Mutaliya-e-Quran - Al-Faatiha : 6
اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَۙ
اِهْدِنَا : ہمیں ہدایت دے الصِّرَاطَ : راستہ الْمُسْتَقِيمَ : سیدھا
ان لوگوں کا راستہ نہ دکھا جن پر تیراغضب ہوا ، اور نہ گمراہوں کا
سورة الفاتحۃ 1 صراط الذین انعمت علیھم درس شانزدہم 16 ترجمہ راستہ ان لوگوں کا جن پر تو نے انعام فرمایا۔ (ربط آیات ) اللہ تعالیٰ کی حمدو ثنا بیان کرنے کے بعد اسی کی عبادت کرنے اور اسی سے استعانت کا بیان ہوا ۔ پھر اس کے سامنے دست سوال دراز ہوا کہ مولا کریم ! ہماری راہنمائی فرما ہمیں سید ہے راستے پر چلا اس پر ثابت قدم رکھ صراط مستقیم کی مختصر تشریح بیان ہوچکی ہے اور اب گلاجملہ بھی سابقہ آیت ہی کے تسلسل میں ہے اور اسکی مزید وضاحت کرتا ہے ۔ یعنی پروردگار ! ہمیں اس صراط مستقیم پر ثابت قدم رکھ صراط الذین انعمت علیھم جو ان لوگوں کا راستہ ہے جن پر تو نے انعام فرمایا۔ (نمونہ کی ضرورت) یہ ایک واضح اصول ہے کہ انسانی سو سائٹی میں انسان کی فطری قوتوں کی تکمیل اس وقت تک نہیں ہوسکتی جب تک اس کے سامنے کوئی نمونہ موجود نہ ہو ۔ اس نمونے کو دیکھ کر ہی انسان اپنی غلطیوں کی اصلاح کرکے اپنی زندگی کو نمونہ کے مطابق ڈھال سکتا ہے ۔ چناچہ ہم قرآن پاک پڑھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو امت کے لیے ایک نمونہ بناکرمبعوث فرمایا لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوۃ حسنۃ (الا حزاب) بیشک اللہ کے رسول تمہارے لیے بہتر ین نمونہ ہیں ۔ خطبہ جمعہ میں بھی آپ سنتے رہتے ہیں خیرالھدی ھدی محمد ﷺ۔ سب سے بہتر طریقہ حضرت محمد رسول اللہ صلی علیہ وسلم کا ہے جو تمہارے لیے بطور نمونہ ہے ۔ آپ کی سیرت بہتر ین سیرت ہے بلکہ ہر نبی اپنے اپنے دور میں امت کے لیے بطور نمونہ ہوتا ہے ۔ ان کے بعد اللہ کے کامل بندے اولیاء اللہ دوسرے لوگوں کے لیے نمونہ ہوتے ہیں عام لوگ انہی کے طریقے پر چل کر اپنی قوتوں کی تکمیل کرتے ہیں ۔ غرضیکہ انسانی سوسائٹی میں نمونے کا ہونا بہت ضروری ہے ، چناچہ صراط مستقیم کی تشریح میں اسی نمونے کا ذکر کیا گیا ہے ۔ یعنی رب العزت ! ہمیں ان لوگوں کے نمونے پر چلا جن پر تیرا انعام ہوا۔ اب مادی انعامات تو عام ہیں اور دنیا میں ہر شخص پر وار ہوتے رہتے ہیں ۔ مگر جن انعامات کا ذکر اس آیت میں ذکر کیا گیا ہے ان سے مراددینی اور روحانی انعامات ہیں ۔ (دینی انعام ) اولین دینی انعام قرآن پاک کا راستہ ہے اور یہ وہی راستہ ہے جو حضور نبی کریم ﷺ کا راستہ ہے۔ زندگی کے ہر نشیب و فراز میں حضور ﷺ کا اسوہ حسنہ موجود ہے ۔ مفسیر قرآن ابوالعالیہ فرماتے ہیں (1 تفسیر طبری ص 75 ج 1) کہ انعام یافتہ لوگوں کے راستے سے مراد حضور ﷺ کی ذات مبارکہ ہے اور آپ کے بعد آپ کے دونوں ساتھی حضرت ابوبکر صدیق ؓ اور حضرت عمر فاروق ؓ کیونکہ آپ کا اپنا فرمان ہے (2 ب ترمذی ص 207 ج 2) اقتدوابالذین من بعدی ابی بکر ؓ وعمر ؓ یعنی میرے بعد ان دو حضرات کی اقتداء کرو کیونکہ ان کا طریقہ میرا طریقہ ہے اور پھر سارے صحابہ ؓ ان دو کے تابع ہیں ۔ ان کے بعد باقی خلفائے راشدین کا نمبر آتا ہے ، وہ بھی امت کے لیے بطور نمونہ ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں جس خلافت کا ذکر کیا ہے اس سے مراد انہی چاروں خلفائے راشدین کی خلافت ہے اور پھر ان چار میں سے پہلے دو حضرات کا نمونہ کمال درجے کا ہے اور سب سے پہلے درجے میں کامل نمونہ خود نبی کریم ﷺ کی ذات مبارکہ ہے جیسا کہ قرآن مجید میں مذکور ہے۔ (روحانی انعام) روحانی انعامات میں سے بعض تو انسان خود اپنی محنت سے کماتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی بخشش اور فیضان سے بھی انعام حاصل ہوتا ہے ۔ انسانی جسم روح انسانی اللہ تعالیٰ کا خاص انعام ہے ۔ روح حیوانی تو قرارحمل کے ساتھ پہلے دن سے اپنا کام شروع کردیتی ہے مگر روح انسانی جو انسان کے قلب میں چوتھے مہینے میں ڈالی جاتی ہے اس کا نمونہ علیین یا خطیرۃ القدس سے آتا ہے ۔ صحیح احادیث میں آتا ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کا خاص انعام ہے۔ پھر انسان کو عقل عطا کرنا تمام ظاہر ی وباطنی قوتوں سے لیس کرنا غوروفکر کی طاقت بخشنا اور خاص طور پر گفتگو کا طریقہ سکھلانا اللہ تعالیٰ کے خصوصی انعامات ہیں ۔ چناچہ یونانی فلسفی انسان کو حیوان ناطق یعنی بولنے والے حیوان سے تعبیر کرتے ہیں کہ یہ اللہ تعالیٰ کا بیش قیمت انعام ہے ۔ خود اللہ تعالیٰ نے سورة الرحمن کی ابتداء میں جہاں اپنے احسانات کا ذکر کیا ہے ، وہاں یہ بھی ہے علمہ البیان یعنی رحمن وہ ذات ہے جس نے انسان کو پیدا کیا اور پھر اسے بولنا سکھایا۔ شاہ رفیع الدین دہلوی جو اپنے والد ماجد امام شاہ ولی اللہ تعالیٰ محدث دہلوی کے فلسفے کے ماہر شمار ہوتے ہیں ، وہ انسان کی تعریف یہ کرتے ہیں الذی یتفکر ویصنع بالات یعنی وہ ہستی جو غوروفکر کرتی ہے اور آلات کو استعمال کرتی ہے۔ ظاہر ہے کہ غوروفکر کا مادہ بھی انسان کے لیے بہت بڑا انعام خداوندی ہے ۔ اسی غوروفکر کے نتیجہ میں انسان بڑے بڑے کام انجام دیتا ہے ۔ اپنے ہاتھ کو استعمال کرتا ہے اور پھر بڑی بڑی مشینیں اور الآت ایجاد کرکے ان سے کام لینا ہے ۔ اسی طرح انسان کا جسم ہذات خود ، اس کے ساتھ حاصل ہونے والے قوی صحت اور اہل افرادسب اللہ تعالیٰ کے انعامات ہیں ۔ (کبیر انعام) بعض انعامات انسان خود اپنی محنت سے حاصل کرتا ہے۔ ان میں تزکیہ نفس کو خاص اہمیت حاصل ہے اہل تصوف کی اصطلاح میں اس راستے کو تخلیہ کہتے ہیں ۔ اس کا مطلب یہ کہ انسان ہر قسم کے رذائل سے پاک ہوجائے جب کوئی انسان عبادت و ریاضت میں پابندی اختیار کرتا ہے اور مشقت برداشت کرتا ہے تو اس کے جسم سے تمام رذیل خصلتیں من جملہ کفر شرک نفاق بدعقیدگی ، حسد کینہ اور مکبر وغیرہ نکل جاتی ہیں ۔ اور انسان بالکل پاک صاف ہوجاتا ہے یہی تخلیہ ہے کہ انسان سے تمام بڑی چیزیں نکل جائیں اور وہ ان سے خالی ہوجائے تخلیہ کا دوسرا معنی یہ بھی ہے کہ انسان اپنے ظاہر و باطن اخلاق حسنہ سے مزین کرلے ۔ ان میں ایمان توحید اور دیگر تمام اچھے اخلاق شامل ہیں ۔ اللہ تعالیٰ کی رحمت مغفرت اور رضا بھی بہت بڑے انعامات ہیں جو کسی کو حاصل ہوجائیں ۔ یہ چیز بھی محنت اور کسب سے حاصل ہوتی ہے اور انسان بالاخر علین اور خطیرۃ القدس کا ممبر ین جاتا ہے۔ (تکبر کی قباحیت ) کسی انسان کا جن رذائل سے پاک ہونا ضروری ہے ان میں ایک رذیل خصلت تکبر بھی ہے ۔ انسانی وجود سے تکبر کا نکلنا بہت مشکل کام ہے ۔ اس کے لیے بزرگان دین بڑی محنت کراتے ہیں اور یہ کہیں آخر میں جاکرخارج ہوتا ہے ۔ بعض بزرگان کا مقولہ ہے نقل الجبال ایسد من اخراج الکبر منالقلوب یعنی کسی پہاڑ کو کنا رے کے ساتھ اٹھا کر ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کردینا آسان ہے بہ نسبت اس کے کہ دلوں سے تکبر کو خارج کیا جائے ابلیس میں یہ بیماری تھی جس کی وجہ سے وہ ہمیشہ کے لیے ملعون ٹھہرا۔ سورة بقدہ میں موجود ہے ابی واستکبروکان من الکفرین ابلیس نے تکبر کیا اور کافروں میں ہوگیا ۔ اسی طرح حسد بھی بہت بری خصلت ہے بزرگوں کا مقولہ ہے ماخلاجسدمن حسد یعنی کوئی جسم سے خالی نہیں ۔ اس قبیح خصلت سے نجات حاصل کرنے کے لیے بھی بڑی محنت کی ضرورت ہوتی ہے ۔ بہرحال یہ اللہ تعالیٰ کے کسی انعامات میں سے ہے کہ انسان تمام رذائل سے پاک ہوجائے ۔ (انعام یافتہ گروہ) تو اللہ تعالیٰ نے انسان کو یہ دعا سکھلائی ہے کہ مولاکریم ! ہمیں سید ہے راستے پر چلاجو ان لوگوں کا راستہ ہے جن پر تو نے انعام فرمایا ۔ حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ فرماتے ہیں ب 1 تفسیر طبری ص 76 ج 1 تفسیر ابن کثیرص 28) ہیں کہ انعام یافتہ گروہ چار ہیں جن کا ذکر سورة نساء میں موجود ہے ومن یطع اللہ والرسول فاولئک مع الذین انعم اللہ علیھم من النبیین والصد یقین والشھداء والصلحین یعنی نبی صدیق شہد اور صالحین انسان ان چاروں گروہوں کے راستے پرچلنے کی درخواست کرتا ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اے اللہ ! ہمیں ایسی سو سائٹی عطافرماجس کے ارکان چار مراتب والے لوگ ہوں اب ظاہر ہے کہ ان گروہوں میں وہی لوگ شامل ہوں گے جنہوں نے قرآن کریم کا اتباع کیا اس پر ایمان لائے اس کو سیکھا اور اس پر عمل کیا اور اسی چیز کا نام قانون کی پابندی ہے ۔ اس پابندی کے بغیر کوئی انسان ترقی کی منازل طے نہیں کرسکتا ۔ قانون کی پاسداری کے متعلق قرآن پاک میں جگہ جگہ ہدایت دی گئی ہیں جیسے یایھا الذین امنو لاتحرموا طیبت ما احل اللہ لکم (المائدہ) اے ایمان والو ! جن چیزوں کو تمہارے لیے اللہ نے حلال کیا ہے ان کو حرام نہ ٹھہراؤ سود چوری زنا ڈاکہ قتل ناحق وغیرہ سب حرام امور ہیں ان کو اختیارنہ کرو ، قانون شکنی شیطان کا کام ہے لہذا تم قانون کی پابندی کے سلسلے میں خلفائے راشدین کا نمونہ ہمارے پاس موجود ہے خاص طور پر حضرت عثمان ؓ کی شہادت تک کا دور تمام امت کے لیے متفق علیہ دستور کی حیثیت رکھتا ہے ۔ بعد میں امت کے درمیان اختلافات شروع ہوگئے ۔ تا ہم ان حضرات کے نمونہ پر عمل کرکے انسان منعم علیہم کا مصداق بن سکتے ہیں ۔ ان کے عملی نمونے زندگی کے ہر شعبے میں موجود ہیں معاملہ صلح کا ہو یا جنگ کا عبادت کا مسئلہ ہو یا معیشت معاشرت اور تجارت کا ہر جگہ ان کا موجود ہے کہ انہوں نے ایسے مواقع پر کس طرح عمل کیا معاملات زندگی کی بہت تھوڑی چیزیں باقی رہ جاتی ہیں جن کے متعلق ان حضرات کے ادوار سے براہ راست راہنمائی حاصل نہیں ہوئی ، ناہم اصول و ضوابط ہر شعبے میں موجود ہیں جن کی روشنی میں آگے آنے والے مسائل کا حل بھی تلاش لیا جاسکتا ہے لہذاخلفائے راشدین کا دور بھی ہمارے یے بہترین نمونہ کی حیثیت رکھتا ہے کہ یہ انعام یا فتح گروہ کے لوگ ہیں ۔ حضورعلیہ السلام کا ارشاد مبارک ہے (ب 1) کہ جو شخص کسی جانی ہوئی چیز پر عمل کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کو ان جانی چیز بھی سکھلادیتا ہے اور جو شخص جانی ہوئی چیز پر عمل پیرا نہیں ہوتا تو اس کو راستہ کہاں مل سکتا ہے ؟ آج مسلمانوں کی یہی حالت ہے ۔ جو قوم آج اپنے اصول و ضوابط اور نمونے کو چھوڑکردوسروں کے محتاج ہیں محض فلسفہ چھانٹتے ہیں ، عمل کا فقدان ہے وہ کامیاب نہیں ہوسکتی ۔ آج مسلمانوں کی کوئی چیز اپنی نہیں سیاست معیشت ، معاشرت تجارت ہر کام میں امر یکہ اور یورپ سے ہدایت حاصل کرنے والے اور ان کے نمونے پر چلنے والے انعام یافتہ گروہوں شامل نہیں ہو سکتے ۔ اسی لیے اس سورة مبارکہ میں یہ دعا سکھلائی گئی ہے کہ اے پروردگار ! ایسے لوگوں کے راستے پر چلاجن پر تو نے انعامات نازل فرمائے ہمیں ایسے لوگوں کے ساتھ چلنے کی توفیق عطافرما اب آگے ان چارگروہوں کی مختصر تشریح عرض کی جائیگی ۔ سورۃ فاتحہ صراط الذین انعمت علیھم 5 درس ہفدہم 17 ترجمہ : راستہ ان لوگوں کا جن پر تو نے انعام کیا ۔ 5 (ربط آیات) پہلے اللہ کی حمد وثنا بیان ہوئی ، ہوئی ، پھر اس کی صفات بیان ہوئیں ۔ اس کے بعد عبادت و استعانت کو اس کے ساتھ خاص کیا گیا اور پھر بندے کی طرف سے اللہ رب العزت کی بارگاہ میں صراط مستقیم کی درخواست کی گئی ۔ صراط مستقیم پر گامزن ہونے کے لیے اللہ تعالیٰ سے اس کے انعام یافتہ لوگوں کا نمونہ بھی طلب کیا گیا ۔ قرآن پاک میں موجود ہے کہ تمام انبیا اپنی اپنی امتوں کے لیے اولین نمونہ ہوتے ہیں جن کے راستے پر چل کرامت منزل مقصود تک پہنچتی ہے حضور خاتم النبیین صلی علیہ وسلم کے لیے خاص طور پر اسوہ حسنہ اور بینہ کا ذکر قرآن پاک میں ہوا ہے ۔ آپ بہترین نمونہ اور واضح نشانی ہیں۔ حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کی روایت میں آتا ہے (ب 1 مسلم ص 256 ج 1) کہ انہوں نے حضور ﷺ کے اخلاق حسنہ کے متعلق فرمایا کان خلقہ القدان یعنی آپکا اخلاق مبارک یہی قرآن ہے ۔ اس کا مطلب یہ کہ قرآن پاک کی تعلیمات کا عملی نمونہ حضور ﷺ کی ذات مبارکہ ہے ۔ پہلے انبیاء کے نمونے یہود ونصاری نے بگاڑدیے اور اب دنیا میں صرف ایک ہی نمونہ موجود ہے جو نبی آخرالزماں (علیہ السلام) کا ہے اسی لیے یہ درخواست کی گئی کہ مولا کریم ! ہمیں اپنے انعام یا فتہ لوگوں کے راستے پر چلنے کی توفیق عطافرما۔ ( نمونہ کی اہمیت) کسی کام میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے نمونہ کی ضرورت واہمیت کے متعلق امام شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے اپنی کتاب القول الجمیل میں یہ بات نقل کی ہے من لا یدی مفلحالا یفلح یعنی جو شخص کسی کا میاب آدمی کو نہیں دیکھتا ، وہ خود بھی کا میاب نہیں ہوسکتا ۔ شیخ عبدالقادر جیلانی کے مواعظ میں بھی یہ بات موجود ہے اور بعض دوسرے پزرگوں نے بھی ایسا ہی لکھا ہے کہ نمونے کا مطلب یہی ہے ۔ دنیا کا دستور بھی ہے کہ کوئی ہنرکو دیکھے بغیر حاصل نہیں ہوسکتا کامل درجے کا انجینئر وہی ہوگا جس کے سامنے اعلیٰ درجے کے انجینئر کانمونہ موجود ہوگا اچھے ڈاکٹر کی مثال بھی یہی ہے ۔ کوئی سیاستدان بھی اس وقت تک انقلابی سیا ستدان نہیں بن سکتا جب تک وہ کسی انقلابی سیاستدان کے کارہائے کو پیش نظر نہیں رکھے ۔ اسی لیے دعا میں درخواست کی گئی ہے کہ رب العلمین ہمیں ان لوگوں کا راستہ دکھا جن پر تو نے انعام فرمایا۔ اور یہ چارگروہ ہیں جن کی تصریح قرآن پاک نے سورة نساء میں کردی ہے اور یہ ہیں انبیاء ، صدیق شہدا اور صالحین ۔ (1۔ انبیائ) منعم علیہ گروہوں میں پہلا گروہ انبیاء علہیم السلام کا ہے ۔ انبیائے کرام پوری نسل انسانی اور خاص طور پر اپنی اپنی امت کے لیے معیار ہوتے ہیں ۔ اسی لیے ان کا اتباع کرنا فرض ہے ۔ پر نبی نے اپنی امت کو یہی درس دیا فاتقوا اللہ واطیعون (راشعدام) اے لوگو ! اللہ سے ڈرجاؤ ، کفروشرک سے باز آجاؤ میری اطاعت کرو اپنی زندگی کے لیے مجھے نمونہ پکڑو۔ اللہ نے حضور ﷺ کی زبان مبارک سے بھی یہ کہلوایا ، کہ اے میری امت کے لوگو ! اگر تم اللہ تعالیٰ کے محبوب بننا چاہتے ہو فاتبعونی تم میر اتباع کرو اور یغفرلکم ذنوبکم (آل عمران ) اور تمہارے گناہ بھی معاف فرمادے گا ۔ مطلب یہ کہ کمال حاصل کرنے کے لیے نبی کا نمونہ یعنی اس کا اتباع اختیار کرنا ضروری ہے۔ ہر نبی انسان ہوتا ہے ، چناچہ علم عقائد والے نبی کی تعریف اس طرح کرتے ہیں ھوانسان بعثہ اللہ التبلیغ ما اوحی اللہ الیہ یعنی نبی وہ انسان ہوتا ہے جسے اللہ تعالیٰ اس کی طرف وحی کی گئی چیز کی تبلیغ کے لیے مبعوث فرماتا ہے ۔ رسول تو فرشتے بھی ہوتے ہیں مگر نبی صرف انسان ہی ہوتے ہیں۔ (انبیاء کا علمی اور عملی ورثہ) نبی کی ذات میں علمی اور عملی دونوں قسم کے کمالات ہوتے ہیں اور انہیں منبع علوم تک رسائی حاصل ہوتی ہے۔ امام شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کی اصلاح میں علوم خطیرۃ القدس ہے جہاں سے انسانوں کی طبعی عقلی یا مادی ضروریات کی تکمیل کے لیے علم مہیا کیا جاتا ہے ۔ انبیاء کا تعلق تجلی عظم کے ساتھ کمال درجے کا ہوتا ہے۔ حضرت آدم (علیہ السلام) سب سے پہلے نبی ہیں آپ عقلمند ترین انسان تھے ۔ ڈارون کا نظریہ جہالت کی پیداوار ہے کہ ابتداء میں سب بندر تھے ، پھر یہ ترقی کر کے انسانیت کی مد میں داخل ہوگئے ۔ یہ بالکل باطل نظریہ ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے انسان آدم (علیہ السلام) کو پیدا کیا انہیں نبوت عطاکی اور انہیں مکمل علم ، عمل اور عقل عطاکی ۔ انسان کی تمدنی ترقی کا انکار نہیں کیا جاسکتا کہ یہ بتدریج ہوتی ہے آج سے سو سال پہلے کے لوگ آج کی مہیا کردی ہیں اور انسانی ضروریات کی لاتعدادچیزیں مہیا کردی ہیں مگر یہ تو تجربے کی چیزیں ہیں ۔ جہاں تک عقلی ، نظری اور عملی قوت کا تعلق ہے اس کا کمال انبیاء کو ہی حاصل ہوتا ہے ۔ (انبیاء کی معصومیت) انبیاء علہیم السلام کی ایک بہت بڑ ی خوبی یہ بھی ہے کہ وہ معصوم عن الخطا ہوتے ہیں ۔ خدا تعالیٰ کی طرف سے انہیں گارنٹی حاصل ہوتی ہے کہ ان سے گناہ سرزد نہیں ہوتا اگر نبی سے معمولی سی غلطی بھی ہوجائے تو اس کی فورا اصلاح کردی جاتی ہے ۔ اس قسم کی معمولی کوتاہی لغزش کہا جاتا ہے جہاں تک گناہ کا تعلق ہے وہ نبی کی ذات سے نہ نبوت سے پہلے ہوتا ہے اور نہ نبوت کے بعد نبی کو معمولی لغزش پر ہی تنبیہ ہوجاتی ہے اور اسے اس پر قائم نہیں رہنے دیا جاتا ۔ عام انسانوں اور انبیاء میں یہی فرق ہے ۔ بڑے سے بڑا مجتہد بھی غلطی سے خالی نہیں ہوتا ۔ وہ ساری عمر خطا پر قائم رہ سکتا ہے کیونکہ اسے اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی گارنٹی حاصل نہیں ہوتی ۔ مجہتد کو اپنے درجے کے مطابق اللہ تعالیٰ سے اجر وثواب ضرور حاصل ہوتا ہے مگر یہ ضروری نہیں کہ اللہ تعالیٰ اسے غلطی سے ہٹادے ۔ بہر حال انبیاء گناہوں سے پاک ہوتے ہیں مگر انسان ہوتے ہیں ۔ البتہ ان میں علمی عملی اور عقلی قوتیں کمال درجے کی ہوتی ہیں ۔ (2۔ صدیق ) منعم علیہ گروہوں میں سے دوسرا گروہ صدیقین کا ہے ۔ صدیق راست باز کو کہتے ہیں ۔ اور یہ وہ شخصیت ہوتی ہے جس کی قوت علمی اور نظری نبی کے قریب قریب ہوتی ہے یوں سمجھ لیں کہ صدیق کا ظرف ایساصاف آئینہ ہوتا ہے جس پر نبی کے علوم کا عکس پڑتا ہے ۔ ملاخطہ فرمالیں کہ حضرت صدیق اکبر ؓ حضور ﷺ کی عدم موجود گی میں بالکل ویسی ہی بات کرتے تھے جسی حضور ﷺ کی زبان سے نکلتی تھی ۔ معاہدہ حدیبیہ کے موقع پر حضرت عمر فاروق ؓ بڑے پریشان ہوئے اور آپ سے عرض کیا ، حضور ! کیا آپ اتنی کمزور شرائط پر صلح کر رہے ہیں کیا ہم حق پ ر اور کفار حق پر نہیں ؟ آپ (علیہ السلام) نے فرمایا ، (ب 1 بخاری ص 717 ج 2) بالکل ایسا ہی ہے مگر اے عمر ؓ ! جان لو کہ میں اللہ کا نبی ہوں ولن یض یعنی اللہ اور اللہ تعالیٰ مجھے ضائع نہیں کریگا ۔ یہ جو کچھ ہورہا ہے ، اسی مصلحت ہے اس کے بعد اس بات کا ذکر حضرت عمر ؓ نے حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے پاس کیا اور کہا کہ مسلمانوں کو اتنی کمزور شرائط پر صلح نہیں کرنی چاہیئے ، اس پر حضرت صدیق ؓ نے فورا کہا ، (ب 2 بخاری ص 717 ج 2) اے عمر ؓ ! تمہیں معلوم ہونا چاہیئے کہ حضور ﷺ اللہ کے نبی ہیں ولن یضیعہ اللہ اور اللہ تعالیٰ آپ کو ہر گزضائع نہیں کرے گا ۔ مطلب یہی تھا کہ جو کچھ حضور ﷺ کر رہے ہیں۔ مسلمانوں کی اسی میں بہتری ہے ۔ آپ نے دیکھ لیا کہ حضرت صدیق ؓ کی زبان سے بھی بالکل وہی الفاظ نکلے جو خود حضور ﷺ کی زبان مبارک سے ادا ہوئے تھے تو کہنے کا مقصد یہ ہے کہ صدیق کا ذہن اور د ماغ اتناشفاء آئینہ ہوتا ہے جس پر نبی کے علم کا عکس پڑتا ہے اور اس کی بات نبی کی بات سے مل جاتی ہے ایسے شخص کو صدیق کا لقب دیا گیا ہے۔ (3۔ شہدائ) تیسرانعام یافتہ گروہ شہداء کا ہے۔ شہدا کی قوت عملیہ کو کمال حاصل ہوتا ہے جس طرح نبی کی قوت عملی اعلی درجے کی ہوتی ہے ، اس طرح شہید کی قوت عملی اس کے قریب قریب ہوتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ شہید اپنے دین اور خدا تعالیٰ کی رضا کی خاطر اپنی جان پر بھی کھیل جاتے ہیں اور اس طرح وہ حق وصداقت کی گواہی دینے والے بن جاتے ہیں ۔ جا ن کا نذرانہ پیش کرنے والا اسی شہادت کی بناء پر شہید کہلا تا ہے۔ (4۔ صالحین ) انعام یا فتہ گروہوں میں چوتھا گروہ صالحین کا ہے ۔ ان کی قوت عملی اور عملی اگر چہ اعلیٰ ترین درجے کی تو نہیں ہوتی مگر ان میں کامل درجے کا اتباع پایا جاتے ہے ۔ ایسے لوگ انبیاء کے خاص متبعین ہوتے ہیں اور اپنے آپ کو فاسد اعتقادات اور برے اخلاق سے دور رکھتے ہیں ۔ دوسرے لفظوں میں یوں سمجھ لیں کہ صالح اس شخص کو کہا جاتا ہے جو اللہ تعالیٰ کا حق بھی ادا کرتا ہے اور مخلوق کا حق بھی ادا کرتا ہے ۔ وہ زیادہ سے زیادہ یا دالٰہی میں مصروف رہتا ہے ۔ عام اصطلاح میں ایسے لوگوں کو ولی کہا جاتا ہے یہی صالحین ہیں اور باقی لوگ ان سے کم تردرجے میں ہوتے ہیں ۔ غرضیکہ صراط مستقیم کے حصول کے لیے ان چار اقسام کے لوگوں کا نمونہ پیش نظر رکھا گیا ہے کہ مولا کریم ! ایسے راستے پر چلاجس راستہ کہ تیرے ان انعام یافتہ لوگوں نے اختیار کیا ۔ (غلط نسبت مفید نہیں ) اب دوسری بات بھی ملا خطہ فرمائیں ۔ عام انسانوں کے لیے ضروری ہے کہ اپنے ذہن ، دماغ ، قوت علمیہ ، قوت عملیہ اور قوت نظریہ کو منعم علیہ لوگوں کے نمونے پر استعمال کریں اگر وہ اس میں کا میاب ہوجائیں تو ان کی نسبت ان چارگروہوں کے ساتھ درست ہوجائیگی ۔ اور اگر وہ اپنے آپ کو منعم علیہ گردہوں کے مطابق نہ ڈھال سکیں تو پھر ان کے ساتھ خالی خولی نسبت کچھ فائدہ نہیں دے گی ۔ قرآن پاک میں یہ بات واضح طور پر سمجھادی گئی ہے کہ جو لوگ اپنی نسبت حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی طرف کرتے ہیں یعنی یہودونصاری جب تک وہ اپنا عقیدہ اور عمل ان کے مطابق نہیں بنائیں گے ، محض ان کی طرف نسبت کچھ کام نہ آئے گی ۔ شیعہ حضرات اپنی نسبت اہل بیت کی طرف کرتے ہیں گویا یہ لوگ اہل بیت کے محب ہیں حالانکہ اگر عقیدہ اور عمل کی کسوٹی پر جانچاجائے تو ان لوگوں کی حضور کے خاندان کے ساتھ کوئی نسبت نظر نہیں آتی ۔ حضور ﷺ کے خاندان مرد وخواتین تو امت کے لیے پیشوا اور بزرگ تھے اور حضور ﷺ کا کامل نمونہ تھے ، مگر شیعوں کا عقیدہ اور عمل ان حضرات کے بالکل خلاف ہے ، بھلا ان کی نسبت کیسے درست ہو سکتی ہے ؟ ان کا دعواے محبت جھوٹ محض ہے ۔ لہذا محض بزرگوں کی طرف نسبت کردینا قطعا مفید نہیں ہوگا۔ (صوفیاء کرام کی طرف نسبت) اس زمانے میں عام لوگ چشتی قادری سروردی ، نقشبندی ، جیلانی وغیرہ کہلاتے ہیں اور اپنی نسبت ان صالحین کی طرف کرتے ہیں حالانکہ ان کے درمیان کوئی مناسبت نہیں پائی جاتی بلکہ اکثر کے عقائد و اعمال ان بزرگوں کے خلاف ہیں ۔ مثال کے طور پر چشتیہ سلسلے کو لے لیں چشت ایک مقام کا نام ہے ۔ حضرات خواجہ معین الدین اجمیری ؓ ، خواجہ نظام الدین اولیاء اور ان کے پیرومر شد سلسلہ چشتیہ کے بزرگ تھے ، ان میں علم عمل تقوی اور پر ہیزگاری کمال درجے کی تھی ۔ ان کے مریدوں میں سے بعض حضرات چین تک پہنچے ، تبلیغ دین کی جس کے نتیجے میں بےشمارلوگوں نے اسلام قبول کیا مگر اب ان بزرگوں کا نام لیوارہ گئے ہیں ۔ ان میں نہ وہ علم ہے اور نہ عمل ، نہ وہ تقوی ہے اور نہ وہ پر ہیزگاری ۔ اب چشتیہ طریقے کا کام گانے بجانے قوالی کرانے قبر پرستی اور ترک سنت تک محدود ہو کر رہ گیا ، بھلا اس قسم کی نسبت کسی کو کیا فائدہ دے سکتی ہے ؟ قادری طریقے والوں کا کام بھی اب یہی رہ گیا ہے کہ قبروں پر چادریں اور چڑھا وے چڑھا ہیں۔ عرس منائیں یا ختم پڑھ کر قادری بن جائیں ۔ شیخ عبدالقادر جیلانی تو کمال درجے کے بزرگ تھے آپ کے مواعظ ، اخلاق حسنہ ، دین کے لیے لگن اور آپ کا عقیدہ وعمل تو خود آپ کی کتابوں میں محفوظ ہے مگر آپ کی تحریروں کی طرف کوئی نظر اٹھا کر بھی نہیں دیکھتا کہ آپ زندگی بھر کیا کرتے رہے اپنے مریدوں کو کس بات کا حکم دیتے رہے ۔ اس زمانے میں ان بزرگوں کے نام پر بدعات کو رواج دیا جارہا ہے ۔ بھلا ایسی غلط نسبت کسی کے کہاں کام آئے گی ؟ اس طرح قادری سروردی اور نقشبند ی جیسی نسبتیں کسی کام نہیں آسکتیں جب تک اپنے عقیدہ اور عمل کو ان بزرگوں کے مطابق نہ بنایا جائے ۔ شیخ عبدالقادر جیلانی ابو یزید بسطامی ، ابو الحسن فرقانی حضرت علی ہجویری خواجہ معین الدین چشتی ، خواجہ نظام الدین اولیاء ، حضرت بختیا ر کا کی ، عثمان ہارونی ، خواجہ فرید الدین اور خواجہ بہاؤالحق زکریا ملتانی بڑی بزرگ ہستیاں تھیں جنہوں نے اپنے عمل کے ذریعے کفرستان میں دین کی شمع روشن کی مگر آج صرف ان کے نام لینے والے باقی ہیں جو ان کی گدیوں کی آمدنی پر پل رہے ہیں ، وگرنہ ان لوگوں کی ان بزرگوں کے ساتھ کوئی نظر نہیں آتی ۔ اور جو لوگ زبردستی اپنے آپ کو ان کی طرف منسوب کرتے ہیں ۔ اس کا کچھ فائدہ نہیں ہوگا جب تک عقیدہ اور عمل ان بزرگوں کے مطابق نہ ہو۔ (اصحاب مذاہب کی نسبت) اسی طرح مختلف مذاہب والوں کا بھی یہی حال ہے ۔ حنفی ، شافعی ، مالکی حنبلی ، مقلد غیرمقلداہل حدیث کہلا نے والے بھی خالی نسبت پر انحصار کرکے بیٹھے ہوئے ہیں جس شخص نے امام ابوحنیفہ کا طریقہ نہیں پکڑاوہ حنفی کہلا نے کا ہر گزحقدار نہیں ۔ جب تک ان جیسا عقیدہ اور عمل نہیں ہوتا اس وقت تک محض حنفی کہلا لینا کچھ مفید نہیں ہوگا ، اسی طرح شافعی مالکی اور حنبلی نسبت ہے ۔ اب مذاہب کو ماننے والے جب تک ان مذاہب کے اصول و ضوابط کو نہیں اپنا تے محض اپنی نسبت ان کی طرف کرلینے سے کیا حاصل ہوگا ؟ اہل حدیث کہلا نے والوں کو بھی اپنی نسبت امام بجاری اور امام ترمذی کے ساتھ ثابت کرنا ہوگی ، ورنہ ان کے دعوے میں بھی کوئی صداقت نہیں ۔ غرضیکہ کوئی کسی بھی مسلک عقیدے یا سلسلے سے تعلق رکھتا ہو اس کا دارومدار اس کے عقیدے اور عمل کی اصلاح پر ہے محض کوئی نام رکھ لینا کسی کام نہیں آسکتا ۔ (یہود ونصارے کی نسبت ) یہود یوں نے اپنی نسبت حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور نصاری نے حضرت مسیح (علیہ السلام) کی طرف کررکھی ہے حالانکہ یہ اپنے عقیدے اور عمل کے لحاظ اپنے دعوے میں جھوٹے ہیں یہودیوں کا کوئی عمل موسیٰ (علیہ السلام) سے مطابقت نہیں رکھتا اور نہ ہی عیسائیوں کا کوئی فعل عیسیٰ (علیہ السلام) کی سنت کے مطابق ہے ۔ محض یوم ولادت منالینا گا نا بجانا ڈھول ڈھمکا ، شراب نوشی اور شور و شر کو عیسیٰ (علیہ السلام) کے کردار سے کیا نسبت ہے ؟ اب پوری عیسائی دنیا کا عمل کر سمس ڈے منانے تک محدود ہوکررہ گیا ہے مگر دعویٰ یہ ہے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) کے سچے پیروکار ہیں ۔ بھائی ! ایسی خالی نسبت کچھ فائدہ نہیں دے سکتی ۔ کیا عیسیٰ (علیہ السلام) نعوذباللہ عیاشی اور فحاشی کا درس دیتے تھے وہ تو اللہ تعالیٰ کی تو حید کے مبلغ تھے برائی سے منع کرتے تھے ۔ یہودی عالم جو علم کا دعوے کرتے اور غلط باتیں کرتے تھے ۔ ان کو عی سے (علیہ السلام) کہتے تھے ، سانپ کے بچو ! تم جھوٹے فقیہہ بنے پھر تے ہو خود گمراہ ہو اور دوسروں کو بھی گمراہ کر رہے ہو تم خالص دنیا دار اور لعنتی ہو۔ بہرحال یہ جھوٹی قطعا مفید نہیں ہوسکتی نسبت صحیح ہوگی تو کچھ فائدہ ہوگا ورنہ نہیں خواجہ ابراہیم ادھم بادشاہ تھے مگر سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر اللہ اللہ کرنے لگے ۔ (خواجہ ابراہیم ادھم ) بزرگوں ملے عبادت و ریاضت کی حج کیا اور آخر میں ملک سے بہت دور صوبہ شام کے علاقہ صوریہ میں وفات پائی ۔ ان کے متعلق امام رازی تفسیر کبیر میں قمطر از (تفسیر کبیر ص 256 ج 1) ہیں کہ بیت اللہ کی طرف پیدل جا رہے تھے ۔ راستے میں کسی دیہاتی نے پوچھا ، شیخ ! کہا کا ارادہ ہے ؟ فرمایا بیت اللہ شریف کی زیارت کا ارادہ ہے اعرابی کہنے لگا ، اتنا لمباسفر ہے اور آپ کے پاس سواری بھی نہیں ہے ۔ خالی ہاتھ ہیں آپکے پاس توشہ بھی نظر نہیں آتا ۔ ابراہیم ادہم نے جواب دیا بھائی ! میرے پاس تو بہت سی سواریاں ہیں مکر تمہیں نظر نہیں آتیں جب مجھ پر کوئی مصیبت آتی ہے تو صبر کی سواری پر سوارہوجاتا ہوں جب کوئی نعمت ملتی ہے تو شکر کی سواری کو استعمال کرتا ہوں جب خدا تعالیٰ کی طرف سے کوئی فیصلہ آجاتا ہے قضانازل ہوتی ہے تو میں رضا کی سواری پر سوار ہوجاتا ہوں جب نفس کسی بات پر آمادہ کرتا ہے تو میں یقین سے جان لیتا ہوں اور نفس کو کہتا ہوں کہ زندگی کے زیادہ دن گزرگئے ہیں اور تھوڑے دن باقی ہیں ۔ تو مجھے کس راستے پر ڈالنا چاہتا ہے ۔ لہذانفس رک جاتا ہے کیونکہ کیا معلوم ہے کہ تھوڑی دیر بعد ہی موت آجائے ۔ جب دیہاتی نے یہ بات سنی تو کہنے لگا سد باذن اللہ فانت راکب وانا راجل چلیئے صاحب ! آپنا سفرجاری رکھیں ۔ خدا کے حکم سے آپ سوار ہیں اور میں پیدل ہوں ۔ (اور نگ زیب عالمگیر) اس دنیا میں بعض لوگ ایسے بھی ہوئے ہیں ۔ جنہوں نے بادشاہی میں بھی فقیری کی ایسی ہی ایک شخصیت بطر صغیر مٰن اور نگ زیب عالمیگر کی تھی۔ کابل سے لے کر برماتک کا علاقہ زیر نگین تھا مگر شاہی بیت المال سے کبھی ایک پسیہ تک وصول نہ کیا اپنے ہاتھ کی کمائی پر گزراوقات تھی ۔ قرآن کریم نہایت خوش خط کتابت کرتے تھے ۔ نیز اپنے ہاتھ سے ٹوپیاں بنا تے تھے ۔ ان دو ذرائع کی آمدنی سے گھرکے اخراجات چلتے تھے ۔ آپ کے ہاتھ کے لکھے ہوئے قرآن مجید آج بھی کہیں کہیں ملتے ہیں ۔ آپ کمال درجے کے متقی پر ہیزگار اور خوف خدا رکھنے والے تھے یہہ مقولہ آپ ہی پر صادق آتا ہے ۔ آنکہ درشاہی فقیری کردند یعنی وقت کے بادشاہ ہوتے ہوئے بھی پوری زندگی فقیری کی حالت میں بسر کردی ۔ انگریزوں ہندوؤں نے غلط پر اپگینڈا کیا ہے کہ اور رنگ زیب نے بھائی کونا حق مروادیا اور باپ کو قید کیا ۔ حقیقت یہ ہے کہ آپ کے بھائی نے ایک مسکین آدمی کو ناحق قتل کردیا تھا جس کے بدلے میں آپ نے بھائی کو سزائے موت دی ۔ باپ قاتل کی ناجائز طرفداری کرتا تھا ۔ لہذا اسے بھی راستے سے ہٹا نے کے لیے قید کردیا ۔ بہرحال آپ انسان تھے اور کوئی انسان غلطی سے خالی نہیں مگر آپ کے تقوی اور زہد کی کوئی مثال نہیں ملتی آپ کے جانشین سب نالائق ثابت ہوئے جن کے غلط کارناموں کی وجہ سے سلطنت میں دراڑیں پڑگئیں ۔ بہرحال یہ تھے وہ بزرگ جنہوں نے دنیا میں مثالیں قائم کیں ، ان کا عقیدہ عمل اور اخلاق نہایت اعلی درجے کا تھا اور یہ لوگ صحیح معنوں میں عالم باعمل تھے ۔ مگر آج ہماری خالی نسبت کچھ کام نہیں آسکتی ۔ ہم محض بزرگان دین کی طرف نسبت کرکے ہی مطمئن ہو کر بیٹھ گئے ہیں حالانکہ اصل چیز عقیدہ اور عمل ہے ۔ جب تک یہ چیزیں درست نہیں ہوں گی کوئی نسبت مفید نہیں ہوگی ۔ تو صراط مستقیم کی دعا میں یہ بات بھی شامل ہے کہ مولا کریم ! ہمیں اپنے انعام یافتہ بندوں کے راستے پر چلاجن کی بعض مثالیں میں نے عرض کردی ہیں ۔ سورۃ الفاتحۃ 1 غیرالمغضوب علیھم ولا الضالین درس ہژدہم 18 ترجمہ : نہ وہ لوگ جن پر تیرا غضب ہوا نہ گمراہ A (ربط آیات) اللہ تعالیٰ کی حمد وثنا کے بعد اس کی صفات کا ذکر ہوا اور اس کے بعد عبادت و استعانت کا ذات باری تعالیٰ کے ساتھ مختص ہونے کا بیان تھا ۔ پھر بندوں کی طرف سے درخواست کی گئی کہ مولا کریم ! ہمیں صراط مستقیم پر چلنے کی تو فیق عطافرما۔ انسانوں کی اولین ضرورت یہ ہے کہ ان کے سامنے صراط مستقیم واضح ہوجائے۔ اس کے بعد صراط مستقیم کے لیے نمونے کا ذکر کیا گیا کہ یا اللہ ! ہمیں ان لوگوں کے راستے پر چلاجن پر تیرانعام ہوا۔ قرآن پاک نے انعام یا فتہ چاروں گروہوں یعنی انبیاء صدیق ، شہید اور صالحین کی وضاحت فرمادی کہ یہی وہ لوگ ہیں جن نمونے پر چلنے کی ضرورت ہے اور جن کا طریقہ اختیار کیے بغیر کوئی انسان فلاح حاصل نہیں کرسکتا ۔ (مغضوب علیہ اور ضال) اب آج کی آیت کریمہ میں غلط کارلوگوں کے راستے سے بچ رہنے کی درخواست کی گئی ہے ۔ گذشتہ آیت میں عرض کیا گیا تھا کہ اے اللہ ! ہمیں ان لوگوں کا راستہ دکھا جن پر تیرا انعام ہوا اور اب یہ کہ غیرالمغضوب علیھم ولا الضالین ان لوگوں کا راستہ نہ دکھانا جن پر تیراغضب ہوا اور نہ جو گمراہ ہوئے مغضوب علیہ وہ شخص یا گروہ ہوتا ہے جو جان بوجھ کر حق کو چھپاتا ہے ایسے لوگ حقیقت سے واقف ہوتے ہیں ، حق کو پہچانتے ہیں اور دیدہ دانستہ اسے چھپاجاتے ہیں ۔ ایسے لوگ عمل کی نعمت سے محروم ہوتے ہیں ، جو علم ہونے کے باوجود حق پوشی کرتے ہیں ۔ اس کے برخلاف گمراہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو علم کی دولت سے محروم ہیں ۔ انہیں صحیح راستے کی پہچان ہی نہیں ہوتی ، اس لیے یہ اصل راستے سے بھٹک جاتے ہیں ۔ قرآن کی اصطلاح میں انہیں ضال کہا گیا ہے تاہم مغضوب علیہ اور ضال دونوں گروہ مردود ہیں اور ان کے مقابلے میں انعام یا فتہ گروہ مقبول ہیں ۔ حدیث شریف (ب 1 ترمذی ص 124 ج 2 ، ) میں یہودیوں کو مغضوب علیہ اور عیسائیوں کو ضال کہا گیا ہے۔ (حاتم طائی کی بہن) مسنداحمد کی روایت میں آتا ہے (ب 2 مسنداحمد ص 378 ج 4) کہ صحابہ کا ایک گروہ جہاد کے لیے بنی طے کے علاقہ میں گیا ۔ عربوں کا یہ مشہور قبیلہ اگر چہ حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کی اولاد میں سے تھا مگر انہوں نے عیسائیت اختیار کر رکھی ۔ حاتم طائی اس قبیلے کا مشہور آدمی گزرا ہے جسکی سخاوت کے قصے دور دور تک مشہور تھے ۔ امام ابن قتیبہ نے اپنی کتاب الشعراء میں لکھا ہے کہ حاتم طائی نے انیس 19 مرتبہ اپنی ساری کی ساری دولت لٹادی ۔ اس قبیلہ کے لوگ بھی مسلمانوں کے خلاف تھے ، لہذا ان کے ساتھ جھڑپیں ہوئیں موقع پا کر مسلمانوں نے اس علاقے پر حملہ کردیا ۔ دشمن مقابلے کی تاب نہ لا کر بھاگ گیا اور کچھ لوگ قیدی بنالیے گئے جن میں (ب 3 ابن کثیرص 29 ج 1 طبع مصربحوالہ مسنداحمد والاحادثرالطوال للطبرافی طیع ہیروت ص 14 ، 15 ، ) حاتم طائی کی بہن بھی تھی ۔ البتہ حاتم طائی کا بیٹا عدی بھاگ نکلنے میں کامیاب ہوگیا جب جنیگی قیویوں کو حضور ﷺ کی خدمت میں پیش کیا گیا تو حاتم طائی کی بہن نے درخواست کی کہ حضور ! (ب 4 مسند احمد ص 378 ج 4) میں بوڑھی عورت ہوں کوئی خدمت بھی انجام نہیں دے سکتی ، میرا نمائندہ اور بھتیجاعدی بھی بھاگ گیا ہے ، آپ مہربانی فرما کر مجھے آزاد کردیں ۔ حضور ﷺ نے بڑھیا کی درخواست قبول کرتے ہوئے اس کی رہائی کا حکم دیا ۔ پاس ہی حضرت علی ؓ بھی کھڑے تھے ، آپ نے اس عورت سے کہا کہ حضور سے سواری کی دوخواست کرلو ، واپس کیسے پہنچوگی ۔ چناچہ اس نے پھر عرض کیا ۔ حضور میں بوڑھی عورت ہوں ، سفردراز ہے اور ساتھی بھی کوئی نہیں ، مہربانی فرما کر کوئی سواری بھی عنائت کردیں ۔ حضور ﷺ نے بڑھیا کی یہ درخواست بھی منظور فرمائی اور اس کے لیے سواری کا بندوبست بھی کردیا جب وہ عورت اپنے علاقے ہیں واپس پہنچی تو اس نے اپنے بھتیجے عدی سے کہا کہ مسلمانوں کے پیغمبر نے میرے ساتھ سلوک کیا کہ تیراباب بھی ہوتا تو ایسانہ کرتا ، اس شخص نے میری عزت کی رہا کیا اور پھر سواری بھی مہیا کی ۔ (عدی طائی کا قبول اسلام ) کچھ عرصہ بعد عدی ؓ بن حاتم طائی بھی حضور کی خدمت میں پہنچ گیا ۔ اس نے گلے میں صلیب لٹکار کھی تھی ۔ حضور نے دیکھا تو فرمایا (ب 1 ترمذی ص 140 ج 2) الق عنک ھذالوثن اس بت کو اتار پھینکو ، یہ تو شرک کی نشانی ہے ۔ عیسائی صلیب کا نشان اس لیے اپنے گلے میں پہنتے ہیں کہ ان کے عقیدہ کے مطابق حضرت مسیح (علیہ السلام) کو صلیب پر چڑھا یا گیا اور نہ ہی ان کی موت واقع ہوئی بلکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو آسمان پر زندہ اٹھا لیا۔ صحیح احادیث میں یہ بھی موجود ہے کہ قرب قیامت میں عیسیٰ (علیہ السلام) دوبارہ زمین پر نازل ہوں گے۔ بہرحال حضور ﷺ نے عدی سے فرمایا کہ تم کیوں بھاگتے ہو ، اللہ کی وحدانیت سے گریز کرتے ہوئے ، کیا خدا تعالیٰ کے سوا بھی کوئی معبود ہے ؟ آپ نے فرمایا کیا تم اللہ اکبر کے کلمہ سے بھاگتے ہو ؟ تمہیں اللہ کو سب سے بڑا مانتے میں کیا اعتراض ہے ؟ یہ سن کر عدی کچھ دیر کے لیے خاموش رہا اور پھر عرض کیا ، حضور ! میں تو حنیف ہوگیا ہوں یعنی میں نے اسلام قبول کرلیا ہے ۔ اس پر حضور ﷺ خوش ہوگئے ۔ (یہودی اور عیسائی ) اسی حدیث شریف میں آتا ہے کہ حضور نبی کریم ﷺ نے یہودیوں کے متعلق فرمایا کہ یہ مغضوب علیہ ہیں ۔ انہوں نے نافرمانی کی ، خدا تعالیٰ کے قانون کو توڑا ، اور اللہ تعالیٰ کے غضب کو دعوت دی لہذا ان کے متعلق قرآن پاک میں موجود ہے ۔ فباء و بغضب علی غضب علی غضب (البقرہ) یعنی اللہ تعالیٰ ان سے ناراض ہوا۔ یہ مغضوب علیہم ہیں ۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ صرف یہودی ہی مغضوب علیہ ہیں بلکہ جتنے بھی کافر ، مشرک ، مجوسی صابی ستارہ پرست ، ہندو سکھ جاپانی منکرین خدا اور کیمونسٹ وغیرہ سب مغضوب علیہ لوگ ہیں ۔ ان میں سے کوئی بھی راہ راست پر نہیں ہے۔ حضور ﷺ نے نصاری کے متعلق فرمایا کہ یہ لوگ بھٹک گئے ہیں انہوں نے عیسیٰ (علیہ السلام) کی محبت میں اس حدتک غلو کیا کہ انہیں الوہیت کے درجے تک پہنچا دیا کو چناچہ عیسائیوں نے حضرت مسیح (علیہ السلام) کو ابن اللہ یعنی خدا کا بیٹا کہ دیا انہوں نے ثالث ثلاثہ یعنی تین میں سے تیسرا اور باپ ، بیٹا اور روح القدس جیسا باطل عقیدہ اختیار کیا ۔ یہ لوگ عیسیٰ (علیہ السلام) کی مدح سرائی کرتے کرتے ہی راہ راست سے بھٹک کر گمراہ ہوگئے اسی مبالغہ آمیزی کے رو میں خود حضور علیہ الصلوۃ ولسلام کا فرمان (ب 1 بخاری ص 490 ج 1) بھی ہے لاتطرونی کما اطرت النصاری عیسیٰ ابن مریم لوگو ! میری تعریف میں مبالغہ نہ کرنا جس طرح نصاری نے حضرت عیسیٰ ابن مریم (علیہا السلام) کے متعلق اختیار کیا ۔ فرمایا انی عبداللہ ورسولہ فقولوا عبداللہ ورسولہ میں تو اللہ کا بندہ ہوں اور اس کا رسول ہوں ، لہذا مجھے اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہی کہو۔ امام مجدد نے ایک نقطہ بیان فرمایا ہے کہ ہم تشہد میں پڑھتے ہیں اشھدان محمدا عبدہ ورسولہ میں گواہی دیتا ہوں کہ حضرت محمد ﷺ کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔ فرماتے ہیں کہ یہاں پر عبد کو پہلے اور رسول کو بعد میں اسلیے لایا گیا ہے کہ عبد تعلق اللہ کے ساتھ ہے اور رسول کا تعلق مخلوق کے ساتھ ہے ، لہذا اللہ کے ساتھ تعلق کی درستگی پہلے ہونی چاہیئے اور رسول کا تعلق مخلوق کے ساتھ ہے ، لہذا اللہ کے ساتھ تعلق کی درستگی پہلے ہونی چاہیئے ۔ اللہ کے رسول کو پہلے بندہ سمجھو کہ وہ بھی اپنے خالق ومالک کی بندگی کرنے والا ہے ، وہ خود الٰہ نہیں ہے ۔ اسی لیے عبدیت کا اقرار پہلے کرایا گیا ہے اور رسالت کا بعد میں۔ (منعم علیہ اور مغضوب علیہ ) مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ اللہ کی مخلوق میں سے انسان اور جنات مکلف ہیں اور یہ دو حالتوں سے خالی نہیں ۔ جو شخص اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرتا ہے وہ منعم علیہ (ب 1 تفسیر کبیر ص 261 ج 1) ہے ۔ اس پر اللہ تعالیٰ کا احسان اور فضل ہوتا ہے اور وہ انعام یافتہ ہوتا ہے ۔ بصورت دیگر اگر کوئی شخص نافرمانی کرتا ہے اور مصیبت میں مبتلا ہے تو وہ مغضوب علیہ ہے اس پر اللہ تعالیٰ کی سخت ناراضگی ہوتی ہے ۔ ایسے ہی لوگوں کے متعلق قرآن پاک میں موجود ہے اولیئک الذین لعنھم اللہ (النسائ) یہی لوگ ہیں جن پر اللہ کی لعنت ہوئی سورة مائدہ میں یہ بھی فرمایا من لعنہ اللہ (النسائ) یہی لوگ ہیں جن پر اللہ کی لعنت ہوئی ۔ سورة مائدہ میں یہ بھی فرمایا من لعنہ اللہ وغضب علیہ جس پر اللہ کی لعنت اور غضب ہوا۔ نافرمانی کا نتیجہ یہی ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی لعنت ، غضب اور ناراضگی آتی ہے۔ اس طرح جو لوگ جہالت کی وجہ سے راہ راست سے بھٹک جاتے ہیں وہ ضال کہلاتے ہیں بہرحال مقبول گروہ ایک ہی ہے اور وہ منعم علیہ گروہ ہے ۔ باقی سب گروہ مردود ہیں عمل میں خرابی ہو تو انسان فاسق ہو کر مغضوب علیہ بن جاتا ہے اور اگر علم میں خرابی ہو عقیدہ فاسد ہوجائے تو ایسا شخص ضال ہوتا ہے ۔ یہ سب گروہ مغضوب علیہ یا ضال ہیں سوائے ان لوگوں کے علم اور عمل دونوں صحیح ہیں اور وہ ایسے لوگ ہیں جو انبیاء ، صدیق ، شہداء اور صالحین کے نقش قدم پر چلتے ہیں یہی مقبول ہیں۔ (شیطان کے داخلے کے تین راستے ) مفسرین کرام (ب 2 تفسیر عزیزی ص 56 ج 1) بیان فرماتے ہیں کہ شیطان انسان کو گمراہ کرنے کے لیے تین راستوں سے داخل ہوتا ہے اور اس کے قلب وذہن میں گمراہی کی باتیں ڈالتا ہے ۔ اگر شیطان شہوت کے راستے سے انسان کے اندر داخل ہو تو انسان اپنی ذات پر ظلم کرتا ہے ۔ فرمایا اپنی جانوں پر ظلم نہ کرو ۔ بعض اوقات انسان ایسے کام کرنے لگتا ہے جس سے خود اپنا ہی برا ہوتا ہے پھر فرمایا اگر شیطان غضب کے راستے سے داخل ہوتا ہے تو انسان کو غصہ دلاتا ہے جس کی وجہ سے وہ دوسروں پر ظلم کرتا ہے ۔ کسی کے ساتھ زیادتی کی مارکٹاٹی گالی گلوچ اور حق تلفی کی یا کسی کا مال وجان تلف کیا ۔ یہ سب دوسروں پر ظلم ہوتا ہے ۔ پھر فرمایا کہ اگر شیطان خواہش کے راستے سے مداخلت کرتا ہے تو انسان خواہش اور ہوا کا بندہ بن کر رہ جاتا ہے جیسے فرمایا ارایت من اتخذالھہ ھواہ (الفرقان ) کیا آپ نے اس شخص کو دیکھا جس نے اپنی خواہشات کو ہی معبود بنا لیا ، ایسا آدمی اللہ کی طرف غلط باتیں منسوب کرتا ہے اور شرک میں مبتلا ہوتا ہے اس طرح وہ گویا خدا تعالیٰ پر زیادتی کا مرتکب ہوتا ہے۔ بہرحال میں نے مغضوب علیہ اور ضال کے بارے میں عرض کردیا کہ مغضوب علیہ وہ ہوتے ہیں جن کی قوت عملیہ خراب ہو فاسق بھی اسی گروہ میں شامل ہیں اور ضال وہ لوگ ہوتے ہیں جن کی فکر فاسد ہوجائے عقیدہ بگڑ جائے جو کہ علمی خرابی کی وجہ سے ہوتا ہے۔ (ابلیس کا واویلا) مفسرین کرام بیان فرماتے (ب 1 تفسیر عزیری ص 59 ج 1) ہیں ابلیس جس نے انسانوں کو گمراہ کرنے کی قسم اٹھا رکھی ہے اسے تین مواقع پر سخت تکلیف پہنچی اور اس نے بڑا واویلا کیا پہلا موقع تو وہ تھا ۔ جب اللہ نے فرمایا فاخرج منھا فانک رجیم (الحجر) یہاں سے نکل جاؤ ، تم ملعون ومردودہو۔ جب شیطان نے تکبر کی بنا پر آدم (علیہ السلام) کو سجدہ کرنے سے انکار کردیا تو اللہ تعالیٰ نے اسے مردود قرار دیکر اپنی بارگاہ سے نکال دیا اس کے بعد جب حضور ﷺ کی دنیا میں بعثت ہوئی تو اس وقت بھی شیطان نے بڑاواویلا کیا تھا کہ اب اس کے راستے میں رکاوٹیں پیدا ہوجائیں گی ۔ پھر تیسری دفعہ شیطان نے اس وقت واویلاکیاجب یہ سورة فاتحہ نازل ہوئی جیسا کہ ابھی بیان ہوچکا ہے سورة فاتحہ فضیلت والی سورة ہے ۔ یہ پورے قرآن پاک کا خلاصہ اور نچوڑ ہے ۔ حضور ﷺ کا فرمان ہے کہ درجے کے اعتبار سے یہ قرآن پاک کی سب سے بڑی (ب 1 بخاری ص 642 ج 2) سورة ہے ۔ جو اس پر ایمان لائے گا اس کی تلاوت کریگا ۔ اس کے سامنے شیطان مغلوب ہوگا ۔ امام حسن بصری کا مقولہ (ب 1 تفسیر عزیزی ص 59 ج 1) ہے کہ جس شخص نے سورة فاتحہ کو پڑھ لیا اس گویا تورات زبور ، انجیل اور قرآن پاک چاروں کتابوں کو پڑھ لیا۔ سورۃ الفاتحۃ 1 غیرالمغضوب علھم ولا الضالین درس نوزدہم 19 ترجمہ : نہ وہ لوگ جن پر تیرا غضب ہوا اور نہ گمراہ (تین اہم مسائل) سورۃ فاتحہ کے الفاظ اور ان کی تشریح عرض کی جاچکی ہے اب اسی سورة سے تعلق رکھنے والے تین مزید مسائل ایسے ہیں جن کا تذکرہ یہاں مناسب معلوم ہوتا ہے ان میں سے ایک مسئلہ بعض فروعی اختلافات کا ہے دوسرامسئلہ آخری آیت میں آنے والے حرف ” ض “ کے مخرج کا ہے اور تیسرا اس اعتراض کے متعلق ہے جو بعض غیر مسلم اس سورة مبارکہ کے کلام الٰہی ہونے پر کرتے ہیں ۔ (1۔ فروعی اختلافات 1۔ آمین) سورۃ فاتحہ کے اختتام پر آمین کا لفظ بولا جاتا ہے ۔ اسکا مطلب ہے اے پروردگار استجب یعنی اس دعا کو قبول فرماچون کہ یہ لفظ قرآن پاک لفظ نہیں ہے اس لیے لکھنے میں تو نہیں آتا ، تاہم اس کا پڑھنا مستحب ہے اور اس کی بڑی فضیلت آئی ہے صحیح احادیث میں رسول کریم ﷺ کا فرمان (ب 1 نسائی ص 147 ج 1) ہے کہ جب امام غیرالمغضوب علیھم ولا الضا لین کہے تو تم آمین کہو۔ دوسری روایت میں آتا ہے کہ جب امام آمین کہتا ہے تو تم بھی آمین کہو تیسری روایت (ب 2 بخاری ص 108 ج 1) میں اس طرح ہے کہ اس موقع پر اللہ کے فرشتے بھی آمین کہتے ہیں اور جس شخص کی آمین فرشتوں کی آمین کے ساتھ موافق ہوجائے گی ۔ اللہ تعالیٰ اس کے سابقہ گناہ معاف کردے گا ۔ فرشتوں کے ساتھ موافقت وقت کے لحاظ سے بھی ہوسکتی ہے یعنی جس وقت فرشتے آمین کہیں اسی وقت دوسرے نمازی بھی کہیں تو وہ اجروثواب کے مستحق ہوں گے اور اس سے یہ مراد بھی ہوسکتی ہے کہ جس خلوص کے ساتھ فرشتے آمین کہتے ہیں ۔ اسی خلوص اور نیت کے ساتھ نمازی بھی آمین کہیں گے تو ان کے سارے گناہ معاف کردیے جائیں گے۔ البتہ اس بات میں اختلاف پایا جاتا ہے کہ امین بلند آواز سے کہنی چاہئیے یا پست آواز سے ۔ بعض آئمہ کرام اونچی آواز سے آمین کہنے کے حق میں ہیں جب کہ امام ابوحنیفہ آہستہ آواز کے قائل ہیں ۔ روایات دونوں قسم کی آئی ہیں اور یہ صرف ترجیح کا مسئلہ ہے کہ کس امام نے کس طریقہ کو ترجیح دی ہے ۔ اس کو خواہ مخواہ جائز اور ناجائز کا مسئلہ نہیں بناناچاہیئے ۔ کیونکہ یہ فروعی مسئلہ ہے ۔ مسند احمد (ب 1 مسند احمد ص 316 ج 4) میں حضرت وائل ؓ کی روایت میں صاف طورپر آتا ہے کہ حضور ﷺ نے آمین کہا لیکن اخفی بھا صوت مگر آہستہ آواز سے اسی طرح جہر سے کہنے کی بھی صحیح احادیث موجود ہیں مگر امام ابوحنیفہ کے استا دالا ستا دامام ابراہیم نخعی کہتے (ب 2 ہیں کہ میں آہستہ آوازوالی روایت کو تر جیح دیتا ہوں کیونکہ اکثر صحابہ ؓ اور تا بعین اسی کے قائل ہیں ۔ بعض اوقات کسی چیز کو تعلیم کی غرض سے بلند آواز سے کہنا بھی روا ہے۔ مثلا حضرت عمر ؓ (ب 3 مسلم ص 172 ج 1) بعض اوقات نماز میں سبحانک اللھم بھی بلند آواز سے پڑھتے تھے ورنہ عام طور پر یہ آہستہ پڑھی جاتی ہے اس طرح سورة فاتحہ سے پہلے بسم اللہ بھی پست آواز سے ربنالک الحمد بھی اور آمین بھی آہستہ آواز سے کہنی چاہیئے حدیث میں یہ بھی ملتا ہے کہ حضور ﷺ نے بعض اوقات (ب 4 بخاری ص 105 ج 1 مسلم ص 185 ج 1) ظہر کی نماز میں بھی بلند آواز سے قرأت کرتے تھے ۔ حالانکہ اس نماز میں جہر نہیں ہے ، بہرحال ایسا تعلیم کی غرض سے تو ہوسکتا ہے مگر عام دستور آہستہ ہی ہے ۔ اور بعض نے آمین بلند سے کہنے کو ترجیح دی ہے ۔ شیخ عبد القادرجیلانی نے اپنی کتاب غنیۃ الطالبین (ب 1) میں لکھا ہے کہ نماز کے کچھ فرائض ہیں کچھ واجبات کچھ سنن اور کچھ ہئیات فرماتے ہیں کہ اختلاف صرف ہیئات میں پایا جاتا ہے ۔ کوئی امام ایک ہیت اختیار کرتا ہے تو دوسرا امام دوسری ۔ تا ہم جو بھی ہئیت اختیار کی جائے اس پر عمل کرتے رہنا چاہیئے اور ایک دوسرے کو برا بھلا نہیں کہنا چاہیئے کہ فلاں سنت کے خلاف کررہا ہے یا فلاں کی نماز ہی نہیں ہوتی ۔ ایسا نہیں ہونا چاہییے بلکہ سارے طریقوں کو جائز سمجھتے ہوئے ایک دوسرے کو برداشت کرنا چاہیئے ۔ اگر کوئی شافعی یا حنبلی ہے تو بیشک بلند آواز سے کہے اور اگر کوئی حنفی ہے تو آہستہ آواز سے کہے ، اس میں جھگڑنا نہیں چاہئیے ۔ (2۔ رفع یدین رکوع جاتے وقت اور رکوع سے اٹھتے وقت رفع یدین کرنا بھی فروعی مسئلہ ہے اور ترجیح سے تعلق رکھتا ہے ۔ جب کوئی شخص نماز میں داخل ہوتا ہے تو دو فرائض اور ایک سنت ادا کرتا ہے۔ پہلا فرض نیت ہے ۔ نماز شروع کرنے سے پہلے نیت ضروری ہے کہ فلاں وقت کی نماز اداکرناچاہتا ہوں ۔ کوئی عبادت دل کے ارادے اور نیت کے بغیر ادا نہیں ہوتی کیونکہ انما الاعمال بالنیات (ب 2 بخاری ص 2 ج 1) اعمال کا دار و مدار نیت پر ہوتا ہے پھر دوسرافرض اللہ اکبر کہنا ہے ۔ جب تک یہ الفاظ ادا نہیں کریگا ، نماز میں داخل تیسری چیز جو سنت ہے ، وہ رفع یدین یعنی دونوں ہاتھوں کا اٹھانا ہے نماز کی ابتداء میں تکبیر تحریمہ کے وقت رفع یدین کرنا تو سب کے نزدیک سنت ہے (ب 3 ہدایہ ص 64 ج 1) اور اس میں کسی کو اختلاف نہیں ۔ البتہ رکوع جاتے وقت رکوع سے کھڑے ہوتے وقت اور درمیانی تشہد کے بعد اٹھتے وقت رفع یدین کرنا بھی روایات میں آتا ہے مگر یہ متفق علیہ نہیں ہے ۔ امام ابوحنیفہ ان مواقع پر رفع یدین نہ کرنے کے حق میں ہیں (ب 4 ہدایہ ص 71 ج) وہ اسی کو بہتر سمجھتے ہیں۔ البتہ بعض دیگر آئمہ ان مواقع پر بھی یدین کرنے کے قائل ہیں ۔ مسئلہ یہ بھی ترجیح کا ہے۔ کسی امام نے رفع یدین کو ترجیح دی ہے اور دوسرے نے نہ کرے کو ۔ جو رفع یدین کوئی فرض تو نہیں ۔ اگر کوئی فرض قراردیتا ہے تو یہ غلط بات ہے۔ (3۔ ہاتھ باندھنا) اللہ اکبر کہہ کر ہاتھ کہاں باندھنے ہیں اس میں بھی اختلاف پایا جاتا ہے کوئی ناف کے نیچے باندھتے ہیں کوئی ناف کے اوپر اور کوئی سینے پر ۔ یہ بھی یہ ترجیح کا مسئلہ ہے روایات ہم قسم کی موجود ہیں کوئی امام ایک پہلو کو ترجیح دیتے ہیں اور کوئی دوسرے کو اور کوئی تیسرے کو ۔ امام ابوحنیفہ تحت السرہ یعنی ناف کے نیچے ہاتھ باندھنے کو ترجیح دیتے (ب 1 ہدایہ ص 65 ج 1) حضرت علی ؓ کی روایت (ب 2 مسند احمد ص 110 ج 1) میں آتا ہے کہ ہاتھ کے اوپر اور ناف کے نیچے رکھنا سنت ہے۔ امام شافعی ناف کے اوپر ہاتھ باندھتے ہیں ۔ یہ سب باتیں روا ہیں صرف ترجیح کا مسئلہ ہے بہر حال جو کوئی جس امام کا فتوی مانتا ہے اسے اس کے مطابق عمل کرنا چاہیئے اور دوسرے کے متعلق کچھ نہیں کہنا چاہئیے ۔ (4۔ فاتحہ خلف الامام) فاتحہ خلف امام بھی اختلافی مسئلہ ہے بعض امام کے پیچھے پڑھنے والا گہنگا رہوگا قرأت کرنا امام کافرضیہ ہے اور مقتدی کا فرض ہے کہ وہ خاموش رہے اور سنے (ب 3 ہدایہ ص 76 ج 2) ۔ آئمہ اربعہ میں سے کوئی بھی فاتحہ خلف امام کو ضروری قرار نہیں (ب 4 مغنی ابن قدامہ ص 557 ج 1) دیتا ۔ امام مالک ، امام شافعی اور امام احمد کہتے ہیں (ب 5 مئوطا امام مالک ص 68 ، المیزان لکبری ص 152 ج 1) کہ سری نمازوں میں اگر متقدی بھی سورة فاتحہ پڑھ لے تو بہتر ہے ، یعنی سری نمازوں میں ان کے نزدیک مستحب کا درجہ رکھتا ہے کوئی فرض واجب تو نہیں ۔ جیسا کہ پہلے بھی عرض کیا کہ دو امام یعنی امام بخاری اور امام بیہقی فاتحہ خلف امام کو ضروری قرار دیتے ہیں ۔ انہوں نے تشدد کیا ہے کہ جو امام کے پیچھے فاتحہ نہیں پڑھے گا ۔ اس کی نماز ہی نہیں ہوگی یہ درست نہیں ہے کیونکہ نہ پڑھنے کے متعلق بہت سے دلا ئل ہیں اور قرآن کی آیا ت بھی کی تائید کرتی ہیں۔ آپ یہ کہ سکتے ہیں کہ ہمارے نزدیک فاتحہ خلف امام ضروری ہے ، نہ یہ کہ نہ پڑھنے والے پر عدم نماز کا فتوی لگا دیں فاتحہ کا پڑھنا امام بخاری کا مسلک ہے اور اس کے متعلق امام ترمذی نے صاف کہا (1 ترمذی ص 70۔ 