Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
Hadith (1720 - 1787)
Select Hadith
1720
1721
1722
1723
1724
1725
1726
1727
1728
1729
1730
1731
1732
1733
1734
1735
1736
1737
1738
1739
1740
1741
1742
1743
1744
1745
1746
1747
1748
1748
1749
1750
1751
1752
1753
1754
1755
1756
1757
1758
1759
1760
1761
1762
1763
1764
1765
1766
1767
1768
1769
1770
1771
1772
1773
1774
1775
1776
1777
1778
1779
1780
1781
1782
1783
1784
1785
1786
1787
سنن الترمذی - مناقب کا بیان - حدیث نمبر 3613
وعن أنس قال كان للنبي حاد يقال له أنجشة وكان حسن الصوت . فقال له النبي صلى الله عليه وسلم رويدك يا أنجشة لا تكسر القوارير . قال قتادة يعني ضعفة النساء . متفق عليه
حدی کا جواز
اور حضرت انس ؓ کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ کے ایک حدی خواں تھے جن کا نام ابخشہ تھا وہ بہت خوش آواز تھے ایک سفر کے دوران آنحضرت ﷺ نے ان سے فرمایا کہ ابخشہ اونٹوں کو آہستہ آہستہ ہانکو اور شیشوں کو نہ توڑو۔ حضرت قتادہ ؓ حدیث کے ایک راوی کہتے ہیں کہ شیشوں سے آنحضرت ﷺ کی مراد عورتیں تھیں۔ (بخاری) حدی صراح کے مطابق اس بلند آواز گانے کو کہتے ہیں جس کے ذریعہ اونٹوں کو ہانکا جاتا ہے لغت کی بعض دوسری کتابوں میں یہ لکھا ہے کہ حدی، عرب شتربانوں کے نغمہ کو کہتے ہیں چناچہ عرب میں دستور ہے کہ شتربان اونٹ ہانکنے والاجب یہ دیکھتا ہے کہ اس کا اونٹ تھک گیا ہے یا اس کی چال سست ہوگئی ہے تو بلند آواز اور خوش گوئی کے ساتھ گانے لگتا ہے اس گانے کی آواز گویا اونٹ میں چستی و گرمی پیدا کردیتی ہے جس سے وہ تیز رفتاری کے ساتھ چلنے لگتا ہے کتابوں میں لکھا ہے کہ حدی جو گانے ہی کی ایک قسم ہے مباح ہے اور اس کے بارے میں علماء میں سے کسی کا کوئی اختلافی قول نہیں ہے۔ قواریر قارورہ کی جمع ہے جس کے معنی شیشہ کے ہیں، اس ارشاد گرامی شیشوں کو نہ توڑو کے دو معنی ہیں ایک تو یہ کہ عورتوں کے بدن میں جو فطری نزاکت و کمزوری ہوتی ہے اس کی بنا پر اونٹوں کا تیز چلنا اور ہچکولے لگنا ان کے سخت تعجب و تکلیف کا موجب بن جاتا ہے لہذا آنحضرت ﷺ نے اپنے شتربان ابخشہ کو حکم دیا کہ اونٹ کو اتنی تیزی کے ساتھ نہ بھگاؤ کہ اس پر سوار عورتیں ہچکولے کھانے لگیں اور اس کی وجہ سے ان کو تکلیف و پریشانی کا سامنا کرنا پڑے۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ اس ارشاد گرامی کے ذریعہ عورتوں کے دل کی کمزوری ونرمی کی طرف اشارہ کرنا مقصود تھا یعنی آنحضرت ﷺ نے ابخشہ کو ہدایت کی اس طرح حدی خوانی نہ کرو جس سے عورتوں کے دل کمزور، متاثر ہوجائیں اور تمہارے گانے کی وجہ سے ان کے ذہن و دماغ اور جذبات میں ہلچل پیدا ہوجائے اور وہ کسی برے خیال میں مبتلا ہوجائیں کیونکہ گانے کی خاصیت ہی یہ ہے کہ وہ طبیعت کو بھڑکاتا ہے اور جذبات میں ہلچل مچا دیتا ہے اگرچہ یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ آنحضرت ﷺ نے جس موقع پر یہ ارشاد فرمایا اس وقت اونٹ پر ازواج مطہرات میں سے کوئی زوجہ مطہرہ سوار ہوں گی اور اس صورت میں مطلب غیر موزوں معلوم ہوتا ہے کیونکہ مذکورہ احتمال یعنی گانے کی آواز سن کر جذبات میں ہلچل پیدا ہوجانا ازواج مطہرات کے حق میں نہایت کمزور ضعیف ہے لیکن اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے کسی برے خیال کا پیدا ہوجانا اور طبیعت و دل کا کسی وسوسے میں مبتلا ہوجانا ایک طبعی چیز جو کسی انسان کے اختیار کی پابند نہیں ہے لہذا آنحضرت ﷺ نے اس کو مناسب سمجھا کہ احتیاط کی راہ ظاہر فرمادیں کہ بہر صورت احتیاط کی راہ اختیار کرنا ہی بہتر ہے اور اولی ہے۔ یہ بات بھی ملحوظ رہنی چاہیے کہ آنحضرت ﷺ کے اس ارشاد کا تعلق درحقیقت امت کے لوگوں کو تعلیم و تلقین سے ہے یعنی آپ نے اس موقع پر مذکورہ ارشاد کے ذریعہ پوری امت کو ہدایت فرمائی کہ جب اونٹ پر عورتیں سوار ہوں تو ان کی موجودگی کو ملحوظ رکھاجائے اور حدی خوانی میں احتیاط و مصلحت کو نظر انداز نہ کیا جائے۔ اوپر جو دو معنی بیان کئے گئے ہیں ان میں سے دوسرے مطلب کو اکثر شارحین نے ترجیح دی ہے لیکن روایت کے الفاظ کا تقاضا یہ ہے کہ پہلا مطلب صحیح ماناجائے۔
Top