صحیح مسلم - خواب اور اسکی تعبیر کے بیان میں - حدیث نمبر 68
أَخْبَرَنَا الْعَبَّاسُ بْنُ عَبْدِ الْعَظِيمِ الْعَنْبَرِيُّ، ‏‏‏‏‏‏قال:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، ‏‏‏‏‏‏قال:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا زَائِدَةُ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ مُوسَى بْنِ أَبِي عَائِشَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ قال:‏‏‏‏ دَخَلْتُ عَلَى عَائِشَةَ فَقُلْتُ:‏‏‏‏ أَلَا تُحَدِّثِينِي عَنْ مَرَضِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَتْ:‏‏‏‏ لَمَّا ثَقُلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ:‏‏‏‏ أَصَلَّى النَّاسُفَقُلْنَا:‏‏‏‏ لَا وَهُمْ يَنْتَظِرُونَكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ فَقَالَ:‏‏‏‏ ضَعُوا لِي مَاءً فِي الْمِخْضَبِفَفَعَلْنَا فَاغْتَسَلَ ثُمَّ ذَهَبَ لِيَنُوءَ فَأُغْمِيَ عَلَيْهِ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ أَفَاقَ فَقَالَ:‏‏‏‏ أَصَلَّى النَّاسُقُلْنَا:‏‏‏‏ لَا هُمْ يَنْتَظِرُونَكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ فَقَالَ:‏‏‏‏ ضَعُوا لِي مَاءً فِي الْمِخْضَبِفَفَعَلْنَا فَاغْتَسَلَ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ ذَهَبَ لِيَنُوءَ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ أُغْمِيَ عَلَيْهِ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ قَالَ:‏‏‏‏ فِي الثَّالِثَةِ مِثْلَ قَوْلِهِ قَالَتْ:‏‏‏‏ وَالنَّاسُ عُكُوفٌ فِي الْمَسْجِدِ يَنْتَظِرُونَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِصَلَاةِ الْعِشَاءِ فَأَرْسَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى أَبِي بَكْرٍ أَنْ صَلِّ بِالنَّاسِ فَجَاءَهُ الرَّسُولُ فَقَالَ:‏‏‏‏ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَأْمُرُكَ أَنْ تُصَلِّيَ بِالنَّاسِ وَكَانَ أَبُو بَكْرٍ رَجُلًا رَقِيقًا فَقَالَ:‏‏‏‏ يَا عُمَرُ صَلِّ بِالنَّاسِ فَقَالَ:‏‏‏‏ أَنْتَ أَحَقُّ بِذَلِكَ فَصَلَّى بِهِمْ أَبُو بَكْرٍ تِلْكَ الْأَيَّامَ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَجَدَ مِنْ نَفْسِهِ خِفَّةً فَجَاءَ يُهَادَى بَيْنَ رَجُلَيْنِ أَحَدُهُمَا الْعَبَّاسُ لِصَلَاةِ الظُّهْرِ فَلَمَّا رَآهُ أَبُو بَكْرٍ ذَهَبَ لِيَتَأَخَّرَ فَأَوْمَأَ إِلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ لَا يَتَأَخَّرَ وَأَمَرَهُمَا فَأَجْلَسَاهُ إِلَى جَنْبِهِ فَجَعَلَ أَبُو بَكْرٍ يُصَلِّي قَائِمًا وَالنَّاسُ يُصَلُّونَ بِصَلَاةِ أَبِي بَكْرٍ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي قَاعِدًا فَدَخَلْتُ عَلَى ابْنِ عَبَّاسٍ فَقُلْتُ أَلَا أَعْرِضُ عَلَيْكَ مَا حَدَّثَتْنِي عَائِشَةُ عَنْ مَرَضِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:‏‏‏‏ نَعَمْ فَحَدَّثْتُهُ فَمَا أَنْكَرَ مِنْهُ شَيْئًا غَيْرَ أَنَّهُ قَالَ أَسَمَّتْ لَكَ الرَّجُلَ الَّذِي كَانَ مَعَ الْعَبَّاسِ قُلْتُ:‏‏‏‏ لَا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ هُوَ عَلِيٌّ كَرَّمَ اللَّهُ وَجْهَهُ.