71 ج 1) ہے کہ بعض حضرات تشدد کرتے ہیں ۔ عبداللہ ابن مبارک نے بھی کہا ہے کہ جو امام کے پیچھے فاتحہ نہیں پڑھتا اس کی نماز ہوتی ہے ، اس میں کوئی نقص واقع نہیں ہوتا ۔ (5۔ تشہد) اب تشہد کے بھی مختلف الفاظ آتے ہیں ۔ کل چھ یاسات روایات ہیں اور ان میں مختلف الفاظ ہیں ۔ ہم جو عام طور پر پڑھتے ہیں التحیات للہ والصلوت والطیبت یہ عبداللہ بن مسعو ؓ د کی روایت (ب 2 مسلم ص 174 ج 1 بخاری ص 966 ج 2) میں آتے ہیں۔ حضرت جابر ؓ اور حضرت عائشہ ؓ کی روایات میں مختلف الفاظ آتے ہیں ۔ بعض روایات میں (ب 3 ترمذی ص 65 ج 1) التحیات البرکات الطیبت وغیرہ کے الفاظ بھی آتے ہیں جن الفاظ سے بھی کوئی تشہدپڑھ لے گا۔ درست ہوگا ۔ ایسے معاملات میں کسی کے ساتھ تعرض نہیں کرنا چاہیئے ۔ (6۔ اذان) اذان میں ترجیع کا مسئلہ بھی ایسا ہی ہے کوئی شہادت کے کلمات میں ترجیع کو اختیار کرتے ہیں اور بعض دوسرے نہیں کرتے ۔ امام ابوحنیفہ عدم ترجیع کے قائل ہیں (ب 4 ہدایہ ص 70 ج 1) ۔ اسی طرح اقامت بھی کوئی پوری پڑھتا ہے اور کوئی مختصر کسی نے ایک پہلو کو راجح قراردیا ہے اور کسی نے دوسرے پہلو کو ۔ لہذ اس مسئلہ میں بھی ایک دوسرے کے ساتھ الجھنا نہیں چاہیئے کیونکہ یہ بھی صرف ترجیح کا مسئلہ ہے کہ کس طریقہ پر عمل کرنا زیادہ بہتر ہے۔ (7۔ حج) اسی طرح حج کا مسئلہ ہے ۔ کوئی مفرد کو ترجیح دیتا ہے ، کوئی تمتع اور کوئی قران کو جس نے جو بھی طریقہ اختیار کیا ، ٹھیک کیا کسی کا برا نہیں منانا چاہیئے اختلاف صرف ترجیح میں ہے کہ کون طریقہ افضل ہے امام ابوحنیفہ کے نزدیک حج قران افضل (ب 1) ہے کیونکہ حضور ﷺ نے قران کیا تھا امام شافعی حج تمتع کے حق میں ہیں اور بعض آئمہ حج مفرد کو زیادہ افضل سمجھتے ہیں۔ اس مسئلے میں بھی خواہ مخواہ ایک دوسرے سے جھگڑا نہیں کرنا چاہیئے ۔ فروعات دین میں اس قسم کے اختلافات کی بڑی گنجائش ہے۔ (8۔ بنی قریظہ کا واقعہ ) ایک مو قع پر حضور ﷺ نے صحابہ (ب 2 مسلم ص 96 ج 2) کو فورا روانگی کا حکم دیا اور فرمایا تم میں سے کوئی شخص عصر کی نماز بنی قر یظہ پہنچنے سے پہلے ادانہ کرے لوگ روانہ ہوگئے چار میل کا فاصلہ تھا ۔ راستے میں بعض صحابہ ؓ نے خیال کیا کہ وقت تنگ ہے ہوسکتا ہے بنی قریظہ پہنچنے تک تماز ہی فوت ہوجائے چناچہ انہوں نے راستے میں ہی نماز ادا کرلی ان کا استدلال یہ تھا کہ حضور ﷺ کے حکم کا مقصد فورا کوچ تھا اور اس کا یہ مطلب نہیں تھا کہ اگر نماز کے فوت ہونے کا خطرہ ہو تو راستے میں بالکل ادانہ کرو بعض دوسرے صحابہ ؓ نے حضور ﷺ کے ظاہر ی الفاظ پر عمل کیا اور بنی قریظہ میں ہی جا کر نماز ادا کی ۔ جب یہ معاملہ آپ (علیہ السلام) کے سامنے پیش کیا گیا ۔ تو آپ نے دونوں گروہوں کی تصدیق کی کہ دونوں نے ٹھیک کیا کسی نے غلطی نہیں کی ۔ مطلب یہ ہے کہ بعض چیزیں ایسی ہیں جن میں اختلاف کرنا جائز ہے ۔ کوئی امام ایک طرز کو ترجیح دیتا ہے وہ بھی ٹھیک ہے اسے بھی ثواب ملے گا ۔ اور اگر کوئی دوسرا پہلواختیار کرتا ہے تو وہ بھی درست ہے ۔ یہ فروعات دین ہیں ، ان میں اختلاف جائز ہے اصول میں اختلاف نہیں ہے۔ محض ہئیات کا اختلاف ہے جسے بعض حضرات نے عرض کردیا۔ (2۔ حرف ض کا مخرج) دوسرا اہم مسئلہ حرف ض کے مخرج کا ہے ۔ غیرالمغضوب علیھم ولا الضالین میں دودفعہ حرف ض آتا ہے ۔ امام ابن کثیر اور صاحب روح (ب 1 تفسیرابن کثیرص 30 ج 1) المعانی نے نے لکھا ہے کہ ض کا تلفظ بڑا مشکل ہے ۔ قاری حضرات بڑی مشق کے بعد اس کا صحیح تلفظ ادا کرتے ہیں ۔ ض کا مخرج زبان کا کنارہ بالائی داہڑوں کی جڑ میں لگنے سے ادا ہوتا ہے اگر یہ مخرج صحیح طور پر ادانہ ہو سکے تو پھر اس کی مشابہت ظ کے ساتھ آتی ہے د کے ساتھ نہیں ملتانی زبان میں تو ڈ پڑھتے ہیں ، لہذا د کے ساتھ مشابہت درست نہیں ، بہرحال چونکہ یہ مشکل حرف ہے ، اس کو ٹھیک طریقے سے ادا کرنے کی کوشش کرو۔ اگر نہ ہو سکے تو جس طرح بھی کوئی پڑھ لے گا ، درست ہے ۔ اس میں کسی قسم کا جگڑا نہیں ہوناچاہیئے سرحد میں گزشتہ صدی کے دوران پچاس سال تک اسی مسئلہ پر جگڑا چلتا رہا اور قتل و غارت گری بھی ہوٹی جو کہ ہرگز درست نہیں ۔ برداشت کرنا چاہئیے (3۔ کلام الٰہی ہونے پر اعتراض) تیسر امسئلہ سورة فاتحہ کے کلام الٰہی ہونے کے متعلق ہے ۔ فرقہ آریہ سماج کے پیشوا دیانند سرسوتی نے اپنی کتاب (ب 2 ستیارت پر کاش ص 671) ستیارت پر کاش میں اور بعض عیسائیوں نے بھی یہ اعتراض اٹھایا تھا کہ یہ کیسی سورة ہے کہ اس کو اللہ کا کلام تسلیم کیا جاتا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ خود اپنی تعریف بیان کررہا ہے ۔ الحمد للہ رب العلمین تمام تعریفیں اللہ تعالیٰ کے لیے ہیں جو تمام جہانوں کا پروردگار ہے ۔ شاہ عبدالقادر محد ث دہلوی نے اپنے حاشیہ قرآن میں اس اعتراض کا نہایت مختصر اور مدلل حل بیان کیا ہے (ب 3 موضح القرآن تفسیر سورة فاتحہ ص 1) فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے یہ سورة بندوں کی زبان پر نازل فرمائی ہے کہ وہ اپنے اللہ کے حضور اس طرح کہا کریں ۔ یعنی اے میرے بندو ! جب تم میرے سامنے مناجات کرنا چاہوتو ان الفاظ کے ساتھ کیا کرو ۔ قرآن پاک میں اس قسم کا طرز کلام بعض دوسرے مقامات پر بھی ملتا ہے مثلا سورة مریم میں آتا ہے وما نتنزل الا بامر ربک ہم نہیں اتر تے مگر تیرے رب کے حکم سے اس آیت کریمہ کا سیاق وسباق کچھ اور ہے مگر یہ درمیان میں اس بات کا ذکر ہے کہ جس کا پتہ نہیں چلتا کہ کس کے اترنے کی بات ہورہی ہے ۔ اصل بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ آیت فرشتوں کی زبان میں نازل فرمائی ہے اس کا شان نزول یہ ہے کہ ایک موقع پر حضور ﷺ نے حضرت جبرائیل (علیہ السلام) سے فرمایا (ب 1 مسند احمدص 231 ج 1) کہ ہماری خواہش ہوتی ہے کہ آپ ہمارے پاس جلدی جلدی آیا کریں ، ہمیں آپ کا انتظار رہتا ہے ۔ اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے یہ آیت فرشتوں کی زبان پر نازل فرمائی گویا فرشتے یوں کہتے ہیں ۔ کہ ہم اپنی مرضی سے نہیں اتر تے بلکہ اے پیغمبر (علیہ السلام) ! ہم آپ کے رب کے حکم سے نازل ہوتے ہیں ، ہم اپنی مرضی سے نہیں آسکتے ۔ مطلب واضح ہوگیا اور کوئی اشکال باقی نہ رہا ۔ سورۃ فاتحہ کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے ، اللہ تعالیٰ نے یہ سورة بندوں کی زبا ن پر نازل فرمائی ہے کہ اے میرے بندو ! تم اس طرح کہو کہ سب تعریفیں اللہ ہی کے نازل فرمائی ہے کہ اے میرے بندو ! تم اس طرح کہو کہ سب تعریفیں اللہ ہی کے کے لیے ہیں جو تمام جہانوں کا پروردگار ہے ۔ غیر مسلم اور ملحد قسم کے لوگ ایسے غلط اعتراض کرتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو سمجھ اور ہدایت عطا فرمائے ۔ واللہ الموفق اول معین واٰخردعوانا ان الحمد للہ رب العلمین وصل اللہ علی خیرخلقہ محمد واٰلہ و اصحابہ وازواجہ واتباعہ اجمعین برحمتک یا ارحم الراحمین
Top