مسند امام احمد - - حدیث نمبر 3343
حدیث نمبر: 3343
حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ إِسْحَاق الْهَمْدَانِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدَةُ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ زَمْعَةَ، قَالَ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمًا يَذْكُرُ النَّاقَةَ وَالَّذِي عَقَرَهَا، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ إِذِ انْبَعَثَ أَشْقَاهَا سورة الشمس آية 12 انْبَعَثَ لَهَا رَجُلٌ عَارِمٌ عَزِيزٌ مَنِيعٌ فِي رَهْطِهِ مِثْلُ أَبِي زَمْعَةَ. (حديث مرفوع) (حديث موقوف) ثُمَّ سَمِعْتُهُ يَذْكُرُ النِّسَاءَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ إِلَامَ يَعْمِدُ أَحَدُكُمْ فَيَجْلِدُ امْرَأَتَهُ جَلْدَ الْعَبْدِ وَلَعَلَّهُ أَنْ يُضَاجِعَهَا مِنْ آخِرِ يَوْمِهِ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ ثُمَّ وَعَظَهُمْ فِي ضَحِكِهِمْ مِنَ الضَّرْطَةِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ إِلَامَ يَضْحَكُ أَحَدُكُمْ مِمَّا يَفْعَلُ . قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
سورت الشمس کی تفسیر
عبداللہ بن زمعہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم کو ایک دن اس اونٹنی کا (مراد صالح (علیہ السلام) کی اونٹنی) اور جس شخص نے اس اونٹنی کی کوچیں کاٹی تھیں کا ذکر کرتے ہوئے سنا، آپ نے یہ آیت «إذ انبعث أشقاها» تلاوت کی، اس کام کے لیے ایک «شرِّ» سخت دل طاقتور، قبیلے کا قوی و مضبوط شخص اٹھا، مضبوط و قوی ایسا جیسے زمعہ کے باپ ہیں، پھر میں نے آپ کو عورتوں کا ذکر کرتے ہوئے سنا، آپ نے فرمایا: آخر کیوں کوئی اپنی بیوی کو غلام کو کوڑے مارنے کی طرح کوڑے مارتا ہے اور جب کہ اسے توقع ہوتی ہے کہ وہ اس دن کے آخری حصہ میں (یعنی رات میں) اس کے پہلو میں سوئے بھی ، انہوں نے کہا: پھر آپ نے کسی کے ہوا خارج ہوجانے پر ان کے ہنسنے پر انہیں نصیحت کی، آپ نے فرمایا: آخر تم میں کا کوئی کیوں ہنستا (و مذاق اڑاتا) ہے جب کہ وہ خود بھی وہی کام کرتا ہے ١ ؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/أحادیث الأنبیاء ١٧ (٣٣٧٧)، وتفسیر الشمس ١ (٤٩٤٢)، والنکاح ٩٤ (٥٢٠٤)، والأدب ٤٣ (٦٠٤٢)، صحیح مسلم/الجنة والنار ١٣ (٢٨٥٥)، سنن ابن ماجہ/النکاح ٥١ (١٩٨٣) (تحفة الأشراف: ٥٢٩٤) (صحیح)
وضاحت: ١ ؎: اس حدیث میں صالح (علیہ السلام) کی اونٹنی کی کوچیں کاٹنے والے بدبخت کے ذکر کے ساتھ اسلام کی دو اہم ترین اخلاقی تعلیمات کا ذکر ہے، ١- اپنی شریک زندگی کے ساتھ حسن سلوک کرنے اور ٢- مجلس میں کسی کی ریاح زور سے خارج ہوجانے پر نہ ہنسنے کا مشورہ، کس حکیمانہ پیرائے میں آپ نے دونوں باتوں کی تلقین کی ہے! قابل غور ہے، «فداہ أبی وأمی»۔
قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (1983)
صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني: حديث نمبر 3343
Top