Tafseer-e-Baghwi - Al-Faatiha : 7
صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْهِمْ١ۙ۬ۦ غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْهِمْ وَ لَا الضَّآلِّیْنَ۠   ۧ
صِرَاطَ : راستہ الَّذِينَ : ان لوگوں کا أَنْعَمْتَ : تونے انعام کیا عَلَيْهِمْ : ان پر غَيْرِ : نہ الْمَغْضُوبِ : غضب کیا گیا عَلَيْهِمْ : ان پر وَلَا : اور نہ الضَّالِّينَ : جو گمراہ ہوئے
ان لوگوں کے راستے جن پر تو اپنا فضل و کرم کرتا رہا نہ ان کے جن پر غصے ہوتا رہا، اور نہ گمراہوں کے
اصل میں لغوی طور پر واضح راستہ اس کا معنی ہے ، (آیت)” صراط الذین انعمت علیہم “۔ یعنی جن پر تو نے ہدایت اور توفیق کے ذریعے احسان فرمایا ۔ حضرت عکرمہ (رح) فرماتے ہیں کہ جن پر تو نے (یا اللہ) ایمان پر ثابت قدم رہنے اور استقامت اختیار کرنے کا احسان فرمایا اور یہ لوگ انبیاء کرام (علیہم السلام) ہیں اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس سے مراد ہر وہ شخص ہے جسے اللہ تعالیٰ نے ایمان پر ثابت قدم رکھا ، انبیاء کرام (علیہم السلام) ہوں یا مؤمنین عظام جن کا ذکر اللہ تعالیٰ نے اپنے اس فرمان میں کیا (آیت)” فاولئک مع الذین انعم اللہ علیھم من النبیین “۔ الآیۃ۔ ابن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ اس سے مراد قوم موسیٰ اور قوم عیسیٰ ہے جب تک انہوں نے اپنے دین کو تبدیل نہیں کیا تھا ۔ حضرت عبدالرحمن ؓ کے نزدیک اس سے مراد نبی کریم ﷺ اور آپ ﷺ کے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین ہیں ، ابوالعالیہ ؓ فرماتے ہیں یہ انعام یافتہ حضرات حضور ﷺ اور حضرت ابوبکر ؓ اور حضرت عمر ؓ ہیں ۔ عبدالرحمن بن زید ؓ فرماتے ہیں یہ حضرات حضور ﷺ اور آپ کا خاندان ہے، حضرت حمزہ ؓ کی قرات ” علیہم ولدیھم والیھم “۔ ان سب کی ھا پر پیش کے ساتھ ہے ، یعقوب ہر اس حاء کو پیش دیتے ہیں جن سے پہلے باء ساکنہ ہوں ۔ وہ ضمیر تثنیہ کی ہو یا جمع کی ہو ۔ سوائے اللہ تعالیٰ کے اس قول کے (آیت)” بین ایدیھن وارجلھن “۔ اور باقیوں نے دونوں قسم کی ھاء کو زیر کے ساتھ پڑھا ہے، پس جس نے ھاء کو پیش دی اس نے اس کو اصل کی طرف لوٹایا کیونکہ وہ مفرد ہونے کی صورت میں پیش والی ہوتی ہے اور جس نے زیر دی اس نے یائے ساکنہ کا لحاظ کیا کیونکہ یاء زیر کی بہن ہوتی ہے، ابن کثیر اور ابو جعفر نئے ہر میم جمع کو بھر پور پیش دی جب کہ وہ موصول ہو مگر یہ کہ اس کو ساکن نہ ملے اور اس کے ساتھ اگر ساکن ملے پھر بھرپور پیش نہ ہوگی اور نافع اختیار دیتے ہیں اور ورش ھاء کو پیش دیتے ہیں جب الف قطع کے ساتھ ہو اور جب اسے الف وصل ملے اور ھاء سے پہلے زیر ہو یا یاء ساکنہ ہو تو ھاء کو اور میم کو حمزہ اور کسائی پیش دیتے ہیں اور ابو عمر و دونوں کو زیر دیتے ہیں ، اسی طرح یعقوب اس وقت کسرہ دیتے ہیں جب اس کا ماقبل (یعنی پہلے والا حرف) زیر والا ہو اور باقی حضرات میم کی پیش اور ھاء کی زیر پڑھتے بوجہ یاء کے یا پہلے والے حرف پر زیر ہونے کی وجہ سے اور میم کی پیش اصل کے اعتبار سے ہے ۔ فرمان الہی (آیت)” غیر المغضوب علیھم “۔ یعنی ان لوگوں کے راستہ کے سوا جن پر تو غضب ناک ہوا۔ ” غضب “ مجرموں سے بدلہ لینے کے ارادہ کا نام ہے مگر اللہ تعالیٰ کا غضب مؤمن گناہگاروں کو نہیں پہنچے گا بلکہ کافروں کو لاحق ہوگا ۔ ”(آیت)” ولا الضالین “ کا معنی ہے ” غیر الضالین عن الھدی “۔ یعنی سوائے ان لوگوں کے جو ہدایت کی راہ سے بھٹک گئے ۔ ” ضلال “ کا اصل معنی ہلاک ہونا اور گم ہونا ہے۔ چناچہ کہا جاتا ہے ” ضل الماء فی اللبن “ یعنی پانی دودھ میں ہلاک ہو گای اور غائب ہوگیا ۔ اور (غیر) اس جگہ بمعنی (لا) اور (لا) بمعنی (غیر) اسی وجہ سے غیر پر (لا) کا عطف جائز ہے جیسے کہا جاتا ہے ، فلاں غیر محسن ولا مجمل “ اور جب غیر بمعنی سوی ہوگا تو پھر اس پر لاء کے ساتھ عطف کرنا جائز نہ ہوگا کلام میں اس طرح عبارۃ لانا جائز نہیں ۔ ” عندی سوی عبداللہ ولا زید “۔ حضرت سدنا فاروق اعظم عمر بن الخطاب ؓ نے ” صراط من انعمت علیہم “ (یعنی الذین کی جگہ من پڑھا) کیونکہ اللہ تعالیٰ نے یہود پر غضب کا حکم لگایا ، پس فرمایا ” من لعنہ اللہ وغضب علیہ “ اور نصاری پر ضلال کا حکم لگایا ۔ لہذا ” انعمت علیہم “ کا معنی ہوگا نہ وہ غضب کیا گیا اور نہ وہ لوگ جو راہ ہدایت سے بھٹک گئے گم ہوگئے اور کہا گیا (آیت)” المغضوب علیہم “ یعنی جن پر غضب کیا گیا وہ یہود ہیں اور ضالون یعنی گم کردہ راہ نصاری ہیں ، پس فرمایا ” ولا تتبعوا اھواء قوم قدضلوا من قبل “ حضرت سہل بن عبداللہ ؓ فرماتے ہیں ۔ ” غیر المغضوب علیہم بالبدعۃ “ یعنی جن پر بدعۃ کو اختیار کرنے سے غضب کیا گیا ۔ ” ولا الضالین عن السنۃ “ اور نہ ان لوگوں کا راستہ جو سنت سے منہ موڑ کر گمراہ ہوگئے ۔ فاتحہ پڑھنے والے کے لیے مسنون یہ ہے کہ جب فاتحہ سے فارغ ہو تو تھوڑا سا سکتہ یعنی معمولی وقفہ کرکے آمین کہے اور یہ (آمین) مخفف ہے یعنی آمین کی میم پر شد نہیں ہے البتہ آمین مد کے ساتھ بھی ہے اور بغیر مد کے بھی ہے اور اس کا معنی ہے (اے اللہ میری دعا کو سن اور قبول فرما) حضرت ابن عباس ؓ اور حضرت قتادہ ؓ فرماتے ہیں اس کا معنی ہے اسی طرح ہو ، حضرت مجاہد (رح) فرماتے ہیں آمین اللہ تعالیٰ کے ناموں میں سے ایک نام ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ آمین دعا کی مہر ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ آمین اللہ تعالیٰ کے بندوں پر اللہ تعالیٰ کی خاتم یعنی حفاظتی مہر ہے جس سے اللہ تعالیٰ ان سے آفات کو دفع فرماتا ہے، کتابی خاتم وہ ہوتی ہے جو کتاب کو فاسد (یعنی مضامین کی خرابی) ہونے سے بچاتی ہے اور اندرونی مضامین کو ظاہر ہونے سے محفوظ رکھتی ہے ، حضرت سیدنا ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ بیشک حضور اقدس ﷺ نے فرمایا کہ جب (آیت)” غیر المغضوب علیھم ولا الضالین “۔ کہے تو تم آمین کہو کیونکہ اس وقت فرشتے بھی آمین کہتے ہیں اور امام بھی آمین کہتا ہے تو جس شخص کی آمین فرشتوں کی آمین کے ساتھ موافقت پاگئی اس کے سابقہ گناہ بخشے گئے ، صحیح (یعنی اس حدیث کی سند صحیح) ہے ۔ (فصل فضیلت فاتحہ کے بیان میں) حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ حضور ﷺ ابی بن کعب ؓ کے پاس سے گزرے جبکہ وہ کھڑے نماز پڑھ رہے تھے ، آپ نے انہیں آواز دے کر فرمایا ابی ادھر آؤ ، حضرت ابی جلدی جلدی نماز پڑھ کر حضور اقدس ﷺ کے پاس پہنچے ، حضور ﷺ نے فرمایا ابی جب میں نے تجھے بلایا تو جواب دینے میں کون سی چیز مانع تھی کیا اللہ تعالیٰ یہ نہیں فرماتے ، (آیت)” یایھا الذین امنوا استجیبوا للہ وللرسول اذا دعاکم لما یحیکم “ کہ اے ایمان والو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کو لبیک کہو جب اللہ تعالیٰ کا رسول تمہیں اس چیز کی طرف پکارے تمہارے لیے زندگی ہے (یعنی باعث حیات ہے) حضرت ابی ؓ نے عرض کیا واقعی یا رسول اللہ اب جب بھی مجھے بلائیں گے میں فورا لبیک کہوں گا ، اگرچہ میں نماز ہی میں کیوں نہ ہوں گا ، آپ نے فرمایا ابی میں تجھے ایسی سورة کی تعلیم نہ دوں کہ اس جیسی سورة نہ تورات میں نازل ہوئی نہ انجیل میں نہ زبور میں اور نہ ہی قرآن مجید میں ، حضرت ابی ؓ نے عرض کیا ہاں یا رسول اللہ تو حضور ﷺ نے فرمایا مسجد کے دروازہ سے نکلنے سے پہلے تو اسے معلوم کرلے گا اور نبی کریم ﷺ مسجد سے نکلنے کے ارادہ سے چل رہے تھجے جب آپ ﷺ نکلنے کے لیے دروازہ مسجد کو پہنچے حضرت ابی ؓ نے حضور ﷺ سے عرض کیا یا رسول اللہ ! وہ سورة پس حضور ﷺ ٹھہر گئے اور فرمایا ہاں ! اپنی نماز میں کے پڑھتے ہو ؟ تو حضرت ابی نے ام القرآن (فاتحہ) پڑھی تو حضور ﷺ نے فرمایا مجھے قسم ہے اس ذات پاک کی جس کے قضبہ قدرت میں میری جان ہے کہ تورات و انجیل اور زبور وقرآن کریم میں اس جیسی سورة نازل نہیں کی گئی ، یہی وہ سبع مثانی ہے جو اللہ تعالیٰ نے مجھے عطا فرمائی ، یہ حدیث حسن صحیح ہے ۔ سعید نے سیدنا حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے روایت کی ابن عباس فرماتے ہیں کہ اس دوران کہ حضور ﷺ تشریف فرما تھے اور آپ ﷺ کے پاس حضرت جبرائیل (علیہ السلام) بھی جلوہ افروز تھے ، اچانک آپ نے اوپر سے سخت آواز سنی تو حضرت جبرائیل (علیہ السلام) نے آسمان کی طرف نظر اٹھا کر دیکھا اور فرمایا یہ دروازہ آسمان سے آج کھلا ہے پہلے کبھی نہیں کھلا فرمایا اس دروازہ سے ایک فرشتہ اتر کر حضور ﷺ کے پاس آیا اور فرمایا (یا رسول اللہ) آپ ایسے دو نوروں کے باعث خوش ہوجاویں جو صرف آپ ﷺ کو عطا کیے گئے ہیں ، آپ سے پہلے کسی نبی کو عطا نہیں کیے گئے ، (وہ دو نور کیا ہیں ؟ ) (1) سورة فاتحہ (2) اور سورة البقرہ کی آخری آیات ، آپ ﷺ (یعنی آپ ﷺ کی امت) ان میں سے جو بھی (دعائیہ) حرف پڑھیں گے (اس کا ثمر) آپ ﷺ کو عطا کیا جائے گا ۔ (صحیح) حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے فرماتے تھے کہ حضور اقدس ﷺ نے ارشاد فرمایا جس شخص نے نماز پڑھی اور اس نماز میں ام القرآن (فاتحہ) نہ پڑھی تو یہ نماز ناتمام ہے ۔ ہشام بن زہرہ ؓ فرماتے ہیں میں نے کہا اے ابوہریرہ (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) میں کبھی امام کے پیچھے ہوتا ہوں پھر ؟ تو انہوں نے میرے بازو کو دباتے ہوئے فرمایا قاری صاحب ! اسے دل میں پڑھ لیا کرو ، پس بیشک میں نے حضور ﷺ کو سنا آپ ﷺ فرماتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ نماز میرے اور میرے بندے کے درمیان آدھوں آدھ تقسیم کی گئی ہے ، نماز کا آدھا حصہ میرے لیے ہے اور اس کا آدھا حصہ میرے بندے کے لیے اور میرے بندے کے لیے وہی کچھ ہے جو اس نے مانگا فرمایا حضور ﷺ نے پڑھو، بندہ کہتا ہے (الحمد للہ رب العالمین) اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں میرے بندے نے میری تعریف کی ، بندہ کہتا ہے (الرحمن الرحیم) اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں میرے بندے نے میری ثناء کی ، بندہ کہتا ہے (مالک یوم الدین) اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں میرے بندے نے میری بزرگی بیان کی ۔ بندہ کہتا ہے (ایاک نعبد وایاک نستعین) اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں یہ آیت میرے اور بندے کے درمیان (منقسم) ہے لہذا میرے بندے کے لیے وہی کچھ ہے جو کچھ اس نے مانگا ، بندہ کہتا ہے (اھدنا الصراط المستقیم صراط الذین انعمت غیر المغضوب علیھم ولا الضالین) اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں پس یہ سب چیزیں میرے بندے کے لیے ہیں اور میرے بندے کے لیے وہی کچھ ہے جو کچھ میرے بندے نے مانگا ۔ (صحیح)
Top