Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
Hadith (1845 - 2015)
Select Hadith
1845
1846
1847
1848
1849
1850
1851
1852
1853
1854
1855
1856
1857
1858
1859
1860
1861
1862
1863
1864
1865
1866
1867
1868
1869
1870
1871
1872
1873
1874
1875
1876
1876
1877
1878
1879
1880
1881
1882
1883
1884
1885
1886
1887
1888
1889
1890
1891
1892
1893
1894
1895
1896
1897
1898
1899
1900
1901
1902
1903
1904
1905
1906
1907
1908
1909
1910
1911
1912
1913
1914
1915
1916
1917
1918
1919
1920
1921
1922
1923
1924
1925
1926
1927
1928
1929
1930
1931
1932
1933
1934
1935
1936
1937
1938
1939
1940
1941
1942
1943
1944
1945
1946
1947
1948
1949
1950
1951
1952
1953
1954
1955
1956
1957
1958
1959
1960
1961
1962
1963
1964
1965
1966
1967
1968
1969
1970
1971
1972
1973
1974
1975
1976
1977
1978
1979
1980
1981
1982
1983
1984
1985
1986
1987
1988
1989
1990
1991
1992
1993
1994
1995
1996
1997
1998
1999
2000
2001
2002
2003
2004
2005
2006
2007
2008
2009
2010
2011
2012
2013
2014
2015
صحيح البخاری - نکاح کا بیان - حدیث نمبر 1885
وعن أبي هريرة قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم خلق الله الخلق فلما فرغ منه قامت الرحم فأخذت بحقوي الرحمن فقال مه ؟ قالت هذا مقام العائذ بك من القطيعة . قال ألا ترضين أن أصل من وصلك وأقطع من قطعك ؟ قالت بلى يا رب قال فذاك . متفق عليه
صلہ رحمی کی اہمیت
اور حضرت ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے مخلوقات کو پیدا کیا یعنی اللہ نے تمام مخلوقات کو ان کی پیدائش سے پہلے ان صورتوں کے ساتھ اپنے علم ازلی میں مقدر کردیا جن وہ پیدا ہوں گے جب اس سے فارغ ہوا تو رحم یعنی رشتہ ناتا کھڑا ہو اور پروردگا کی کمر تھام لی، پروردگار نے فرمایا کیا چاہتا ہے؟ رحم نے عرض کیا کہ یہ کاٹے جانے کے خوف سے تیری پناہ کے طلبگار کے کھڑے ہونے کی جگہ ہے یعنی میں تیرے روبرو کھڑا ہوں اور تیرے دامن عزت و عظمت کی طرف دست سوال دراز ہوں تجھ سے اس امر کی پناہ چاہتا ہوں کہ کوئی شخص مجھ کو کاٹ دے اور میرے دامن عزت و عظمت کی طرف دست سوال دراز کئے ہوئے ہوں تجھ سے اس امر کی پناہ چاہتا ہوں کہ کوئی شخص مجھ کو کاٹ دے اور میرے دامن کو جوڑنے کے بجائے اس کو تار تار کر دے۔ پروردگار نے فرمایا کہ تو اس پر راضی نہیں ہے کہ جو شخص رشتہ داروں اور عزیزوں کے ساتھ حسن سلوک کا ذریعہ) تجھ کو قائم رکھے اور اس کو میں بھی اپنے احسان و انعام اور اجر و بخشش کے ذریعہ قائم برقرار رکھوں گا اور جو شخص رشتہ داری کے تعلق کو پامالی کا ذریعہ تجھ کو منقطع کر دے میں بھی اپنے احسان و انعام کا تعلق اس سے منقطع کرلوں؟ رحم نے عرض کیا کہ پروردگار بیشک میں اس پر راضی ہوں پروردگار نے فرمایا اچھا تو یہ وعدہ تیرے لئے ثابت و برقرار ہے۔ (بخاری ومسلم)
