Dure-Mansoor - Al-Faatiha : 7
صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْهِمْ١ۙ۬ۦ غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْهِمْ وَ لَا الضَّآلِّیْنَ۠   ۧ
صِرَاطَ : راستہ الَّذِينَ : ان لوگوں کا أَنْعَمْتَ : تونے انعام کیا عَلَيْهِمْ : ان پر غَيْرِ : نہ الْمَغْضُوبِ : غضب کیا گیا عَلَيْهِمْ : ان پر وَلَا : اور نہ الضَّالِّينَ : جو گمراہ ہوئے
جو ان لوگوں کا راستہ ہے جن پر تو نے انعام فرمایا، جن پر غصہ نہیں کیا گیا اور جو گمراہ نہیں ہیں۔
صِرَاطَ الَّذِيْنَ اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ 9 غَيْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّاۗلِّيْنَ ترجمہ : جو ان لوگوں کا راستہ ہے جن پر تو نے انعام فرمایا جن پر غصہ نہیں کیا گیا اور جو گمراہ نہیں ہیں۔ (7) (1) امام وکیع، ابوعبید، سعید بن منصور بن حمیر، ابن المنذر، ابن ابی داؤد اور ابن الانباری ان دونوں نے المصاحف میں حضرت عمر بن الخطاب کے طریق سے نقل کیا ہے کہ وہ لفظ آیت ” صراط الذین انعمت علیہم غیر المغضوب علیہم ولا الظالین “ پڑھا کرتے تھے۔ (2) امام ابو عبید، عبد بن حمید، ابن الانباری، ابن ابی داؤد نے حضرت عبد اللہ بن الزبیر ؓ سے روایت کیا ہے کہ وہ نماز میں لفظ آیت ” صراط الذین انعمت علیہم غیر المغضوب علیہم ولا الضالین “ پڑھا کرتے تھے۔ (3) ابن الانباری (رح) حضرت حسن (رح) سے روایت کرتے ہیں وہ لفظ آیت ” علیہمی “ ھا اور میم کے کسرہ اور یا پر فتحہ کے ساتھ پڑھا کرتے تھے۔ (4) ابن الانباری (رح) حضرت اعرج (رح) سے روایت کرتے ہیں کہ وہ ” علیھموا “ ھا اور میم کے ضمہ اور واؤ کو ساتھ ملا کر پڑھتے تھے۔ (5) ابن الانباری (رح) عبد اللہ بن کثیر (رح) سے روایت ہے کہ وہ لفظ آیت ” انعمت علیھموا “ ھا اور میم کے ضمہ اور واؤ کو ساتھ ملا کر پڑھتے تھے۔ (6) ابن الانباری ابن اسحاق سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے ” علیہم “ ھا اور میم کے ضمہ کے ساتھ واؤ کو بغیر ملائے پڑھا۔ (7) ابن ابی داؤد ابراہیم سے روایت کرتے ہیں کہ عکرمہ اور اسود اس طرح پڑھا کرتے تھے۔ لفظ آیت ” صراط من انعمت علیہم غیر المغضوب علیہم ولا الضالین “۔ (8) ثعلبی نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا ہے کہ لفظ آیت ” انعمت علیہم “ چھٹی آیت ہے۔ (9) امام ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے حضرت ابن عباس ؓ سے لفظ آیت ” صراط الذین انعمت علیہم “ کے بارے میں یہ نقل کیا ہے (کہ اس سے مراد) وہ راستہ ہے جن پر انعام ہوا فرشتوں میں سے اور نبیوں اور صدیقین اور شہداء اور صالحین میں سے مراد جنہوں نے تیری اطاعت اور تیری عبادت کی۔ (10) امام ابن جریر نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ لفظ آیت ” صراط الذین انعمت علیہم “ سے مراد مؤمنین کا راستہ ہے۔ (11) ابن جریر نے ابو زید (رح) سے روایت کیا ہے کہ لفظ آیت ” صراط الذین “ سے نبی اکرم ﷺ اور آپ کے ساتھیوں کا راستہ مراد ہے۔ (12) امام عبد بن حمید نے حضرت ربیع بن انس ؓ سے روایت کیا ہے کہ لفظ آیت ” صراط الذین انعمت علیہم “ سے انبیاء مراد ہیں اور لفظ آیت ” غیر المغضوب “ سے یہودی مراد ہیں اور لفظ آیت ” ولا الضالین “ سے نصاری مراد ہیں۔ (13) عبد بن حمید نے حضرت مجاہد (رح) سے روایت کیا ہے کہ لفظ آیت ” غیر المغضوب علیہم “ سے یہودی مراد ہیں اور ” ولا الضالین “ سے نصاری مراد ہیں۔ (14) عبد ابن حمید نے حضر سعید ابن جبیر سے روایت ہے کہ لفظ آیت ” غیر المغضوب علیہم ولا الضالین “ سے یہود و نصاری مراد ہیں۔ (15) امام عبد الرزاق، احمد بن حمید، ابن جریر اور البغوی نے عبد اللہ بن شقیق (رح) سے روایت کیا ہے کہ مجھ کو ایسے آدمی نے خبر دی جس نے نبی کریم ﷺ سے سنا اور آپ وادی قری میں ایک گھوڑے پر سوار تھے اور بنی عین کے ایک آدمی نے آپ سے پوچھا کہ لفظ آیت ” غیر المغضوب علیہم “ سے کون مراد ہیں یا رسول اللہ ؟ آپ نے فرمایا یہود پھر اس نے پوچھا کہ لفظ آیت ” ضالون “ سے کون مراد ہیں ؟ آپ نے فرمایا نصاری۔ (16) امام وکیع، عبد بن حمید، ابن جریر نے عبد اللہ بن شقیق (رح) سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے وادی قری کے رہنے والوں کا محاصرہ کیا ہوا تھا ایک آدمی نے پوچھا یہ وادی قری والے کون ہیں ؟ آپ نے فرمایا یہ لفظ آیت ” غیر المغضوب علیہم “ یہود ہیں پھر اس نے پوچھا یہ دوسرا گروہ کون ہے ؟ آپ نے فرمایا یہ لوگ لفظ آیت ” الضالون “ یعنی نصاری ہیں۔ (17) امام ابن مردویہ نے حضرت عبد اللہ بن شقیق کے طریق سے حضرت ابوذر ؓ سے روایت کیا ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے لفظ آیت ” المغضوب علیہم “ کے بارے میں پوچھا آپ نے فرمایا اس سے مراد یہود ہیں پھر میں نے ” الضالین “ کے بارے میں پوچھا آپ نے فرمایا اس سے مراد نصاری ہیں۔ (18) امام بیہقی شعب الایمان میں عبد اللہ بن شقیق (رح) بلعین کے ایک آدمی سے روایت کرتے ہیں اور وہ اپنے چچا کے بیٹے سے روایت کرتے ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ وادی قری میں تشریف فرما تھے میں نے عرض کیا آپ کے پاس یہ کون لوگ ہیں ؟ آپ نے فرمایا لفظ آیت ” المغضوب علیہم “ یعنی یہود اور ” ولا الضالین “ یعنی نصاری ہیں۔ (19) سفیان بن عینیہ اپنی تفسیر میں سعید بن منصور نے اسماعیل بن ابی خالد ؓ سے روایت کیا ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا لفظ آیت ” المغضوب علیہم سے مراد یہود اور ” الضالون “ سے مراد نصاری ہیں۔ (20) امام احمد، عبد بن حمید، ترمذی، انہوں نے اسے حسن کہا ہے ابن جریر، ابن المنذر، ابن ابی حاتم، ابن حبان نے اپنی صحیح میں حضرت عدی بن حاتم سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ لفظ آیت ” المغضوب علیہم “ سے مراد یہود ہیں اور ” ولا الضالین “ سے مراد نصار ہیں۔ (21) احمد، ابو داود، ابن حبان، الحاکم، انہوں نے اس کو صحیح کہا ہے اور طبرانی نے حضرت شرید ؓ سے روایت کیا ہے کہ میرے پاس سے رسول اللہ ﷺ گزرے اور میں اس طرح بائیں ہاتھ کو اپنی پیٹھ پیچھے رکھ کر دوسرے ہاتھ کی ہتھیلی پر سہارا لگائے ہوئے بیٹھا تھا۔ آپ نے فرمایا کیا تو لفظ آیت ” المغضوب علیہم “ کے بیٹھنے کی طرح بیٹھا ہوا ہے ؟ یعنی یہودیوں کی طرح۔ (22) امام ابن جریج نے حضرت ابن مسعود ؓ سے روایت کیا ہے کہ لفظ آیت ” المغضوب علیہم “ سے مراد یہود ہیں اور ” ولا الضالین “ سے مراد نصاری ہیں۔ (23) ابن جریج، مجاہد (رح) سے اسی طرح روایت کرتے ہیں۔ (24) ابن ابی حاتم (رح) فرماتے ہیں کہ مفسرین کے درمیان لفظ آیت ” المغضوب علیہم “ کا معنی یہود اور ” ولا الضالین “ کا معنی نصاری لینے میں مفسرین میں کوئی اختلاف کو نہیں جانتا (یعنی ہر مفسر نے ان کا یہی معنی مراد لیا ہے) ۔ ذکر آمین اے اللہ ! قبول فرما۔ (1) امام وکیع اور ابن شیبہ نے ابو میسرہ ؓ سے روایت کیا ہے کہ حضرت جبرئیل (علیہ السلام) نے جب رسول اللہ ﷺ کو فاتحہ الکتاب پڑھوائی اور لفظ آیت ” ولا الضالین “ پر پہنچے تو جبرئیل (علیہ السلام) نے فرمایا اس کے بعد آپ آمین کہیں۔ تو آپ نے فرمایا آمین۔ (2) امام وکیع، ابن ابی شیبہ، احمد، ابو داؤد، ترمذی (انہوں نے اس کو حسن کہا ہے) نسائی، ابن ماجہ، حاکم (انہوں نے اسے صحیح کہا ہے) اور بیہقی نے وائل بن حجر حضرمی ؓ سے روایت کیا ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو سنا کہ آپ نے لفظ آیت ” غیر المغضوب علیہم ولا الضالین “ کے بعد فرمایا آمین۔ اور اس کے ساتھ آپ آواز کو بلند کرتے تھے۔ (3) امام طبرانی اور بیہقی نے اپنی سنن میں وائل بن حجر ؓ سے روایت کیا ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کی آواز کو سنا جب آپ نے لفظ آیت ” غیر المغضوب علیہم ولا الضالین “ پڑھا تو فرمایا لفظ آیت ” رب اغفرلی آمین۔ اے اللہ ! مجھے بخش دے آمین۔ (4) امام طبرانی نے وائل بن حجر ؓ سے روایت کیا ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو نماز میں داخل ہوتے ہوئے دیکھا جب آپ فاتحۃ الکتاب سے فارغ ہوئے تو تین مرتبہ فرمایا آمین۔ (5) امام ابن ماجی نے حضرت علی ؓ سے روایت کیا ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو لفظ آیت ” ولا الضالین “ کے بعد آمین کہتے ہوئے سنا۔ (6) امام مسلم، ابو داؤد، نسائی، ابن ماجہ اور ابن ابی شیبہ نے حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب امام لفظ آیت ” غیر المغضوب علیہم ولا الضالین “ کہے تو تم آمین کہو اللہ تعالیٰ تمہاری دعا قبول کرے گا۔ (7) امام مالک، شافعی، ابن ابی شیبہ، احمد، بخاری، مسلم، ابو داؤد، ترمذی، نسائی ابن ماجہ اور بیہقی نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا جب امام آمین کہے تو تم بھی آمین کہو کیونکہ جس کی آمین فرشتوں کی آمین کے موافق ہوجائے تو اس کے سابقہ گناہ سب معاف کر دئیے جاتے ہیں۔ (8) امام ابو یعلی نے اپنی مسند میں اور ابن مردویہ نے جید سند کے ساتھ حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا جب امام لفظ آیت ” غیر المغضوب علیہم ولا الضالین “ کہے اور اس کے پیچھے مقتدی بھی آمین کہیں تو اس آمین پر آسمان اور زمین والے متوجہ ہوتے ہیں۔ اور جو شخص آمین نہیں کہتا وہ اس آدمی کی مانند ہے جس نے قوم کے ساتھ جہاد کیا اور ان کے حصوں کا قرعہ ڈالا گیا لیکن اس کا حصہ نہ نکلا تو اس نے کہا میرا حصہ کیوں نہیں نکلا تو (ایک کہنے والے نے) کہا کیونکہ تو نے آمین نہیں کہا (اس لئے تمہارا حصہ نہیں نکلا) ۔ (9) امام ابو داؤد نے حسن سند کے ساتھ ابو زھیر نمیری (رح) سے روایت کیا ہے کہ اور وہ صحابہ میں سے تھے جب کوئی آدمی دعا کرتا ہے تو اس کو آمین پر ختم کرتا ہے کیونکہ آمین کسی کاغذ پر مہر لگانے کی طرح ہے۔ اور مزید فرمایا کہ میں تم کو اس بارے میں بتاتا ہوں ایک رات ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ باہ نکلے اور ایک آدمی ہمارے پاس آیا جو اللہ تعالیٰ سے مانگنے میں بہت آہ وزاری کر رہا تھا تو نبی اکرم ﷺ اس کی دعا کو سننے کے لئے ٹھہر گئے پھر آپ نے اس سے فرمایا اگر اس نے مہر لگائی تو اس نے واجب کردیا۔ لوگوں میں سے ایک آدمی نے پوچھا کہ کس چیز کے ساتھ مہر لگائے ؟ آپ نے فرمایا آمین کے ساتھ کیونکہ اگر آمین کے ساتھ مہر لگائی تو اس نے واجب کردیا (سوال کے پورا ہونے کو) ۔ (10) امام احمد، ابن ماجہ اور بیہقی نے سنن میں حضرت عائشہ ؓ سے روایت کیا ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا تم پر یہود نے کسی چیز سے اتنا حسد نہیں کیا جتنا آمین پر حسد کیا۔ (11) ابن ماجہ نے ضعیف سند کے ساتھ حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا تم پر یہود نے کسی چیز پر اتنا حسد نہیں کیا جتنا آمین پر حسد کیا۔ پس آمین کثرت سے کہو۔ (12) ابن عدی نے الکامل میں حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا بلاشبہ یہود حسد والی قوم ہے اور انہوں نے تم پر تین چیزوں پر حسد کیا۔ سلام کے پھیلانے پر، صف باندھنے پر اور برابر آمین کہنے پر۔ (13) امام طبرانی نے الاوسط میں حضرت معاذ بن جبل ؓ سے روایت کیا ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا بلاشبہ یہود حسد والی قوم ہے انہوں نے مسلمانوں سے تین افضل چیزوں میں حسد کیا سلام کا جواب دینے میں، صفوف کے باندھنے میں، فرض نماز میں امام کے پیچھے آمین کہنے میں۔ امت محمدیہ ﷺ کی تین خصوصیات (14) الحرث بن اسامہ نے اپنی مسند میں حکیم ترمذی نے نوادر الاصول میں اور ابن مردویہ نے حضرت انس ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا مجھے تین چیزیں دی گئیں۔ نماز کو صفوں میں (کھڑے ہو کر ادا کرنا) دیا گیا۔ اور میں سلام دیا گیا جو جنت والوں کا تحفہ ہے اور میں آمین دیا گیا اس سے پہلے سوائے ہارون (علیہ السلام) کے کسی کو یہ تحفہ نہیں دیا گیا۔ کیونکہ موسیٰ (علیہ السلام) دعا مانگتے تھے اور ہارون (علیہ السلام) آمین کہتے تھے اور حکیم ترمذی کے الفاظ ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے میری امت کو تین چیزیں عطا فرمائیں اور ان سے پہلے کسی کو بھی نہیں دی گئیں۔ سلام جو جنت والوں کا تحفہ ہے اور فرشتوں کی طرح صف باندھنا اور آمین کہنا۔ مگر یہ موسیٰ اور ہارون (علیہ السلام) کو بھی آمین کی سعادت دی گئی تھی۔ (15) الطبرانی نے الدعا میں ابن عدی اور ابن مردویہ نے ضعیف سند کے ساتھ حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا آمین رب العالمین کی مہر ہے اس کے مؤمن بندوں کی زبان پر۔ (16) امام جو یبر نے اپنی تفسیر میں ضحاک کے واسطے سے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ آمین کا کیا معنی ہے ؟ آپ نے فرمایا اے میرے رب قبول فرما۔ (17) ثعلبی نے کلبی کے طریق سے ابن صالح سے ابن عباس سے اس کی مثل روایت کی ہے۔ وکیع اور ابن ابی شیبہ نے المصنف میں ہلال بن سیاف اور مجاہد (رح) دونوں حضرات سے روایت کیا ہے کہ آمین اللہ کے ناموں میں سے ایک نام ہے۔ (18) امام ابن شیبہ نے ابراہیم نخعی (رح) سے روایت کیا ہے کہ جب امام لفظ آیت ” غیر المغضوب علیہم ولا الضالین “ کہے تو اس کے جواب میں لفظ آیت ” اللہم اغفرلی “ اور آمین کہنا مستحب ہے۔ (19) امام ابن ابی شیبہ نے حضرت مجاہد سے روایت کیا ہے کہ جب امام لفظ آیت ” غیر المغضوب علیہم ولا الضالین “ کہے۔ تو اس کے بعد کہو : اللہم انی اسئلک الجنہ واعوذبک من النار ترجمہ : اے اللہ ! میں آپ سے جنت کا سوال کرتا ہوں اور آپ سے دوزخ سے پناہ مانگتا ہوں۔ (20) امام ابن ابی شیبہ ربیع بن خیثم سے روایت کرتے ہیں کہ جب امام لفظ آیت ” غیر المغضوب علیہم ولا الضالین “ کہے تو تم جو چاہو دعا سے مدد حاصل کرو۔ (21) امام ابن شاہین نے السنہ میں اسماعیل بن مسلم سے روایت کیا ہے کہ ابی بن کعب ؓ کے مصحف میں لفظ آیت ” غیر المغضوب علیہم ولا الضالین آمین بسم اللہ “ تھا پھر اسماعیل فرماتے ہیں کہ جب حضرت حسن ؓ سے آمین کی تفسیر کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے جواب دیا کہ اس کا مطلب ہے اللہم استجب۔ اے اللہ تو ہماری اس دعا کو قبول فرما۔ (22) دیلمی نے حضرت انس ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا جس نے لفظ آیت بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھا پھر فاتحۃ الکتاب کو پڑھا پھر کہا آمین تو آسمان پر کوئی فرشتہ مقرب باقی نہیں رہتا جو اس شخص کے لئے استغفار نہ کرتاہو۔ الحمدللہ سورة فاتحہ مکمل ہوئی
Top