Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
Hadith (3792 - 3887)
Select Hadith
3792
3793
3794
3795
3796
3797
3798
3799
3800
3801
3802
3803
3804
3805
3806
3807
3808
3809
3810
3811
3812
3813
3814
3815
3816
3817
3818
3819
3820
3821
3822
3823
3824
3825
3826
3827
3828
3829
3830
3831
3832
3833
3834
3835
3836
3837
3838
3839
3840
3841
3842
3843
3844
3845
3846
3847
3848
3849
3850
3851
3852
3853
3854
3855
3856
3857
3858
3859
3860
3861
3862
3863
3864
3865
3866
3867
3868
3869
3870
3871
3872
3873
3874
3875
3876
3877
3878
3879
3880
3881
3882
3883
3884
3885
3886
3887
سنن النسائی - جنائز کے متعلق احادیث - حدیث نمبر 4023
عن أبي موسى قال : خرج أبو طالب إلى الشام وخرج معه النبي صلى الله عليه و سلم في أشياخ من قريش فلما أشرفوا على الراهب هبطوا فحلوا رحالهم فخرج إليهم الراهب وكانوا قبل ذلك يمرون به فلا يخرج إليهم قال فهم يحلون رحالهم فجعل يتخللهم الراهب حتى جاء فأخذ بيد رسول الله صلى الله عليه و سلم قال هذا سيد العالمين هذا رسول رب العالمين يبعثه الله رحمة للعالمين فقال له أشياخ من قريش ما علمك فقال إنكم حين أشرفتم من العقبة لم يبق شجر ولا حجر إلا خر ساجدا ولا يسجدان إلا لنبي وإني أعرفه بخاتم النبوة أسفل من غضروف كتفه مثل التفاحة ثم رجع فصنع لهم طعاما فلما أتاهم به وكان هو في رعية الإبل فقال أرسلوا إليه فأقبل وعليه غمامة تظله فلما دنا من القوم وجدهم قد سبقوه إلى فيء الشجرة فلما جلس مال فيء الشجرة عليه فقال انظروا إلى فيء الشجرة مال عليه فقال أنشدكم بالله أيكم وليه قالوا أبو طالب فلم يزل يناشده حتى رده أبو طالب وبعث معه أبو بكر بلالا وزوده الراهب من الكعك والزيت . ( علق الشيخ أن ذكر بلال في الحديث خطأ إذ لم يكن خلق بعد )
بحیرا راہب کا واقعہ
اور حضرت ابوموسی بیان کرتے ہیں ( کہ ایک مرتبہ) ابوطالب نے ( تجارت کی غرض) شام کا سفر کیا تو ان کے ساتھ نبی کریم ﷺ بھی گئے ( جو اس وقت بارہ سال کی عمر کے تھے، یہ تجارتی قافلہ ( ملک شام کے ایک مقام بصری میں) ایک راہب یعنی عیسائی پادری ( بحیرا نام) کے ہاں مقیم ہوا) اور سب نے اپنے کجاوے کھول لئے راہب ان لوگوں سے ملاقات کے لئے خود چلا آیا، حالانکہ اس سے پہلے جب بھی یہ لوگ ادھر سے گزرے اور اس راہب کے ہاں قیام کیا تو اس نے کبھی باہر آکر ان سے ملاقات نہیں کی تھی۔ راوی کہتے ہیں کہ یہ لوگ اپنے کجاوے کھول رہے تھے اور راہب ان کے درمیان کسی کو ڈہونڈتا پھر رہا تھا، یہاں تک کہ اس نے آکر نبی کریم ﷺ کا ہاتھ پکڑ لیا اور بولا یہی ہے، تمام جہانوں کا سردار، یہی ہے تمام جہانوں کے پروردگار کا رسول ( جو انسانیت عامہ کی ہدایت کے لئے آیا ہے) یہی وہ شخص ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے تمام جہان ولاوں کے لئے رحمت ورافت کا ذریعہ بنا کر بھیجا ہے۔ قریش کے شیوخ نے راہب کو یہ کہتے سنا تو) کسی شیخ نے اس سے پوچھا کہ تم اس ( نوعمر) کے بارے میں ( یہ سب باتیں) کہاں سے جانتے ہو؟ راہب نے جواب دیا جب تم دو پہاڑوں کے درمیان والے راستہ سے نکل کر سامنے آئے تو ( میں یہاں سے دیکھ رہا تھا کہ، کوئی درخت اور کوئی پتھر ایسا نہ تھا جو سجدہ میں نہ گرا ہو اور درخت وپتھر بڑے پیغمبر کے علاوہ اور کسی کو سجدہ نہیں کرتے، نیز میں نے ایک اس شخص کو اس مہر نبوت کے ذریعہ بھی پہچانا ہے جو اس کے شانہ کی ہڈی کے نیچے سیب کے مانند واقعہ ہے۔ پھر وہ راہب اپنے گھر میں گیا اور قافلہ والوں کے لئے کھانا تیار کیا اور جب وہ کھانا لے کر ان کے پاس آیا تو) آنحضرت ﷺ اونٹ چرانے گئے ہوئے تھے، راہب نے قافلہ والوں سے کہا کہ اس شخص کو بلوا لو ( کیونکہ میرا مہمان خصوصی اصل میں وہی شخص ہے اور اسی کے اعزاز میں میں نے کھانا تیار کرایا ہے) چناچہ ( بلابھیجنے پر یا از خود) آنحضرت ﷺ تشریف لے آئے اور جب آپ ﷺ آرہے تھے ابر کا ایک ٹکڑا آپ پر سایہ کئے ہوئے تھا، پھر جب آپ ﷺ لوگوں کے پاس پہنچے تو دیکھا کہ ایسی جگہوں پر کہ جہاں درخت کا سایہ تھا وہ لوگ پہلے ہی قبضہ کر کے پیٹھ گئے تھے تو فورا درخت کی شاخوں نے ایک ٹکڑا آپ ﷺ پر سایہ کرلیا ( یہ ماجرا دیکھ کر) راہب نے قافلہ والوں سے کہا کہ درخت کے سایہ کو دیکھوں جو اس شخص پر جھک آیا ہے۔ پھر اس نے کہا، میں تم لوگوں کو اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں) یہ بتاؤ کہ تم میں سے کون شخص اس ( نوعمر) کا سرپرست ہے؟ لوگوں نے کہا ابوطالب ہیں۔ ( یہ سن کر) راہب بڑی دیر تک ابوطالب کو اس بات کے لئے سمجھاتا رہا اور قسم دیتا رہا کہ وہ آپ ﷺ کو مکہ واپس بھیج دیں بالآخر ابوطالب نے آنحضرت ﷺ کو مکہ واپس بھیج دیا، ینز ابوبکر نے بلال کو آپ ﷺ کے ہمراہ کردیا اور راہب نے کنک اور روغن زیت کا توشہ آپ ﷺ کے ساتھ کیا۔ ( ترمذی)
تشریح
نیز میں نے اس شخص کو اس مہر نبوت کے ذریعہ بھی پہچانا ہے۔۔ الخ۔ بعض روایتوں میں یہ بھی آیا ہے کہ راہب اہل قافلہ کو یہ جواب دینے کے بعد کھڑا ہوا اور آنحضرت ﷺ کو گلے لگایا اور پھر اہل قافلہ سے آنحضرت ﷺ کی ذاتی زندگی کے بارے میں بہت سے سوال کئے کہ ان کے شب وروز کس طرح گزرتے ہیں، ان کے رہنے سہنے، اٹھنے بیٹھنے، لیٹنے، سونے اور کھانے پینے کا کیا انداز ہے اور لوگوں کے ساتھ ان کے اخلاق و معاملات کیسے ہیں وغیرہ وغیرہ اہل قافلہ نے جو جواب دیئے ان کو اس نے اپنی کتابوں میں پڑھی ہوئی باتوں اور اپنی معلومات کے بالکل مطابق پایا۔ درخت کی شاخوں نے جھک کر آپ ﷺ پر سایہ کرلیا کے تحت شارحین نے لکھا ہے کہ اگرچہ اس وقت آنحضرت ﷺ کے سر پر ابر کے اس ٹکڑے کا سایہ موجود تھا جو راستہ سے آپ ﷺ پر سایہ فگن چلا آرہا تھا لیکن اس کے باوجود درخت نے جھک کر آپ ﷺ پر جو سایہ کیا وہ آپ ﷺ کی امتیازی حیثیت اجاگر کرنے اور آپ ﷺ کے اعزاز کو ظاہر کرنے کے لئے تھا اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس وقت ابر کا سایہ ہٹ گیا تھا، اس لئے درخت نے جھک کر سایہ کرلیا جس میں آپ ﷺ کے معجزہ کا اظہار تھا۔ بہر حال سر مبارک پر بادل کا سایہ فگن ہونا آپ ﷺ کے معجزات میں سے ہے، لیکن علماء نے لکھا ہے کہ یہ صورت ہمیشہ نہیں رہتی تھی بلکہ کبھی ضرورت و احتیاج کے وقت یہ معجزہ ظاہر ہوتا تھا۔ درخت کے سایہ کو دیکھو جو اس پر جھک آیا ہے سے راہب کا مطلب یہ تھا کہ اگر تم ( بادل کی صورت میں) آسمان کے سایہ کو نہیں دیکھ یکتے تو زمین کے اس سایہ ہی کو دیکھ لو جو درخت کی شاخوں کی صورت میں اس ہستی پر جھکا ہوا ہے۔ زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ راہب کی مراد اہل قافلہ کو سر کی آنکھوں سے نہیں دل کی آنکھوں سے دیکھنے کی طرف متوجہ کرنا تھا کیونکہ سر کی آنکھوں سے توہ لوگ خود ہی دیکھ رہے تھے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ جن لوگوں نے اپنی فطرت سلیم مسخ کر کے جہل و انکار کی تاریکی میں بھٹکنا ہی اپنا مقدر بنا لیا تھا ان کی دل کی آنکھیں تو تعصب اور ہٹ دھرمی سے ایسی بند ہوئیں کہ انہوں نے پیغمبر آخر الزماں ﷺ کی آسمانی صداقت کی اس بڑی سے بڑی علامتیں کھلی آنکھوں سے دیکھنے کے باوجود نورہدایت کی کوئی کرن حاصل نہیں کی، وہ آپ ﷺ کی نبوت و رسالت کی سب نشانیاں ( سر کی آنکھوں سے) دیکھتے تھے لیکن دل کی آنکھوں کا) ایسا دیکھنا ان کو نصیب نہیں ہوتا تھا جو ان کے کام آتا اور ان کو راہ راست پر لگا دیتا جیسا کہ قرآن کریم نے فرمایا وترہم ینظرون الیک وہم لا یبصرون اور ان کافروں) کو آپ دیکھتے ہیں کہ گویا آپ کو دیکھ رہے ہیں حالانکہ وہ کچھ بھی نہیں دیکھتے۔ بالآخر ابوطالب نے آنحضرت ﷺ کو مکہ واپس بھیج دیا بات دراصل یہ تھی کہ بصری رومی سلطنت کے زیر نگین تھا جہاں عیسائی شہنشاہیت کا پرچم لہرا رہا تھال اور وہاں بڑے بڑے عیسائی پادریوں نے اپنے علم وقیافہ کی بنیاد پر نبی آخر الزمان کی بعثت کی خبر دی تھی، جس سے ایک طرح کی سراسیمگی اس عیسائی شہنشاہیت پر طاری ہوگئی تھی اور اس بات کا وسیع پیمان پر انتظام کیا گیا تھا کہ جس طرح بھی ممکن ہو اس نئے نبی کو اپنے اثرات پھیلانے سے پہلے ہی دنیا سے ختم کردیا جائے! راہب بحیرا چونکہ آسمانی کتابوں کا سچا عالم تھا اور نبی آخر الزمان کے تئیں عقیدت رکھتا تھا اس لئے اس نے آنحضرت کو پہچان کر حضرت ابوطالب پر زور ڈالا کہ آپ کو مکہ واپس کردیں، اس کو خوف تھا کہ اگر رومی سلطنت کے گماشتوں کو آنحضرت ﷺ کی بھنک ملی