اگر امام بیٹھ کر نماز ادا کرے تو مقتدی بھی نماز بیٹھ کر ادا کریں
عبیداللہ بن عبداللہ کہتے ہیں کہ میں ام المؤمنین عائشہ ؓ کے پاس گیا، اور میں نے ان سے کہا: کیا آپ مجھے رسول اللہ کے مرض الموت کا حال نہیں بتائیں گی؟ انہوں نے کہا: جب رسول اللہ کی بیماری کی شدت بڑھ گئی، تو آپ نے پوچھا: کیا لوگوں نے نماز پڑھ لی؟ تو ہم نے عرض کیا: نہیں، اللہ کے رسول! وہ آپ کا انتظار کر رہے ہیں، تو آپ نے فرمایا: میرے لیے ٹب میں پانی رکھو ؛ چناچہ ہم نے رکھا، تو آپ نے غسل کیا، پھر اٹھنے چلے تو آپ پر بےہوشی طاری ہوگئی، پھر افاقہ ہوا تو آپ نے پوچھا: کیا لوگوں نے نماز پڑھ لی؟ تو ہم نے عرض کیا: نہیں، اللہ کے رسول! وہ آپ کا انتظار کر رہے ہیں، تو آپ نے فرمایا: میرے لیے ٹب میں پانی رکھو ؛ چناچہ ہم نے رکھا، تو آپ نے غسل کیا، پھر آپ اٹھنے چلے تو پھر بیہوش ہوگئے، پھر تیسری بار بھی آپ نے ایسا ہی فرمایا، لوگ مسجد میں جمع تھے، اور عشاء کی نماز کے لیے رسول اللہ کا انتظار کر رہے تھے، بالآخر رسول اللہ نے ابوبکر ؓ کو کہلوا بھیجا کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں، تو قاصد ان کے پاس آیا، اور اس نے کہا: رسول اللہ آپ کو حکم دے رہے ہیں کہ آپ لوگوں کو نماز پڑھائیں، ابوبکر ؓ نرم دل آدمی تھے، تو انہوں نے (عمر ؓ سے) کہا: عمر! تم لوگوں کو نماز پڑھا دو، تو انہوں نے کہا: آپ اس کے زیادہ حقدار ہیں؛ چناچہ ان ایام میں ابوبکر ؓ نے لوگوں کو نماز پڑھائی، پھر رسول اللہ نے اپنے اندر ہلکا پن محسوس کیا، تو دو آدمیوں کے سہارے (ان دونوں میں سے ایک عباس ؓ تھے) نماز ظہر کے لیے آئے، تو جب ابوبکر ؓ نے آپ کو دیکھا تو وہ پیچھے ہٹنے لگے، رسول اللہ نے انہیں اشارہ کیا کہ وہ پیچھے نہ ہٹیں، اور ان دونوں کو حکم دیا کہ وہ آپ کو ان کے بغل میں بٹھا دیں، ابوبکر ؓ کھڑے ہو کر نماز پڑھا رہے تھے، لوگ ابوبکر ؓ کی صلاۃ کی اقتداء کر رہے تھے، اور رسول اللہ بیٹھ کر نماز پڑھا رہے تھے۔ (عبیداللہ کہتے ہیں) میں ابن عباس ؓ کے پاس آیا، اور میں نے ان سے کہا: کیا میں آپ سے وہ چیزیں بیان نہ کر دوں جو مجھ سے ام المؤمنین عائشہ ؓ نے رسول اللہ کی بیماری کے متعلق بیان کیا ہے؟ تو انہوں نے کہا: ہاں! ضرور بیان کرو، تو میں نے ان سے سارا واقعہ بیان کیا، تو انہوں نے اس میں سے کسی بھی چیز کا انکار نہیں کیا، البتہ اتنا پوچھا: کیا انہوں نے اس شخص کا نام لیا جو عباس ؓ کے ساتھ تھے؟ میں نے کہا: نہیں، تو انہوں نے کہا: وہ علی (کرم اللہ وجہہ) تھے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الأذان ٥١ (٦٨٧)، صحیح مسلم/الصلاة ٢١ (٤١٨)، (تحفة الأشراف: ١٦٣١٧)، مسند احمد ٢/٥٢، ٦/٢٤٩، ٢٥١، سنن الدارمی/الصلاة ٤٤ (١٢٩٢) (صحیح )
قال الشيخ الألباني: صحيح
صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني: حديث نمبر 834
Top