” ایاک “ ایا کلمہ ضمیر کی طرف اضافۃ کے ساتھ خاص کیا گیا ہے اس کا استعمال فعل سے پہلے ہوتا ہے ، چناچہ کہا جاتا ہے ” ایاک اعنی “ میں خاص تجھے مراد لیتا ہوں اور ” ایاک اسئل “ میں خاص تجھ سے پوچھتا ہوں ، فعل کے بعد اس کا استعمال منفصلا یعنی فعل جدا ہوتا ہے ۔ چناچہ کہا جاتا ہے ۔ ” ماعنیت الا ایاک “ کہ میں نے کسی کو مراد نہیں لیا مگر تجھ ” نعبد “ یعنی ہم تجھے وحدہ لاشریک سمجھتے ہیں اور تیری اطاعت کرتے ہیں ، اس حال میں کہ ہم عاجزی کرنے والے ہیں ، عبادۃ کے معنی عاجزی و انکساری کے ساتھ فرمانبرداری کرنے کے ہیں عبد کو اس کی عاجزی اور فرمانبرداری کے باعث عبد کہا جاتا ہے ، اسی طرح کہا جاتا ہے طریق معبد یعنی ایسا راستہ جو آسان ہو (اس میں چلنے والے کے لیے مشکلات اور صعوبتیں نہ ہوں)
(آیت)” وایاک نستعین “۔ ہم تجھ سے عبادت اور باقی معاملات میں مدد طلب کرتے ہیں اگر کہا جائے کہ مدد مانگنے پر عبادت کو مقدم کیوں کیا حالانکہ اللہ تعالیٰ سے مدد طلب کرنا عبادت پر مقدم ہے ، مگر یہ ترتیب اس شخص کے خلاف ہے جو عمل کی طاقت و استعداد کو عمل سے مقدم قرار دیتا ہے اور ہم تو بحمد اللہ توفیق عمل کی مدد وقوت کو عمل کے ہمراہ مانتے ہیں ، لہذا ہمارے نزدیک استعانۃ کا عمل سے مقدم یامؤخر ذکر کرنے سے کچھ فرق نہیں پڑتا ، اس تقدیم و تاخیر کے جواب میں یوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ استعانۃ بھی ایک قسم کی عبادۃ ہے۔ گویا پہلے عبادۃ کا ذکر اجمالی ہوا ، بعد میں اس کی تفصیل۔