مسند امام احمد - حضرت سلمہ بن اکوع (رض) کی مرویات - حدیث نمبر 2395
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ النَّيْسَابُورِيُّ الثِّقَةُ الْمَأْمُونُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ مَعْمَرٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ الزُّهْرِيِّ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عُرْوَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَائِشَةَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَتْ:‏‏‏‏ اجْتَمَعْنَ أَزْوَاجُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَأَرْسَلْنَ فَاطِمَةَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَقُلْنَ لَهَا:‏‏‏‏ إِنَّ نِسَاءَكَ وَذَكَرَ كَلِمَةً مَعْنَاهَا يَنْشُدْنَكَ الْعَدْلَ فِي ابْنَةِ أَبِي قُحَافَةَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَتْ:‏‏‏‏ فَدَخَلَتْ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،‏‏‏‏ وَهُوَ مَعَ عَائِشَةَ فِي مِرْطِهَا، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَتْ لَهُ:‏‏‏‏ إِنَّ نِسَاءَكَ أَرْسَلْنَنِي،‏‏‏‏ وَهُنَّ يَنْشُدْنَكَ الْعَدْلَ فِي ابْنَةِ أَبِي قُحَافَةَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ لَهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ أَتُحِبِّينِي ؟قَالَتْ:‏‏‏‏ نَعَمْ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَأَحِبِّيهَا. قَالَتْ:‏‏‏‏ فَرَجَعَتْ إِلَيْهِنَّ،‏‏‏‏ فَأَخْبَرَتْهُنَّ مَا قَالَ:‏‏‏‏ فَقُلْنَ لَهَا:‏‏‏‏ إِنَّكِ لَمْ تَصْنَعِي شَيْئًا فَارْجِعِي إِلَيْهِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَتْ:‏‏‏‏ وَاللَّهِ،‏‏‏‏ لَا أَرْجِعُ إِلَيْهِ فِيهَا أَبَدًا. وَكَانَتِ ابْنَةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَقًّا،‏‏‏‏ فَأَرْسَلْنَ زَيْنَبَ بِنْتَ جَحْشٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَتْ عَائِشَةُ:‏‏‏‏ وَهِيَ الَّتِي كَانَتْ تُسَامِينِي مِنْ أَزْوَاجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَتْ:‏‏‏‏ أَزْوَاجُكَ أَرْسَلْنَنِي،‏‏‏‏ وَهُنَّ يَنْشُدْنَكَ الْعَدْلَ فِي ابْنَةِ أَبِي قُحَافَةَ ثُمَّ أَقْبَلَتْ عَلَيَّ تَشْتِمُنِي،‏‏‏‏ فَجَعَلْتُ أُرَاقِبُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنْظُرُ طَرْفَهُ،‏‏‏‏ هَلْ يَأْذَنُ لِي مِنْ أَنْ أَنْتَصِرَ مِنْهَا، ‏‏‏‏‏‏قَالَتْ:‏‏‏‏ فَشَتَمَتْنِي حَتَّى ظَنَنْتُ أَنَّهُ لَا يَكْرَهُ أَنْ أَنْتَصِرَ مِنْهَا، ‏‏‏‏‏‏فَاسْتَقْبَلْتُهَا،‏‏‏‏ فَلَمْ أَلْبَثْ أَنْ أَفْحَمْتُهَا، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ لَهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ إِنَّهَا ابْنَةُ أَبِي بَكْرٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَتْ عَائِشَةُ:‏‏‏‏ فَلَمْ أَرَ امْرَأَةً خَيْرًا،‏‏‏‏ وَلَا أَكْثَرَ صَدَقَةً،‏‏‏‏ وَلَا أَوْصَلَ لِلرَّحِمِ،‏‏‏‏ وَأَبْذَلَ لِنَفْسِهَا فِي كُلِّ شَيْءٍ يُتَقَرَّبُ بِهِ إِلَى اللَّهِ تَعَالَى مِنْ زَيْنَبَ،‏‏‏‏ مَا عَدَا سَوْرَةً مِنْ حِدَّةٍ كَانَتْ فِيهَا تُوشِكُ مِنْهَا الْفَيْئَةَ. قَالَ أَبُو عَبْد الرَّحْمَنِ:‏‏‏‏ هَذَا خَطَأٌ وَالصَّوَابُ الَّذِي قَبْلَهُ.
