سنن الترمذی - فیصلوں کا بیان - حدیث نمبر 2089
حدیث نمبر: 1375
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ،‏‏‏‏ أَنْبَأَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ إِبْرَاهِيمَ،‏‏‏‏ عَنْ ابْنِ عَوْنٍ،‏‏‏‏ عَنْ نَافِعٍ،‏‏‏‏ عَنْ ابْنِ عُمَرَ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ أَصَابَ عُمَرُ أَرْضًا بِخَيْبَرَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ،‏‏‏‏ أَصَبْتُ مَالًا بِخَيْبَرَ لَمْ أُصِبْ مَالًا قَطُّ،‏‏‏‏ أَنْفَسَ عِنْدِي مِنْهُ،‏‏‏‏ فَمَا تَأْمُرُنِي،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ إِنْ شِئْتَ حَبَسْتَ أَصْلَهَا،‏‏‏‏ وَتَصَدَّقْتَ بِهَا ،‏‏‏‏ فَتَصَدَّقَ بِهَا عُمَرُ،‏‏‏‏ أَنَّهَا لَا يُبَاعُ أَصْلُهَا،‏‏‏‏ وَلَا يُوهَبُ،‏‏‏‏ وَلَا يُورَثُ،‏‏‏‏ تَصَدَّقَ بِهَا فِي الْفُقَرَاءِ،‏‏‏‏ وَالْقُرْبَى،‏‏‏‏ وَالرِّقَابِ،‏‏‏‏ وَفِي سَبِيلِ اللَّهِ،‏‏‏‏ وَابْنِ السَّبِيلِ،‏‏‏‏ وَالضَّيْفِ،‏‏‏‏ لَا جُنَاحَ عَلَى مَنْ وَلِيَهَا أَنْ يَأْكُلَ مِنْهَا بِالْمَعْرُوفِ،‏‏‏‏ أَوْ يُطْعِمَ صَدِيقًا غَيْرَ مُتَمَوِّلٍ فِيهِ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ فَذَكَرْتُهُ لِمُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ،‏‏‏‏ فَقَالَ غَيْرَ مُتَأَثِّلٍ مَالًا،‏‏‏‏ قَالَ ابْنُ عَوْنٍ:‏‏‏‏ فَحَدَّثَنِي بِهِ رَجُلٌ آخَرُ،‏‏‏‏ أَنَّهُ قَرَأَهَا فِي قِطْعَةِ أَدِيمٍ أَحْمَرَ غَيْرَ مُتَأَثِّلٍ مَالًا،‏‏‏‏ قَالَ إِسْمَاعِيلُ،‏‏‏‏ وَأَنَا قَرَأْتُهَا عِنْدَ ابْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ،‏‏‏‏ فَكَانَ فِيهِ غَيْرَ مُتَأَثِّلٍ مَالًا،‏‏‏‏ قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ،‏‏‏‏ وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ،‏‏‏‏ لَا نَعْلَمُ بَيْنَ الْمُتَقَدِّمِينَ مِنْهُمْ فِي ذَلِكَ اخْتِلَافًا فِي إِجَازَةِ وَقْفِ الْأَرَضِينَ وَغَيْرِ ذَلِكَ.
وقف کے بارے میں
عبداللہ بن عمر ؓ کہتے ہیں کہ عمر ؓ کو خیبر میں (مال غنیمت سے) کچھ زمین ملی، تو انہوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! خیبر میں مجھے مال ملا ہے اس سے زیادہ عمدہ مال مجھے کبھی نہیں ملا۔ (اس کے بارے میں) آپ مجھے کیا حکم فرماتے ہیں؟ آپ نے فرمایا: اگر چاہو تو اس کی اصل روک لو اور اسے (پیداوار کو) صدقہ کر دو، تو عمر ؓ نے اسے اس طرح سے صدقہ کیا کہ اصل زمین نہ بیچی جائے، نہ ہبہ کی جائے، اور نہ کسی کو وراثت میں دی جائے ١ ؎، اور اسے فقیروں میں، رشتہ داروں میں، غلام آزاد کرنے میں، اللہ کے راستے (جہاد) میں، مسافروں میں اور مہمانوں میں خرچ کیا جائے۔ اور جو اس کا والی (نگراں) ہو اس کے لیے اس میں سے معروف طریقے سے کھانے اور دوست کو کھلانے میں کوئی حرج نہیں ہے، جبکہ وہ اس میں سے ذخیرہ اندوزی کرنے والا نہ ہو۔ ابن عون کہتے ہیں: میں نے اسے محمد بن سیرین سے بیان کیا تو انہوں نے «غير متمول فيه» کے بجائے «غير متأثل مالا» کہا۔ ابن عون کہتے ہیں: مجھ سے اسے ایک اور آدمی نے بیان کیا ہے کہ اس نے اس وقف نامے کو پڑھا تھا جو ایک لال چمڑے پر تحریر تھا اور اس میں بھی «غير متأثل مالا» کے الفاظ تھے۔ اسماعیل کہتے ہیں: میں نے اس وقف نامے کو عبیداللہ بن عمر کے بیٹے کے پاس پڑھا، اس میں بھی «غير متأثل مالا» کے الفاظ تھے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - صحابہ کرام وغیرہم میں سے اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔ متقدمین میں سے ہم کسی کو نہیں جانتے ہیں جس نے زمین وغیرہ کو وقف کرنے میں اختلاف کیا ہو۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الشروط ١٩ (٢٧٣٧)، والوصایا ٢٢ (٢٧٦٤)، و ٢٨ (٢٧٧٢)، و ٢٩ (٢٧٧٣)، و ٣٢ (٢٧٧٧)، صحیح مسلم/الوصایا ٤ (١٦٣٢)، سنن ابی داود/ الوصایا ١٣ (٢٨٧٨)، سنن النسائی/الإحب اس ٢ (٣٦٢٧)، سنن ابن ماجہ/الصدقات ٤ (٢٣٩٦)، (تحفة الأشراف: ٧٧٤٢)، و مسند احمد (٢/٥٥، ١٢٥) (صحیح )
وضاحت: ١ ؎: اس سے معلوم ہوا کہ جو چیز وقف کردی گئی ہو وہ نہ بیچی جاسکتی ہے اور نہ اسے ہبہ اور وراثت میں دیا جاسکتا ہے، امام ابوحنیفہ (رح) وقف کے فروخت کو جائز سمجھتے ہیں، ان کے شاگرد امام یوسف فرماتے ہیں کہ امام صاحب کو اگر یہ حدیث مل گئی ہوتی تو وہ اپنی رائے سے رجوع فرما لیتے (دیکھئیے: فتح الباری کتاب الوصایا، باب ٢٩ ( ٢٧٧٣
قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (2396)
صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني: حديث نمبر 1375
Top