سنن ابنِ ماجہ - فتنوں کا بیان - حدیث نمبر 2119
حدیث نمبر: 3957
حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ،‏‏‏‏ وَمُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ،‏‏‏‏ قَالَا:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ أَبِي حَازِمٍ،‏‏‏‏ حَدَّثَنِي أَبِي،‏‏‏‏ عَنْ عُمَارَةَ بْنِ حَزْمٍ،‏‏‏‏ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو،‏‏‏‏ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ كَيْفَ بِكُمْ وَبِزَمَانٍ يُوشِكُ أَنْ يَأْتِيَ،‏‏‏‏ يُغَرْبَلُ النَّاسُ فِيهِ غَرْبَلَةً،‏‏‏‏ وَتَبْقَى حُثَالَةٌ مِنَ النَّاسِ قَدْ مَرِجَتْ عُهُودُهُمْ وَأَمَانَاتُهُمْ،‏‏‏‏ فَاخْتَلَفُوا وَكَانُوا هَكَذَاوَشَبَّكَ بَيْنَ أَصَابِعِهِ،‏‏‏‏ قَالُوا:‏‏‏‏ كَيْفَ بِنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ إِذَا كَانَ ذَلِكَ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ تَأْخُذُونَ بِمَا تَعْرِفُونَ وَتَدَعُونَ مَا تُنْكِرُونَ،‏‏‏‏ وَتُقْبِلُونَ عَلَى خَاصَّتِكُمْ وَتَذَرُونَ أَمْرَ عَوَامِّكُمْ.
فتنہ میں حق پر ثابت قدم رہنا۔
عبداللہ بن عمرو ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تمہارا اس زمانہ میں کیا حال ہوگا جو عنقریب آنے والا ہے؟ جس میں لوگ چھانے جائیں گے (اچھے لوگ سب مرجائیں گے) اور خراب لوگ باقی رہ جائیں گے (جیسے چھلنی میں آٹا چھاننے سے بھوسی باقی رہ جاتی ہے) ، ان کے عہد و پیمان اور امانتوں کا معاملہ بگڑ چکا ہوگا، اور لوگ آپس میں الجھ کر اور اختلاف کر کے اس طرح ہوجائیں گے ، پھر آپ ﷺ نے اپنے ایک ہاتھ کی انگلیوں کو دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں ڈال کردکھائیں، لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! اس وقت ہم کیا کریں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: جو بات تمہیں معروف (اچھی) معلوم ہو اسے اپنا لینا، اور جو منکر (بری) معلوم ہو اسے چھوڑ دینا، اور تم اپنے خصوصی معاملات و مسائل کی فکر کرنا، اور عام لوگوں کے مائل کی فکر چھوڑ دینا ١ ؎۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/الملاحم ١٧ (٤٣٤٢)، (تحفة الأشراف: ٨٨٩٣)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الصلاة ٨٨ (٤٨٠) (صحیح )
وضاحت: ١ ؎: جب عوام سے ضرر اور نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو تو امر بالمعروف اور نہی المنکر کے ترک کی اجازت ہے۔ یعنی بھلی باتوں کا حکم نہ دینے اور بری باتوں سے نہ روکنے کی اجازت، ایسے حالات میں کہ آدمی کو دوسروں سے نقصان پہنچنے کا خطرہ ہو۔
Top