہوتے ہیں تو انسان کو درندہ ‘ گدھا ‘ شیطان بنا دیتے ہیں۔ پس شہوت سے حرص اور بخل پیدا ہوتا ہے اور غضب سے خود پسندی اور تکبر اور ہوا سے کفر اور بدعت اور اسی لیے کہتے ہیں کہ شہوت سے انسان اپنے نفس پر ظلم کرتا ہے اور غضب سے غیر پر اور ہوا تو خدائے تعالیٰ و تقدس کی جناب میں بغاوت کرنے کا باعث ہوتی ہے۔ اسی لیے اِنَّ الشِّرْکَ لَظُلْمٌ عَظِیْمٌ آیا اور اس کی بخشش نہیں۔ اس کے بعد غضب کا نتیجہ حقوق العباد میں دست اندازی ہے وہ بھی بہ نسبت گناہ شہوانی کے زیادہ ہے اور جب یہ چند اوصاف رزیلہ جمع ہوجاتے ہیں تو ان سے حسد پیدا ہوتا ہے کہ جو سخت مرض روحانی ہے۔ پس جب ان اوصاف رزیلہ کا علاج کلام الٰہی اور کتاب آسمانی میں ضرور تھا تو خدائے تعالیٰ نے اپنے کلام بالخصوص اس سورت میں بھی اس کا علاج نہایت عمدگی سے فرمایا۔ الحمد للہ رب العالمین میں سب سے بڑھ کر مرض حسد کا تدارک کیا۔ کس لیے کہ جب بندہ خدائے تعالیٰ کو رب العالمین خیال کرے گا اور ہر ایک نعمت کا مبدء و فیاض اور مالک اور عطا کنندہ اسی کو سمجھے گا تو پھر کسی کی نعمت دیکھ کر نہ جلے گا اور خدائے تعالیٰ کے فیض عام اور خوان بیدریغ کو دیکھ کر اس ناپاک خیال کو دل سے نکال دے گا۔ کیونکہ خدا کے دیے کو کون لے سکتا ہے ؟ اور پھر کس کس کی نعمت کا زوال چاہیے ایک دو نہیں بلکہ تمام عالم اس انعام سے مالا مال ہے اور بخل کا علاج بھی ملاحظہ رب العالمین سے بخوبی ہوجاتا ہے کیونکہ ہر نعمت کا پیدا کرنے والا خدا کو تصور کرے گا تو اس کی ملک میں بخل کرنا قبیح جانے گا اور غضب کو اپنی رحمت یاد دلا کر اور اپنا جلال اخروی دکھا کر الرحمن الرحیم مالک یوم الدین سے فرو کردیا۔ کس لیے کہ جب مضمون رحمت دل پر آیا اور اس کے ساتھ خدا کی شان کبریائی دل میں سمائی تو غضب کافور ہوا اور خود پسندی کا علاج ایاک نعبد سے کردیا۔ کس لیے کہ جب عاجزانہ خدا کے آگے جھکا تمام خود پسندی رخصت ہوئی اور تکبر ایاک نستعین سے پست کردیا۔ کس لیے کہ جب عاجزانہ ہر کام میں اس کی طرف ہاتھ پھیلانابتلایا تو تکبر کو اڑا دیا اور کفر و شرک و بدعت کو اھدنا الصراط المستقیم سے دور کیا۔ کس لیے کہ ہر امر میں میانہ پن کفر و بدعت کے منافی ہے پھر غیر المغضوب علیہم سے کفر کا بد نتیجہ دکھا کر ڈرا دیا اور ولا الضالین سے اہل بدعت کا مآل کار بتلا دیا۔ الغرض بسم اللہ الرحمن الرحیم میں تین اسمائِ الٰہی سے ان تینوں بدصفات کو مٹایا کس لیے کہ جس نے اللہ کو جانا شیطان ہوا کو بھگا دیا اور جس نے خدا کو جانا دل میں نرمی آئی۔ غضب و غصہ دور ہوا اور جس نے اس کی رحیمی کا لحاظ کیا اپنی جان حزیں کو شہوات کے ظلم سے محفوظ رکھا اور الحمد کی سات آیتوں میں ان سات خصلتوں کی اصلاح کردی کہ جو ان تینوں سے پیدا ہوتی ہیں۔ جیسا کہ ابھی اوپر بیان ہوا۔ سبحان اللہ کیا کلام ہے۔ عیسائی حضرت مسیح ( علیہ السلام) کے پہاڑی وعظ کو مکارم اخلاق کی تعلیم میں ہر جگہ قرآن کے مقابلہ میں پیش کیا کرتے ہیں۔ اگر انصاف فرما دیں تو یقینا معلوم ہوجاوے کہ اس وعظ کو اس کلام سے کچھ بھی نسبت نہیں۔
