مسند امام احمد - - حدیث نمبر 2037
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ وَهُوَ ابْنُ ثَوْرٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ مَعْمَرٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ الزُّهْرِيِّ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِيهِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ لَمَّا حَضَرَتْ أَبَا طَالِبٍ الْوَفَاةُ، ‏‏‏‏‏‏دَخَلَ عَلَيْهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعِنْدَهُ أَبُو جَهْلٍ وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي أُمَيَّةَ،‏‏‏‏ فَقَالَ:‏‏‏‏ أَيْ عَمِّ،‏‏‏‏ قُلْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، ‏‏‏‏‏‏كَلِمَةً أُحَاجُّ لَكَ بِهَا عِنْدَ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ،‏‏‏‏ فَقَالَ لَهُ أَبُو جَهْلٍ، ‏‏‏‏‏‏وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي أُمَيَّةَ:‏‏‏‏ يَا أَبَا طَالِبٍ،‏‏‏‏ أَتَرْغَبُ عَنْ مِلَّةِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، ‏‏‏‏‏‏فَلَمْ يَزَالَا يُكَلِّمَانِهِ حَتَّى كَانَ آخِرُ شَيْءٍ كَلَّمَهُمْ بِهِ عَلَى مِلَّةِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ لَأَسْتَغْفِرَنَّ لَكَ مَا لَمْ أُنْهَ عَنْكَ فَنَزَلَتْ مَا كَانَ لِلنَّبِيِّ وَالَّذِينَ آمَنُوا أَنْ يَسْتَغْفِرُوا لِلْمُشْرِكِينَ سورة التوبة آية 113 وَنَزَلَتْ إِنَّكَ لا تَهْدِي مَنْ أَحْبَبْتَ سورة القصص آية 56.
اہل شرک کے لئے دعا مانگنے کی ممانعت سے متعلق
مسیب بن حزن رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ جب ابوطالب کی وفات کا وقت آیا تو نبی اکرم ان کے پاس آئے، اور ابوجہل اور عبداللہ بن ابی امیہ دونوں ان کے پاس (پہلے سے موجود) تھے، تو آپ نے فرمایا: چچا جان! آپ لا إله إلا اللہ کا کلمہ کہہ دیجئیے، میں اس کے ذریعہ آپ کے لیے اللہ عزوجل کے پاس جھگڑوں گا ، تو ابوجہل اور عبداللہ بن ابی امیہ دونوں نے ان سے کہا: ابوطالب! کیا آپ عبدالمطلب کے دین سے منہ موڑ لو گے؟ پھر وہ دونوں ان سے باتیں کرتے رہے یہاں تک کہ آخری بات جو عبدالمطلب نے ان سے کی وہ یہ تھی کہ (میں) عبدالمطلب کے دین پر ہوں، تو نبی اکرم نے ان سے کہا: میں آپ کے لیے مغفرت طلب کرتا رہوں گا جب تک مجھے روک نہ دیا جائے ، تو یہ آیت اتری ١ ؎: ‏ما کان للنبي والذين آمنوا أن يستغفروا للمشرکين نبی اور اہل ایمان کے لیے یہ جائز نہیں کہ مشرکین کے لیے مغفرت طلب کریں (التوبہ: ١١٣ ) نیز یہ آیت اتری: إنک لا تهدي من أحببت آپ جسے چاہیں ہدایت کے راستہ پر نہیں لاسکتے (القص: ٥٦ ) ۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الجنائز ٨٠ (١٣٦٠)، ومناقب الأنصار ٤٠ (٣٨٨٤)، و تفسیر التوبة ١٦ (٤٦٧٥)، والقصص ١ (٤٧٧٢)، والأیمان والنذور ١٩ (٦٦٨١)، صحیح مسلم/الإیمان ٩ (٢٤)، (تحفة الأشراف: ١١٢٨١)، مسند احمد ٥/٤٣٣ (صحیح )
وضاحت: ١ ؎: یہاں ایک مشکل یہ ہے کہ ابوطالب کی موت ہجرت سے پہلے ہوئی ہے، اور سورة برأت جس کی یہ آیت ہے ان سورتوں میں سے جو مدنی دور کے اخیر میں نازل ہوئی ہیں، اس اشکال کا جواب یہ ہے کہ یہاں یہ مراد نہیں کہ آیت کا نزول آپ کے لأستغفرن لک ما لم أنه عنك کہنے کے بعد فوراً ہوا، بلکہ مراد یہ ہے کہ یہ نزول کا سبب ہے فنزلت میں فاء سبب بیان کرنے کے لیے ہے نہیں کہ بلکہ تعقیب یعنی بعد میں واقع ہونے کی خبر کے لیے ہے۔
قال الشيخ الألباني: صحيح
صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني: حديث نمبر 2035
Top