سنن الترمذی - - حدیث نمبر 1234
حدیث نمبر: 673
حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ عِيَاضِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، كُنَّا نُخْرِجُ زَكَاةَ الْفِطْرِ، ‏‏‏‏‏‏إِذْ كَانَ فِينَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏صَاعًا مِنْ طَعَامٍ أَوْ صَاعًا مِنْ شَعِيرٍ أَوْ صَاعًا مِنْ تَمْرٍ أَوْ صَاعًا مِنْ زَبِيبٍ أَوْ صَاعًا مِنْ أَقِطٍ، ‏‏‏‏‏‏فَلَمْ نَزَلْ نُخْرِجُهُ حَتَّى قَدِمَ مُعَاوِيَةُ الْمَدِينَةَ، ‏‏‏‏‏‏فَتَكَلَّمَ فَكَانَ فِيمَا كَلَّمَ بِهِ النَّاسَ:‏‏‏‏ إِنِّي لَأَرَى مُدَّيْنِ مِنْ سَمْرَاءِ الشَّامِ تَعْدِلُ صَاعًا مِنْ تَمْرٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَأَخَذَ النَّاسُ بِذَلِكَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ أَبُو سَعِيدٍ:‏‏‏‏ فَلَا أَزَالُ أُخْرِجُهُ كَمَا كُنْتُ أُخْرِجُهُ. قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، ‏‏‏‏‏‏وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ يَرَوْنَ مِنْ كُلِّ شَيْءٍ صَاعًا، ‏‏‏‏‏‏وَهُوَ قَوْلُ الشَّافِعِيِّ، ‏‏‏‏‏‏وَأَحْمَدَ، ‏‏‏‏‏‏وَإِسْحَاق، ‏‏‏‏‏‏وقَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ:‏‏‏‏ مِنْ كُلِّ شَيْءٍ صَاعٌ إِلَّا مِنَ الْبُرِّ، ‏‏‏‏‏‏فَإِنَّهُ يُجْزِئُ نِصْفُ صَاعٍ، ‏‏‏‏‏‏وَهُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، ‏‏‏‏‏‏وَابْنِ الْمُبَارَكِ، ‏‏‏‏‏‏وَأَهْلُ الْكُوفَةِ يَرَوْنَ نِصْفَ صَاعٍ مِنْ بُرٍّ.
صدقہ فطر کے بارے میں
ابو سعید خدری ؓ کہتے ہیں ہم لوگ جب رسول اللہ ہمارے درمیان موجود تھے - صدقہ فطر ١ ؎ میں ایک صاع گیہوں ٢ ؎ یا ایک صاع جو، یا ایک صاع کھجور یا ایک صاع کشمش یا ایک صاع پنیر نکالتے تھے۔ تو ہم اسی طرح برابر صدقہ فطر نکالتے رہے یہاں تک کہ معاویہ ؓ مدینہ آئے، تو انہوں نے لوگوں سے خطاب کیا، اس خطاب میں یہ بات بھی تھی کہ میں شام کے دو مد گیہوں کو ایک صاع کھجور کے برابر سمجھتا ہوں۔ تو لوگوں نے اسی کو اختیار کرلیا یعنی لوگ دو مد آدھا صاع گیہوں دینے لگے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ١- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢- بعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے ان کا خیال ہے کہ ہر چیز میں ایک صاع ہے، یہی شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا بھی قول ہے، ٣- صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم کہتے ہیں کہ ہر چیز میں ایک صاع ہے سوائے گیہوں کے، اس میں آدھا صاع کافی ہے، ٤- یہی سفیان ثوری اور ابن مبارک کا بھی قول ہے۔ اور اہل کوفہ کی بھی رائے ہے کہ گیہوں میں نصف صاع ہی ہے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الزکاة ٧٢ (١٥٠٥)، و ٧٣ (١٥٠٦)، و ٧٥ (١٥٠٨)، و ٧٦ (١٥١٠)، صحیح مسلم/الزکاة ٤ (٩٨٥)، سنن ابی داود/ الزکاة ١٩ (١٦١٦)، سنن النسائی/الزکاة ٣٨ (٢٥١٥)، سنن ابن ماجہ/الزکاة ٢١ (١٨٢٩)، ( تحفة الأشراف: ٤٢٦٩)، مسند احمد (٣/٢٣، ٧٣، ٩٨)، سنن الدارمی/الزکاة ٢٧ (١٧٠٤) (صحیح)
وضاحت: ١ ؎: صدقہ فطر کی فرضیت رمضان کے آغاز کے بعد عید سے صرف دو روز پہلے ٢ ھ میں ہوئی، اس کی ادائیگی کا حکم بھی نماز عید سے پہلے پہلے ہے تاکہ معاشرے کے ضرورت مند حضرات اس روز مانگنے سے بےنیاز ہو کر عام مسلمانوں کے ساتھ عید کی خوشی میں شریک ہو سکیں، اس کی مقدار ایک صاع ہے خواہ کوئی بھی جنس ہو، صدقہ فطر کے لیے صاحب نصاب ہونا ضروری نہیں۔ اور صاع ڈھائی کلوگرام کے برابر ہوتا ہے۔ ٢ ؎: «صاعاً من طعام» میں «طعام» سے مراد «حنطۃ» گیہوں ہے کیونکہ «طعام» کا لفظ مطلقاً گیہوں کے معنی میں بولا جاتا تھا جب کہا جاتا ہے: «إذهب إلى سوق الطعام» تو اس سے «سوق الحنطۃ» گیہوں کا بازار ہی سمجھا جاتا تھا، اور بعض لوگوں نے کہا «من طعام مجمل» ہے اور آگے اس کی تفسیر ہے، یہ «عطف الخاص علی العام» ہے۔
قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (1829)
صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني: حديث نمبر 673
Top