مسند امام احمد - حضرت عبداللہ بن حوالہ ازدی (رض) کی حدیثیں - حدیث نمبر 537
حدیث نمبر: 197
حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ، عَنْ عَوْنِ بْنِ أَبِي جُحَيْفَةَ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ:‏‏‏‏ رَأَيْتُ بِلَالًا يُؤَذِّنُ وَيَدُورُ وَيُتْبِعُ فَاهُ هَا هُنَا وَهَهُنَا وَإِصْبَعَاهُ فِي أُذُنَيْهِ، ‏‏‏‏‏‏وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي قُبَّةٍ لَهُ حَمْرَاءَ أُرَاهُ قَالَ:‏‏‏‏ مِنْ أَدَمٍ ،‏‏‏‏ فَخَرَجَ بِلَالٌ بَيْنَ يَدَيْهِ بِالْعَنَزَةِ فَرَكَزَهَا بِالْبَطْحَاءِ، ‏‏‏‏‏‏فَصَلَّى إِلَيْهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏يَمُرُّ بَيْنَ يَدَيْهِ الْكَلْبُ وَالْحِمَارُ وَعَلَيْهِ حُلَّةٌ حَمْرَاءُ كَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَى بَرِيقِ سَاقَيْهِ. قَالَ سُفْيَانُ:‏‏‏‏ نُرَاهُ حِبَرَةً. قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ حَدِيثُ أَبِي جُحَيْفَةَ حَسَنٌ صَحِيحٌ، ‏‏‏‏‏‏وَعَلَيْهِ الْعَمَلُ عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ يَسْتَحِبُّونَ أَنْ يُدْخِلَ الْمُؤَذِّنُ إِصْبَعَيْهِ فِي أُذُنَيْهِ فِي الْأَذَانِ، ‏‏‏‏‏‏وقَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ:‏‏‏‏ وَفِي الْإِقَامَةِ أَيْضًا يُدْخِلُ إِصْبَعَيْهِ فِي أُذُنَيْهِ، ‏‏‏‏‏‏وَهُوَ قَوْلُ الْأَوْزَاعِيِّ، ‏‏‏‏‏‏وَأَبُو جُحَيْفَةَ اسْمُهُ:‏‏‏‏ وَهْبُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ السُّوَائِيُّ.
اذان دیتے ہوئے کان میں انگلی ڈالنا
ابوجحیفہ (وہب بن عبداللہ) ؓ کہتے ہیں کہ میں نے بلال کو اذان دیتے دیکھا، وہ گھوم رہے تھے ١ ؎ اپنا چہرہ ادھر اور ادھر پھیر رہے تھے اور ان کی انگلیاں ان کے دونوں کانوں میں تھیں، رسول اللہ اپنے سرخ خیمے میں تھے، وہ چمڑے کا تھا، بلال آپ کے سامنے سے نیزہ لے کر نکلے اور اسے بطحاء (میدان) میں گاڑ دیا۔ پھر رسول اللہ نے اس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھائی۔ اس نیزے کے آگے سے ٢ ؎ کتے اور گدھے گزر رہے تھے۔ آپ ایک سرخ چادر پہنے ہوئے تھے، میں گویا آپ کی پنڈلیوں کی سفیدی دیکھ رہا ہوں۔ سفیان کہتے ہیں: ہمارا خیال ہے وہ چادر یمنی تھی۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ١- ابوجحیفہ کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اہل علم کا اسی پر عمل ہے، وہ اس چیز کو مستحب سمجھتے ہیں کہ مؤذن اذان میں اپنی دونوں انگلیاں اپنے کانوں میں داخل کرے، ٣- بعض اہل علم کہتے ہیں کہ وہ اقامت میں بھی اپنی دونوں انگلیاں دونوں کانوں میں داخل کرے گا، یہی اوزاعی کا قول ہے ٣ ؎۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الصلاة ٤٧ (٥٠٣)، سنن ابی داود/ الصلاة ٣٤ (٥٢٠)، سنن النسائی/الأذان ١٣ (٦٤٤)، والزینة ٢٣ (٥٣٨٠)، سنن ابن ماجہ/الأذان ٣ (٧١١)، ( تحفة الأشراف: ١١٨٦)، مسند احمد (٤/٣٠٨)، سنن الدارمی/الصلاة ٨ (١٢٣٤)، (وراجع أیضا ماعند صحیح البخاری/الأذان ١٥ (٦٣٤) (صحیح)
وضاحت: ١ ؎: قیس بن ربیع کی روایت میں جو عون ہی سے مروی ہے یوں ہے «فلما بلغ حي علی الصلاة حي علی الفلاح لوّي عنقه يمينا وشمالاً ولم يستدر» یعنی: بلال جب «حي الصلاة حي علی الفلاح» پر پہنچے تو اپنی گردن دائیں بائیں گھمائی اور خود نہیں گھومے دونوں روایتوں میں تطبیق اس طرح دی جاتی ہے کہ جنہوں نے گھومنے کا اثبات کیا ہے انہوں نے اس سے مراد سر کا گھومنا لیا ہے اور جنہوں نے اس کی نفی کی ہے انہوں نے پورے جسم کے گھومنے کی نفی کی ہے۔ ٢ ؎: یعنی نیزہ اور قبلہ کے درمیان سے نہ کہ آپ کے اور نیزے کے درمیان سے کیونکہ عمر بن ابی زائدہ کی روایت میں «ورأيت الناس والدواب يمرون بين يدي العنزة» ہے، میں نے دیکھا کہ لوگ اور جانورنیزہ کے آگے سے گزر رہے تھے۔ ٣ ؎: اس پر سنت سے کوئی دلیل نہیں، رہا اسے اذان پر قیاس کرنا تو یہ قیاس مع الفارق ہے۔
قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (711)
صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني: حديث نمبر 197
Top