معبود اور مستعان صرف اللہ کی ذات ہے :
شروع سورت سے (مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ ) تک اللہ تعالیٰ کی حمد وثناء کا بیان تھا۔ اس بیان میں اگرچہ غیبت کا عنوان تھا لیکن جب بندہ نے مستحق حمد کی حمد بیان کرنے میں صفات کمال اور مظاہرہ جلال و جمال کا یقینی طور پر تصور کرلیا تو اس مستحق حمد سے خطاب کرنے اور مراد مانگنے کے لیے جذبہ میں آکر خطاب کرنے لگا، اول مخاطب ہو کر یہ اعلان کیا کہ ہم صرف تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور صرف تجھ سے مدد مانگتے ہیں، اور پھر اپنی سب سے بڑی ضرورت کا سوال کیا کہ ہم کو صراط مستقیم دکھا دے اور بتادے، کاضمیر خطاب نَعْبُدُ اور نَسْتَعِیْنُ کا مفعول ہے اس کو ضمیر منفصل بنا کر فعل سے مقدم لانے سے معنی میں حصر پیدا ہوگیا۔ اہل بلاغت نے بتایا ہے کہ تقدیم ماحقہ التا خیر مفید حصر ہوتی ہے۔ اسی وجہ سے ترجمہ یہ ہوگیا کہ ہم صرف تیری عبادت کرتے ہیں اور صرف تجھ سے مدد مانگتے ہیں۔ سورة فاتحہ پڑھنے والا گو واحد شخص ہوتا ہے۔ لیکن صیغہ جمع متکلم لاکر دوسروں کو بھی اپنے ساتھ شریک کرلیتا ہے۔ اور اس سے یہ ظاہر کرنا مقصود ہوتا ہے کہ ساری مخلوق کا تو ہی معبود ہے اور سب تیری ہی عبادت کرتے ہیں۔ جو لوگ مشرک ہیں وہ گمراہ ہیں اور غلطی پر ہیں ان کا معبود حقیقی بھی تو ہے ہم ساری بنی نوع انسان کی طرف سے اور سارے جنات اور فرشتوں کی طرف سے بلکہ ساری مخلوق کی طرف سے اس بات کا اعلان کرتے ہیں کہ صرف تو ہی عبادت کے لائق ہے۔ اس کے بعد یوں عرض کیا کہ ہم صرف تجھ سے مدد مانگتے ہیں۔ جب خداوند قدوس جل مجدہ، ہر چیز کا خالق بھی مالک بھی ہے معبود حقیقی بھی ہے۔ قادر مطلق بھی ہے تو اس کے سوا کوئی نہیں جس سے مدد مانگی جائے۔ عبادت بھی صرف اسی کی کرتے ہیں اور مدد بھی صرف اسی سے لیتے ہیں اس میں بھی صیغہ خطاب کا استعمال کیا اور اعلان کیا کہ اے اللہ ! ہم صرف تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں۔ تو ہی مدد کرنے والا ہے تیرے سوا کوئی مدد نہیں کرسکتا۔ صرف اللہ تعالیٰ ہی کو معبود اور مددگار ماننے کے بعد کسی دوسرے کو عبادت اور استعانت (مدد مانگنے) کے لیے پکارنا اعلان (اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ ) کی صریح خلاف ورزی ہے۔ اس آیت میں شرک فی العبادۃ اور شرک فی الاستعانت دونوں کی نفی علیٰ وجہ الکمال کردی گئی ہے۔ دیوی، دیوتا، مزار، قبرولی، پیر، تعزیہ یا اور کسی چیز کو حاجت روا مشکل کشا سمجھنا اور اس کے سامنے سجدہ کرنا شرک ہے۔