Anwar-ul-Bayan - Al-Faatiha : 5
اِیَّاكَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاكَ نَسْتَعِیْنُؕ
اِيَّاكَ : صرف تیری نَعْبُدُ : ہم عبادت کرتے ہیں وَ : اور اِيَّاكَ : صرف تجھ سے نَسْتَعِيْنُ : ہم مدد چاہتے ہیں
اے پروردگار ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھی سے مدد مانگتے ہیں
(1:4) اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَاِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ نَعْبُدُ ۔۔ فعل فعل اپنے فاعل نحن ۔۔ (ضمیر مستتر) فاعل اور مفعول سے مل کر معطوف علیہ اِيَّاكَ ۔۔ مفعول۔ (جو تخصیص کے لئے مقدم کردیا گیا ہے) جملہ فعلیہ ہوا وَ ۔۔ حرف عطف نَسْتَعِيْنُ ۔۔ فعل فعل اپنے فاعل اور مفعول سے معطوف نحن ۔۔ (ضمیر ستتر) فاعل مل کر جملہ فعلیہ ہوا اِيَّاكَ ۔۔ مفعول (مقدم برائے تخصیص) اِيَّاكَ ۔ اِيَّا۔ اور كَ سے مرکب ہے، یعنی تجھ ہی سے۔ علامہ راغب اصفہانی لکھتے ہیں کہ یہ کلمہ ضمیر منصوب منفصل کے تلفظ کے لئے وضع کیا گیا ہے۔ جب ضمیر منصوب اپنے عامل پر مقدم ہو یا اس پر کسی کلمہ کا عطف ڈالا جائے یا الا کے بعد آئے تو اس کے ساتھ (یعنی ایا کے ساتھ) استعمال ہوتی ہے (1) مثلاً تقدیم کی صورت میں ہے ایاک نعبد (ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں) (2) عطف کی صورت میں قرآن مجید میں ہے نحن نرزقھم وایاکم (17-31) ان کو اور تم کو ہم ہی رزق دیتے ہیں اور (3) الا کے بعد : وَقَضٰى رَبُّكَ اَلَّا تَعْبُدُوْٓا اِلَّآ اِيَّاهُ (17-23) اور تیرے پروردگار نے قطعی طور پر ارشاد فرمایا کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو : مفعول مقدم کی صورت میں تخصیص کے معنی پائے جاتے ہیں ۔ گویا جب کہا جائے نعبدک تو اس کے معنی ہوں گے ہم تیری عبادت کرتے ہیں۔ لیکن جب کہا جائے ایاک نعبد تو اس کے معنی ہوں گے ہم صرف تیری ہی عبادت کرتے ہیں۔ نَسْتَعِيْنُ : مضارع کا صیغہ جمع متکلم ہے۔ استعانۃ (استفعال) سے عون۔ مادہ۔ ہم مدد چاہتے ہیں، ہم مدد مانگتے ہیں ایاک۔ صرف تجھی سے۔ فائدہ اول : یہاں ایاک جو کہ بطور مفعول مستعمل ہے اسے فعل سے قبل لانے اور پھر اسے دوہرانے سے مقصود اس کی اہمیت کو ذہن نشین کرانا ہے اور عبادت اور طلب کو اللہ تعالیٰ کے ساتھ مخصوص کرنا ہے یعنی ہم صرف تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد طلب کرتے ہیں تیرے سوا کسی کی عبادت نہیں کرنے اور تیرے سوا کسی سے امداد طلب نہیں کرتے۔ اس حصرو تخصیص کے مدنظر اللہ کے سوا کسی اور کی عبادت کرنا یا اس سے مدد مانگنا قطعاً ممنوع اور حرام ہے، خواہ وہ کرئی انسان ہو، جن ہو، فرشتہ ہو، حیوانات سے ہو بناتات سے ہو یا جمادات سے ہو، استعانت (مدد طلب کرنا) سے یہاں اعانت کے بنیادی معنی مراد ہیں جس میں اس کے جملہ پہلو شامل ہوں، ورنہ اس عالم اسباب میں بعض قسم امداد ماسوی اللہ سے طلب کرنا منع نہیں ہے مثلاً آپ کمزوری کے باعث اٹھ نہیں سکتے اور کسی اور کو اٹھنے میں مدد دینے کو کہتے ہیں، آپ طلب علم ہیں اور استاد سے یا کسی عالم سے اپنے علم کی تحصیل کے لئے امدا کے طالب ہیں۔ علیٰ ہذا القیاس۔ حالانکہ آپ کا فی الواقع اٹھنے کے قابل ہونا۔ یا مرض سے شفا پانا، یا علم کا حاصل کرنا بالآخر قبضہ قدرت میں ہے آپ صرف دنیاوی اسباب سے استفادہ چاہتے ہیں اور حقیقۃً ان اسباب کے مہیا کرنے کا مسبب وہی اللہ تعالیٰ ہی ہے۔ ابن کثیر لکھتے ہیں کہ کامل اطاعت اور پورے دین کا حاصل یہی دو چیزیں ہیں (عبادت اور استعانت) بعض سلف کا قول ہے کہ سارے قرآن کا راز سورة الفاتحہ میں ہے۔ اور پوری سورة کا راز اس آیت اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَاِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ میں ہے۔ فائدہ دوم : خداوند تعالیٰ کی حمد ہوچکی، اس کی ربوبیت اس کی رحمانیت اور اس کی رحیمیت اس کا روز جزاء و سزا کا مالک مطلق ہونا بیان ہوچکا اس کی حقیقت دل کی گہرائیوں میں اتر چکی اس کا اثر جسم کے روئیں میں بس گیا۔ تو بندہ بصد عجزو انکسار عبادت میں اس ذات و حدہٗ لاشریک کے آگے جھک گیا۔ اور صرف اور صرف اسی کو حامی و ناصر جانتے اور مانتے ہوئے پکار اٹھا۔ اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَاِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ ۔ اس یک لخت غیب کے درجہ سے مرتبہ خطاب کی جانب عدول کے متعلق تفسیر مظہری میں یوں تحریر ہے :۔ ” اگر کسی چیز کے احوال وصفات ناقابل اشتراک اور مخصوص ہوں اور وہ صفات ذکر کردی جائیں تو اس چیز کی ذہن میں ایسی تعیین ہوجاتی ہے کہ گویا وہ سامنے آگئی، شدت تخیل غیر محسوس کو محسوس کرکے دکھا دیتی ہے علم غائبانہ شہود سے بدل جاتا ہے، حضور ذہنی وجود خارجی کے قائم مقام ہوجاتا ہے ۔ علم حصولی معائنہ میں تبدیل ہوجاتا ہے پس جب ذات الوہیت کا نام ذکر کردیا اور مخصوص صفات کو بھی بیان کردیا تو ذات غائب شدت استحضار کی وجہ سے عارف کی نظر کے سامنے آگئی۔ اس لئے اس نے غائبانہ طرز کلام سے انتقال کرکے تخاطب کا اسلوب اختیار کیا۔ جس ذات کا وہ غائبانہ ذکر کر رہا تھا۔ وہ اس کے سامنے حاضر ہوگئی اور اس نے حاضر ذہنی سے اس طرح بات کرنی شروع کردی جیسے حاضر مرئی خارجی سے کی جاتی ہے “۔
Top