18 (باب ہدایت میں) یہ مزید شرح و تفسیر ہے اسی سیدھے راستہ یا صراط مستقیم کی۔ تعلیمات وہدایات تو ساری کی ساری قرآن مجید کے لفظ وعبارت میں آگئیں۔ لیکن مشیت الہی نے مذید شفقت وکرم سے ان تعلیمات وہدایت کے عملی نمونے بھی انسانی روح و قالب میں بشری صورت و سیرت میں بہ کثرت بھیج دیئے کہ اس صراط مستقیم پر چلنا اور زیادہ آسان ہوجاوے۔ یہ انعام پائے ہوئے لوگ انبیاء ومرسلین ہیں۔ ان کی زندگی کے واقعات و حالات قرآن مجید میں بکثرت نقل ہوئے ہیں۔ اور ان میں بھی علی الخصوص اس پاکیزہ جماعت کے پاکیزہ تیرین سردار محمد رسول اللہ ﷺ ۔ آپ کی سیرت مبارکہ کا ایک ایک جز تک محفوظ ہے۔ پھر اس کے بعد آپ کے جو صحیح نائب و جانشین آپ کے معا بعد ہوئے ہیں، اور پھر ہر دور میں ہوتے آئے ہیں۔ یعنی اولیائے امت یا صدیقین، یا پھر شہید ان راہ حق اور عام صالحین، کہ یہ بھی اپنے اپنے درجہ میں نمونہ کا کام اپنے بعد آنے والوں کے لیے دے سکتے ہیں۔ خود قرآن ہی میں ایک دوسری جگہ ان انعام پائے ہوؤں کی فہرست کے خاص خاص عنوانات گنادیئے ہیں۔ ومن یطع اللہ والرسول فاولئک مع الذین انعم اللہ علیہم من النبین والصدیقین والشھدآء والصلحین (سورۃ النساء) انعمت علیھم کے لفظ سے امام ابن جریر نے یہ نکتہ نکالا ہے کہ جن لوگوں کو یہ مرتبہ نصیب ہوا ہے اس کی تہ میں اصل شے محض انعام الہی وفضل خداوندی ہے۔ وفی ھذہ الایۃ دلیل واضح علی ان طاعۃ اللہ جل ثناءہ لا ینالھا المطیعون الا بانعام اللہ بھا علیہم و توفیقہ ایاھم لھا۔ مرشد تھانوی مدظلہ نے فرمایا کہ الذین انعمت علیہم سے اشارہ اس طرف ہوگیا کہ صراط مستقیم میسر نہیں ہوتا بغیر اس کے کہ پیروی اہل صراط مستقیم کی کی جائے۔ اور اس کے لیے محض اوراق وکتب کافی نہیں۔
19 (اپنی دانستہ وارادی کج روی کی بدولت) غیر المغضوب علیھم کی تقدیر کلام غیر صراط المغضوب علیھم ہے۔ صرف مضاف الیہ بیان کیا گیا، اور مضاف محذوف ہے۔ عربی ادب وانشا میں حذف موصوف، حذف مضاف کی مثالیں کثرت سے ملتی ہیں۔ صرف صفت یا صرف مضاف الیہ بول کر کام چلالیا جاتا ہے، اور ایساحذف قرنیہ مقام سے بےتکلف سمجھ لیا جاتا ہے۔ اکتفی بالمضاف الیہ عن ذکر المضاف وقد دل علیہ سیاق الکلام (ابن کثیر) ” زیر غضب “ سے مراد زیر غضب الہی ہے۔ انعام الہی کا ذکر ابھی اوپر آچکا ہے۔ وہاں صیغہ معروف استعمال ہوا تھا اور ضمیر فاعلی صریح تھی۔ یہاں غضب کے موقع پر صیغہ مجہول کردیا گیا ہے۔ اور فاعل کی کوئی صراحت نہیں، یہ اثر ہے غلبہ رحمت الہی کا۔ غضب الہی کا ذکر اگلے آسمانی نوشتوں میں صراحت کے ساتھ ہے۔ توریت میں بھی اور انجیل میں بھی، توریت میں ہے کہ :۔ ” اب تو مجھ کو چھوڑ کر میرا غضب ان پر بھڑکے اور میں انہیں بھسم کردوں “۔ (خروج۔ 32: 1 1) نیز خروج 32 ۔ 