تشریح
جب اس سے فارغ ہوا کا مطلب یہ ہے کہ جب وہ مخلوقات کو پیدا کرچکا اگرچہ ظاہری طور پر ان دونوں جملوں میں کوئی فرق نہیں ہے لیکن اس میں ایک لطیف نکتہ ہے کہ لغوی طور پر فراغت کا حقیقی مفہوم اپنے تحقق کے لئے پہلے اشتغال کا متقاضی ہوتا ہے یعنی فراغت کا مفہوم اس صورت پر صادق آتا ہے کہ جب کسی کام میں مشغولیت رہی ہو اور اس کام کے علاوہ دیگر امور سے باز رکھتی ہے اس لئے کہا جائے گا کہ جب اس سے فارغ ہوا میں فراغت اپنے اس حقیقی مفہوم میں استعمال نہیں ہوا ہے کیونکہ حق تعالیٰ اس سے پاک منزہ ہے کہ اس کو ایک کام دوسرے کام سے باز رکھے جیسا کہ ایک دعائے ماثورہ میں یوں آیا ہے، سبحان من لا تشغلہ شان عن شان،،۔ حقو دراصل اس جگہ کو کہتے ہیں جہاں ازار باندھا جائے اور چونکہ ازار کو باندھنے کی صورت یہ ہوتی ہے کہ اس کے دونوں کناروں کو ملا کر باندھنا اس اعتبار سے یہاں اس لفظ کا تثنیہ استعمال کرتے ہوئے بحقوی الرحمن فرمایا گیا یعنی وہ جگہ جہاں ازار کے دونوں کنارے باندھے جاتے ہیں ویسے لفظ، حقو، کا اطلاق خود ازار باندھنے کی جگہ اور کمر جیسی چیزوں سے پاک ومنزہ ہے اس لئے یہ بات ملحوظ رکھنی چاہیے کہ یہ جملہ اپنے حقیقی معنی پر محمول نہیں ہے بلکہ اہل عرب کے ایک مخصوص اور اپنے بیان کا مظہر ہے اور یہاں جس بات کو بیان کرنا مقصود تھا ان کو انہی کے طرز کلام کی مثالی صورت میں واضح کیا گیا ہے چناچہ اہل عرب کی یہ عادت تھی کہ جب کوئی شخص کسی دوسرے کی پناہ میں آنا چاہتا یا اس کی مدد کا خواہاں ہوتا جو اس کو سخت اضطراب و پریشانی میں ڈالنے والی ہوتی اور وہ پناہ یا مدد چاہنے کی اپنی ضروریات کو زیادہ اہمیت رکھتا اور تاکید کے ساتھ ظاہر کرنا چاہتا تو جس کی پناہ یا مدد درکار ہوتی اس کے حقو ازار پر دونوں ہاتھ مارتا تاکہ وہ اس کی طرف متوجہ ہوجائے اور یہ پوچھنے پر مجبور ہو کہ تیرا مقصد کیا ہے اور مجھ سے کیا چاہتا ہے چناچہ رشتہ ناطے کا اپنے کاٹے جانے سے اللہ کی پناہ مانگنے کے مفہوم ہے جو کسی انسان کو پکڑنے کا ہوتا ہے یہ ایسا ہی ہے جیسا کہ اہل عرب کے ہاں جب کسی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یداہ مبسوطتان یعنی اس کے دونوں ہاتھ کھلے ہوئے ہیں تو اس سے مراد اس کی نہایت سخاوت و فیاضی کو ظاہر کرنا ہوتا ہے خواہ وہ واقعتا ہاتھوں والا ہو یا خلقی طور پر سرے سے اس کے ہاتھ ہی نہ ہوں اور خواہ وہ ایسی ذات ہو جس کے لئے ہاتھوں