علم حقیقت : کو بھی (کہ جو مکاشفہ روحانی ہی ہے) اس سورة میں بخوبی ذکر کردیا۔ چناچہ تمام اسرار ربوبیت کو الحمد للہ رب العالمین میں بھردیا گو یا کہ عارف کے دل پر اس جملہ میں یہ منکشف کردیا کہ تمام عالم کی ہستی اور ہر چیز کا وجود اس کے وجود واجب کا پرتو اور اس آفتاب حقیقی کی شعاعیں ہیں۔ اس عالم کی جس چیز کو دیکھے گا تو مرتبہ ذات میں معدوم پائے گا۔ اور خود بھی فرماتا ہے الم تر الی ربک کیف مد الظل۔ کس لیے کہ جب عارف اس مضمون کا (کہ تمام خوبیاں اس ذات جامع الصفات کمالیہ کو جو کہ تمام عالموں کو ہر وقت پرورش اور تربیت کرتا ہے) مراقبہ کرے گا تو پھر اس کی چشم حقیقت بیں کے آگے اس کے سوا کچھ اور دکھائی نہ دے گا اور جب وہ اس مقام سے لے کر الرحمن الرحیم مالک یوم الدین تک تجلیات جلالیہ و جمالیہ کی سیر کرتا ہوا آوے گا تو اس کو مرتبہ علم الیقین حاصل ہوجائے گا۔ اور جب اس نور سے روح مسرور ومنور ہوجائے گی تو تمام حجاب مرتفع ہوجائیں گے اور ایاک نعبد وایاک نستعین کے مرتبہ میں عین الیقین حاصل ہوجائے گا اور اس مرتبہ میں لطائفِ خمسہ (نفس ‘ قلب ‘ روح ‘ خفی اخفی ‘ ضلال و استعانت و ہدایت و استقامت و انعام کے ملاحظہ سے) نہایت درجہ پر جاری ہوجاویں گی اور پھر ان کے ذریعہ سے ہر چیز کی حقیقت کماہی معلوم ہونے لگے گی اور حق الیقین کا مرتبہ نصیب ہوجائے گا اور جب سیرالی اللہ سے فارغ ہوچکا تو سیرمن اللہ شروع کی اور اھدنا الصراط المستقیم صراط الذین انعمت علیہم غیر المغضوب علیہ ولا الضالین میں امور آخرت اور اعمال کی حقیقت دریافت کرتا ہوا پھر وہیں لوٹ کر آگیا تو ھوالاول ھوالآخر کی کیفیت منکشف ہوگئی۔
چونکہ باریک باتوں کے بیان کرنے کی میری قلم میں طاقت نہیں لہٰذا اسی پر بس کرتا ہوں۔ یہاں سے آپ کو اس دعوے کی تصدیق ہوگئی ہوگی کہ جس طرح بسم اللہ الرحمن الرحیم میں تمام الحمد کا مضمون ملخص ہے اسی طرح الحمد میں قرآن اور جمیع کتب سماویہ کا مضمون جمع ہے۔
(4) خدائے تعالیٰ نے اجمالی طور پر اس سورة میں بیشمار وہ علوم جمع کردیے کہ جن کو تمام انبیاء اپنی کتابوں میں عہد آدم سے لے کر آنحضرت ﷺ تک جمع نہ کرسکے چناچہ یہ بات آپ کو دفعہ سابق سے بخوبی معلوم ہوگئی ہوگی کہ علم شریعت طریقت حقیقت جو دریائے ذخار ہیں اس سورت میں کس خوبی کے ساتھ مذکور ہیں مگر اس مسئلہ کی اور تشریح کرنی ضروری ہے۔ واضح ہو کہ بسم اللہ میں ذات اور بیشمار اسمائِ الٰہی کی طرف اشارہ ہے اور الرحمن الرحیم میں خدا تعالیٰ کی صفات کمالیہ کی طرف اشارہ ہے اور الحمد میں ان نعمائِ الٰہی کی طرف اشارہ ہے کہ جن کا بیان کرنا محال ہے خواہ وہ وجود آسمان و زمین اور عناصر اور کواکب اور انسان کی تندرستی اور اناج اور کپڑے اور چیزیں وغیرہ ہوں کہ جن کے متعلق ہزار ہا مسائل ہیں۔ چناچہ منجملہ ان کے بدن انسان سے جو کچھ متعلق ہے تخمیناً پانچ ہزار مسئلے ہیں کہ جن کو اطبا بھی جانتے ہیں اور رب العالمین میں تربیت کی ہزارہا اقسام کہ کیونکر تربیت ہوتی ہے۔ حیوانات ‘ نباتات ‘ جمادات کے اصناف و انواع ہی کی تربیت کو لکھا جاوے تو سینکڑوں کتابیں بنیں پھر عالم کے اقسام ‘ ارواح و اجسام ‘ شہودی و مثالی و اعراض و جواہر کا جاننا ہزاروں مسائلِ حکمت سے متعلق ہیں اور اس جملہ کی تفسیر لکھی جاوے تو صدہا کتابیں بنیں اور الرحمن الرحیم میں دنیا و آخرت کے متعلق وہ صدہا باتیں کہ جو انسان کی حالت سے متعلق ہیں اجمالاً مذکور ہیں۔ اور مالک یوم الدین میں ابدان سے جدا ہونے کے بعد نفوس کی بقا اور ان کی سعاوت و شقاوت کی طرف اور وہاں کے عذاب وثواب اور مرنے کے بعد زندہ ہونے اور نفخ صور اور وقوف عرصات و حساب و میزان و دوزخ و جنت کے درجات اور انبیاء و صدیقین و دیگر اولیاء کی شفاعت کی طرف اجمالاً اشارہ ہے کہ جن کے لیے دفتر درکار ہیں اور ایاک نعبد میں عبادت کے اقسام قلبی و قالبی مالی و بدنی کی طرف اشارہ ہے اور ان کے ارکان و شروط کی طرف کہ جن کا ذکر کتب فقہ و سلوک و اور ادو اشغال کے رسائل میں ہے اور یہ بھی سینکڑوں مسائل مہمہ ہیں اور ایاک نستعین میں تمام معونتوں اور دنیا کی جمیع صنعتوں اور کل حرفوں کی طرف مجملاً اشارہ ہے۔ کس لیے کہ تمام پیشوں اور صنعتوں میں خدائے تعالیٰ سے اس کی مخلوقات کے ذریعہ سے استعانت ہے۔ پس ان صنعتوں اور پیشوں کے بیان کرنے کے لیے ایک دفتر چاہیے۔ تاکہ پورے طور پر استعانتِ الٰہی کا حال معلوم ہو۔ یہ ہزارہا مسائل اور بیشمار مباحث ہیں کہ جو اس کلمہ میں مندرج ہیں۔ اھدنا الصراط المستقیم میں تو اس قدر بیشمار مسائل علوم حکمیہ کی طرف اشارہ ہے کہ جن کا کچھ شمار ہی نہیں۔ کس لیے کہ دنیاوی امور بیاہ شادی ‘ مرنے جینے ‘ بیع و شرا ‘ لین دین وغیرہ معاملات میں صراط مستقیم بھی ایک دریائے بےکنار ہے اور اسی طرح اخلاق انسانیہ سخاوت و شجاعت و صبر و قناعت وغیرہا صراط مستقیم ہزارہا مسائل متعلق ہیں۔ پھر ہر امر میں صراط مستقیم کی ہدایت کے دو فریق ہیں ایک استدلال سے صراط مستقیم حاصل کرنا جیسا کہ مشائین کرتے ہیں پھر اور امور تو درکنار خاص ذات باری کے لیے عالم علوی و سفلی کا ہر ایک ذرہ شاہد عدل ہے کہ جو اس کی کمال ذات و تقدس صفات و عظمت قدرت پر زبان حال سے گواہی دے رہا ہے۔ کیا خوب کہا ہے کسی نے ؎
وفی کل شییئٍ لہ شاہد
یدل علی انہ واحد
دوسرا طریق انکشاف باطنی اور نور روحانی ہے کہ جو اشراقین کا ہے پھر یہ ہزارہا مسائل اور بیشمار علوم ہیں کہ جو اس ایک جملہ میں مجتمع کردیے گئے ہیں۔ صراط الذین انعمت علیہم میں مباحث نبوات اور ولایت کی طرف اور انبیاء (علیہم السلام) کی شریعتوں اور ان کے عقائد اور حالات اور سرگزشت کی طرف اشارہ ہے کہ جو صدہا مسائلِ ملت و تاریخی واقعات سے متعلق ہیں۔ گویا اس جملہ میں تمام انبیاء اور ان کے پیرو وں کی تاریخ اور ان کی شریعت مجملاً بیان کردی۔ غیر المغضوب علیہم ولا الضالین میں تمام کفار اور مشرکین کے حالات اور کل بدعتیوں کی سرگزشت اور ان کے مذاہب باطلہ اور عقائدِ فاسدہ اور خراب چال و چلن کی طرف اشارہ ہے کہ جس کی تفصیل کے لیے ملل ونحل اور دبستان مذاہب وغیرہما صدہا کتابیں بھی کافی نہیں اور جن کی تاریخ عبرت انگیز بیشمار کتابوں میں نہیں آسکتی۔ الحاصل مبدء معاد ‘ ملت ‘ شریعت ‘ الٰہیات ‘ طبیعات ‘ تاریخ انبیاء و صلحاء ‘ مخالفین کے حالات و غیرہا بیشمار علوم خدائے تعالیٰ نے اجمالاً بترتیب اس سورة میں جمع کردیے ہیں۔
(5) دعا خدا اور بندہ میں ایک ایسا عمدہ ارتباط ہے کہ اس سے بڑھ کر پھر کوئی واسطہ نہیں۔ کس لیے کہ دعا میں دو باتیں ضرور ہوتی ہیں۔ ایک اپنی عاجزی اور فروماندگی کا اظہار اور کسی مقصود کا سوال۔ دوسرے خدائے تعالیٰ کی دل سے کامل عظمت اور اس کی جناب میں کامل درجہ کا اعتقاد کہ وہ ہر چیز پر بالخصوص میرے اس مقصد کے عطا کرنے پر قادر ہے۔ گویا دعا پوری عبودیت کا اظہار اور اس کی الوہیت کا اقرار ہے کہ جو دل سے اور زبان سے ادا کر رہا ہے اور اعضاء سے اس کی شہادت دے رہا ہے اور اسی لیے حدیث میں آیا ہے کہ دعا عبادت کا مغز ہے (رواہ الترمذی) اور یہ بھی آیا ہے کہ دعا سے زیادہ خدا کے نزدیک کوئی چیز بڑی نہیں (رواہ الترمذی و ابن ماجہ) پس دعا جس طرح بندہ کی روح کو جنبش دیتی ہے اسی طرح رحمت الٰہی کو تحریک کرتی ہے جس سے خدا تعالیٰ یا تو اس دعا سے کسی مصیبت آیندہ کو ٹال دیتا ہے یا اس کام کے اسباب پیدا کرکے اس کو پورا کردیتا ہے یا کبھی بطور خرق عادت بلا اسباب مقصد کو جس کے لیے دعا مانگی گئی ہے پورا کردیتا ہے جیسا کہ انبیاء (علیہم السلام) اور اولیاء کرام کی دعا سے ظہور میں آیا جس کی شہادت کتب احادیث و سیرو روایت ثقافت دے رہی ہے اور یہی اجابت 1 ؎ ہے
