سنن الترمذی - قرآن کی تفسیر کا بیان - حدیث نمبر 3313
حدیث نمبر: 3313
حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى، عَنْ إِسْرَائِيلَ، عَنِ السُّدِّيِّ، عَنْ أَبِي سَعْدٍ الْأَزْدِيِّ، حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ أَرْقَمَ، قَالَ:‏‏‏‏ غَزَوْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَكَانَ مَعَنَا أُنَاسٌ مِنَ الْأَعْرَابِ فَكُنَّا نَبْتَدِرُ الْمَاءَ، ‏‏‏‏‏‏وَكَانَ الْأَعْرَابُ يَسْبِقُونَّا إِلَيْهِ، ‏‏‏‏‏‏فَسَبَقَ أَعْرَابِيٌّ أَصْحَابَهُ فَسَبَقَ الْأَعْرَابِيُّ، ‏‏‏‏‏‏فَيَمْلَأُ الْحَوْضَ وَيَجْعَلُ حَوْلَهُ حِجَارَةً وَيَجْعَلُ النِّطْعَ عَلَيْهِ حَتَّى يَجِيءَ أَصْحَابُهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَأَتَى رَجُلٌ مِنَ الْأَنْصَارِ أَعْرَابِيًّا فَأَرْخَى زِمَامَ نَاقَتِهِ لِتَشْرَبَ، ‏‏‏‏‏‏فَأَبَى أَنْ يَدَعَهُ، ‏‏‏‏‏‏فَانْتَزَعَ قِبَاضَ الْمَاءِ، ‏‏‏‏‏‏فَرَفَعَ الْأَعْرَابِيُّ خَشَبَتَهُ فَضَرَبَ بِهَا رَأْسَ الْأَنْصَارِيِّ فَشَجَّهُ، ‏‏‏‏‏‏فَأَتَى عَبْدَ اللَّهِ بْنَ أُبَيٍّ رَأْسَ الْمُنَافِقِينَ فَأَخْبَرَهُ، ‏‏‏‏‏‏وَكَانَ مِنْ أَصْحَابِهِ، ‏‏‏‏‏‏فَغَضِبَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أُبَيٍّ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ قَالَ:‏‏‏‏ لَا تُنْفِقُوا عَلَى مَنْ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ حَتَّى يَنْفَضُّوا مِنْ حَوْلِهِ يَعْنِي الْأَعْرَابَ، ‏‏‏‏‏‏وَكَانُوا يَحْضُرُونَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عِنْدَ الطَّعَامِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ:‏‏‏‏ إِذَا انْفَضُّوا مِنْ عِنْدِ مُحَمَّدٍ فَأْتُوا مُحَمَّدًا بِالطَّعَامِ فَلْيَأْكُلْ هُوَ وَمَنْ عِنْدَهُ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ قَالَ لِأَصْحَابِهِ:‏‏‏‏ لَئِنْ رَجَعْتُم إِلَى الْمَدِينَةِ لَيُخْرِجَنَّ الْأَعَزُّ مِنْهَا الْأَذَلَّ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ زَيْدٌ:‏‏‏‏ وَأَنَا رِدْفُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَسَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ أُبَيٍّ، ‏‏‏‏‏‏فَأَخْبَرْتُ عَمِّي، ‏‏‏‏‏‏فَانْطَلَقَ فَأَخْبَرَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَأَرْسَلَ إِلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَحَلَفَ وَجَحَدَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَصَدَّقَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَكَذَّبَنِي، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَجَاءَ عَمِّي إِلَيَّ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ مَا أَرَدْتَ إِلَّا أَنْ مَقَتَكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَكَذَّبَكَ وَالْمُسْلِمُونَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَوَقَعَ عَلَيَّ مِنَ الْهَمِّ مَا لَمْ يَقَعْ عَلَى أَحَدٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَبَيْنَمَا أَنَا أَسِيرُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفَرٍ، ‏‏‏‏‏‏قَدْ خَفَقْتُ بِرَأْسِي مِنَ الْهَمِّ إِذْ أَتَانِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَعَرَكَ أُذُنِي وَضَحِكَ فِي وَجْهِي، ‏‏‏‏‏‏فَمَا كَانَ يَسُرُّنِي أَنَّ لِي بِهَا الْخُلْدَ فِي الدُّنْيَا، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ إِنَّ أَبَا بَكْرٍ لَحِقَنِي، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ مَا قَالَ لَكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ؟ قُلْتُ:‏‏‏‏ مَا قَالَ لِي شَيْئًا إِلَّا أَنَّهُ عَرَكَ أُذُنِي وَضَحِكَ فِي وَجْهِي، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ أَبْشِرْ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ لَحِقَنِي عُمَرُ فَقُلْتُ لَهُ:‏‏‏‏ مِثْلَ قَوْلِي لِأَبِي بَكْرٍ، ‏‏‏‏‏‏فَلَمَّا أَصْبَحْنَا قَرَأَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سُورَةَ الْمُنَافِقِينَ . قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
