صحیح مسلم - - حدیث نمبر 785
أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، ‏‏‏‏‏‏قال:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ وَهُوَ ابْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي حَازِمٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ، ‏‏‏‏‏‏أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَلَغَهُ أَنَّ بَنِي عَمْرِو بْنِ عَوْفٍ كَانَ بَيْنَهُمْ شَيْءٌ فَخَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِيُصْلِحَ بَيْنَهُمْ فِي أُنَاسٍ مَعَهُ فَحُبِسَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَحَانَتِ الْأُولَى فَجَاءَ بِلَالٌ إِلَى أَبِي بَكْرٍ فَقَالَ:‏‏‏‏ يَا أَبَا بَكْرٍ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ حُبِسَ وَقَدْ حَانَتِ الصَّلَاةُ فَهَلْ لَكَ أَنْ تَؤُمَّ النَّاسَ قَالَ:‏‏‏‏ نَعَمْ إِنْ شِئْتَ فَأَقَامَ بِلَالٌ وَتَقَدَّمَ أَبُو بَكْرٍ فَكَبَّرَ بِالنَّاسِ وَجَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَمْشِي فِي الصُّفُوفِ حَتَّى قَامَ فِي الصَّفِّ وَأَخَذَ النَّاسُ فِي التَّصْفِيقِ وَكَانَ أَبُو بَكْرٍ لَا يَلْتَفِتُ فِي صَلَاتِهِ فَلَمَّا أَكْثَرَ النَّاسُ الْتَفَتَ فَإِذَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَشَارَ إِلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَأْمُرُهُ أَنْ يُصَلِّيَ فَرَفَعَ أَبُو بَكْرٍ يَدَيْهِ فَحَمِدَ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ وَرَجَعَ الْقَهْقَرَى وَرَاءَهُ حَتَّى قَامَ فِي الصَّفِّ فَتَقَدَّمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَصَلَّى بِالنَّاسِ فَلَمَّا فَرَغَ أَقْبَلَ عَلَى النَّاسِ فَقَالَ:‏‏‏‏ يَا أَيُّهَا النَّاسُ مَا لَكُمْ حِينَ نَابَكُمْ شَيْءٌ فِي الصَّلَاةِ أَخَذْتُمْ فِي التَّصْفِيقِ إِنَّمَا التَّصْفِيقُ لِلنِّسَاءِ مَنْ نَابَهُ شَيْءٌ فِي صَلَاتِهِ فَلْيَقُلْ سُبْحَانَ اللَّهِ فَإِنَّهُ لَا يَسْمَعُهُ أَحَدٌ حِينَ يَقُولُ سُبْحَانَ اللَّهِ إِلَّا الْتَفَتَ إِلَيْهِ يَا أَبَا بَكْرٍ مَا مَنَعَكَ أَنْ تُصَلِّيَ لِلنَّاسِ حِينَ أَشَرْتُ إِلَيْكَ. قَالَ:‏‏‏‏ أَبُو بَكْرٍ مَا كَانَ يَنْبَغِي لِابْنِ أَبِي قُحَافَةَ أَنْ يُصَلِّيَ بَيْنَ يَدَيْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
جس وقت رعایا میں سے کوئی شخص امامت کرتا ہو اسی دوران حاکم وقت آجائے تو وہ امام پیچھے چلا جائے
