Anwar-ul-Bayan - Al-Faatiha : 7
صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْهِمْ١ۙ۬ۦ غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْهِمْ وَ لَا الضَّآلِّیْنَ۠   ۧ
صِرَاطَ : راستہ الَّذِينَ : ان لوگوں کا أَنْعَمْتَ : تونے انعام کیا عَلَيْهِمْ : ان پر غَيْرِ : نہ الْمَغْضُوبِ : غضب کیا گیا عَلَيْهِمْ : ان پر وَلَا : اور نہ الضَّالِّينَ : جو گمراہ ہوئے
جو ان لوگوں کا راستہ ہے جن پر تو نے انعام فرمایا ، جن پر غصہ نہیں کیا گیا اور جو گمراہ نہیں ہیں۔
صراط مستقیم والے کون حضرات ہیں : (صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ ) ان الفاظ میں صراط مستقیم کی تعیین کردی گئی۔ صراط مستقیم ( سیدھا راستہ) کیا ہے جتنی جماعتیں اور قومیں دنیا میں بستی ہیں۔ وہ اپنے آپ کو ہدایت پر ہی سمجھتے ہیں، لیکن وہ کون سا راستہ ہے جسے سیدھا راستہ مانا جائے اور جس پر چلنے سے اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل ہوگی اور آخرت میں نجات ہوگی۔ اس کے بتانے کے لیے ارشاد فرمایا کہ ان لوگوں کا راستہ صراط مستقیم ہے۔ جن پر اللہ تعالیٰ نے انعام فرمایا۔ یہ حضرات کون ہیں ان کا ذکر سورة نساء کی اس آیت میں ہے۔ (وَ مَنْ یُّطِعِ اللّٰہَ وَ الرَّسُوْلَ فَاُولٰٓءِکَ مَعَ الَّذِیْنَ اَنْعَمَ اللّٰہُ عَلَیْھِمْ مِّنَ النَّبِیّٖنَ وَ الصِّدِّیْقِیْنَ وَ الشُّھَدَآءِ وَ الصّٰلِحِیْنَ وَ حَسُنَ اُولٰٓءِکَ رَفِیْقًا) (اور جو شخص اللہ اور اس کے رسول کی فرما نبرداری کرے یہ اشخاص ان لوگوں کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ تعالیٰ نے انعام فرمایا یعنی انبیاء ‘ صدیقین ‘ شہداء اور صالحین اور یہ حضرات بہت اچھے رفیق ہیں) اس سے واضح ہوگیا کہ ان حضرات پر اللہ تعالیٰ نے انعام فرمایا ہے۔ سورة فاتحہ میں انہی حضرات کے راستہ کو صراط مستقیم یعنی صحیح اور سیدھا راستہ بتایا ہے۔ مغضوب علیھم اور ضالین کے راستہ سے بچنے کی دعاء : (غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَ لَا الضَّآلِّیْنَ ) (جن پر غصہ نہیں کیا گیا اور جو گمراہ نہیں ہیں) یہ (الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ ) کی صفت ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اے اللہ جن حضرات پر آپ نے انعام فرمایا ہے۔ یہ وہ حضرات ہیں جن پر آپ کا غصہ نہیں اور جو گمراہ نہیں ہیں۔ مفسر ابن کثیر نے بعض روایات ایسی نقل کی ہیں۔ جن میں یہ تصریح ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ (الْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ ) سے یہود اور الضَّآلِّیْنَسے نصاریٰ مراد ہیں۔ حضرت ابن عباس ؓ اور حضرت ابن مسعود ؓ سے بھی اسی طرح منقول ہے۔ یہودیوں کے بارے میں سورة بقرہ میں فرمایا (فَبَآءُ وْابِغَضَبٍ عَلٰی غَضَبٍ ) کہ وہ غصہ پر غصہ کے مستحق ہوئے اور نصاریٰ کے بارے میں سورة مائدہ میں فرمایا۔ (وَ لَا تَتَّبِعُوْٓا اَھْوَآءَ قَوْمٍ قَدْ ضَلُّوْا مِنْ قَبْلُ وَ اَضَلُّوْا کَثِیْرًا وَّ ضَلُّوْا عَنْ سَوَآء السَّبِیْلِ ) (ان لوگوں کی خواہشات کا اتباع نہ کرو جو پہلے گمراہ ہوچکے ہیں اور انہوں نے بہت سوں کو گمراہ کیا اور سیدھے راستہ سے بھٹک گئے) یہودیوں نے علم ہوتے ہوئے علم کو کھو دیا اور حق کو ٹھکرا دیا، نصاریٰ علم کے مدعی نہ تھے اور علم سے خالی بھی تھے لیکن اپنے آپ کو عبادت گزار سمجھتے تھے۔ ان کے راہب پہاڑوں میں رہتے تھے اور عبادت میں طرح طرح کی مشقتیں جھیلتے تھے اور عبادت کے طریقے انہوں نے خود نکالے تھے۔ یہ لوگ راہ حق سے ہٹے اور گمراہ ہوئے، جو شخص علم ہوتے ہوئے عمل چھوڑ دے وہ زیادہ مستحق غضب ہوتا ہے۔ اس لیے صفت مغضوبیت یہودیوں کے لیے خاص طور سے ذکر کی گئی اور نصاریٰ نے عمل کا ارادہ تو کیا لیکن بےعلمی کی وجہ سے طریقہ غلط اختیار کر گئے اور اتباع حق کو چھوڑ کر بےراہ ہوگئے۔ مفسر ابن کثیر لکھتے ہیں کہ اہل ایمان کا طریقہ یہ ہے کہ حق کا علم بھی ہو اور اس پر عمل بھی ہو، پھر لکھتے ہیں۔ و کل من الیھود و النصاریٰ ضال مغضوب علیہ لکن اخص اوصاف الیھود الغضب واخص اوصاف النصاری الضلال ( ص 29 ج 1) یعنی ہیں تو دونوں ہی (یہود ونصاری) گمراہ اور مغضوب علیہ، لیکن مغضوبیت کی شان یہودیوں میں زیادہ ہے۔ ( اس لیے خصوصیت کے ساتھ ان کی طرف مغضوبیت کی نسبت کی گئی) اور نصاریٰ کے اوصاف میں خاص طور پر ضلال زیادہ واضح ہے۔ ( اس لیے ان کو ضالین فرمایا) یہودیوں کی شرارت، عناد اور مکاریاں اور دسیسہ کاریاں جو سورة بقرہ میں اور دوسری سورتوں میں بیان کی گئی ہیں ان کے جاننے کے بعد ہر صاحب عقل یہ فیصلہ کرنے پر مجبور ہوتا ہے کہ یہ لوگ قصداً وارادۃً ایسی حرکتیں کرتے تھے جن سے اللہ تعالیٰ کے غصہ کے زیادہ سے زیادہ مستحق ہوتے چلے گئے۔ سورۂ فاتحہ کے ختم پر اہل ایمان سے یہ دعا کرائی گئی ہے کہ یہودیوں اور نصرانیوں دونوں جماعتوں کے طریقوں سے علیحدہ اور بیزار رہیں۔ نماز میں بار بار سورة فاتحہ پڑھتے ہیں اور یہود و نصاریٰ کے طریقوں سے بچنے کی دعا مانگتے ہیں۔ اب مسلمان غور کرلیں کہ وہ ان دونوں جماعتوں کے طور طریق سے کس قدر دور ہیں اور جن حضرات پر انعام ہوا یعنی حضرات انبیاء کرام (علیہ السلام) ‘ صدیقین اور صالحین ان کے طریقوں سے کتنے قریب ہیں۔ حکومت، سیاست، معاشرت، شکل و صورت، لباس، کسب مال، تجارت، معیشت و معاشرت، غرضیکہ زندگی کے ہر شعبہ میں غور کرلیں۔ امت محمدیہ ﷺ میں یہود و نصاریٰ کی مشابہت اور ان کا اتباع پایا جاتا ہے عوام میں بھی اور خواص میں بھی، جو لوگ نماز پڑھتے ہیں اور نماز میں دعا کرتے ہیں کہ ہمیں مغضوب علیہم اور ضالین کے راستہ سے بچا وہ لوگ بھی ان کی اتباع سے پرہیز نہیں کرتے۔ بعض اکابر نے فرمایا ہے کہ اس امت میں سے جو عالم بگڑے گا اس کے اندر یہود کی صفات سے مشابہت ہوگی اور جو عابد بگڑے گا اس کے اندر نصاریٰ کی مشابہت ہوگی درحقیقت صحیح فرمایا امت کا حال نظروں کے سامنے ہے جو مغضوب ہیں اور ضالین ہیں عام لوگوں کو انہیں کے طریقے محبوب ہیں۔ ( اعاذنا اللّٰہ من ذلک) جن حضرات پر اللہ تعالیٰ نے انعام فرمایا ان کے راستہ کے علاوہ جتنے بھی دین، مذہب، فرقے، جماعتیں، پارٹیاں ہیں سب ہی صراط مستقیم سے خارج ہیں اور مومن موحد کے لیے ان سب سے بچنا فرض و واجب ہے۔ لیکن خصوصیت کے ساتھ یہود و نصاریٰ کے راستہ سے بچنے کی دعاء مانگنے کی اس لیے تلقین کی گئی کہ ایک مسلمان بت پرست دہری منکر خدا ہونا گوارا نہیں کرسکتا اور اہل کتاب کے راستوں کو اختیار کرسکتا ہے، اہل کتاب کے دونوں فرقوں کا نام نہیں لیا گیا بلکہ ان کے انجام کار ہی کو ان کا لقب بنا کر ذکر فرما دیا۔ جس میں دو امر کی طرف اشارہ ہے، اوّل یہ کہ انبیاء صلحاء صدیقین و شہداء کے راستہ سے ہٹنے کا انجام راہ سے بھٹک جانا اور خدائے پاک کے غصہ میں آجانا ہے۔ دوسرے یہ کہ صراط مستقیم کے خلاف صرف یہود و نصاری ہی کار استہ نہیں ہے بلکہ جو بھی یہود و نصاریٰ کے عقائد و کردار اوصاف و اخلاق اختیار کرے گا اس کے نتیجہ میں مغضوب علیہ اور ضال ہوگا (خواہ فرد ہو خواہ جماعت) لہٰذا اس کے راستہ سے بچنا بھی فرض ہوگا۔ آمین : سورۂ فاتحہ کے ختم پر نماز میں اور خارج از نماز آمین کہنا مسنون ہے اور اس کے علاوہ بھی جو دعاء کی جائے اس کے آخر میں آمین کہا جائے۔ احادیث شریفہ میں اس کی فضیلت اور ترغیب وارد ہوئی ہے۔ آمین کا معنی ہے کہ اے اللہ قبول فرما۔ ایک مرتبہ دعا کی پھر دعا کی قبولیت کی دعا کی یہ مل کر گویا دو مرتبہ دعا ہوجاتی ہے۔ معالم التنزیل ص 42 ج 1 میں لکھا ہے کہ ( وَلَا الضَّآلِّیْنَ ) کے بعد ذرا ٹھہر کر آمین کہے ( تاکہ سورة فاتحہ کا جزو ہونے کا ایہام نہ ہو۔ ) چونکہ آمین قرآن مجید کا جزو نہیں ہے اس لیے قرآن مجید میں لکھا نہیں جاتا لیکن پڑھا جاتا ہے۔ حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ یہودیوں نے تمہاری کسی چیز پر اتنا حسد نہ کیا جتنا آمین کہنے پر حسد کیا ہے۔ اور حضرت ابو ہریرۃ ؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ یہودیوں نے تم سے تین چیزوں پر حسد کیا ہے۔ (1) سلام کو پھیلانا (2) نماز میں صفیں قائم کرنا (3) آمین کہنا ( یہ روایات در منثور میں نقل کی گئی ہیں۔ ) فائدہ : بعض غیر مسلموں نے یہ اعتراض کیا ہے کہ اپنی تعریف خود کرنا ٹھیک نہیں ہے پھر خدائے تعالیٰ نے اپنی تعریف خود کیوں کی ؟ اس کا ایک جواب مفسرین کے اس قول سے نکل سکتا ہے کہ یہ مضمون بندوں کی زبانی ادا کرایا گیا ہے اور اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ سے پہلے قُوْلُوْا (صیغہ امر) مقدر ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ بندوں کو حکم فرمایا ہے کہ یوں کہو اور چونکہ بندہ کی زبانی اول کی تین آیات ادا کرائی گئی ہیں اس لیے (اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ ) بھی اول کی تین آیات کے ساتھ اس صورت میں مضمون واحد ہو کر مسلسل ہوجائے گا۔ لیکن یہ جواب جزوی طور پر سورة فاتحہ کے بارے میں ہوسکتا ہے، قرآن شریف میں جگہ جگہ اللہ پاک کی حمد بیان کی گئی ہے اور حدیث شریف میں صاف اس طرح آیا ہے کہ لا احصی ثناء علیک انت کما اثنیت علیٰ نفسک۔ (اے اللہ میں ایسی تعریف تیری بیان نہیں کرسکتا ہوں جیسی تو نے اپنی تعریف بیان کی ہے) اس سے صاف معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ خود اپنی تعریف بیان کرتے ہیں۔ پس غیر مسلموں کے سوال مذکورہ کا ایسا ٹھیک کلی جواب جو ہر موقعہ پر جواب بن سکے یہ ہے کہ خالق کو مخلوق پر قیاس کرنا ہی غلط ہے۔ بلاشبہ مخلوق کے لیے خود ستائی بری بات ہے لیکن خالق اگر اپنی تعریف کرے تو یہ کوئی بےجا نہیں ہے، بلکہ صحیح اور درست ہے۔ اوّل اس پر غور کرنا چاہیے کہ خود ستائی بری چیز کیوں ہے ؟ اس کی وجہ غور کرنے اور اہل عقل و دانش کے بتانے سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ خود ستائی سے عجب (خود پسندی) اور تکبر پیدا ہوتا ہے اور خالق کمالات رب العالمین جل مجدہٗ سے غفلت ہوجاتی ہے اور انسان کا ذہن خالق کی حمد اور خالق کے کمالات سے ہٹ کر خود اپنی ذات میں الجھ جاتا ہے، اور رب العلمین خالق کل شئی اپنی خود تعریف کرے تو یہ کسی خرابی کا باعث نہیں ہے۔ اللہ پاک سے اوپر کوئی نہیں ہے اور وہ ایسا بڑا ہے کہ سب کی بڑائیاں اس کے سامنے ہیچ ہیں اور ہر بڑے کو اس نے بڑائی دی ہے لفظ تکبر میں تکلف کے معنی پوشیدہ ہیں یعنی جو بڑا نہیں وہ بڑا ہے اس کو تکبر کہتے ہیں۔ اللہ پاک کی بڑائی کامل ہے تکلف سے نہیں ہے۔ وہ سب کا خالق ہے اس کا کوئی خالق نہیں ہے۔ لہٰذا اس کو اپنی تعریف کا پورا پورا حق ہے۔ اگر وہ اپنی تعریف کرے تو یہ لازم نہیں آتا کہ جو بڑا نہیں اس نے بڑائی کا دعویٰ کیا اور یہ بھی لازم نہیں آتا کہ اپنے خالق کو چھوڑ کر اپنی تعریف میں مشغول ہو۔ فللّٰہ الحمد اولا و آخر اوظآھراً و باطناً اللّٰھم لک الحمد لا احصٰی ثناء علیک انت کما اثنیت علیٰ نفسک۔ سورۃ فاتحہ شفا ہے : سورة فاتحہ کا ایک نام شافیہ ( یعنی شفا دینے والی ہے) بھی ہے اس کے مضامین جس طرح مؤمن موحد کے لیے باطنی اور روحانی شفاء کا باعث ہیں۔ اسی طرح اس کے الفاظ جسمانی امراض و تکالیف اور دکھ درد کے لیے شفا بن جاتے ہیں۔ حضرت سائب بن یزید ؓ نے فرمایا کہ آنحضرت ﷺ نے مرض سے نجات دلانے کے لیے سورة فاتحہ پڑھ کر مجھ پر دم کرتے ہوئے تھتکار دیا، حضرت ابو سعید خدری ؓ نے فرمایا کہ فاتحۃ الکتاب زہر کے لیے شفا ہے۔ حضرت عبدالملک بن عمیر نے ( مرسلاً ) روایت کی ہے آنحضرت ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ فاتحۃ الکتاب ہر مرض کے لیے شفا ہے۔ (یہ سب روایات درمنثور میں ہیں) حصن حصین میں (ابو داؤد اور نسائی سے نقل کیا) ہے کہ جس کی عقل ٹھکانے نہ ہو تین روز صبح شام سورة فاتحہ کے ذریعہ جھاڑا جاوے (جھاڑنے والا) سورة فاتحہ کو پوری پڑھ کر اپنا تھوک (منہ) میں جمع کر کے تھتکار دے اور ترمذی شریف سے نقل کیا ہے کہ جس کو سانپ، بچھو ڈس لے سات مرتبہ سورة فاتحہ پڑھ کر جھاڑا جائے۔ حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے چند صحابہ (سفر میں) ایک تالاب پر گزرے۔ وہاں ایک آدمی کو بچھو نے ڈس لیا تھا۔ وہاں جو قبیلہ مقیم تھا۔ ان میں سے ایک آدمی ان حضرات کے پاس آیا اور اس نے کہا کیا تم میں کوئی شخص جھاڑ پھونک کرنے والا ہے۔ یہ سن کر ان حضرات میں سے ایک صاحب چلے گئے اور انہوں نے سورة فاتحہ پڑھ کر دم کردیا اور کچھ بکریاں لینے کی شرط لگا لی۔ وہ شخص اچھا ہوگیا اور یہ بکریاں لے کر اپنے رفقاء کے پاس آگئے۔ انہوں نے ان بکریوں کا لینا اچھا نہ جانا اور کہنے لگے کہ تم نے اللہ کی کتاب پر اجرت لے لی۔ جب کہ مدینہ منورہ میں واپس آئے تو رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں عرض کیا کہ انہوں نے کتاب اللہ پر اجرت لی۔ آپ نے فرمایا بلاشبہ کتاب اللہ ان سب چیزوں میں اجرت لینے کے لیے زیادہ احق ہے۔ جن پر تم اجرت لیتے ہو۔ (صحیح بخاری ص 854 ج 2) اس حدیث کی وجہ سے جھاڑ پھونک کی اجرت لینا جائز ہے۔ بشرطیکہ کلام صحیح ہو، شرکیہ کلام نہ ہو۔ رات کو حفاظت کے لیے سورة فاتحہ پڑھنا : حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جب تو نے بستر پر اپنا پہلو رکھا اور فاتحۃ الکتاب اور (قُلْ ھُوَ اللّٰہُ اَحَدٌ) (ختم سورت تک) پڑھ لی تو موت کے سوا ہر چیز سے تجھے امان مل گئی ہے۔ (درمنثور) و لقد تم تفسیر فاتحۃ الکتاب بحمد اللّٰہ تعالیٰ و حسن توفیقہ فلہ الحمد حمدًا کثیرًا طیبا مبارکا فیہ
Top