سورت منافقون کی تفسیر
زید بن ارقم ؓ کہتے ہیں کہ ہم نبی اکرم کے ساتھ (غزوہ بنی مصطلق میں) جہاد کے لیے نکلے، ہمارے ساتھ کچھ اعرابی بھی تھے (جب کہیں پانی نظر آتا) تو ہم ایک دوسرے سے پہلے پہنچ کر حاصل کرلینے کی کوشش کرتے، اعرابی پانی تک پہنچنے میں ہم سے آگے بڑھ جاتے (اس وقت ایسا ہوا) ایک دیہاتی اپنے ساتھیوں سے آگے نکل گیا، جب آگے نکلتا تو حوض کو بھرتا اور اس کے اردگرد پتھر رکھتا، اس پر چمڑے کی چٹائی ڈال دیتا، پھر اس کے ساتھی آتے، اسی موقع پر انصاریوں میں سے ایک اعرابی کے پاس آیا، اور اپنی اونٹنی کی مہار ڈھیلی کردی تاکہ وہ پانی پی لے، مگر اس اعرابی شخص نے پانی پینے نہ دیا، انصاری نے باندھ توڑ دیا اعرابی نے لٹھ اٹھائی اور انصاری کے سر پر مار کر اس کا سر توڑ دیا، وہ انصاری منافقین کے سردار عبداللہ بن ابی کے پاس آیا، وہ اس کے (ہم خیال) ساتھیوں میں سے تھا، اس نے اسے واقعہ کی اطلاع دی، عبداللہ بن ابی یہ خبر سن کر بھڑک اٹھا، غصہ میں آگیا، کہا: ان لوگوں پر تم لوگ خرچ نہ کرو جو رسول اللہ کے ساتھ ہیں جب تک کہ وہ (یعنی اعرابی) ہٹ نہ جائیں جب کہ ان کا معمول یہ تھا کہ کھانے کے وقت وہ لوگ رسول اللہ کے پاس اکٹھا اور موجود ہوتے تھے، عبداللہ بن ابی نے کہا: جب وہ لوگ محمد کے پاس سے چلے جائیں تو محمد کے پاس کھانا لے کر آؤ تاکہ محمد ( ) اور ان کے ساتھ (خاص) موجود لوگ کھا لیں، پھر اس نے اپنے ساتھیوں سے کہا: اگر ہم مدینہ (بسلامت) پہنچ گئے تو تم میں جو عزت والے ہیں انہیں ذلت والوں (اعرابیوں) کو مدینہ سے ضرور نکال بھگا دینا چاہیئے، زید کہتے ہیں: میں سواری پر رسول اللہ کے پیچھے بیٹھا ہوا تھا، میں نے عبداللہ بن ابی کی بات سن لی، تو اپنے چچا کو بتادی، چچا گئے، انہوں نے جا کر رسول اللہ کو خبر دیدی، رسول اللہ نے کسی کو بھیج کر اسے بلوایا، اس نے آ کر قسمیں کھائیں اور انکار کیا (کہ میں نے ایسی باتیں نہیں کہی ہیں) تو رسول اللہ نے اسے سچا مان لیا اور مجھے جھوٹا ٹھہرا دیا، پھر میرے چچا میرے پاس آئے، بولے (بیٹے) تو نے کیا سوچا تھا کہ رسول اللہ تجھ پر غصہ ہوں اور رسول اللہ اور مسلمانوں نے تجھے جھوٹا ٹھہرا دیا، (یہ سن کر) مجھے اتنا غم اور صدمہ ہوا کہ شاید اتنا غم اور صدمہ کسی اور کو نہ ہوا ہوگا، میں غم سے اپنا سر جھکائے رسول اللہ کے ساتھ سفر میں چلا ہی جا رہا تھا کہ یکایک آپ میرے قریب آئے میرے کان کو جھٹکا دیا اور میرے سامنے مسکرا دیئے مجھے اس سے اتنی خوشی ہوئی کہ اس کے بدلے میں اگر مجھے دنیا میں جنت مل جاتی تو بھی اتنی خوشی نہ ہوتی، پھر مجھے ابوبکر ؓ ملے، مجھ سے پوچھا: رسول اللہ نے تم سے کیا کہا؟ میں نے کہا: مجھ سے آپ نے کچھ نہیں کہا: البتہ میرے کان پکڑ کر آپ نے ہلائے اور مجھے دیکھ کر ہنسے، ابوبکر ؓ نے کہا: خوش ہوجاؤ، پھر مجھے عمر ؓ ملے، میں نے انہیں بھی وہی بات بتائی، جو میں نے ابوبکر ؓ سے کہی تھی، پھر صبح ہوئی تو رسول اللہ نے (نماز فجر میں) سورة منافقین پڑھی۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف وانظر ماقبلہ ( تحفة الأشراف: ٣٦٩١) (صحیح الإسناد)
قال الشيخ الألباني: صحيح الإسناد
صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني: حديث نمبر 3313
Top