Al-Quran-al-Kareem - Al-Faatiha : 7
صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْهِمْ١ۙ۬ۦ غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْهِمْ وَ لَا الضَّآلِّیْنَ۠   ۧ
صِرَاطَ : راستہ الَّذِينَ : ان لوگوں کا أَنْعَمْتَ : تونے انعام کیا عَلَيْهِمْ : ان پر غَيْرِ : نہ الْمَغْضُوبِ : غضب کیا گیا عَلَيْهِمْ : ان پر وَلَا : اور نہ الضَّالِّينَ : جو گمراہ ہوئے
 ان لوگوں کے راستے پر جن پر تو نے انعام کیا، جن پر نہ غصہ کیا گیا اور نہ وہ گمراہ ہیں۔
(صِرَاطَ الَّذِيْنَ اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ) یعنی جن لوگوں پر تو نے دوسرے بیشمار انعامات کے ساتھ اپنی اطاعت کی توفیق کا خاص انعام کیا، ان سے مراد چار قسم کے لوگ ہیں جن کا اس آیت میں ذکر ہے، فرمایا : (وَمَنْ يُّطِعِ اللّٰهَ وَالرَّسُوْلَ فَاُولٰۗىِٕكَ مَعَ الَّذِيْنَ اَنْعَمَ اللّٰهُ عَلَيْهِمْ مِّنَ النَّبِيّٖنَ وَالصِّدِّيْقِيْنَ وَالشُّهَدَاۗءِ وَالصّٰلِحِيْنَ ۚ) [ النساء : 69 ] ”اور جو کوئی اللہ اور رسول کی فرماں برداری کرے تو یہ ان لوگوں کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ نے انعام کیا، نبیوں اور صدیقوں اور شہداء اور صالحین میں سے۔“ قرآن مجید میں مذکور انبیاء، صدیقین، شہداء اور صالحین کے تمام واقعات اس مختصر جملے کی تفصیل ہیں۔ (غَيْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّاۗلِّيْنَ) قرآن مجید میں ”الْمَغْضُوْبِ عَلَيْهِمْ“ یہود کو کہا گیا ہے، چناچہ ان کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا : (وَضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِّلَّةُ وَالْمَسْكَنَةُ ۤ وَبَاۗءُوْ بِغَضَبٍ مِّنَ اللّٰهِ) [ البقرۃ : 61 ] ”اور ان پر ذلت اور محتاجی مسلط کردی گئی اور وہ اللہ کی طرف سے بھاری غضب لے کر لوٹے۔“ اور فرمایا : (فَبَاۗءُوْ بِغَضَبٍ عَلٰي غَضَبٍ) [ البقرۃ : 90 ] ”پس وہ غضب پر غضب لے کر لوٹے۔“ اور فرمایا : (قُلْ هَلْ اُنَبِّئُكُمْ بِشَرٍّ مِّنْ ذٰلِكَ مَثُوْبَةً عِنْدَ اللّٰهِ ۭ مَنْ لَّعَنَهُ اللّٰهُ وَغَضِبَ عَلَيْهِ وَجَعَلَ مِنْهُمُ الْقِرَدَةَ وَالْخَـنَازِيْرَ وَعَبَدَ الطَّاغُوْتَ ۭ اُولٰۗىِٕكَ شَرٌّ مَّكَانًا وَّاَضَلُّ عَنْ سَوَاۗءِ السَّبِيْلِ) [ المائدۃ : 60 ] ”کہہ دے کیا میں تمہیں اللہ کے نزدیک جزا کے اعتبار سے اس سے زیادہ برے لوگ بتاؤں ؟ وہ جن پر اللہ نے لعنت کی اور جن پر وہ غصے ہوا اور جن میں سے اس نے بندر اور خنزیر بنا دیے اور جنھوں نے طاغوت کی عبادت کی۔ یہ لوگ درجے میں سب سے برے اور سیدھے راستے سے زیادہ بھٹکے ہوئے ہیں۔“ اور ”الضَّاۗلِّيْنَ“ نصاریٰ کو کہا گیا ہے، چناچہ فرمایا : (وَلَا تَتَّبِعُوْٓا اَهْوَاۗءَ قَوْمٍ قَدْ ضَلُّوْا مِنْ قَبْلُ وَاَضَلُّوْا كَثِيْرًا وَّضَلُّوْا عَنْ سَوَاۗءِ السَّبِيْلِ) [ المائدۃ : 77 ] ”اور اس قوم کی خواہشوں کے پیچھے مت چلو جو اس سے پہلے گمراہ ہوچکے اور انھوں نے بہت سوں کو گمراہ کیا اور وہ سیدھے راستے سے بھٹک گئے۔