گئی تو وہ فوارا گرفتار کر کے اپنے ساتھ لے جائیں گے اور قتل کر ڈالیں گے، چناچہ ترمذی اور حاکم نے یہ روایت بھی نقل کی ہے کہ ادھر تو حضرات ابوطالب کے تجارتی قافلہ کے ساتھ آنحضرت ﷺ کا سفر شروع ہوا ادھر رومی سلطنت کے گماشتے جن کی تعداد سات تھی، آپ ﷺ کی ٹوہ میں لگ گئے کہ جہاں بھی ملیں قتل کردیا جائے، اس ٹوہ میں وہ بحیرا راہب تک بھی پہنچ گئے، بحیرا نے ان کو دیکھ کر کہا کہ تم لوگ یہاں کیا کرنے آگئے؟ انہوں نے کہا ہمیں معلوم ہوا ہے کہ پیغمبر آخر الزمان ﷺ اس مہینے ( اپنے ملک سے) سفر پر روانہ ہونے والے ہیں، لہٰذا ہر ہر راستہ پر آدمی لگا دئیے گئے ہیں کہ وہ جب بھی ہماری سلطنت کی حدود میں) داخل ہوں ان کو فورا مار ڈالا جائے۔ بحیرا نے کہا مجھے یہ بتاؤ کہ اگر اللہ تعالیٰ نے کسی چیز کو مقدر کردیا ہے تو کیا کوئی شخص اس کو بدل سکتا ہے، ان گماشتوں نے جواب دیا نہیں، تب بحیرا نے کہا ( میں تمہیں سچی بات بتاتا ہوں کہ تم لوگ جس شخص کی تلاش میں ہو وہ یقینا اللہ کا سب سے بڑا پیغمبر بننے والا ہے، دنیا کی کوئی طاقت اس کو نقصان نہیں پہنچا سکتی لہٰذا تم اپنے اس خیال خام سے باز آجاؤ کہ اس کو قتل کر دوگے اور بہتر یہی ہے کہ) تم اس کی اطاعت کو قبول کر کے اس کے ساتھ عقیدت و محبت رکھو۔ کنک اور روغن زیت کا توشہ آپ ﷺ کے ہمراہ کیا کنک موٹی روٹی کو کہتے ہیں اور بعض حضرات نے کہا ہے کہ کنک اس خاص قسم کی روٹی کو کہتے تھے جو آٹے، دودھ اور شکر کو ملا کر بناتے تھے، اس روٹی کے ساتھ روغن زیت اس لئے دیا تھا کہ روٹی سے لگا کر کھانے کے کام آئے۔ جزری نے اس حدیث کے بارے میں لکھا ہے کہ ویسے تو اس کی اسناد صحیح ہے اور اس کے رجال بخاری اور صحیح مسلم یا ان دونوں میں سے کسی ایک کے سلسلے سے تعلق رکھتے ہیں، تاہم اس حدیث میں حضرت ابوبکر اور حضرت بلال کو جو ذکر ہے، وہ غیر محفوظ ہے ( یعنی اصل روایت کا جزو نہیں ہے) کسی راوی کے سہو سے یہ جز و نقل ہوگیا ہے) کیونکہ اس وقت خود آنحضرت ﷺ کی عمر بارہ سال کی اور حضرت ابوبکر آنحضرت ﷺ سے دو یا ڈھائی سال چھوٹے تھے اور حضرت بلال تو شاید ان دنوں میں پیدا بھی نہ ہوئے ہوں گے۔ پس یہ کہنا کہ ابوبکر اور بلال کو آنحضرت ﷺ کے ہمراہ کردیا تھا کوئی معنی نہیں رکھتا، اسی لئے ذہبی نے اس روایت کو ضعیف قرار دیا ہے گو بعض حضرات نے ذہبی کہ اس قول کو مسترد کیا ہے۔ حافظ ابن حجر نے اس حدیث کے بارے میں لکھا ہے کہ اس کے راوی ثقات ہیں اور اس میں کوئی منکر نہیں ہے علاوہ اس جزء کے ( جس میں یہ مذکور ہے کہ ابوبکر نے بلال کو آنحضرت ﷺ کے ہمراہ کردیا تھا۔ بہر حال یہ بات تو ثابت ہے کہ یہ حدیث صحیح ہے، ہاں اس کے مذکور جزء کے بارے میں یہ ضرور کہا جاسکتا ہے یہ اصل روایت کا جزء نہیں ہے بلک کسی روای کے سہو سے نقل ہوگیا ہے۔
Top