صحیح مسلم - جمعہ کا بیان - حدیث نمبر 452
أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ سُلَيْمَانَ، ‏‏‏‏‏‏قال:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ، ‏‏‏‏‏‏قال:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ مِغْوَلٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ الزُّبَيْرِ بْنِ عَدِيٍّ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ طَلْحَةَ بْنِ مُصَرِّفٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ مُرَّةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏قال:‏‏‏‏ لَمَّا أُسْرِيَ بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ انْتُهِيَ بِهِ إِلَى سِدْرَةِ الْمُنْتَهَى وَهِيَ فِي السَّمَاءِ السَّادِسَةِ وَإِلَيْهَا يَنْتَهِي مَا عُرِجَ بِهِ مِنْ تَحْتِهَا وَإِلَيْهَا يَنْتَهِي مَا أُهْبِطَ بِهِ مِنْ فَوْقِهَا حَتَّى يُقْبَضَ مِنْهَا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ إِذْ يَغْشَى السِّدْرَةَ مَا يَغْشَى سورة النجم آية 16، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَرَاشٌ مِنْ ذَهَبٍ، ‏‏‏‏‏‏فَأُعْطِيَ ثَلَاثًا:‏‏‏‏ الصَّلَوَاتُ الْخَمْسُ وَخَوَاتِيمُ سُورَةِ الْبَقَرَةِ وَيُغْفَرُ لِمَنْ مَاتَ مِنْ أُمَّتِهِ لَا يُشْرِكُ بِاللَّهِ شَيْئًا الْمُقْحِمَاتُ.
شراب کی حرمت سے متعلق خداوند قدوس نے ارشاد فرمایا اے اہل ایمان! شراب اور جوا اور بت اور پانسے (کے تیر) یہ تمام کے تمام ناپاک ہیں شیطان کے کام ہیں اور شیطان یہ چاہتا ہے کہ تمہارے درمیان میں دشمنی اور لڑائی پیدا کرا دے شراب پلا اور جوا کھلا کر اور روک دے تم کو اللہ کی یاد سے اور نماز سے تو تم لوگ چھوڑتے ہو یا نہیں۔
عبداللہ بن مسعود ؓ کہتے ہیں کہ (معراج کی شب) جب رسول اللہ کو لے جایا گیا تو جبرائیل (علیہ السلام) آپ کو لے کر سدرۃ المنتہیٰ پہنچے، یہ چھٹے آسمان پر ہے ١ ؎ جو چیزیں نیچے سے اوپر چڑھتی ہیں ٢ ؎ یہیں ٹھہر جاتی ہیں، اور جو چیزیں اس کے اوپر سے اترتی ہیں ٣ ؎ یہیں ٹھہر جاتی ہیں، یہاں تک کہ یہاں سے وہ لی جاتی ہیں ٤ ؎ عبداللہ بن مسعود ؓ نے آیت کریمہ إذ يغشى السدرة ما يغشى ٥ ؎ (جب کہ سدرۃ کو ڈھانپ لیتی تھیں وہ چیزیں جو اس پر چھا جاتی تھیں) پڑھی اور (اس کی تفسیر بیان کرتے ہوئے) کہا: وہ سونے کے پروانے تھے، تو (وہاں) آپ کو تین چیزیں دی گئیں: پانچ نمازیں، سورة البقرہ کی آخری آیتیں ٦ ؎، اور آپ کی امت میں سے اس شخص کی کبیرہ گناہوں کی بخشش، جو اللہ کے ساتھ بغیر کچھ شرک کئے مرے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الإیمان ٧٦ (١٧٣)، سنن الترمذی/تفسیر سورة النجم (٣٢٧٦)، (تحفة الأشراف ٩٥٤٨)، مسند احمد ١/٣٨٧، ٤٢٢) (صحیح )
وضاحت: ١ ؎: اس سے پہلے انس ؓ والی روایت میں ہے کہ ساتویں آسمان پر ہے، دونوں میں تطبیق اس طرح دی جاتی ہے کہ اس کی جڑ چھٹے آسمان پر ہے اور شاخیں ساتویں آسمان پر ہیں۔ ٢ ؎: یعنی نیک اعمال یا روحیں وغیرہ۔ ٣ ؎: یعنی اوامر اور فرامین الٰہی وغیرہ۔ ٤ ؎: مطلب یہ ہے کہ فرشتے یہیں سے اسے وصول کرتے ہیں اور جہاں حکم ہوتا ہے اسے پہنچاتے ہیں۔ ٥ ؎: النجم: ١٦ ۔ ٦ ؎: یعنی یہ طے ہوا کہ آپ کو عنقریب یہ آیتیں دی جائیں گی، یہ تاویل اس لیے کرنی پڑ رہی ہے کہ یہ آیتیں مدنی ہیں اور معراج کا واقعہ مکی دور میں پیش آیا تھا، یا یہ کہا جائے کہ یہ آیتیں مکی ہیں اور باقی پوری سورت مدنی ہے۔
قال الشيخ الألباني: صحيح
صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني: حديث نمبر 451
Top