1 ؎ محرف القرآن اپنی تفسیر میں قواعد نیچریہ کے موافق صفحہ 10 میں تحریر فرماتے ہیں :
قولہ۔ مگر لوگ دعا کے مقصد اور استجابت کا مطلب سمجھنے میں غلطی کرتے ہیں وہ جانتے ہیں کہ جس مطلب کے لیے دعا کرتے ہیں وہ دعا سے حاصل ہوجائے گا اور استجابت کے معنی اس مطلب کا حاصل ہونا سمجھتے ہیں۔ حالانکہ یہ غلطی ہے۔ حصول مطلب کے جو اسباب خدا نے مقرر کیے ہیں وہ مطلب تو انہیں اسباب کے جمع ہونے سے حاصل ہوتا ہے۔ مگر دعا نہ اس مطلب کے اسباب میں سے ہے اور نہ اس مطلب کے اسباب جمع کرنے والی ہے بلکہ وہ اس قوت کو تحریک دیتی ہے جس سے اضطراب میں تسکین ہوتی ہے اور ایسی کیفیت کا دل میں پیدا ہونا دعا کا مستجاب ہونا ہوتا ہے۔ انتہیٰ ۔ ملخصاً
اقول۔ بیشک اصول نیچریہ کے مطابق نہ وہ اسے مطلب کے اسباب خدا پیدا کرنے پر قادر ہے نہ اس کو قدرت ہے کہ وہ بندہ کو اس کے عجز وزاری سے اس کا مطلب عطا کرے کس لیے کہ سرے سے نیچر کے نزدیک خدائے قادر کا وجود ہی مسلم نہیں ورنہ اسباب پیدا کرنے سے عجز کے کیا معنی اور بطور
اور چونکہ دعا اعلیٰ عبادت ہے تو ضرور ہوا کہ اس کے آداب تعلیم فرمائے جائیں۔ پس اس لیے اس سورة میں تعلیم کردیا کہ اول خدائے تعالیٰ کی ثناو صفت کرنی چاہیے جیسا کہ الحمد سے لے کر مالک یوم الدین تک پایا جاتا ہے اور پھر اپنا اخلاص اور نیاز ظاہر کرنا چاہیے جیسا کہ ایاک نعبد وایاک نستعین سے ظاہر ہے پھر دعا کرنی چاہیے جیسا کہ اھدنا الصراط المستقیم الخ سے ظاہر ہے۔ مگر ایسے بادشاہ حقیقی سے دعا بھی وہ کرنی چاہیے کہ جو تمام دینی و دنیاوی امور کو حاوی ہو جیسا کہ الصراط المستقیم الخ سے ظاہر ہے اور اسی حکمت بالغہ سے ہر نماز میں دو بار اس سورة کا پڑھنا واجب ٹھہرا خدا نے اپنے بندوں کو کیا ہی عمدہ دعا تعلیم فرمائی ہے۔
(6) تعلیم کی یہ خوبی ہے کہ ایک بار اجمالاً تمام مراتب ہدایت تعلیم کردے پھر تدریجاً ان کی تفصیل کرے کیونکہ اجمال کے بعد تفصیل دل پر تہ نشین ہوتی ہے اور اس اجمالی فہرست پر عمل کرنا اور ان مضامین کو اس مختصر متن سے دریافت کرنا بھی زیادہ تر آساں ہوتا ہے پس خدائے تعالیٰ نے اس سورة مقدسہ میں یہی کیا کہ تمام الہامی مضامین کو مجملاً مجتمع کردیا پھر باقی قرآن مجید میں ان کی تفصیل فرمائی چناچہ (1) خداوند تقدس و تعالیٰ کی ذات وصفات کی بابت جس قدر آیات ہیں جیسا کہ اللّٰہُ لاَ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ الْحَیُّ الْقَیُّوْمُ الایت اِنَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ وَاِنَّ اللّٰہَ بِکُلِّ شَیْئٍ عَلِیْمٍ ‘ لاَ تُدْرْکَ الْاَ بْصَارُ وَھُوَ یُدْرْکَ الْاَبْصَارُ وَھُوَ اللَّطِیْفُ الْخَبْیْرُ وَلَیْسَ کَمِثْلِہٖ شَیْئٌ‘ لَمْ یَلِدْ وَلَمْ یُوْلَدْ وَلَمْ یَکُنْ لَّہٗ کُفُوًا اَحَدًا وغیرہامن الآیات اور (2) اسی طرح جو کچھ ابتدائے آفرینش آسمان و زمین اور حجر و شجر کے متعلق بیان ہے جیسا کہ قُلْ اَئِنَّکُمْ لِتَکْفُرُوْنَ بْالَّذِیْ خَلَقَ الْاَرْضَ فِیْ یَوْمِیْنِ الایات وَھُوَ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ مَا فِی الْاَرْضْ جَمِیْعًا ثُمَّ اسْتَوٰٓی اِلَی السَّمَآئِ ‘ ھُوَ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ فِیْ سِتَّۃِ اَیَّامٍ اور (3) اسی طرح جو کچھ اس کی علامات قدرت اور دنیا کی نعمتوں کی بابت مذکور ہے جیسا کہ اِنَّ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضْ لَاٰیَاتٍ لِّــلْمُؤْمِنِیْنَ وَفِیْ خَلْقِکُمْ مَا یَبَثَّ مِنْ دَآبَّۃٍ اٰیَاتٌ لِّــقَوْمٍ یُّوْقِنُوْنَ وَاخْتِلَاف اللَّیْلْ وَالنَّھَارِ وَمَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ مِنَ السَّمَآئِ مِنْ رّْزْقٍ فَاحْیَا بْہِ الْاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِھَا وَتَصْرْیْفُ الرّْیَاحِ اٰیٰتٌ