“ اس آیت سے پہلے مسلسل نصاریٰ کا ذکر آ رہا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے بھی ”الْمَغْضُوْبِ عَلَيْهِمْ“ اور ”الضَّاۗلِّيْنَ“ کی یہی تفسیر فرمائی۔ چناچہ عدی بن حاتم ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : (اَلْیَھُوْدُ مَغْضُوْبٌ عَلَیْھِمْ وَ النَّصَارٰی ضُلَّالٌ) ”یہود ”مَغْضُوْبٌ عَلَیْھِمْ“ ہیں اور نصاریٰ گمراہ ہیں۔“ [ ترمذی، تفسیر القرآن، باب ومن سورة فاتحۃ الکتاب : 2954، و صححہ الألبانی ] 3 رسول اللہ ﷺ کی تفسیر سے ثابت ہوگیا کہ ”الْمَغْضُوْبِ عَلَيْهِمْ“ یہود ہیں اور ”الضَّاۗلِّيْنَ“ نصاریٰ ، مگر لفظ عام ہونے کی وجہ سے اس میں وہ تمام لوگ شامل ہیں جن میں وہ عادات و خصائل پائے جاتے ہیں جو یہود کے ”الْمَغْضُوْبِ عَلَيْهِمْ“ بننے کا باعث ٹھہرے، یا جن کی وجہ سے نصاریٰ ”الضَّاۗلِّيْنَ“ (گمراہ) ٹھہرے۔ مثلاً یہود پر غضب نازل ہونے کے اسباب جو اللہ تعالیٰ نے شمار فرمائے ہیں اختصار کے ساتھ یہ ہیں، اللہ کی کتاب میں تحریف، اللہ کی آیات کو چھپانا، اللہ کی حدود مثلاً رجم اور ہاتھ کاٹنے کو معطل کرنا، اللہ پر جھوٹ باندھنا، اپنے پاس سے مسائل بیان کرکے انھیں اللہ کا حکم قرار دینا، نبی ﷺ پر حسد کی وجہ سے ایمان نہ لانا اور باہمی ضد کی وجہ سے بہتر (72) فرقوں میں بٹ جانا۔ شاہ ولی اللہ ؓ لکھتے ہیں : ”وَ بالْجُمْلَۃِ فَاِنْ شِءْتَ أَنْ تَرَی نَمُوْذَجَ الْیَھُوْدِ فَانْظُرْ اِلٰی عُلَمَاء السُّوْءِ مِنَ الَّذِیْنَ یَطْلُبُوْنَ الدُّنْیَا وَ قَدِ اعْتَادُوْا تَقْلِیْدَ السَّلَفِ وَ اَعْرَضُوْا عَنْ نُّصُوْصِ الْکِتَابِ وَالسُّنَّۃِ وَ تَمَسَّکُوْا بِتَعَمُّقِ عَالِمٍ وَ تَشَدُّدِہِ وَ اسْتِحْسَانِہِ فَاَعْرَضُوْا عَنْ کَلَام الشَّارِعِ الْمَعْصُوْمِ وَ تَمَسَّکُوْا بِأَحَادِیْثَ مَوْضُوْعَۃٍ وَ تَأْوِیْلَاتٍ فَاسِدَۃٍ کَانَتْ سَبَبَ ھَلَاکِھِمْ“ ”قصہ مختصر اگر تم چاہو کہ یہود کا نمونہ دیکھو تو ان علمائے سوء کو دیکھ لو جو دنیا طلب کر رہے ہیں اور پہلے لوگوں کی تقلید کے عادی ہوچکے ہیں، جنھوں نے کتاب و سنت کی صریح آیات و احادیث سے منہ موڑ لیا اور کسی عالم کے تکلف، اس کے تشدد اور اس کے استحسان کو مضبوطی سے پکڑ لیا ہے۔ چناچہ انھوں نے معصوم پیغمبر ﷺ کے کلام سے منہ موڑ لیا اور من گھڑت احادیث اور فاسد تاویلات سے چمٹ گئے، جو ان کی ہلاکت کا باعث بن گئیں۔“ (الفوز الکبیر) اور نصاریٰ کی گمراہی کے اسباب یہ تھے، مسیح ؑ کے بارے میں غلو، ان کو عین خدا یا تین میں سے ایک خدا کہنا، مریم [ کو تین میں سے ایک خدا کہنا، مسیح ؑ ، مریم [ اور صلیب کی پوجا کرنا، قبروں کو مسجدیں بنانا، احبارو رہبان کو رب بنانا وغیرہ۔ شاہ ولی اللہ ؓ فرماتے ہیں : ”وَاِنْ شِءْتَ أَنْ تَرَی نَمُوْذَجًا لِھٰذَا الْفَرِیْقِ فَانْظُرِ الْیَوْمَ اِلٰی أَوْلَادِ الْمَشَاءِخِ الْأَوْلِیَاءِ مَاذَا یَظُنُّوْنَ بآبَاءِھِمْ ؟ فَتَجِدُھُمْ قَدْ أَفْرَطُوْا فِیْ اِجْلَالِھِمْ کُلَّ الْاِفْرَاطِ وَ سَیَعْلَمُ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا أَیَّ مُنْقَلَبٍ یَّنْقَلِبُوْنَ“ ”اگر چاہو کہ اس گروہ کا نمونہ دیکھو تو بزرگ اولیاء کی آج کل کی اولاد کو دیکھ لو کہ وہ اپنے باپ دادا کے متعلق کیا گمان رکھتے ہیں، چناچہ تم انھیں پاؤ گے کہ وہ ان کی بزرگی بیان کرتے ہیں، جتنا مبالغہ ہو سکے کرتے ہیں اور عنقریب وہ لوگ جان لیں گے جنھوں نے ظلم کیا کہ وہ لوٹنے کی کون سی جگہ لوٹ کر جائیں گے۔“ (الفوز الکبیر) (غَيْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّاۗلِّيْنَ) کا ترجمہ عام طور پر کیا جاتا ہے : ”نہ راستہ ان لوگوں کا جن پر غضب ہوا اور نہ گمراہوں کا“ مگر حقیقت یہ ہے کہ ”غَيْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَيْهِمْ“ میں لفظ ”غَيْرِ“ پچھلی آیت میں ”الَّذِيْنَ اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ“ سے بدل یا اس کی صفت ہے، یعنی ”الَّذِيْنَ اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ“ اور ”غَيْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّاۗلِّيْنَ“ دونوں ایک ہی لوگ ہیں، اس لیے ترجمہ یہ ہوگا : ”ہمیں سیدھے راستے پر چلا، ان لوگوں کے راستے پر جن پر تو نے انعام کیا، جن پر نہ غصہ کیا گیا اور نہ وہ گمراہ ہیں۔“ یہاں ایک سوال ہے کہ کیا ”صِرَاطَ الَّذِيْنَ اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ“ کافی نہ تھا، پھر اس کے بعد ”غَيْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّاۗلِّيْنَ“ لانے میں کیا حکمت ہے ؟ جواب اس کا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا انعام تو اس کی ہر مخلوق پر بیشمار ہے، کم از کم اسے پیدا کرنا اور اس کی زندگی کی ہر ضرورت پوری کرنا ہی بہت بڑی نعمت ہے، اس لیے یہ تعلیم دی کہ ان لوگوں کے راستے پر چلنے کی دعا کرو جن پر اللہ نے انعام کیا، مگر وہ غضب کا نشانہ نہیں بنے، نہ ہی وہ گمراہ ہیں، ایسے لوگ وہ چار گروہ ہیں جن کا اوپر ذکر ہوا۔ (صِرَاطَ الَّذِيْنَ اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ) میں انعام کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف کی ہے، جب کہ غضب اور ضلال کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف نہیں کی۔ اس میں اللہ تعالیٰ کے ادب کی تعلیم ہے کہ اگرچہ خیر و شر دونوں کا خالق وہ ہے مگر شر کی نسبت اس کی طرف نہیں کی جاتی، کیونکہ اس کا ہر فعل خیر ہی خیر ہے۔ حذیفہ بن یمان ؓ (عَسٰٓي اَنْ يَّبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَّحْمُوْدًا) کی تفسیر میں رسول اللہ ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ قیامت کے دن جب سب لوگ ایک میدان میں کھڑے ہوں گے تو رسول اللہ ﷺ اللہ تعالیٰ کو پکاریں گے : (لَبَّیْکَ وَ سَعْدَیْکَ وَالْخَیْرُ فِیْ یَدَیْکَ وَالشَّرُّ لَیْسَ اِلَیْکَ) [ مستدرک حاکم، تفسیر سورة بنی إسرائیل : 2؍363، ح : 3384 ] ”بار بار حاضر ہوں اور بار بار حاضر ہوں، خیر تیرے ہاتھوں میں ہے اور شر تیری طرف نہیں ہے۔