سنن النسائی - - حدیث نمبر 2555
قَالَ الْحَارِثُ بْنُ مِسْكِينٍ قِرَاءَةً عَلَيْهِ وَأَنَا أَسْمَعُ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ وَهْبٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنِي أَبُو هَانِئٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْحُبُلِيِّ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، ‏‏‏‏‏‏أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ يَا أَبَا سَعِيدٍ،‏‏‏‏مَنْ رَضِيَ بِاللَّهِ رَبًّا، ‏‏‏‏‏‏وَبِالْإِسْلَامِ دِينًا، ‏‏‏‏‏‏وَبِمُحَمَّدٍ نَبِيًّا، ‏‏‏‏‏‏وَجَبَتْ لَهُ الْجَنَّةُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَعَجِبَ لَهَا أَبُو سَعِيدٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَعِدْهَا عَلَيَّ يَا رَسُولَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏فَفَعَلَ. (حديث مرفوع) (حديث موقوف) ثُمَّ ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ وَأُخْرَى يُرْفَعُ بِهَا الْعَبْدُ مِائَةَ دَرَجَةٍ فِي الْجَنَّةِ، ‏‏‏‏‏‏مَا بَيْنَ كُلِّ دَرَجَتَيْنِ كَمَا بَيْنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ وَمَا هِيَ يَا رَسُولَ اللَّهِ ؟ قَالَ:‏‏‏‏ الْجِهَادُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏الْجِهَادُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ.
مجاہد کے (بلند) درجے کا بیان
ابو سعید خدری رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا: ابوسعید! جو شخص راضی ہوگیا اللہ کے رب ١ ؎ ہونے پر اور اسلام کو بطور دین قبول کرلیا ٢ ؎ اور محمد کی نبوت ٣ ؎ کا اقرار کرلیا، تو جنت اس کے لیے واجب ہوگئی ٤ ؎، (راوی کہتے ہیں) یہ کلمات ابوسعید کو بہت بھلے لگے۔ (چنانچہ) عرض کیا: اللہ کے رسول! ان کلمات کو آپ مجھے ذرا دوبارہ سنا دیجئیے، تو آپ نے دہرا دیا۔ پھر رسول اللہ نے فرمایا: لیکن جنت میں بندے کو سو درجوں کی بلندی تک پہنچانے کے لیے ایک دوسری عبادت بھی ہے (اور درجے بھی کیسے؟ ) ایک درجہ کا فاصلہ دوسرے درجے سے اتنا ہے جتنا فاصلہ آسمان و زمین کے درمیان ہے۔ انہوں نے کہا: یہ دوسری عبادت کیا ہے اللہ کے رسول! آپ نے فرمایا: (یہ دوسری عبادت) اللہ کے راستے میں جہاد کرنا ہے، اللہ کی راہ میں جہاد کرنا ہے ۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الإمارة ٣١ (١٨٨٤)، (تحفة الأشراف: ٤١١٢)، مسند احمد (٣/١٤) (صحیح )
وضاحت: ١ ؎: رب اللہ تعالیٰ کے اسماء حسنی میں سے ہے، جس کے معنی ہیں ہر چیز کو پیدا کر کے اس کی ضروریات مہیا کرنے اور اس کو تکمیل تک پہنچانے والا، بغیر اضافت کے اس کا استعمال اللہ کی ذات کے علاوہ کسی اور کے لیے جائز نہیں، اور اسی ربوبیت کا تقاضا ہے کہ آدمی صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی عبادت کرے، کیونکہ وہی برتر و بالا مقدس ذات عبادت کی مستحق ہے یہاں رب ماننے کا معنی و مطلب اس رب کے لیے ہر طرح کی عبادت کو خاص کرنا ہے، اس لیے کہ اللہ کو کائنات کے خالق ومالک ماننے اور اس کی ربوبیت کو تسلیم کرنے میں مشرکین عرب و غیر عرب کو اعتراض نہ تھا، ان کا اصل مرض یہی تھا کہ وہ اللہ کو رب اور خالق ومالک مانتے ہوئے اس کی عبادت میں دوسروں کو شریک کرتے تھے۔ ٢ ؎: اسلام کو بطور دین تسلیم کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اسلام کے طریقہ کو چھوڑ کر کوئی اور طریقہ اپنی زندگی میں نہ اپنائے۔ ٣ ؎: محمد ﷺ کو نبی تسلیم کرنے کا مطلب یہ ہے کہ آپ ﷺ کے اوامرو نواہی کو ہر چیز پر مقدم رکھے۔ اور ہر چھوٹے بڑے معاملے میں آپ کے حکم کو بغیر کسی بحث و اعتراض کے قبول کرے۔ ٤ ؎: بشرطیکہ اس نے شرک، بدعات کی ان میں آمیزش نہ کی ہو اور بدعملی کا شکار نہ ہوا ہو۔
قال الشيخ الألباني: صحيح
صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني: حديث نمبر 3131
Top