کا وجود ہی محال ہو جیسے حق تعالیٰ کی ذات حاصل یہ ہے کہ اس طرح کے طرز کلام اہل عرب میں محاورہ کے طور پر بہت مستعمل ہیں جن کے الفاظ اپنے حقیقی معنی کو ادا کرنے کے بجائے دوسرے مفہوم کی طرف اشارہ کرتے ہیں اور چونکہ قرآن کریم کا نزول اور احادیث نبوی کا صدور اہل عرب ہی کے طرز کلام پر اور اسلوب بیان کے مطابق ہوا ہے اس لئے قرآن و حدیث کے ایسے مقام کہ جہاں اس طرح کے جملے آتے ہیں اور جن پر متشابہات کا اطلاق ہوتا ہے اور ان کی تاویل وضاحت کے لئے یہ بات ایک بنیاد کی حثییت رکھتی ہے ویسے اس امر کو بھی ملحوظ رکھنا چاہیے کہ رحم یعنی رشتہ و ناطہ کوئی ذات و جسم تو ہے نہیں کہ وہ اپنے پیروں پر کھڑا ہو کر حق تعالیٰ سے پناہ کا طلبگار ہو بلکہ حقیقت میں وہ ایک معنی ہے لہذا اس کے لئے کھڑے ہونے اور پناہ چاہنے کے الفاظ استعمال کرنا بطور تشبیہ و تمثیل ہی ہوسکتا ہے جس سے اس بات کو واضح کرنا مراد ہے کہ رحم گویا ایک ہستی یا ایک ایسے شخص کی طرح ہے جو کھڑا ہو اور حق تعالیٰ کی عزت و عظمت اور اس کی کبریائی کا دامن پکڑ کر پناہ کا طلب گار ہو۔ اسی طرح کی بات نووی نے بھی بیان کی ہے انہوں نے کہا ہے کہ رحم جس کو جوڑا جاتا ہے یا کاٹا جاتا ہے کوئی ذات یا جسم نہیں ہے بلکہ معانی میں سے ایک معنی ہے جو نہ کھڑا ہوسکتا ہے اور نہ اس سے کلام و گفتگو ہوسکتی ہے لہذا اس کے بارے میں مذکورہ ارشاد کی مراد دراصل رحم یعنی ناطے کی اہمیت کو ظاہر کرنا، ناطے کو جوڑنے والے کی فضیلت کو بیان کرنا اور ناطے کی مذمت کرنا ہے کیونکہ ناطے کو جوڑنا فی الجملہ واجب ہے اور اس کو توڑنا گناہ کبیرہ ہے اگرچہ صلہ رحم کے درجات متعین کردیئے گئے ہیں جن میں سے بعض کو زیادہ اہمیت اور برتری حاصل ہے اور سب سے ادنیٰ درجہ ترک مہاجرت یعنی میل ملاقات کو اختیار کرنا ہے کیونکہ صلہ رحم کا ایک ذریعہ کلام و ملاقات بھی ہے اگرچہ وہ محض سلام کی حد تک ہو۔ واضح رہے کہ صلہ رحم کے ان درجات کے درمیان تفاوت و اختلاف کی بنیاد مواقع و حالات اور ضرورت قدرت کے مختلف ہونے پر ہے چناچہ بعض صورتیں ایسی ہوتی ہیں جن میں رشتہ داری کے تعلق کی رعایت اور رشتہ داروں سے نیک سلوک کی زیادہ اہمیت و ضرورت ہوتی ہے اور بعض صورتوں میں زیادہ اہم ہے اور بعض میں مستحب لہذا اگر کسی شخص نے ناتا جوڑنے کے حق کو جزوی طور پر ادا کیا اور اس کو پورے طور پر ادا نہیں کرسکتا تو اس کو ناتا توڑنے والا نہیں کہیں گے لیکن اگر کسی شخص نے رشتہ داری کے حقوق میں سے کسی ایسے حق کو پورا کرنے میں کوتاہی کی جس کو پورا کرنے پر وہ قادر تھا نیز اس حق کو پورا کرنا اس لئے مناسب بھی تھا تو اس شخص کو ناتا جوڑنے والا کہا جائے گا۔
Top