خرق عادات دعا پر مطلب حاصل کرنے ناچار ہونے کے کی کیا وجہ بلکہ ان کے نزدیک خدا ایک فرضی چیز ہے کہ جس کو باطبع اوہام عامہ ہونے کے وجود کی طرح اختراع کرتے ہیں اور جس طرح لڑکوں کو ہوّے سے ڈرانے کے یہ معنی ہیں کہ ان میں ایک کیفیت پیدا ہوجاتی ہے۔ اسی طرح دعا کے مستجاب ہونے کے یہ معنی ہیں کہ بیوقوفوں کو کچھ تسکین سی ہوجاتی ہے۔ العیاذ باللہ مگر یہ معنی عقل سلیم اور اصول ادیان سماویہ بالخصوص قواعد اسلام کے نزدیک بالکل مردود و مطرود ہے کس لیے کہ جب ادلۃ عقلیہ و نقلیہ سے عالم کے بانی کا ایک ایسا وجود تسلیم کرلیا گیا ہے کہ جس کی نہ ابتدا ہے نہ انتہا اور وہ ہر ممکن پر قاد رہے۔ اور ممکنات پر تصرف کرنے سے کوئی چیز اس کو نہیں روک سکتی اور دعا کے بعد اسباب کا پیدا کردینا بلکہ مطلب کا حاصل کردینا یہ سب کچھ اس قادر مطلق کے نزدیک ممکن ہے تو پھر اس تصرف سے کس کا ہاتھ اس کو روک سکتا ہے۔ اور نبی ﷺ کی بیشمار احادیث میں دعا سے مطلب کا حاصل ہونا پایا جاتا ہے۔ چناچہ انہیں حضرت ترمذی نے کہ جن کی روایت کو مفسر صاحب آگے چل کر لکھتے ہیں۔ نبی ﷺ سے روایت کیا ہے کہ حضرت فرماتے ہیں ما من احداد عوابدعاء الا ما اتاء اللہ اسال او کف عنہ السوء مثلہ ما لم یدع باثم وقطیعۃ رحم (رواہ الترمذی) ” کہ جو شخص خدا سے دعا کرتا ہے خدا تعالیٰ اس کا مطلب عطا کرتا ہے اس کی مثل اس سے برائی دور کردیتا ہے جب تک کہ گناہ اور قطعہ رحم کی دعا نہ مانگے “۔ وعن ابن عمر قال قال رسول اللہ ﷺ ان الدعاء ینفع مما نزل ومما ینزل فعلیکم عباد اللہ بالدعاء (رواہ الترمذی ورواہ احمد عن معاذ بن جبل کہ ” دعا ہر حال میں بہتر ہے۔ بلائے نازل شدہ میں صبر و اجر دیتی ہے اور جو ہنوز نازل نہیں ہوئی ہے اس کو دفع کرتی ہے “ وعن سلیمان الفارسی قال قال رسول اللّٰہ ﷺ لا یرد القضاء الا الدعاء رواہ الترمذی ” کہ دعا کے سوا قضا کو اور کوئی چیز نہیں رد کرتی “۔
اسی طرح تمام کتب سماویہ میں پایا جاتا ہے۔ مگر چونکہ اکثر لوگ اس فریق کے وہ ہیں کہ جن کو امور دنیا میں کامیابی ہے اس لیے وہ دعا کے اثر کو فضول جانتے ہیں اور اکثر اہل دنیا ایسا ہی جانا کرتے ہیں۔
لِّــقَوْمٍ یَّعْقِلُوْنَ ‘ اِنّٰ اللّٰہَ اُنْزَلَ مِنَ السَّمَآئِ مَآئً فَاخْرَجْنَا بْہٖ ثَمَرَاتٍ مُّخْتَلِفًا اَلْوَانُھَا الآیات اور انہیں اقسام کی جملہ آیات سب الحمد للہ رب العالمین الرحمن الرحیم کی تفصیل اور شرح ہے جیسا کہ اوپر بیان ہوا اور (4) جو کچھ انسان کی موت اور موت کے بعد عذاب ثواب اور دنیا کی بےثباتی اور نفخ صور اور احوال قیامت اور دوزخ اور جنت کی کیفیت کے متعلق قرآن میں مذکور ہے جیسا کہ کُلُّ نَفْسٍ ذَآئِقَۃُ الْمَوْتِ ‘ اِنَّکَ مَیْتٌ وَّاِنَّھُمْ مَیّْتُوْنَ ‘ یَـــآاَیُّھَا الْاِنْسَانُ اِنَّک کَادِحٌ اِلٰی رَبّْکَ کَدْحًا فَمُلاَقِیْہِ الایۃ۔ اِنَّمَا مَثَلَ الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا کَمَآئٍ اَنْزَلْنَاہُ مِنَ السَّمَآئِ فَاخْتَلَطُ بْہٖ نَبَاتُ الْاَرْضُ الایت وَنُفِخَ فِی الصُّورْ فَصَعِقَ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَمَنْ فِی اْلَارْضْ اِلَّا مَنْ شَآئَ اللّٰہُ ثُمَّ نُفِخَ فِیْہِ اُخْرٰی فَاِذَا قِیَامٌ یَّنْظُرُوْنَ وَاشْرَقَتِ الْاَرْضُ بْنُوْرْ رَبّْھَا وَوُضِعَ الْکِتٰبَ وَجَآئَ بْالنَّبْیّْیْنَ وَالشُّھَدَآئِ وَقُضِیَ بَیْنَھُمْ بْالْحَقّْ الآیات۔ یہ آیات اور سورة رحمن وغیرہا کہ جو جنت اور دوزخ کے حالات سے پر ہیں اور وہ آیات کہ جن میں دیدارِ الٰہی کا ذکر ہے۔ سب مالک یوم الدین کی تفسیر اور تفصیل ہے اور (5) اسی طرح جس قدر آیات میں نماز و روزہ ‘ حج و زکوٰۃ و صدقہ و خیرات اور خدا کے ساتھ اخلاص و محبت اور دل سے اس کی اطاعت و فرمانبرداری کا ذکر ہے جیسا کہ اَقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتُوا الزَّکٰوۃَ وَاَتِمُّوا الْحَجَّ وَالْعُمْرَۃَ لِلّٰہِ الآیۃ وَ یَبِیْتُوْنَ لِرَبِّھِمْ سُجَّدًا وَّ قِیَامًا ٭ وَ بالْاَسْحَارِ ھُمْ یَسْتَغْفِرُوْنَ وَ فِیْٓ اَمْوَالِھِمْ حَقٌّ لِّــلْسَآئِلْ وَالْمَحْرُوْمْ وَاقْرْضُوا اللّٰہَ قَرْضًا حَسَنًا ‘ کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ ‘ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْآ اَشَدُّ حُبًّا لِلّٰہِ ‘ وَاطِیْعُوا اللّٰہَ ‘ وَ اَذْکُرُ اللّٰہَ کَثِیْرًا لَّعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ یہ سب ایاک نعبدوایاک نستعین کی تفصیل ہے اور (6) اسی طرح جو کچھ باہمی معاملات میں نیک چلنی اور لوگوں سے نیکی سے پیش آنے کی بابت اور گناہوں سے بچنے کی بابت اور اخلاق حمیدہ کی بابت اور ہر امر میں میانہ روی کی بابت قرآن میں مختلف سورتوں میں مختلف عنوانوں سے وارد ہوا ہے جیسا کہ اِدْفَعْ بالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ ” کہ بدی کے مقابلہ میں نیکی کرو “۔ (حضرت مسیح ( علیہ السلام) نے تو یہی فرمایا تھا کہ جو تیرے ایک گال پر طمانچہ مارے تو اس کی طرف دوسرا گال بھی کردے) مگر سید المرسلین کی معرفت اس سے بھی بڑھ کر یہ تعلیم دی گئی کہ بدی کے بدلہ میں نیکی کرو) وَذَرُوْا ظَاھِرَ اْلِاثْمْ وَ بَاطِنَہٗ اَلَّذِیْنَ یَجْتَنِبُوْنَ کَبَآئْرَ الْاِثْمْ وَالْفَوَاحِشَ وَالَّذِیْنَ اِذَآ اَنْفَقُوْا لَمْ یَسْرْفُوْا وَلَمْ یَقْتَرُوْا و کَانَ بَیْنَ ذٰالِکَ قَوَامًا ‘ وَالَّذِیْنَ لاَ یَدْعُوْنَ مَعَ اللّٰہِ اِلٰھًا اٰخِرُ ‘ وَلاَ یَقْتُلُوْنَ النَّفْسَ الَّتِیْ حَرَّمَ اللّٰہُ اِلَّا بْالْحَقّْ وَلاَ یَزْنُوْنَ الآیات یہ سب اھدنا الصراط المستقیم کی تفسیر ہے اور (7) اسی طرح جو کچھ انبیاء (علیہم السلام) اور ان کے پیرو وں کے محامد اور ان پر ملائکہ پر ایمان لانے کی بابت اور ان کے طریقہ کی بابت جو کچھ مختلف سورتوں میں آیا ہے جیسا کہ سورة قصص اور سورة انبیاء اور سورة یوسف اور سورة نوح اور سورة شعراء اور سورة نمل اور سورة یونس اور سورة مومنون اور سورة طہٰ اور سورة مریم اور سورة مائدہ اور سورة کہف میں مذکور ہے۔ سب صراط الذین انعمت علیہم کی تفصیل ہے اور (8) اسی طرح جس قدر سرکشوں کے قصے اور ان پر عذاب الٰہی نازل ہونا اور قہر خدا کا نازل ہونا قرآن کریم میں مذکور ہے۔ جیسا کہ سورة مذکور میں فرعون و ہامان اور قارون اور قوم عاد وثمود کا قصہ کہ جو سورة اعراف وغیرہ میں بھی مذکور ہے اور اسی طرح اور گمراہوں اور نافرمانوں اور کافروں کے حالات عبرت انگیز جس قدر قرآن میں مذکور ہیں سب غیر المغضوب علیہم ولا الضالین کی تفسیر و تشریح ہے۔ یہ مضامین اس خوبی سے کسی کتاب میں نہیں اور جو کوئی دعویٰ کرے تو دکھادے۔ وید ‘ دساتیر ‘ انجیل ‘ تورات ‘ سب اس خوبی سے معرا ہیں۔