سہل بن سعد ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ کو یہ بات پہنچی کہ بنی عمرو بن عوف کے لوگوں میں کچھ اختلاف ہوگیا ہے تو رسول اللہ اپنے ساتھ کچھ لوگوں کو لے کر نکلے تاکہ آپ ان میں صلح کرا دیں، تو رسول اللہ اسی معاملہ میں مشغول رہے یہاں تک کہ ظہر کا وقت آپ پہنچا ١ ؎ تو بلال ؓ ابوبکر ؓ کے پاس آئے، اور کہنے لگے: ابوبکر! رسول اللہ (ابھی تک) نہیں آسکے ہیں، اور نماز کا وقت ہوچکا ہے تو کیا آپ لوگوں کی امامت کردیں گے؟ انہوں نے کہا: ہاں کر دوں گا اگر تم چاہو، چناچہ بلال ؓ نے تکبیر کہی تو ابوبکر ؓ آگے بڑھے، اور اللہ اکبر کہہ کر لوگوں کو نماز پڑھانی شروع کردی، اسی دوران رسول اللہ تشریف لے آئے، اور آپ صفوں میں چلتے ہوئے آئے یہاں تک کہ (پہلی) صف میں آ کر کھڑے ہوگئے، اور (رسول اللہ ﷺ کو دیکھ کر) لوگ تالیاں بجانے لگے، اور ابوبکر ؓ اپنی نماز میں ادھر ادھر متوجہ نہیں ہوتے تھے، تو جب لوگوں نے کثرت سے تالیاں بجائیں تو وہ متوجہ ہوئے، تو کیا دیکھتے ہیں کہ آپ موجود ہیں، تو رسول اللہ نے انہیں اشارے سے حکم دیا کہ وہ نماز پڑھائیں، اس پر ابوبکر ؓ نے اپنے ہاتھوں کو اٹھا کر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا، پھر وہ الٹے پاؤں اپنے پیچھے لوٹ کر صف میں کھڑے ہوگئے، تو رسول اللہ آگے بڑھے اور جا کر لوگوں کو نماز پڑھائی، اور جب آپ نماز سے فارغ ہوئے تو لوگوں کو مخاطب کر کے فرمایا: لوگو! تمہیں کیا ہوگیا ہے؟ جب تمہیں نماز میں کوئی بات پیش آتی ہے تو تالیاں بجانے لگتے ہو حالانکہ تالی بجانا عورتوں کے لیے مخصوص ہے، جسے اس کی نماز میں کوئی بات پیش آئے وہ سبحان اللہ کہے، کیونکہ جب کوئی سبحان اللہ کہے گا تو جو بھی اسے سنے گا اس کی طرف ضرور متوجہ ہوگا (پھر آپ ابوبکر ؓ کی طرف متوجہ ہوئے) اور فرمایا: ابوبکر! جب میں نے تمہیں اشارہ کردیا تھا تو تم نے لوگوں کو نماز کیوں نہیں پڑھائی؟ ، تو ابوبکر ؓ نے جواب دیا؟ ابوقحافہ کے بیٹے کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ رسول اللہ کے سامنے نماز پڑھائے ٢ ؎۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الأذان ٤٨ (٦٨٤)، العمل في الصلاة ٣ (١٢٠١)، ٥ (١٢٠٤)، ١٦ (١٢١٨)، السھو ٩ (١٢٣٤)، الصلح ١ (٢٦٩٠)، الأحکام ٣٦ (٧١٩٠)، صحیح مسلم/الصلاة ٢٢ (٤٢١)، وقد أخرجہ: مسند احمد ٥/٣٣٦، ٣٣٨، سنن الدارمی/الصلاة ٩٥ (١٤٠٤، ١٤٠٥) (صحیح )
وضاحت: ١ ؎: صحیح بخاری میں اور خود مؤلف کے یہاں (حدیث رقم: ٧٩٤ میں) یہ صراحت ہے کہ یہ عصر کا وقت تھا۔ ٢ ؎: اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ اگر امام راتب (مستقل امام) کہیں گیا ہوا ہو، اور اس کی جگہ کوئی اور نماز پڑھا رہا ہو، تو جب امام راتب درمیان نماز آجائے تو چاہے تو وہی نائب نماز پڑھاتا رہے، اور چاہے تو وہ پیچھے ہٹ آئے اور امام راتب نماز پڑھائے، مگر یہ بات اس وقت تک ہے جب نائب نے ایک رکعت بھی نہ پڑھائی ہو، اور اگر ایک رکعت پڑھا دی ہو تو پھر باقی نماز بھی وہی پوری کرائے، امام ابن عبدالبر کے نزدیک یہ بات نبی کریم ﷺ کے ساتھ خاص تھی۔
قال الشيخ الألباني: صحيح
صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني: حديث نمبر 784
Top