“ اسے حاکم نے شیخین کی شرط پر صحیح کہا ہے اور ذہبی نے اس کی موافقت کی ہے۔ سورة کہف میں خضر ؑ نے موسیٰ ؑ کو کشتی توڑنے اور دوسرے دو واقعات کی اصل حقیقت بیان کرتے وقت اللہ تعالیٰ کے اس ادب کا خاص خیال رکھا ہے، ملاحظہ فرمائیں سورة کہف (79 تا 82) کی تفسیر۔ سورة فاتحہ پڑھنے کے بعد ”آمین“ کہنا چاہیے، اس کا معنی اے اللہ ! قبول فرما، یا ایسے ہی کر دے ہے۔ یہ لفظ قرآن مجید کا حصہ نہیں، اس کی دلیل یہ ہے کہ اسے قرآن مجید کے ساتھ نہیں لکھا گیا۔ امام کے ”وَلَا الضَّاۗلِّيْنَ“ کہنے پر امام اور مقتدی دونوں کو آمین کہنا چاہیے۔ مقتدی کو امام کی آمین کے ساتھ آمین کہنا چاہیے۔ اس کے متعلق چند احادیث درج کی جاتی ہیں، ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ”جب امام (غَيْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّاۗلِّيْنَ) کہے تو تم آمین کہو، کیونکہ جس کا (آمین) کہنا فرشتوں کے کہنے کے موافق ہوگیا، اس کے پہلے گناہ معاف کردیے جائیں گے۔“ [ بخاری، الأذان، باب جھر المأموم بالتأمین : 782 ] ابوہریرہ ؓ ہی سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ”جب امام آمین کہے تو تم آمین کہو، کیونکہ جس کا آمین کہنا فرشتوں کے آمین کہنے کے موافق ہوگیا، اس کے پہلے گناہ معاف کردیے جائیں گے۔“ [ بخاری، الأذان، باب جھر الإمام بالتأمین : 780۔ مسلم : 410 ] ابوموسیٰ اشعری ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ”جب امام ”وَلَا الضَّاۗلِّيْنَ“ کہے تو تم آمین کہو، اللہ تعالیٰ تمہاری دعا قبول کرلے گا۔“ [ مسلم، الصلاۃ، باب التشھد فی الصلاۃ : 404 ] وائل بن حجر ؓ بیان کرتے ہیں کہ انھوں نے رسول اللہ ﷺ کے پیچھے نماز پڑھی تو آپ نے بلند آواز سے آمین کہی اور دائیں اور بائیں سلام پھیرا، یہاں تک کہ میں نے آپ کے رخسار کی سفیدی دیکھ لی۔ [ أبوداوٗد، الصلٰوۃ، باب التأمین وراء الإمام : 934، وقال الألبانی حسن صحیح ] وائل بن حجر ؓ ہی سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب ”وَلَا الضَّاۗلِّيْنَ“ پڑھتے تو ”آمین“ کہتے اور اس کے ساتھ اپنی آواز بلند کرتے۔ [ أبوداوٗد، باب التأمین وراء الإمام : 933، وقال الألبانی صحیح ] وائل بن حجر ؓ ہی بیان کرتے ہیں کہ میں نے سنا کہ نبی ﷺ نے (غَيْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّاۗلِّيْنَ) پڑھا اور اس کے ساتھ اپنی آواز کو لمبا کیا۔ [ ترمذی، الصلاۃ، باب ما جاء فی التأمین : 248، وقال الألبانی صحیح ] عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ”یہودیوں نے تم پر کسی چیز میں وہ حسد نہیں کیا جو انھوں نے آمین کہنے اور سلام میں تم پر حسد کیا ہے۔“ [ ابن ماجہ، إقامۃ الصلوات، باب الجھر بآمین : 856۔ مسند أحمد : 6؍134، 135، ح : 25082، و قال الألبانی صحیح ]
Top