(9) جو کچھ بلاغت اور فصاحت اور سلاست الفاظ (کہ جس کا مزہ اہل زبان لیتے ہیں) اس سورة میں ہے وہ بیان سے باہر ہے۔ ازان جملہ یہ کہ الحمد للہ کہا۔ نحمداللہ یا احمد اللہ جملہ فعلیہ نہ کہا دو وجہ سے۔ اول یہ کہ جملہ فعلیہ تجدد اور حدوث پر دلالت کرتا ہے اور وہ اس کے علوِّ شان کے مناسب نہیں بخلاف اسمیہ کے کہ جو دوام و استمرار پر دلالت کرتا ہے۔ (دوم) یہ کہ خدا کی حمد کوئی کیا کرسکتا ہے لاکھوں نعمتیں ہیں اور ہزاروں خوبیاں پس اس کی حمد کا دعویٰ کرنا چھوٹا منہ بڑی بات ہے۔ اس لیے الحمد للہ کہہ دیا کہ حمد خدا کے لیے ہے۔ ازان جملہ صنعت التفات ہے کہ الحمد للہ سے لے کر مالک یوم الدین تک تو غائبانہ گفتگو تھی۔ پھر ایاک نعبد وایاک نستعین میں مخاطب بنا کر کلام کیا اور پھر اھدنا الصراط الخ میں صیغہ متکلم بولا اور یہ صنعت زبان عرب میں نہایت محمود ہے تاکہ ایک طرح کے کلام سے دل پر ملال نہ آجائے جیسا کہ امراء القیس عرب کا مشہور شاعر اپنے ان اشعار میں اس صنعت کو استعمال کرتا ہے ؎
تطاول لیلک بالاثمد
ونام الخلی ولم ترقد
وبات و باتت لہ لیلۃ
کلیلۃ ذی العائر الدمد
وذلک من بناء جائنی
وخبرتہ عن ابی الاسود
کلام کے اسلوب کے بدلنے سے نشاط خاطر پیدا ہوتا ہے کہ جس کو ہر صاحب ذوق سلیم جانتا ہے اور یہ کلام میں ایسا ہے کہ جیسا کھانے میں نمک اور انہیں خوبیوں سے عرب قرآن سن کر وجد میں آتے اور آنکھوں سے آنسو بہاتے تھے۔ روایت ہے کہ ہجرت سے پہلے مکہ میں جب چند لوگ ایمان لائے تھے اور مشرکین کے خوف سے بیچارے ایماندار بلکہ سید ابرار پوشیدہ رہتے تھے اور جس طرح شہر یروشلم میں حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) اور ان کے حواریوں پر ہر طرف سے مار مار اور طعن وتشنیع کی بوچھاڑ تھی یہی حال مکہ میں حضرت ﷺ اور صحابہ جانباز کا تھا مگر حضرت ابوبکر صدیق ؓ چونکہ بڑے تاجر تھے لوگ ان کا خیال کرتے تھے ‘ اس لیے گھر سے باہر ایک چبوترہ تھا اس پر بیٹھ کر نہایت درد سے قرآن مجید پڑھتے اور اس کے اثر جانگداز سے شمع کی طرح روتے تھے ایک تو قرآن مجید کے وہ روح کو کپکپا دینے والے الفاظ ‘ نئی نئی باتیں رستہ چلنے والی عورتوں اور مردوں اور بڈھوں اور بچوں کے کان میں پڑنا اس پر صدیق اکبر کا درد اور اصلی لب و لہجہ سے پڑھنا ؎
وصف اس پری وش کا اور پھر بیاں اپنا
بن گیا رقیب آخر تھا جو راز داں اپنا
پھر تو جو سنتا تھا کھڑا ہو کر سر دھنتا تھا۔ ایک اژدھام اور مجمع خاص و عام ہوجاتا تھا۔ جو سخت منکر ننگی تلوار لے کر مارنے آتے تھے آنکھوں سے آنسو پونچھتے جاتے تھے جس کا یہ اثر ہوا کہ ہر روز بہت سی عورتیں اور بہت سے مرد ایمان لاتے اور اس پر مخالفوں کی ہر قسم کی اذیت اٹھاتے تھے۔ کوئی دھوپ میں چومیخا کیا جاتا ہے کسی پر کوڑے پڑ رہے ہیں کسی کو مار پٹ رہی ہے۔ کوئی جلا وطن کیا جاتا ہے کوئی جان سے مارا جاتا ہے۔ میاں سے بی بی اس بارے میں لڑ رہے ہیں میاں بی بی کو سمجھا رہا ہے مگر دل میں قرآن کا اثر روز افزوں اور عشق الٰہی میں ہر دم حالت دگرگوں ہے۔ نہ کسی قسم کی تکلیف کا ڈر نہ جلا وطنی کا خوف و خطر۔ یہ حال دیکھ کر لوگوں نے یہ کہا کہ ابوبکر جادوگر ہے جانے یہ کیا پڑھتا ہے کہ جو نہایت پراثر ہے۔ لہٰذا صدیق اکبر ؓ کو بھی مکہ سے نکال دیا۔ الغرض قرآن مجید کے اس اثر بےحد سے تمام عرب میں کھلبلی پڑگئی۔ جہاں چند صحابہ نے جا کر قرآن کی منادی کی وہیں ہزاروں سرکش اور بت پرست سن کر لوٹ پوٹ ہوگئے۔ اور جب چند صحابہ ملک حبشہ میں گئے اور وہاں کے بادشاہ نجاشی نے کہ جو اہل کتاب کا بڑا عالم تھا قرآن سنا اس کا اور اس کے ارکان دولت کا دل ایمان سے بھر گیا اور سب ارباب حبشہ بےاختیار رونے لگے۔ اسی طرح جہاں قرآن پہنچا وہیں اس نے اپنا اثر دکھایا۔ اس لیے چند سال میں شرق سے غرب تک اکثر سرسبز سلطنتوں میں اسلام پھیل گیا۔ افسوس متعصب پادری شیوع اسلام تلوار کے زور سے بتا کر اسلام پر عیب لگاتے ہیں۔ اب ہم قرآن کا مقابلہ اور کتابوں سے کرتے ہیں اور الحمد کی سات آیتوں کے مقابلہ میں ہر کتاب کے سات جملہ لکھ کردکھاتے ہیں۔
---
مقابلہ
رات محفل میں ہر اک مہ پارہ گرم لاف تھا
صبح کو خورشید جب نکلا تو مطلع صاف تھا
تورات
زبُور
دساتیر
رگوید
انجیل
قرآن مجید
کہ جس کو بقول اہل کتاب حضرت موسیٰ کے صدہا سال بعد علمائے یہود نے جمع کیا اور جس طرح کوئی کسی مردے کی ہڈیاں جمع کر کے نام اس شخص کا رکھے اسی طرح اس مجموعہ کا نام تورات رکھا۔
مطبوعہ مرزا پور۔ نارتھ انڈیا 1868 ء
بقول اہل کتاب اس کے مصنف کا اب تک صحیح پتہ نہیں کہ حضرت داؤد ( علیہ السلام) یا کوئی اور شخص ہے۔
مطبوعہ مطبع مذکور
کہ جن کو ساسان پنجم نے پاژندی زبان سے دری میں ترجمہ کیا
مطبوعہ مطبع سراجی دہلی 1380 ھ
کہ جس کو بیاس جی شاگرد زردشت نے لوگوں کے منتر لے کر جمع کیا ترجمہ لچھمن د اس دہلوی
مطبوعہ دہلی 1882 ء
بقول نصاریٰ چار شخصوں متی۔ مرقس۔ لوقا۔ یوحنا نے حضرت مسیح کے بعد تاریخ کے طور پر ان کے حالات کو جمع کیا۔
مطبوعہ مرزا پور 1870 ء
عرب میں شہر مکہ مدینہ میں جناب محمد ﷺ خاتم الانبیاء پر بواسطہ جبرئیل ( علیہ السلام) خدا کی طرف سے آیا بلا تغیر حرف اہل اسلام میں موجود ہے۔
باب اول
ابتدا میں خدا نے آسمان کو اور زمین کو پیدا کیا۔
اول زبور
مبارک وہ آدمی ہے جو شریروں کی صلاح پر نہیں چلتا اور خطا کاروں کی راہ پر کھڑا نہیں رہتا اور ٹھٹھا کرنے والوں کے جلسہ میں نہیں بیٹھتا
پناہم بہ یزداں از منش خوئی بد و زشت و گمراہ کنندہ و براہ برندہ و رنج دہندہ و آزار رسانندہ
اگنی
میں دیوتا کی فیوم کا بڑا گرو کارکن اور بڑے دیوتائوں کو نذریں پہنچانے والا اور بڑا اثروت والا ہی مہما کرتا ہوں یعنی میں آگ کی ستائش کرتا ہوں۔
یسوع مسیح ابن داؤد ابن ابرہام کا نسب نامہ
بسم اللہ الرحمن الرحیم
شروع اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان اور رحم والا ہے الحمدللہ رب العالمین سب خوبیاں اللہ کو کہ جو تمام عالم کا پرورش کرنے والا ہے۔
(2) اور زمین ویران اور سنسان تھی اور گہرائو کے اوپر اندھیرا تھا اور خدا کی روح پانیوں پر جنبش کرتی تھی
(2) بلکہ خداوند کی شریعت میں مگن رہتا اور دن رات اس کی شریعت میں سوچا کرتا ہے۔
(2) بنام ایزد بخشا یندہ بخشا یشگر مہربان داد گر۔
(2) ایسا ہو کہ اگنی جس کی مہا زمانہ قدیم اور زمانہ حال کے رشی کرتے چلے آئے ہیں دیوتائوں کو اس طرف متوجہ کرے۔
(2) ابراہیم سے اسحاق اور اسحاق سے یعقوب پیدا ہوا اور یعقوب سے یہوداہ اور اس کے بھائی پیدا ہوئے۔
(2) الرحمٰن الرحیم۔ جو نہایت مہربان اور رحیم ہے۔
(3) اور خدا نے کہا کہ اجالا ہو اور اجالا ہوگیا۔
(3) سو وہ اس درخت کی مانند ہوگا جو پانی کی نہروں
(3) بنام یزداں
(3) اگنی کے وسیلہ سے پوجاری کو ایسی آسودگی
(3) یہودہ سے پھارس اور زارح ثمر کے پیٹ
(3) مالک یوم الدین اور جزا کے دن کا مالک ہے۔
بقیہ حاشیہ اگلی آیت میں