صحیح مسلم - جمعہ کا بیان - حدیث نمبر 6992
حدیث نمبر: 1430
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ،‏‏‏‏ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ،‏‏‏‏ عَنْ عُرْوَةَ،‏‏‏‏ عَنْ عَائِشَةَ،‏‏‏‏ أَنَّ قُرَيْشًا أَهَمَّهُمْ شَأْنُ الْمَرْأَةِ الْمَخْزُومِيَّةِ الَّتِي سَرَقَتْ،‏‏‏‏ فَقَالُوا:‏‏‏‏ مَنْ يُكَلِّمُ فِيهَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،‏‏‏‏ فَقَالُوا:‏‏‏‏ مَنْ يَجْتَرِئُ عَلَيْهِ إِلَّا أُسَامَةُ بْنُ زَيْدٍ،‏‏‏‏ حِبُّ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَكَلَّمَهُ أُسَامَةُ،‏‏‏‏ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ أَتَشْفَعُ فِي حَدٍّ مِنْ حُدُودِ اللَّهِ ،‏‏‏‏ ثُمَّ قَامَ فَاخْتَطَبَ،‏‏‏‏ فَقَالَ:‏‏‏‏ إِنَّمَا أَهْلَكَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِكُمْ،‏‏‏‏ أَنَّهُمْ كَانُوا إِذَا سَرَقَ فِيهِمُ الشَّرِيفُ تَرَكُوهُ،‏‏‏‏ وَإِذَا سَرَقَ فِيهِمُ الضَّعِيفُ أَقَامُوا عَلَيْهِ الْحَدَّ،‏‏‏‏ وَايْمُ اللَّهِ،‏‏‏‏ لَوْ أَنَّ فَاطِمَةَ بِنْتَ مُحَمَّدٍ 55 سَرَقَتْ لَقَطَعْتُ يَدَهَا ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ وَفِي الْبَاب،‏‏‏‏ عَنْ مَسْعُودِ ابْنِ الْعَجْمَاءِ،‏‏‏‏ وَابْنِ عُمَرَ،‏‏‏‏ وَجَابِرٍ،‏‏‏‏ قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ حَدِيثُ عَائِشَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ،‏‏‏‏ وَيُقَالُ:‏‏‏‏ مَسْعُودُ بْنُ الْأَعْجَمِ،‏‏‏‏ وَلَهُ هَذَا الْحَدِيثُ.
حدود میں سفارش کی ممانعت
ام المؤمنین عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ قریش قبیلہ بنو مخزوم کی ایک عورت ١ ؎ کے معاملے میں جس نے چوری کی تھی، کافی فکرمند ہوئے، وہ کہنے لگے: اس کے سلسلے میں رسول اللہ سے کون گفتگو کرے گا؟ لوگوں نے جواب دیا: رسول اللہ کے چہیتے اسامہ بن زید کے علاوہ کون اس کی جرات کرسکتا ہے؟ چناچہ اسامہ نے آپ سے گفتگو کی تو رسول اللہ نے فرمایا: کیا تم اللہ کی حدود میں سے ایک حد کے بارے میں سفارش کر رہے ہو؟ پھر آپ کھڑے ہوئے اور خطبہ دیتے ہوئے آپ نے فرمایا: لوگو! تم سے پہلے کے لوگ اپنی اس روش کی بنا پر ہلاک ہوئے کہ جب کوئی اعلیٰ خاندان کا شخص چوری کرتا تو اسے چھوڑ دیتے، اور جب کمزور حال شخص چوری کرتا تو اس پر حد جاری کرتے، اللہ کی قسم! اگر محمد کی بیٹی فاطمہ چوری کرتی تو میں اس کا (بھی) ہاتھ کاٹ دیتا ٢ ؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ١ - عائشہ ؓ کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - اس باب میں مسعود بن عجماء، ابن عمر اور جابر ؓ سے بھی احادیث آئی ہیں، ٣ - مسعود بن عجماء کو مسعود بن اعجم بھی کہا جاتا ہے، ان سے صرف یہی ایک حدیث آئی ہے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الشہادات ٨ (٢٦٤٨)، والأنبیاء ٥٤ (٣٤٧٥)، وفضائل الصحابة ١٨ (٣٧٣٢)، والمغازي ٥٣ (٤٣٠٤)، والحدود ١١ (٦٧٨٧)، و ١٢ (٦٧٨٨) و ١٤ (٦٨٠٠)، صحیح مسلم/الحدود ٢ (١٦٨٨)، سنن ابی داود/ الحدود ٤ (٤٣٧٣)، سنن النسائی/قطع السارق ٦ (٤٩٠٦)، سنن ابن ماجہ/الحدود ٦ (٤٥٤٧)، (تحفة الأشراف: ١٦٥٧٨)، و مسند احمد (٦/١٦٢)، وسنن الدارمی/الحدود ٥ (٢٣٤٨) (صحیح )
وضاحت: ١ ؎: قبیلہ بنو مخزوم کی اس عورت کا نام فاطمہ بنت اسود تھا، اس کی یہ عادت بھی تھی کہ جب کسی سے کوئی سامان ضرورت پڑنے پر لے لیتی تو پھر اس سے مکر جاتی۔ ٢ ؎: نبی اکرم کا ارشاد کہ اگر محمد کی بیٹی فاطمہ چوری کرتی، یہ بالفرض والتقدیر ہے، ورنہ فاطمہ ؓ کی شان اس سے کہیں عظیم تر ہے کہ وہ ایسی کسی غلطی میں مبتلا ہوں، قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے سارے اہل بیت کی عفت و طہارت کی خبر دی ہے «إنما يريد اللہ ليذهب عنکم الرجس أهل البيت ويطهركم تطهيرا» (الأحزاب: ٣٣ ) فاطمہ ؓ نبی اکرم کے نزدیک آپ کے اہل خانہ میں سب سے زیادہ عزیز تھیں اسی لیے ان کے ذریعہ مثال بیان کی گئی۔
قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (2547)
صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني: حديث نمبر 1430
Top