ایک بیوی کو دوسری بیوی سے زیادہ چاہنا
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم کی بیویاں اکٹھا ہوئیں اور انہوں نے فاطمہ ؓ کو نبی اکرم کے پاس بھیجا اور ان سے کہا: آپ کی بیویاں - اور ایسا کلمہ کہا جس کا مفہوم یہ ہے - ابوقحافہ کی بیٹی کے تعلق سے آپ سے مطالبہ کرتی ہیں کہ انصاف سے کام لیجئیے۔ چناچہ وہ نبی اکرم کے پاس گئیں، آپ عائشہ ؓ کے ساتھ ان کی چادر میں تھے۔ انہوں نے آپ سے کہا: (اللہ کے رسول! ) آپ کی بیویوں نے مجھے آپ کے پاس بھیجا ہے وہ ابوقحافہ کی بیٹی (عائشہ) کے سلسلے میں آپ سے عدل کا مطالبہ کر رہی ہیں، نبی اکرم نے ان سے فرمایا: کیا تمہیں مجھ سے محبت ہے؟ کہا: جی ہاں! آپ نے فرمایا: تو تم بھی ان (عائشہ) سے محبت کرو ، عائشہ ؓ کہتی ہیں: فاطمہ ؓ نے نبی اکرم کی بیویوں کے پاس واپس آ کر انہیں وہ ساری بات بتائی جو آپ نے (فاطمہ سے) کہی، وہ سب بولیں: تم نے ہمارے لیے کچھ بھی نہیں کیا، تم پھر رسول اللہ کے پاس جاؤ۔ فاطمہ نے کہا: نہیں، اللہ کی قسم! میں ان کے سلسلے میں آپ کے پاس کبھی نہیں جاؤں گی اور درحقیقت وہ اللہ کے رسول کی بیٹی تھیں ١ ؎، اب نبی اکرم کی ازواج مطہرات نے (رسول اللہ ﷺ کے پاس) زینب بنت جحش ؓ کو بھیجا۔ اور زینب ہی ایسی تھیں جو نبی اکرم کی بیویوں میں (رسول اللہ ﷺ کے نزدیک) میرے برابر کا درجہ رکھتی تھیں۔ وہ بولیں: (اللہ کے رسول! ) آپ کی بیویوں نے مجھے آپ کے پاس اس لیے بھیجا ہے کہ وہ سب ابوقحافہ کی بیٹی کے تعلق سے آپ سے عدل و انصاف کا مطالبہ کر رہی ہیں اور وہ مجھے برا بھلا کہنے لگیں۔ میں نبی اکرم کو دیکھ رہی تھی اور آپ کی نگاہ دیکھ رہی تھی کہ آیا آپ مجھے بھی ان کا جواب دینے کی اجازت دیتے ہیں؟ زینب ؓ ابھی وہیں پر تھیں کہ میں نے اندازہ کرلیا کہ اگر میں انہیں جواب دوں تو رسول اللہ کو برا نہیں لگے گا۔ چناچہ (جب) میں نے انہیں برا بھلا کہا (تو میں نے انہیں ذرا بھی ٹکنے نہیں دیا) یہاں تک کہ میں ان سے آگے نکل گئی، نبی اکرم نے زینب ؓ سے فرمایا: یہ ابوبکر کی بیٹی ہے ۔ عائشہ ؓ کہتی ہیں: میں نے کبھی بھی دین کے معاملے میں بہتر، اللہ سے ڈرنے والی، سچ بات کہنے والی اور صلہ رحمی کرنے والی، بڑے بڑے صدقات کرنے والی، صدقہ و خیرات اور قرب الٰہی کے کاموں میں خود کو سب سے زیادہ کمتر کرنے والی زینب ؓ سے بڑھ کر کوئی عورت نہیں دیکھا سوائے اس کے کہ وہ مزاج کی تیز طرار تھیں لیکن ان کا غصہ بہت جلد رفع ہوجاتا تھا۔ ابوعبدالرحمٰن نسائی کہتے ہیں: اس (روایت) میں غلطی ہے صحیح وہی ہے جو اس سے پہلے گزری۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف: ١٦٦٧٤)، مسند احمد (٦/١٥٠) (صحیح الإسناد )
وضاحت: ١ ؎: یعنی یہ کیسے ممکن تھا کہ وہ آپ ﷺ کے فرمان کی خلاف ورزی کرتیں جب کی آپ نے ان سے فرمایا تھا تو بھی عائشہ رضی الله عنہا سے محبت کر۔
قال الشيخ الألباني: صحيح الإسناد
صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني: حديث نمبر 3946
Top