12 ۔ و 13 ۔ استثناء 9:20 و 2 1 وغیرہ۔ انجیل کو عام طور سرتا سر حلم ورأفت و شفقت کا صحیفہ سمجھا گیا ہے، وہ بھی اس ذکر سے خالی نہیں۔ ملاحظہ متی 3:8 و 10 ۔ مکاشفہ 19 ۔ 15 وغیرہ۔ حیرت ہے کہ بعض جدید اہل قلم نے مسیحی پادریوں کے دجل وتلبیس سے متاثر بلکہ مرعوب ہو کر اسلام میں غضب الہی کے وجود ہی سے انکار کردینا چاہا ہے۔ گویا حق سبحانہ، وتعالیٰ ان کم فہموں کے خیال میں ایک بڑے پیمانہ پر کوئی سادھو، سنیاسی مہاتما ہیں کہ جو بدبخت چاہے، ان کے بنائے اور اتارے ہوئے قوانین کو، جو سرتاسر بندوں ہی کے نفع ومصلحت۔ فلاح و بہبود کے لیے ہیں، آزادی وبے تکلفی سے توڑتا پھوڑتا، چیرتا پھاڑتا رہے، اور وہ اہمسا اور شانتی کے ساتھ، صبر وخاموشی کے ساتھ، جمود وتعطل کے ساتھ سارا تماشا دیکھتا رہے۔ اور اصلاح حال کے لیے نہ اپنی غیر محدود قوت اور نامتناہی توانائی کو حرکت میں لائے، اور نہ دفع فساد کے لیے کوئی عملی اقدام کرے ! پادریوں کے اعتراض کی اصل وبنیاد ہی غلط ہے۔ انہوں نے غضب الہی کو بھی قیاس کیا انسانی غصہ اور طیش پر، جو نتیجہ ہوتا ہے نفس کی ایک انفعالی کیفیت کا۔ حق تعالیٰ پاک ہے ہر قسم کے انفعال وتاثر سے۔ وہ صرف فاعل ہے۔ تمامتر مؤثر ہے۔ اس کے اصلاحی اقدام عمل، اس کی تعزیری حرکت ارادی کا نام بندوں کی زبان میں غضب الہی ہے۔ اس کی حاکمانہ قوت، مربیانہ شفقت دونوں کا عین مقتضی یہی ہے کہ وہ گنہ گاروں، باغیوں، مجرموں کو ان کے جرم وبغاوت کے آخری عملی نتائج تک پہنچائے۔ اس کا غیظ وغضب درحقیقت تتمہ اور ضمیمہ ہے اس کی رحمت بےحساب کا، اور لازمی نتیجہ ہے اس کی شفقت بےکراں کا۔ اہل تفسیر عموما اس طرف گئے ہیں کہ المغضوب علیھم سے مراد یہود ہیں۔ احادیث وآثار بھی اسی کی تائید میں ہیں۔ اور آیۃ کریمہ من لعنۃ اللہ وغضب علیہ کے لفظ سے بھی یہی استنباط کیا گیا ہے۔ لیکن ایک گروہ نے مشرکین مراد لی ہے۔ عجب نہیں کہ آیت ان سب کے حق میں عام ہو جو از راہ شرارت وخبث نفس حق کی مخالفت دیدہ و دانستہ کرتے رہتے ہیں۔
20 یعنی ان کی راہ بھی نہیں جو اپنی غفلت، بےالتفاتی، نادانی کی بنا پر حق کی طرف رخ بھی نہیں کرتے، اہل تفسیر عموما اس طرف گئے ہیں کہ الضآلین سے مراد نصاری ہیں۔ حدیث وآثار بھی اسی کی تائید میں ہیں۔ اور آیۃ کریمہ قد ضلوا من قبل واضلوا کثیرا کے لفظ سے بھی یہی استنباط کیا گیا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ مغضوب علیھم اور ضآلین کے مصداقوں کا حصر انہیں دو مذہب والوں کے ساتھ کردینا مشکل ہے جو کھلے ہوئے مشرکین وملحدین ہیں، ظاہر ہے کہ وہ ضلالت میں ان سے بھی بڑھے ہوئے اور غضب الہی کے ان سے مستحق تر ہیں۔ محقق رازی کی رائے میں بہتر یہ ہے کہ کل عملی غلطیوں والوں کو زمرۂ مغضوب علیہم میں رکھا جائے اور کل اعتقادی غلطیوں والوں کا شمار طبقہ ضالین میں کیا جائے۔ فالاولی ان یحمل المغضوب علیہم علی کل من اخطا فی الاعمال الظاھرۃ وھم الفساق ویحمل الضالون علی کل من اخطافی الاعتقاد لان اللفظ العام والتقیید خلاف الاصل (کبیر) سورت کے خاتمہ پر امین کہنا مستحب ہے۔ آمین خود ایک دعا ہے۔ اس کے معنی ہیں استجب۔ یعنی اے رب قبول فرما ! یعنی امین عند اکثر اھل العلم اللھم استجب لنا (قرطبی)
تذئیل یہ خوش عقیدگی نہیں اظہار حقیقت ہے کہ جس حیرت انگیز ایجازرجامعیت کے ساتھ سورة فاتحہ کی سات مختصر آیتوں میں توحید الہی اور صفات کمالیہ کا بیان آگیا ہے، اس کی نظیر سے مذاہب عالم کے دفتر خالی ہیں۔ اور اس سے بڑھ کر تو کیا اس کے برابر کی بھی مثال پیش کرنے سے دنیائے مذاہب عاجز ہے۔ مسیحی دنیا کو بڑا ناز اپنی انجیلی دعا Lords prayer پر ہے۔ لیکن اول تو اس کا ضعف اسناد بھی خود مسیحی فاضلوں کو مسلم ہے۔ یعنی اسی کی تحقیق نہیں کہ الفاظ خود حضرت مسیح (علیہ السلام) کے ہیں بھی۔ پھر چیز جہاں سے بھی آئی ہو یہاں اس کے الفاظ سورة فاتحہ کے بالمقابل درج کیے جاتے ہیں۔ ہر منصف مزاج خود فیصلہ کرسکتا ہے کہ قرآن کی فاتحۃ الکتاب اور اس انجیلی دعا کے درمیان کیا نسبت ہے !
سورة الفاتحہ
1 (ساری) تعریف اللہ کے لئے ہے (وہ) سارے جہانوں کا مربی۔ 2 (وہ) نہایت رحم کرنے والا (وہ) بار بار رحم کرنے والا۔ 3 (وہ) مالک روز جزا کا۔ 4 ۔ ہم بس تیری ہی عبادت کرتے ہیں۔ اور بس تجھی سے مدد چاہتے ہیں۔ 5 ۔ چلا ہم کو سیدھا راستہ۔ 6 ۔ ان لوگوں کا راستہ جن پر تو نے انعام کیا۔ 7 ۔ نہ ان کا (راستہ) جو زیر غضب آچکے ہیں اور نہ بھٹکے ہوؤں کا۔
انجیلی دعا (متی 6:9 ۔ 14)
1 ۔ اے ہمارے باپ تو جو آسمان پر ہے، تیر نام پاک مانا جائے 2 ۔ تیری بادشاہت آئے۔ تیری مرضی جیسی آسمان پر پوری ہوتی ہے زمین پر بھی ہو۔ 3 ۔ ہماری روز کی روٹی ہمیں آج دے۔ اور 4 ۔ جس طرح ہم نے اپنے قرضداروں کو معاف کیا ہے تو ہمارے قرض ہم کو معاف کر۔ 5 ۔ اور ہمیں آزمائش میں نہ لا بلکہ برائی سے بچا۔
( 1) کہاں رب العالمین کی لامحدود وسعت وہمہ گیری اور کہاں آسمان پر بیٹھے رہنے والی بعید اور محدود، اور پھر باپ جیسی محض مادی تعلق رکھنے والی ہستی ! (2) ایک طرف اعلان ہورہا ہے ہمہ گیر صفات ربوبیت، رحمانیت، رحیمیت ومالکیت کا۔ اور دوسری طرف ان کی بجائے ذکر ہے صرف زمین پر آسمانی بادشاہت کے آنے کا ! (3) توحید خالص پر جو زور قرآنی عبارت میں، منع عبادت غیر ومنع استعانت بالغیر میں ہے۔ انجیلی دعا میں کہیں اس کا پتہ تک نہیں (4) انجیلی دعا کی آیت نمبر 3 میں روٹی کی اس درجہ اہمیت مادیت کی انتہا ہے۔ (5) محض برائی سے بچنے کی دعا، صراط مستقیم پر قائم رہنے کی نسبت سے کہیں زیادہ ہلکی ہے۔